پاکستان کا مستقبل رواداری میں پوشیدہ ہے
یہ کچھ ہم پر ہی منحصر نہیں، ساری دنیا کے بیشتر انسانوں کے دلوں سے رواداری رخصت ہو چکی ہے
یہ کچھ ہم پر ہی منحصر نہیں، ساری دنیا کے بیشتر انسانوں کے دلوں سے رواداری رخصت ہو چکی ہے۔ مذہبی ہم آہنگی جس نے بڑی بڑی جنگیں، فسادات اور نفرتوں کے جھکڑ برداشت کیے، وہ ادھر کچھ دنوں سے مسلکی، مذہبی، لسانی اور فرقہ وارانہ عصبیت کے نرغے میں ہے۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس سے ہر باشعور شہری صرف پریشان ہی نہیں، دہشت زدہ ہے۔ ہر شخص اپنے آج سے نہیں، آنے والے کل سے تھرایا ہوا ہے۔ یہ اس کے بچوں اور ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔
گزشتہ دنوں حلب، الپو، موصل اور دنیا کے دوسرے شہروں سے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ عظیم تہذیبوں کے کھنڈروں سے نکالے جانے والے چار، پانچ اور چھ برس کی عمر کے بچے جس طرح مذہبی، نسلی اور لسانی منافرت کا شکار ہوئے ہیں، ہم سب اس کے عینی گواہ ہیں۔
یہی وہ معاملات ہیں جنھیں نظر میں رکھتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور فیض فاؤنڈیشن نے یورپی یونین کے تعاون سے بچوں کے لیے آسان زبان میں کہانیاں اور مختصر ناول شائع کیے ہیں۔ یہ کہانیاں اور ناول اسکول کے بچوں کے لیے بطور خاص لکھوائے گئے ہیں تا کہ شروع سے ہی انھیں اس بات کی عادت ہو کہ وہ اپنے سوا بھی مختلف برادریوں اور گروہوں سے واقف ہوں۔
وہ ایک ایسے سماج کے بارے میں جانتے ہوں جہاں مسلمانوں کے علاوہ بھی لوگ رہتے ہیں۔ ان سے دوستیاں کی جاتی ہیں اور سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ اس طرح زندگی آسان ہو جاتی ہے اور مختلف نسلوں، گروہوں کے لوگوں کا ایک خوبصورت گلدستہ وجود میں آتا ہے۔
گزشتہ دنوں فیض صاحب کی بیٹی اور فیض فاؤنڈیشن کی ٹرسٹی منیزہ ہاشمی ان کتابوں کے افتتاح کے موقعہ پر کراچی آئی ہوئی تھیں۔ پریس کلب میں انھوں نے اس زمانے کو یاد کیا جب سیسل چوہدری، جسٹس اے آر کارنیلیس، جسٹس دوراب پٹیل، بپسی سدھوا، ڈنشا اواری، گل جی اور جمی انجینئر ایسے لوگ پاکستان میں رونق بزم جہاں کی حیثیت رکھتے تھے۔
ان لوگوں سے عالمی برادری میں پاکستان کا وقار اور احترام تھا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ ان میں سے کچھ لوگ دنیا سے رخصت ہوئے اور کچھ نے پاکستان سے باہر اپنا ٹھکانہ بنایا۔ آج ہمارے بیشتر بچے ان ناموں اور ان کاموں سے ناواقف ہو چکے ہیں۔
فیض فاؤنڈیشن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وجود کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اپنے سماج کو بہتر، روادار اور انسان دوست بنا سکیں۔ بچوں کے دلوں سے تعصب کا زہر نکال سکیں اور بڑوں کو یہ بتا سکیں کہ دوسروں سے ان کی دشمنی ان کے اپنے بچوں کے مستقبل کو برباد کر دے گی۔
ان کتابوں میں سے ایک ہارون خالد نے لکھی ہے، اس کا نام 'تعصب کے پار' ہے۔ یہ دراصل پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کی جڑوں کی تلاش ہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے ہارون خالد نے پاکستان کے طول و عرض کا سفر کیا اور مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی شناخت رکھنے والوں کی جگہوں سے گزرے۔
وہ ہمیں سکھوں کی مقدس تحریروں میں درج ایک واقعہ مسلمان صوفی ولی قندھاری کا سناتے ہیں جو کہ جنم ساکھی میں درج ہے۔ یہ واقعہ ایک مسلمان صوفی ولی قندھاری کا ہے جن کا ڈیرہ حسن ابدال میں ایک پہاڑکی چوٹی پر تھا۔ اب اس شہر کو میزبان شہر کا درجہ حاصل ہے اور یہ جگہ سکھ مت کی مقدس ترین درگاہوں میں سے ایک ہے جہاں ہر سال و ساکھی کے موقع پربہت بڑا میلہ لگتا ہے۔
نانک اور مردانہ جب حسن ابدال پہنچے تو مردانہ نے نانک کو بتایا کہ ان کو پیاس محسوس ہو رہی ہے۔ نانک نے مردانہ سے کہا کہ ان کے بالکل سامنے جو پہاڑ ہے، اس کی چوٹی پر ایک مسلم صوفی رہتا ہے اور تازہ پانی تک اُس کی رسائی ہے۔ مردانہ چوٹی پر پہنچ کر ولی قندھاری سے ملے۔ ولی قندھاری انھیں پانی دینے ہی والا تھا کہ اسے پتہ چل گیا کہ مردانہ نانک کا پیروکار ہے اور نانک بھی مردانہ کے ساتھ ہے۔
ولی قندھاری نے مردانہ سے کہا کہ وہ جا کر اپنے پیر سے کہے کہ وہ اسے پانی مہیا کرے۔ مردانہ نے واپس جا کر نانک کو سارا ماجرا سنایا۔ نانک نے مردانہ سے دوبارہ چوٹی پر جا کر پانی مانگنے کے لیے کہا۔ مردانہ نے نانک کی ہدایت پر عمل کیا مگر مسلم صوفی نے اس کی درخواست کو دوبارہ رد کر دیا اور اسے پانی دینے سے انکار کر دیا۔ نانک نے تیسری مرتبہ مردانہ کو روانہ کیا اور اس سے کہا کہ وہ خدا کے نام کا واسطہ دے کر پانی مانگے۔
ولی قندھاری نے تیسری مرتبہ بھی انکار کر دیا۔ آخر کار نانک نے اُس پتھر کو جس پر وہ بیٹھے تھے اس کو ہٹایا اور وہاں سے پانی نکلنا شروع ہو گیا اور پانی کا وہ چشمہ جو ولی قندھاری کے تصرف میں تھا نانک نے اپنے ہاتھ سے روک دیا۔ اس ہاتھ کا نشان مستقل طور پر اُس چٹان پر نقش ہو گیا اور جلد ہی ایک درگاہ اس کے ارد گرد تعمیر ہو گئی جسے پنجہ صاحب کہا جاتا ہے۔
یہاں مردانہ کا تصور ایک ایسے پیروکار کا سامنے آتا ہے جو کوئی سوال کیے بغیر اپنے رہبر کے احکامات مانتا ہے۔ جہاں ولی قندھاری کی درگاہ ہے، میں (ہارون خالد) وہاں اوپر چوٹی پر خود گیا ہوں اور میں سمجھ گیا ہوں کہ وہاں تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں۔ میں ہانپتے کانپتے وہاں تقریباً دو گھنٹے میں پہنچا۔
مردانہ نے یہی کام تین بار یہ جاننے کے باوجود کیا کہ اسے وہاں سے پانی نہیں ملے گا اور یقیناً اس کام میں اُس کی رہی سہی طاقت بھی صرف ہو گئی ہو گی اور یہی بات مردانہ کو نانک کا مثالی پیروکار ثابت کرتی ہے، ایسا پیروکار جو ہر شخص کو بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسی طرح بچوں کے لیے جو کہانیاں رضا علی عابدی نے لکھیں، وہ بھی نہ صرف دلچسپ اور سادہ ہیں بلکہ ایک ایسا ماحول دکھاتی ہیں جس میں کچھ کہے بغیر ہمیں ہر مذہب کے بچے نظر آتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہیں۔
یہ بچے ہر مشکل کا مقابلہ مل جل کر کرتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا ایک ایسی پھلواری ہے جس پر کسی ایک مذہب یافرقے کے ماننے والوں کا حق نہیں ہے۔ اس میںسب رستے بستے ہیں۔ اس کی دیکھ بھال سب پرفرض ہے اور اس سے لطف اٹھانا بھی سب کا حق ہے۔ یہ کتابیں ہمیں صرف رواداری اور ہم آہنگی کا ہی سبق نہیں سکھاتیں، یہ اس بات کا درس بھی دیتی ہیں کہ تنہا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اکٹھے ہوں تب ہی ہم میں اصل طاقت ہے۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس سے ہر باشعور شہری صرف پریشان ہی نہیں، دہشت زدہ ہے۔ ہر شخص اپنے آج سے نہیں، آنے والے کل سے تھرایا ہوا ہے۔ یہ اس کے بچوں اور ان کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔
گزشتہ دنوں حلب، الپو، موصل اور دنیا کے دوسرے شہروں سے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ عظیم تہذیبوں کے کھنڈروں سے نکالے جانے والے چار، پانچ اور چھ برس کی عمر کے بچے جس طرح مذہبی، نسلی اور لسانی منافرت کا شکار ہوئے ہیں، ہم سب اس کے عینی گواہ ہیں۔
یہی وہ معاملات ہیں جنھیں نظر میں رکھتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور فیض فاؤنڈیشن نے یورپی یونین کے تعاون سے بچوں کے لیے آسان زبان میں کہانیاں اور مختصر ناول شائع کیے ہیں۔ یہ کہانیاں اور ناول اسکول کے بچوں کے لیے بطور خاص لکھوائے گئے ہیں تا کہ شروع سے ہی انھیں اس بات کی عادت ہو کہ وہ اپنے سوا بھی مختلف برادریوں اور گروہوں سے واقف ہوں۔
وہ ایک ایسے سماج کے بارے میں جانتے ہوں جہاں مسلمانوں کے علاوہ بھی لوگ رہتے ہیں۔ ان سے دوستیاں کی جاتی ہیں اور سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ اس طرح زندگی آسان ہو جاتی ہے اور مختلف نسلوں، گروہوں کے لوگوں کا ایک خوبصورت گلدستہ وجود میں آتا ہے۔
گزشتہ دنوں فیض صاحب کی بیٹی اور فیض فاؤنڈیشن کی ٹرسٹی منیزہ ہاشمی ان کتابوں کے افتتاح کے موقعہ پر کراچی آئی ہوئی تھیں۔ پریس کلب میں انھوں نے اس زمانے کو یاد کیا جب سیسل چوہدری، جسٹس اے آر کارنیلیس، جسٹس دوراب پٹیل، بپسی سدھوا، ڈنشا اواری، گل جی اور جمی انجینئر ایسے لوگ پاکستان میں رونق بزم جہاں کی حیثیت رکھتے تھے۔
ان لوگوں سے عالمی برادری میں پاکستان کا وقار اور احترام تھا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ ان میں سے کچھ لوگ دنیا سے رخصت ہوئے اور کچھ نے پاکستان سے باہر اپنا ٹھکانہ بنایا۔ آج ہمارے بیشتر بچے ان ناموں اور ان کاموں سے ناواقف ہو چکے ہیں۔
فیض فاؤنڈیشن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وجود کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم اپنے سماج کو بہتر، روادار اور انسان دوست بنا سکیں۔ بچوں کے دلوں سے تعصب کا زہر نکال سکیں اور بڑوں کو یہ بتا سکیں کہ دوسروں سے ان کی دشمنی ان کے اپنے بچوں کے مستقبل کو برباد کر دے گی۔
ان کتابوں میں سے ایک ہارون خالد نے لکھی ہے، اس کا نام 'تعصب کے پار' ہے۔ یہ دراصل پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کی جڑوں کی تلاش ہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے ہارون خالد نے پاکستان کے طول و عرض کا سفر کیا اور مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی شناخت رکھنے والوں کی جگہوں سے گزرے۔
وہ ہمیں سکھوں کی مقدس تحریروں میں درج ایک واقعہ مسلمان صوفی ولی قندھاری کا سناتے ہیں جو کہ جنم ساکھی میں درج ہے۔ یہ واقعہ ایک مسلمان صوفی ولی قندھاری کا ہے جن کا ڈیرہ حسن ابدال میں ایک پہاڑکی چوٹی پر تھا۔ اب اس شہر کو میزبان شہر کا درجہ حاصل ہے اور یہ جگہ سکھ مت کی مقدس ترین درگاہوں میں سے ایک ہے جہاں ہر سال و ساکھی کے موقع پربہت بڑا میلہ لگتا ہے۔
نانک اور مردانہ جب حسن ابدال پہنچے تو مردانہ نے نانک کو بتایا کہ ان کو پیاس محسوس ہو رہی ہے۔ نانک نے مردانہ سے کہا کہ ان کے بالکل سامنے جو پہاڑ ہے، اس کی چوٹی پر ایک مسلم صوفی رہتا ہے اور تازہ پانی تک اُس کی رسائی ہے۔ مردانہ چوٹی پر پہنچ کر ولی قندھاری سے ملے۔ ولی قندھاری انھیں پانی دینے ہی والا تھا کہ اسے پتہ چل گیا کہ مردانہ نانک کا پیروکار ہے اور نانک بھی مردانہ کے ساتھ ہے۔
ولی قندھاری نے مردانہ سے کہا کہ وہ جا کر اپنے پیر سے کہے کہ وہ اسے پانی مہیا کرے۔ مردانہ نے واپس جا کر نانک کو سارا ماجرا سنایا۔ نانک نے مردانہ سے دوبارہ چوٹی پر جا کر پانی مانگنے کے لیے کہا۔ مردانہ نے نانک کی ہدایت پر عمل کیا مگر مسلم صوفی نے اس کی درخواست کو دوبارہ رد کر دیا اور اسے پانی دینے سے انکار کر دیا۔ نانک نے تیسری مرتبہ مردانہ کو روانہ کیا اور اس سے کہا کہ وہ خدا کے نام کا واسطہ دے کر پانی مانگے۔
ولی قندھاری نے تیسری مرتبہ بھی انکار کر دیا۔ آخر کار نانک نے اُس پتھر کو جس پر وہ بیٹھے تھے اس کو ہٹایا اور وہاں سے پانی نکلنا شروع ہو گیا اور پانی کا وہ چشمہ جو ولی قندھاری کے تصرف میں تھا نانک نے اپنے ہاتھ سے روک دیا۔ اس ہاتھ کا نشان مستقل طور پر اُس چٹان پر نقش ہو گیا اور جلد ہی ایک درگاہ اس کے ارد گرد تعمیر ہو گئی جسے پنجہ صاحب کہا جاتا ہے۔
یہاں مردانہ کا تصور ایک ایسے پیروکار کا سامنے آتا ہے جو کوئی سوال کیے بغیر اپنے رہبر کے احکامات مانتا ہے۔ جہاں ولی قندھاری کی درگاہ ہے، میں (ہارون خالد) وہاں اوپر چوٹی پر خود گیا ہوں اور میں سمجھ گیا ہوں کہ وہاں تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں۔ میں ہانپتے کانپتے وہاں تقریباً دو گھنٹے میں پہنچا۔
مردانہ نے یہی کام تین بار یہ جاننے کے باوجود کیا کہ اسے وہاں سے پانی نہیں ملے گا اور یقیناً اس کام میں اُس کی رہی سہی طاقت بھی صرف ہو گئی ہو گی اور یہی بات مردانہ کو نانک کا مثالی پیروکار ثابت کرتی ہے، ایسا پیروکار جو ہر شخص کو بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسی طرح بچوں کے لیے جو کہانیاں رضا علی عابدی نے لکھیں، وہ بھی نہ صرف دلچسپ اور سادہ ہیں بلکہ ایک ایسا ماحول دکھاتی ہیں جس میں کچھ کہے بغیر ہمیں ہر مذہب کے بچے نظر آتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہیں۔
یہ بچے ہر مشکل کا مقابلہ مل جل کر کرتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا ایک ایسی پھلواری ہے جس پر کسی ایک مذہب یافرقے کے ماننے والوں کا حق نہیں ہے۔ اس میںسب رستے بستے ہیں۔ اس کی دیکھ بھال سب پرفرض ہے اور اس سے لطف اٹھانا بھی سب کا حق ہے۔ یہ کتابیں ہمیں صرف رواداری اور ہم آہنگی کا ہی سبق نہیں سکھاتیں، یہ اس بات کا درس بھی دیتی ہیں کہ تنہا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم اکٹھے ہوں تب ہی ہم میں اصل طاقت ہے۔