حالات حاضرہ

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پانچ شعبوں کو لاہور منتقل کردیا گیا ہے

zb0322-2284142@gmail.com

KARACHI:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پانچ شعبوں کو لاہور منتقل کردیا گیا ہے۔ اس عمل پر تجارتی، مالیاتی اور سیاسی حلقوں نے احتجاج کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ احتجاج درست ہے، اس لیے کہ کراچی میں بندرگاہ ہے، ملک کے بیشتر مالیاتی اداروں کے مرکزی دفاتر کراچی میں ہیں، جیساکہ نیشنل بینک، یوبی ایل، ایم سی بی، حبیب بینک، اسٹیٹ لائف، ای ایف یو، ایف ٹی سی، کاٹن ایکسچینج، این ایس سی، کے پی ٹی وغیرہ۔ اس لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو لاہور منتقل کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسے فوری طور پر کراچی میں ہی رہنے دیا جائے۔

سعودی عرب کی حکومت نے عمرہ زائرین پر دو ہزار ریال اضافی چارجز لگا کر پاکستانی عوام پر مزید معاشی بوجھ لاد دیا ہے۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے سعودی حکومت سے اس اضافی چارجز کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، اب پاکستان کی حکومت کو بھی ایسا ہی مطالبہ کرنا چاہیے۔ حال ہی میں پی ٹی سی ایل کی انتظامیہ نے یہ اعلان کیا کہ اسے اس مالی سال میں خالص منافع اٹھاسی عشاریہ آٹھ ارب روپے ہوا ہے۔

اگر حکومت نے اس ادارے کی نجکاری نہ کی ہوتی تو یہ منافع سرکار کے ہاتھوں لگتا اور کچھ نہ کچھ عوام اور ریاست کو ہی فائدہ پہنچتا۔ مگر ہمارے حکمران سامراجی احکامات کی تکمیل کے لیے سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ کامریڈ واحد بلوچ سمیت ہزاروں مسنگ پرسن بازیاب نہیں ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میںعدالتوں نے بارہا ان کی بازیابی پر زور دیا مگر اس کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ اب عوام کہاں جائے؟ اب تو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی لوگ غائب ہونے لگے ہیں۔

سندھ حکومت نے شادی ہال دس بجے اور دکانیں شام سات بجے بندکرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ شادی کے بارے میں تو بالکل ٹھیک کیا ہے لیکن بازار کے بارے میں غلط فیصلہ ہے۔ اس لیے بھی کہ لوگ ڈیوٹی سے ہی چھ بجے گھر پہنچتے ہیں اور اگر دکانیں سات بجے بند ہوجائیں تو وہ سودا کب لیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت نو بجے دکانیں بند کرنے کا فیصلہ کرے۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے نے اسکولوں میں رقص پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بہت ہی نامناسب اور غیر سائنسی بات ہے۔ اس لیے کہ رقص کرنا انسان کی فطرت ہے۔ انسان کو تو چھوڑیں مور، کبوتر، گھوڑے، اونٹ اور برڈ آف پیراڈائز خوشی میں رقص کرتے ہیں تو پھر انسان کیوں نہ کرے۔ ابھی چند دنوں قبل چین سے ایک ریلی دیکھنے کو ملی جو رقص کرتے ہوئے آرہی تھی۔


غیرت کے نام پر قومی اسمبلی میں ایک بل پاس ہوا، بظاہر یہ بل درست لگا لیکن اس میں سے دیت اور قصاص کی شق نہیں نکالی گئی، اس لیے یہ بل پاس کرنا یا نہ کرنا کوئی مانع نہیں رکھتا۔ حال ہی میں لاہور میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کردیا تھا، جب کہ جج نے باپ کے خود کو معاف کرنے پر رہا کردیا۔ یقیناً مدعی ماں، بیٹے اور بھتیجے کے مابین کوئی صلح ہوئی ہوگی ورنہ جج خود کو معاف کرنے پر سزا سے باپ کو بچا نہیں سکتا تھا، اس لیے کہ اس معاف کرنے کے قانون کو ختم کردیا گیا تھا۔

ابھی حال ہی میں گیس کے نرخ میں چھتیس فیصد اضافے کی تجویز آئی ہے، ہر طرف سے اس کی مخالفت ہورہی ہے، لیکن حکومت خاموش ہے، وہ دفاعی اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرنے کے بجائے گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ یہ کس قسم کی عوامی خدمت ہے۔ آٹے کی قیمت میں فی کلو ایک روپیہ بڑھا دیا گیا ہے، جب کہ اس کمر توڑ مہنگائی کے دور میں آٹے کی قیمت میں کم ازکم پانچ روپے فی کلو کمی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔

پاکستان اور ہندوستان دونوں انتہائی غریب ترین ممالک ہیں۔ انھیں تو چاہیے تھا کہ اپنے اپنے ملکوں میں بے روزگاری، بھوک، افلاس اور غربت کے خلاف توجہ دیتے اور اسلحہ کی پیداوار اور تجارت ونمائش کو ختم کرتے۔ مگر دونوں جانب جنگی جنون ہے۔ کیا یہ سب کچھ ایسے ہی ہورہا ہے؟ جی نہیں! یہ سب کچھ سمجھ بوجھ کر کیا جارہا ہے۔ جس میں سامراجیوں کے اسلحے بکتے رہیں، جس کے لیے انھیں میدان جنگ چاہیے۔ امریکا پاکستان کو اسلحہ بیچتا ہے اور بھارت کو بھی بیچتا ہے۔

روس پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کرتا ہے اور ہندوستان کو بیس بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ چین پاکستان کو اسلحہ بیچتا ہے اور بھارت کے ساتھ فوجی مشقیں بھی کرتا ہے۔ عالم عرب، ترکی، انڈونیشیا اور ملائیشیا، امریکا، روس اور چین سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ لہٰذا جب تک جنگ کا خاتمہ نہیں ہوگا اور اسلحے کی پیداوار کو بند نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک دنیا سے بھوک، افلاس اور غربت کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ یہ بات میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹینا فرماتی ہیں۔

اس سے یہ ثابت ہوچکی ہے کہ دنیا میں طبقاتی تقسیم کو ختم کیے بغیر غربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ہے۔ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے اور ریاست کے ذیلی ادارے صاحب جائیداد طبقات کے رکھوالے ہیں۔ اس کا ثبوت ہر جگہ میسرہے۔ جیلوں کو لے لیں، پتیلی چور جیل میں ہوتا ہے اور اربوں روپے کی خوردبرد کرنے والے قوم کے خدمت گار بن جاتے ہیں۔ کارندوں، کارکنوں، تنخواہ دار اور دیہاڑی داروں کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے جب کہ اربوں روپے غبن کرنے والے ملک سے باہر یا رہنما بن جاتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی یہ خرابی یا برائی نہیں ہے بلکہ اس نظام کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اس لیے اس کا واحد حل ملکیت، جائیداد، اقتدار، حاکمیت اور طبقات کا خاتمہ کرکے ایک غیر طبقاتی نظام کی تشکیل میں مضمر ہے، جہاں ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔
Load Next Story