گمشدہ دریائے سرسوتی
صحرائے چولستان کے گرد بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع ہیں
آرکیٹکٹ نیئر علی دادا کی نیرنگ آرٹ گیلری میں اختر ممونکا اور سپنا خاں کی پینٹنگز کی نمائش کے دعوتی کارڈ پر لکھی تحریر In the land of th lost river پڑھ کر مجھے معلوم ہوا کہ چولستان (روہی) کے صحرا میں سے کبھی ایک دریا جس کا نام سرسوتی تھا، گزرا کرتا تھا۔ اس صحرا کے ایک قلعے ''مروٹ'' کے ذکر کے ساتھ وہیں کا ایک شعر ہے:
اچا کوٹ مروٹ دا، تے ہیٹھ وگے دریا
میں مچھلی دریا دی، تو بگلا بن کے آ
صحرائے چولستان کے گرد بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع ہیں۔ چولستان یعنی روہی ایک وسیع صحرا ہے جس کا رقبہ 26300 مربع کلومیٹر ہے لیکن ایک ہزار میں شاید دو تین افراد نے بھی یہ علاقہ نہ دیکھا ہو گا۔ اکثر لوگ بس اتنا جانتے ہوں گے کہ یہاں سال میں ایک بار جیپ ریلی کا انعقاد ہوتا ہے جس کے بعد ایک عوامی میلہ لگتا ہے جس میں ریلی کے شریک افراد اور مقامی لوگ جشن مناتے ہیں۔
روہی کے اکثر لوگ خانہ بدوش ہیں چونکہ وہاں بارش بہت کم ہوتی ہے انھیں پانی اور سبزے کی تلاش میں نقل مکانی مجبوری کے تحت کرنا پڑتی ہے۔ چولستانی دریائے سرسوتی کا اب وجود نہیں رہا۔ تاریخی کتب میں دریا کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ 600 قبل مسیح تک علاقے کو سیراب کرتا رہا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ سرسوتی وقت گزرنے کے ساتھ دریائے ہاکرا اور دریائے جھگر کے نام سے یاد رکھا جانے لگا۔ ہندوؤں کے ویدک عہد میں بھی اس کا ذکر ہوتا تھا۔
چولستان میں 400 قدیمی قلعوں کا وجود بھی بتایا جاتا ہے۔ یہ قلعے ایسے Watch Towers تھے جو اونٹوں کے کاروانوں کی رہنمائی اور نگرانی کے لیے جپسم اور گارے سے تعمیر کیے گئے تھے۔ بہت سے قلعوں کے نشان اور کھنڈرات اب بھی موجود ہیں۔ بہت سے قلعے نگرانی اور دیکھ بھال نہ ہونے، آندھیوں کی وجہ سے گر گئے اور بہت سے چوری کی نذر ہو گئے۔
چولستانی لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا اور ان کا کاروبار کرنا ہے۔ اونٹ ان کا بیش قیمت سرمایہ ہے اور بھیڑ بکری پالنا ان کا شوق اور معاش کا ذریعہ ہے۔ اونٹ ان کا قریبی دوست بھی ہے جس کی اون اور کھال بہترین کپڑا اور ظروف بنانے میں کام آتی ہے۔ اس اون سے قالین اور کھدر کپڑا بھی بنتا ہے۔ اون گراں قیمت پاتی ہے۔
ظروف سازی اور چمڑے کی مصنوعات یہاں کے لوگوں کی مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ چولستانی بیل فربہ اور چتکبری ہوتے ہیں جو خوبصورت اور مہنگے ہوتے ہیں۔ مقامی لوگ اپنے اونٹوں کو دوڑوں کے مقابلوں میں تو استعمال کرتے ہیں ان کو رقص کرنا بھی سکھاتے ہیں۔ اونٹ جسے رنگ برنگے کپڑے پہنا اور پھندنے لگا کر سجایا گیا ہوتا ہے، شاندار رقص پیش کرتا ہے۔
صحرائے چولستان کے تفصیلی تعارف کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اختر ممونکا جس کی پینٹنگز کی نمائش پر جانا ہوا تھا وہ اسی علاقے میں پلا بڑھا تھا اور اگرچہ وہ پی آئی اے میں ملازمت کرنے کے بعد دیس دیس گھوما تھا، اس کا عشق اب بھی اس صحرائی مٹی سے کم نہ ہوا تھا جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ اس نے پی آئی اے کو خیرباد کہا تو ٹریول ایجنسی کھولی اور ساتھ ہی غیرملکی سیاحوں کو پاکستان کے شمالی علاقوں کے حسین و دلفریب علاقوں میں لے جانے، وہاں کیمپنگ کرنے کا بزنس شروع کر دیا۔
وہ سیاحوں کو گمشدہ دریائے سرسوتی کے علاقے روہی بھی لے جاتا۔ اس کے علاوہ اس کا پینٹنگ کا شوق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ اس کی پینٹنگز میں صحرائی مناظر Oil On Canvas کی شکل میں اس کی Nostalgia کی تشنگی دور کرتے ہیں۔ اس کی پینٹنگز کی نمائشیں اسپین، پرتگال، قاہرہ، فرانس، بارسلونا، اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ہوتی رہیں۔
نیرنگ آرٹ گیلری میں اس کی اور اس کی بیٹی سپنا خاں کی پینٹنگز اور کیمرہ تصاویر کی نمائش تھی۔ اختر کی مصوری میں علاقہ روہی یعنی چولستان کی زندگی کے مناظر تھے جن میں اونٹوں کا رقص، عورتیں اپنے مویشیوں کے ساتھ سروں پر مٹکے اٹھائے چند مردوں کے ہمراہ پانی اور سبزے کی تلاش میں جا رہی ہیں، گھونگھٹ گرائے الہڑ دوشیزائیں تیز قدموں سے چل رہی ہیں، بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے جس کے آگے اور پیچھے چرواہے چلے جا رہے ہیں۔
پھر ادھم مچاتے بچوں کا گروہ کھیل کود رہا ہے لیکن سب سے منفرد وہ پینٹنگ ہے جو چنن پیر کے میلے میں شامل زائرین کی ہے، قریبی درخت کی ٹہنیوں سے منت ماننے والوں کے دھاگے لٹک رہے ہیں۔ یہ میلہ 7 فروری سے 7 اگلی جمعراتوں تک چلتا ہے اور مقامی لوگ یہاں رات دن دعائیں مانگنے آتے ہیں، وہ گاتے بھی ہیں:
سوہنا چنن پیر
دیوے پتر تے کھیر
لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہاں من کی مراد پوری ہوتی ہے۔ اختر کی پینٹنگز میں تمام شوخ رنگ تھے جب کہ روہی لوگ خود بھی شوخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں بلکہ اپنے مویشیوں اور اونٹوں کو بھی پہناتے ہیں۔ سپنا خاں کی کیمرہ فوٹوز بھی اعلیٰ معیار کی تھیں جن میں گمشدہ دریا کے علاقے کے باسیوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھا جا سکتا تھا۔
اچا کوٹ مروٹ دا، تے ہیٹھ وگے دریا
میں مچھلی دریا دی، تو بگلا بن کے آ
صحرائے چولستان کے گرد بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع ہیں۔ چولستان یعنی روہی ایک وسیع صحرا ہے جس کا رقبہ 26300 مربع کلومیٹر ہے لیکن ایک ہزار میں شاید دو تین افراد نے بھی یہ علاقہ نہ دیکھا ہو گا۔ اکثر لوگ بس اتنا جانتے ہوں گے کہ یہاں سال میں ایک بار جیپ ریلی کا انعقاد ہوتا ہے جس کے بعد ایک عوامی میلہ لگتا ہے جس میں ریلی کے شریک افراد اور مقامی لوگ جشن مناتے ہیں۔
روہی کے اکثر لوگ خانہ بدوش ہیں چونکہ وہاں بارش بہت کم ہوتی ہے انھیں پانی اور سبزے کی تلاش میں نقل مکانی مجبوری کے تحت کرنا پڑتی ہے۔ چولستانی دریائے سرسوتی کا اب وجود نہیں رہا۔ تاریخی کتب میں دریا کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ 600 قبل مسیح تک علاقے کو سیراب کرتا رہا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ سرسوتی وقت گزرنے کے ساتھ دریائے ہاکرا اور دریائے جھگر کے نام سے یاد رکھا جانے لگا۔ ہندوؤں کے ویدک عہد میں بھی اس کا ذکر ہوتا تھا۔
چولستان میں 400 قدیمی قلعوں کا وجود بھی بتایا جاتا ہے۔ یہ قلعے ایسے Watch Towers تھے جو اونٹوں کے کاروانوں کی رہنمائی اور نگرانی کے لیے جپسم اور گارے سے تعمیر کیے گئے تھے۔ بہت سے قلعوں کے نشان اور کھنڈرات اب بھی موجود ہیں۔ بہت سے قلعے نگرانی اور دیکھ بھال نہ ہونے، آندھیوں کی وجہ سے گر گئے اور بہت سے چوری کی نذر ہو گئے۔
چولستانی لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا اور ان کا کاروبار کرنا ہے۔ اونٹ ان کا بیش قیمت سرمایہ ہے اور بھیڑ بکری پالنا ان کا شوق اور معاش کا ذریعہ ہے۔ اونٹ ان کا قریبی دوست بھی ہے جس کی اون اور کھال بہترین کپڑا اور ظروف بنانے میں کام آتی ہے۔ اس اون سے قالین اور کھدر کپڑا بھی بنتا ہے۔ اون گراں قیمت پاتی ہے۔
ظروف سازی اور چمڑے کی مصنوعات یہاں کے لوگوں کی مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ چولستانی بیل فربہ اور چتکبری ہوتے ہیں جو خوبصورت اور مہنگے ہوتے ہیں۔ مقامی لوگ اپنے اونٹوں کو دوڑوں کے مقابلوں میں تو استعمال کرتے ہیں ان کو رقص کرنا بھی سکھاتے ہیں۔ اونٹ جسے رنگ برنگے کپڑے پہنا اور پھندنے لگا کر سجایا گیا ہوتا ہے، شاندار رقص پیش کرتا ہے۔
صحرائے چولستان کے تفصیلی تعارف کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اختر ممونکا جس کی پینٹنگز کی نمائش پر جانا ہوا تھا وہ اسی علاقے میں پلا بڑھا تھا اور اگرچہ وہ پی آئی اے میں ملازمت کرنے کے بعد دیس دیس گھوما تھا، اس کا عشق اب بھی اس صحرائی مٹی سے کم نہ ہوا تھا جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ اس نے پی آئی اے کو خیرباد کہا تو ٹریول ایجنسی کھولی اور ساتھ ہی غیرملکی سیاحوں کو پاکستان کے شمالی علاقوں کے حسین و دلفریب علاقوں میں لے جانے، وہاں کیمپنگ کرنے کا بزنس شروع کر دیا۔
وہ سیاحوں کو گمشدہ دریائے سرسوتی کے علاقے روہی بھی لے جاتا۔ اس کے علاوہ اس کا پینٹنگ کا شوق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔ اس کی پینٹنگز میں صحرائی مناظر Oil On Canvas کی شکل میں اس کی Nostalgia کی تشنگی دور کرتے ہیں۔ اس کی پینٹنگز کی نمائشیں اسپین، پرتگال، قاہرہ، فرانس، بارسلونا، اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ہوتی رہیں۔
نیرنگ آرٹ گیلری میں اس کی اور اس کی بیٹی سپنا خاں کی پینٹنگز اور کیمرہ تصاویر کی نمائش تھی۔ اختر کی مصوری میں علاقہ روہی یعنی چولستان کی زندگی کے مناظر تھے جن میں اونٹوں کا رقص، عورتیں اپنے مویشیوں کے ساتھ سروں پر مٹکے اٹھائے چند مردوں کے ہمراہ پانی اور سبزے کی تلاش میں جا رہی ہیں، گھونگھٹ گرائے الہڑ دوشیزائیں تیز قدموں سے چل رہی ہیں، بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہے جس کے آگے اور پیچھے چرواہے چلے جا رہے ہیں۔
پھر ادھم مچاتے بچوں کا گروہ کھیل کود رہا ہے لیکن سب سے منفرد وہ پینٹنگ ہے جو چنن پیر کے میلے میں شامل زائرین کی ہے، قریبی درخت کی ٹہنیوں سے منت ماننے والوں کے دھاگے لٹک رہے ہیں۔ یہ میلہ 7 فروری سے 7 اگلی جمعراتوں تک چلتا ہے اور مقامی لوگ یہاں رات دن دعائیں مانگنے آتے ہیں، وہ گاتے بھی ہیں:
سوہنا چنن پیر
دیوے پتر تے کھیر
لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہاں من کی مراد پوری ہوتی ہے۔ اختر کی پینٹنگز میں تمام شوخ رنگ تھے جب کہ روہی لوگ خود بھی شوخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں بلکہ اپنے مویشیوں اور اونٹوں کو بھی پہناتے ہیں۔ سپنا خاں کی کیمرہ فوٹوز بھی اعلیٰ معیار کی تھیں جن میں گمشدہ دریا کے علاقے کے باسیوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھا جا سکتا تھا۔