قلم اور کاشت

میں مدتوں سے اہل لاہور کا کرایہ دار ہوں، کبھی ایک لاہوری کا کبھی دوسرے لاہوری کا

Abdulqhasan@hotmail.com

میں مدتوں سے اہل لاہور کا کرایہ دار ہوں، کبھی ایک لاہوری کا کبھی دوسرے لاہوری کا۔ چونکہ ایک اچھا کرایہ دار ہوں اس لیے کسی کے گھر میں بھی بڑے اطمینان کا ساتھ رہتا ہوں اور میرے کسی مالک مکان کو مجھ سے کبھی شکایت نہیں ہوئی۔

مالک مکان کا کام صرف کچھ در و دیوار کو میرے سپرد کر دینا ہوتا ہے اور اس کے عوض ہر ماہ میرے دل، دماغ اور ہڈیوں تک کی کمائی کو نقدی کی صورت میں قبول کرنا ہوتا ہے اس لیے کبھی کسی مالک مکان کو مجھ سے شکایت پیدا نہیں ہوئی۔

مجھے چونکہ کسی کے بنائے ہوئے مکان میں اپنی سہولت کے ساتھ رہنا ہوتا ہے اس لیے میں کسی کے مکان میں اپنی ضرورت کے مطابق اصلاح بھی کر لیتا ہوں اور یہ اصلاح چونکہ توڑ پھوڑ کی نہیں بناؤ سنگھار کی ہوتی ہے اس لیے مالک مکان نے کبھی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی اچھی اصلاح کا شکریہ ادا کیا ہے اس لیے دونوں طرف سے آسودگی کے ساتھ گزر بسر ہوتی رہتی ہے۔

ویسے یہ مقولہ عملاً درست ثابت ہوا کہ بے عقل مکان بناتے ہیں اور عقل مند ان میں رہتے ہیں چنانچہ میں ہمیشہ عقلمند بن کر رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا کوئی مالک مکان یہ تو ہو سکتا ہے کہ میری تعریف نہ کرے لیکن میں اسے بدتعریفی کا موقع نہیں دیتا۔

مجھے کبھی کسی مالک مکان سے یہ شکایت نہیں رہی کہ میں مالک مکان کیوں نہیں اور یہ پھٹیچر سا چپلی پوش مالک کیوں ہے کیونکہ ملکیت کا یہ قصہ کسی کی محنت اور اہلیت پر ہے اگر میں محنتی اور اہل نہیں ہوں تو اس میں میرا قصور ہے کسی مالک مکان کا نہیں۔


میں جب اپنی بیٹی کی شادی کرنے لگا تو اس نے کسی سے کہلوایا کہ وہ کرائے کے گھر سے رخصت نہیں ہو گی اور اس کی یہ بات یوں سو فیصد درست تھی کہ وہ ایک صاحب حیثیت زمیندار کی بیٹی تھی۔ ایک معروف خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اس کے ہاں یہ تصور بھی نہیں پایا جاتا تھا کہ وہ کسی کرایہ دار کے گھر سے اپنے نئے گھر کی طرف رخصت ہو گی۔

بات چونکہ درست تھی اس لیے میں نے لاہور میں ایک مکان تلاش کیا جس کی قیمت ادا کی اور اس ذاتی گھر سے بیٹی کی رخصتی ہوئی اور یہ فرض بخیر و عافیت ادا کر دیا۔ جب میرے ایک عزیز کو پتہ چلا کہ میں نے شادی کے لیے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ بیچ دیا ہے تو اس نے اس کا برا نہ منایا کہ ایسی تقریبات اور ضروریات کے لیے ہمارے ہاں جائیداد فروخت کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ہمارے پاس نقد سرمایہ نہیں ہوتا۔ دیہی زندگی ایسی ہی چلتی ہے کہ ایک طرف سے کچھ آ گیا اور دوسری طرف وہ خرچ ہو گیا البتہ عزت اس میں ہوتی ہے کہ ضروری کام کے لیے کچھ موجود ہو، مقروض نہ ہونا پڑے۔

ہم دیہاتی لوگ قرض سے بہت گھبراتے ہیں کہ اس کا لینا آسان مگر ادائیگی مشکل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی عموماً بہت مہنگی پڑتی ہے۔ اس کے لیے کچھ بیچنا پڑتا ہے مگر یہ تو ایک معمول ہے اور ہمارے پاس کچھ بچا ہوا ہوتا ہے اس کا حساب کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں قرض کی ادائیگی کا بھی بڑا حصہ ہے جس کے لیے کچھ فروخت کرنا پڑا تھا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہماری زمین کے ایک خوبصورت ٹکڑے کی طرف سے دوسری زمین کو جانے والا جو راستہ ملتا تھا وہ ایسی زمینوں میں سے ہو کر گزرتا تھا جس سے گزرنا ان کی ملکیت کو یاد کرنا ہوتا تھا، جو اب فروخت ہو چکیں۔ بہرکیف دیہی زندگی کے یہ پہلو زندگی کے ناگزیر پہلو ہیں اور جن میں گزرنے اور جنھیں برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر آپ کو دیہی زندگی میں ایسے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے جو ذہنی طور پر دشوار گزار ہوتے ہیں مگر عملی زندگی میں ان سے واسطہ پڑتا ہی ہے اور صبر سے کام لینا ہوتا ہے۔

ان دنوں مجھ پر اپنا گاؤں سوار ہے۔ میں وہاں چند دن رہ کر آیا ہوں اور وہاں کے نشیب و فراز میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ میں بنیادی طور پر قلمکار نہیں ایک کاشتکار ہوں اور اس میں سکون محسوس کرتا ہوں۔ قلم کی نوک سے بھی فصل اگتی ہے جو کسی قلمکار کو زندہ رکھتی ہے لیکن اس طرح ایک کاشتکار کے ہل میں بھی وہی کچھ ملتا ہے جو شاید قلم سے بھی نہ مل سکے مگر میں ہل کو قلم کے مقابلے میں زیادہ پسند کرتا ہوں مگر ہل چلانا ایک مشکل کام ہے جو اب مجھ سے نہیں چل سکتا۔

اب وہ خوبصورت وقت گزر گیا جب کسی کھیت میں ہل کی لکیریں کسی فنکار کے قلم کی لکیریں دکھائی دیتی تھیں۔ بہرحال ہر زمانہ گزر گیا۔ ہل کا زمانہ بھی اور قلم کا زمانہ بھی گزر رہا ہے اور خدا کرے ہر زمانہ عزت اور خیریت کے ساتھ گزرے کیونکہ وقت کسی کے بس میں نہیں ہوا کرتا۔ اس کی اپنی رفتار اور اپنی چال ہوتی ہے جو کسی کے بس میں نہیں ہوتی۔
Load Next Story