بین الاقوامی شہروں کی طویل المیعاد ترقی
کراچی کے اربن اور بلدیاتی مسائل کا حل کسی چیلنج سے کم نہیں
ISLAMABAD:
ایکویڈور کے شہر کوئیٹو میں انسانی ماحولیات اور شہری ترقی پر چار روزہ عالمی کانفرنس میں ایک نیا گلوبل روڈ میپ پیش کیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تیسری ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر ایک نئے اربن ایجنڈہ پر کام کرے گی۔
اس نوعیت کی پہلی کانفرنس 1976ء میں ہوئی تھی جس کا مقصد شہروں کے مسائل کے حل کے لیے ایسی ترجیحات اور منصوبہ بندی پر عمل کرنا ہے جس سے ماحولیات کو کسی قسم کا نْقصان نہ پہنچے۔ فی زمانہ دہشتگردی، آبادی کے پھیلاؤ، اربن گیسز اور جرائم و آلودگی نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے شہری مسائل گمبھیر بنا دیے ہیں، غریب ملکوں کے بڑے شہروں کی حالت ناگفتہ بہ کہی جاتی ہے۔
کراچی دنیا کے اہم تجارتی اور گنجان آباد میٹروپولیٹن سٹی کا درجہ رکھتا ہے مگر اس کے اربن اور بلدیاتی مسائل کا حل کسی چیلنج سے کم نہیں۔ لاطینی امریکا کے اس شہر میں 23 صفحات پر مشتمل اس بالاتفاق دستاویز میں اقوام متحدہ کے 139 رکن ممالک کے نمائندوں کی طرف سے دی گئی ترجیحات و سفارشات زیر غور لائی گئیں، اربنائزیشن کی غیر معمولی رفتار اور بعض سائنسدانوں کی طرف سے اس ماحولیاتی ایجنڈہ کی مخالفت پر بھی تشویش ظاہر کی گئی تاہم کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ 3.7 بلین افراد شہروں میں سکونت پذیر ہیں جب کہ2050ء میں یہ تعداد 7 بلین ہو جائے گی۔
ماہرین کے مطابق 2014ء میں 54 فیصد عالمی آبادی شہروں میں رہتی تھی جب کہ2050ء تک یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ کانفرنس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہوان کلوز کا کہنا تھا کہ ایسی تاریخ ساز شہری تبدیلیاں کبھی نہیں دیکھی گئیں، دنیا اربنائزیشن کے کئی چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے اس لیے دنیا بھر کے ممالک کو شہروں کے مستقبل، اس کے مکینوں کے تحفظ اور ماحولیاتی و انسانی صورتحال کے انحطاط کو روکنے کے لیے نئے عالمی روڈ میپ کی کامیابی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
کانفرنس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بعض ممالک اربنائزیشن سے ہی خوفزدہ ہیں جب کہ عالمی برادری ان کی رہنمائی کے لیے تیار ہے تاہم اس بات کی وضاحت کی گئی کہ 2015ء میں پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کی سفارشات و معاہدوں کی پابندی لازمی تھی جب کہ اس روڈ میپ پر عملدرآمد میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ رکن ممالک کو رضاکارانہ طور پر اپنے شہروں کو طویل المیعاد ترقی کے اس نئے ایجنڈہ سے منسلک رکھنے کی پیشکش کی گئی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سمیت وہ سارے ملک جن کے شہروں کو ہمہ اقسام خطرات کا سامنا ہے وہ اپنی مشترکہ ذمے داری پوری کریں۔
ایکویڈور کے شہر کوئیٹو میں انسانی ماحولیات اور شہری ترقی پر چار روزہ عالمی کانفرنس میں ایک نیا گلوبل روڈ میپ پیش کیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تیسری ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر ایک نئے اربن ایجنڈہ پر کام کرے گی۔
اس نوعیت کی پہلی کانفرنس 1976ء میں ہوئی تھی جس کا مقصد شہروں کے مسائل کے حل کے لیے ایسی ترجیحات اور منصوبہ بندی پر عمل کرنا ہے جس سے ماحولیات کو کسی قسم کا نْقصان نہ پہنچے۔ فی زمانہ دہشتگردی، آبادی کے پھیلاؤ، اربن گیسز اور جرائم و آلودگی نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے شہری مسائل گمبھیر بنا دیے ہیں، غریب ملکوں کے بڑے شہروں کی حالت ناگفتہ بہ کہی جاتی ہے۔
کراچی دنیا کے اہم تجارتی اور گنجان آباد میٹروپولیٹن سٹی کا درجہ رکھتا ہے مگر اس کے اربن اور بلدیاتی مسائل کا حل کسی چیلنج سے کم نہیں۔ لاطینی امریکا کے اس شہر میں 23 صفحات پر مشتمل اس بالاتفاق دستاویز میں اقوام متحدہ کے 139 رکن ممالک کے نمائندوں کی طرف سے دی گئی ترجیحات و سفارشات زیر غور لائی گئیں، اربنائزیشن کی غیر معمولی رفتار اور بعض سائنسدانوں کی طرف سے اس ماحولیاتی ایجنڈہ کی مخالفت پر بھی تشویش ظاہر کی گئی تاہم کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ 3.7 بلین افراد شہروں میں سکونت پذیر ہیں جب کہ2050ء میں یہ تعداد 7 بلین ہو جائے گی۔
ماہرین کے مطابق 2014ء میں 54 فیصد عالمی آبادی شہروں میں رہتی تھی جب کہ2050ء تک یہ شرح 66 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ کانفرنس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہوان کلوز کا کہنا تھا کہ ایسی تاریخ ساز شہری تبدیلیاں کبھی نہیں دیکھی گئیں، دنیا اربنائزیشن کے کئی چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے اس لیے دنیا بھر کے ممالک کو شہروں کے مستقبل، اس کے مکینوں کے تحفظ اور ماحولیاتی و انسانی صورتحال کے انحطاط کو روکنے کے لیے نئے عالمی روڈ میپ کی کامیابی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
کانفرنس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بعض ممالک اربنائزیشن سے ہی خوفزدہ ہیں جب کہ عالمی برادری ان کی رہنمائی کے لیے تیار ہے تاہم اس بات کی وضاحت کی گئی کہ 2015ء میں پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کی سفارشات و معاہدوں کی پابندی لازمی تھی جب کہ اس روڈ میپ پر عملدرآمد میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ رکن ممالک کو رضاکارانہ طور پر اپنے شہروں کو طویل المیعاد ترقی کے اس نئے ایجنڈہ سے منسلک رکھنے کی پیشکش کی گئی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سمیت وہ سارے ملک جن کے شہروں کو ہمہ اقسام خطرات کا سامنا ہے وہ اپنی مشترکہ ذمے داری پوری کریں۔