آتش فشاں پر بیٹھے کراچی والے

عزیز آباد کے ایک چھوٹے سے گھر سے اتنی بڑی مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود ملنے سے شہر قائد دنگ رہ گیا

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی عالمی سطح پر ہونے والی رسوائی کی وجہ وطن عزیز میں کالعدم تنظیموں اور چند سیاسی جماعتوں کی غیر قانونی حرکتیں اور موجودگی ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ احتساب اداروں کی کمزوری ہے۔ اگر ہمیں ملک سے بدعنوانی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں احتساب اداروں کو فعال اور مضبوط اور خود مختار بنانا ہوگا وگرنہ لا اینڈ آرڈر کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔

حال ہی میں کراچی پولیس نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑے اسلحے کی کھیپ پکڑی جو عزیز آباد لال قلعہ گراؤنڈ سے متصل ایک بند مکان کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی جس کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اسے مذکورہ مقام سے منتقل کرنے کے لیے دو بڑے ٹرکوں اور پانچ پولیس موبائلوں سے لاد کر پاک فوج کے سینٹرل آرڈیننس ڈیپو (COD) منتقل کیا گیا، کیونکہ اس خطرناک گولہ بارود کو محفوظ رکھنے کے لیے پولیس کے پاس کوئی انتظام نہ تھا برآمد کیا جانے والا تمام اسلحہ سرکاری، غیرملکی اور نیٹو فورسز کا ہے جس میں زمین سے ہوائی جہاز کو نشانہ بنانے والی ایئر کرافٹ گنز، مشین گنز سمیت جدید اقسام کے انتہائی خطرناک ہتھیار شامل ہیں اور اس کی اندازاً قیمت 60 کروڑ روپے ہے، اس اسلحے کی کھیپ کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کھیپ کہا جا رہا ہے اور کراچی پولیس کی تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی سے بھی اسے تعبیرکیا جا رہا ہے۔

بلاشبہ یہ اسلحہ ہم نے دیار غیر کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ ہم وطنوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے لیے منگوایا تھا۔ بالخصوص محرم الحرام میں اس شہر کے لوگوں پر اس کا استعمال ہونا تھا اور یہ بات ہمارے حساس اداروں نے میڈیا کو بتائی ہے۔ اس اسلحے کو اعلیٰ معیار کی غیرملکی گریس لگا کر بہت سلیقے سے رکھا گیا تھا جو اس بات کا بھی غماز ہے کہ اسے سمندری راستے سے بھی گزارا گیا ہے تاکہ اس میں نمی نہ آسکے۔

عزیز آباد کے ایک چھوٹے سے گھر سے اتنی بڑی مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود ملنے سے شہر قائد دنگ رہ گیا، یہ انتہائی حساس نوعیت کی اتنی بڑی کھیپ ہے کہ سیکیورٹی حکام نے اس میں ''را'' سمیت دیگر غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس اسلحے نے سیکیورٹی اداروں کو بھی الرٹ کیا ہے جنھیں تشدد کی نئی لہر کا خدشہ ہے اور یقین ہے کہ اگر اس طرح کے یا اس سے چھوٹے مزید اسلحہ ڈپو شہر میں ملے تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپریشن اختتام سے ابھی بہت دور ہے۔

عزیز آباد سے قبل گلستان جوہر کے ایک فلیٹ سے بھی بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد ہوا تھا۔ بہرکیف عزیز آباد سے اسلحہ اور گولہ بارود کی مقدار اور معیار اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ پاکستان کے اقتصادی اور تجارتی مرکز کے خلاف بہرطور ایک بہت بڑی اور گہری سازش کا حصہ ہوسکتا ہے جسے کراچی کے بہت بڑے اور مضبوط دماغوں اور ہاتھوں نے تیارکیا۔

بعض حکام نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ کسی نجی فوج کے اسلحہ ڈپو کی طرح لگتا ہے اور ان ہتھیاروں میں سے کچھ کو استعمال کرنے کے لیے یقینی طور پر آرمی کمانڈو کی طرح کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ یہ اسلحہ کس کی ایما پر اور کن کن لوگوں کی آشیر واد سے کراچی میں اور کس لیے منتقل کیا گیا؟

یہ سب کا سب اگر ثابت نہیں کیا جاسکا تو پولیس اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی اور ذمے داریوں پر بہت سنگین سوال اٹھیں گے پولیس اور دیگر حساس اداروں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ اس علاقے میں اور بھی بیشتر بند یا ویران گھروں میں بھی اسلحہ موجود ہے۔

سامنے کا سوال ہر ایک کی زبان پر ہے کہ آخر یہ ہتھیار کیسے عزیز آباد پہنچ گئے؟ اور یہ جواب بھی سبھی کے پاس ہے کہ اس اسلحے کا استعمال وطن کے دشمنوں کے خلاف نہیں بلکہ اس شہر کراچی کے مظلوم اور بے گناہ لوگوں پر ہونا تھا۔ سچ بہرحال کچھ بھی ہو سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ ہم کراچی والے آتش فشاں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔


یہ بجا کہ کراچی آپریشن کے بعد شہر میں امن وامان کی صورتحال میں کافی حد تک بہتری آئی ہے لیکن گزشتہ ادوار میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے سیکڑوں، ہزاروں افراد کے اہل خانہ تاحال انصاف کے منتظر ہیں۔

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہزاروں ملزمان کو پکڑا جاچکا ہے لیکن صحیح معنوں میں ان ملزمان کو تاحال عدالتوں میں ان کے کیے کی سزا نہیں مل سکی ہے، جس سے اس شہر میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کے اہل خانہ نہ صرف مایوس ہیں بلکہ پروسیکیوشن کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ بہترین پروسیکیوشن کے بغیر قیام امن کا خواب کسی صورت تعبیر نہیں پاسکتا۔

ابھی محرم سیکیورٹی پلان کے تحت پولیس نے کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کی 20 دکانوں کو سیل کیا تھا اور ایمپریس مارکیٹ کے مرکزی دروازوں تک کو بند کردیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود 20 دکانوں کو لوٹ لیا گیا۔ شہر میں ہائی الرٹ ہونے کے باوجود نقب زنی کی واردات نے کراچی میں پھر سے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے۔

فیصلے بلا شبہ تلخ ضرور ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی زندگی کو سنوار دیتے ہیں اور یہ معاملہ یہ مسئلہ کراچی کے امن و سکون اور سب سے بڑھ کر اس کے دو کروڑ شہریوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے لہٰذا اس میں کسی قسم کی تاخیر قومی غفلت سے ہی تعبیر کی جائے گی۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس مادہ پرست معاشرے یا دور میں بے غرض اور مخلص جذبے رکھنے والے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ملک کی باگ ڈور تھامنے والے ہاتھوں (جن کے ہاتھوں میں پورے ملک کے لوگوں کی تقدیر بھی ہو، انھیں جذبات سے یکسر عاری نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے بھی پاکستان کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران ''اپنی ترجیحات'' کو فوراً تبدیل کرلیں اور اپنی تمام تر کاوشوں کو پاکستان کی حالت تبدیل کرنے کے لیے بروئے کار لائیں۔

ملکی منظرنامہ اور وقت کا مورخ ہی نہیں اس شہر کراچی کے دو کروڑ افراد یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا ایک آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے پاکستان کے اقتصادی مرکز کو نشانہ بنانے کی اس بہت بڑی سازش کو بے نقاب کیا جا سکے گا اور اسلحہ ڈپو یا اسلحے کے گوداموں اور اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے گا؟ یا یہ ہولناک مسئلہ یا واقعہ بھی میڈیا کے شور شرابے کی نذر ہوجائے گا۔

اگر تمام عسکریت پسندوں، ذمے داروں کو پکڑنے میں کامیابی ہوگئی اور یہ معلوم کرلیا گیا کہ یہ اسلحہ کس طرح آیا؟ کہاں سے آیا؟ اور حکام اور دیگر افراد میں سے کون کون اس سازش پر خاموش رہا یا اس کا جزوی حصہ تھا، تو پھر اس کے بین الاقوامی نتائج ہوسکتے ہیں کہ آخر شہر قائد کی دو کروڑ آبادی میں یہ کیا چل رہا ہے؟ اور آخر کب تک چلے گا؟

اگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ فہم و فراست سے مکمل طور پر عاری نہیں ہوئی تو اسے چاہیے کہ وہ اب بھی عقل و ہوش کے ناخن لے لے، وگرنہ ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں...!
Load Next Story