جنگی جنون ماحول کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ
پاکستان جنوبی ایشیا میں جنگوں سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات دنیا کے سامنے لائے
سرحدوں پر کشیدگی جاری ہے، اگرچہ پاکستان نے اب تک بہت تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ہندوستان کی جارحانہ پالیسی سے دونوں ممالک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور کسی جنگ کی صورت میں جو تباہی پھیلے گی اسے تصور کی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ جنگ کی صورت میں انسان اور ماحول کی تباہی لازم و ملزوم ہے۔ اس خطے سے شاید انسان اور حیوان کا وجود ہی مٹ جائے۔
اس وقت موسمیاتی تغیر جس طرح کرۂ ارض کی تباہی کے درپے ہیں اور پاکستان جس طرح اس خطرے سے دوچار ممالک میں سرفہرست ہے اور ہندوستان کے عوام جس غربت اور بدحالی سے دوچار ہیں، اسے دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں اچھے پڑوسیوں کی طرح ہاتھ میں ہاتھ دیے غربت بدحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہوتے لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ کسی بڑی یا چھوٹی جنگ کا خمیازہ دونوں طرف کے عوام مزید بدحالی، غربت اور موسمیاتی خطرات کی صورت میں بھگتیں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب کی جنگوں میں انسانیت اور قدرتی ماحول کو کیا کیا نقصانات پہنچتے رہے ہیں۔
اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 21 ویں صدی میں جنگوں کا مقصد سیاسی بالا دستی نہیں بلکہ صرف اور صرف دوسرے ممالک کے وسائل پر تصرف حاصل کرنا ہے۔ یہ وسائل زرخیز زمینوں کی صورت ہوں یا تیل اور پانی کی صورت۔
ماضی قریب اور موجود میں تمام جنگیں وسائل کے حصول کے لیے ہوئی تھیں اور آئندہ بھی ہوسکتی ہیں۔ بڑے ممالک چھوٹے ممالک کو تر نوالہ سمجھ کر نگل لینا چاہتے ہیں۔ عسکری ماہرین کے مطابق اکتوبر 1999 میں امریکا کی تمام تر توجہ وسط ایشیا پر مرکوز ہوئی تھی۔ عام لوگ اسے خطے میں روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا ردعمل سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ان تیل و گیس کے ذخائر کی کشش تھی جو بحیرۂ خزر اور اس کے اطراف میں موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ تیل کے ذخائر آذربائیجان میں ہیں جن کا اندازہ 3.7 ملین بیرل لگایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں بھی ذخائر موجود ہیں۔ وسائل کے اسی تناظر میں عرب اسرائیل جنگ کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس جھگڑے کی گہرائی میں تیل کے ساتھ ساتھ پانی بھی موجیں مارتا نظر آئے گا۔ اس خیال کی تائید لیبیا کے صدر معمر قذافی کا یہ بیان کرتا ہے،''عرب اب یہ جان گئے ہیں کہ دراصل اسرائیل ان کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور ان وسائل میں تیل کے ساتھ ساتھ پانی بھی شامل ہے۔''
بعدازاں جب مصر کے صدر انورالسادات نے دریائے نیل کے پانی کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت اسرائیل کو دینا چاہا تو یہ فیصلہ بالآخر ان کی حکومت لے ڈوبا۔ اس کے بعد بھی اسرائیل اکثروبیشتر زبانی ہی سہی مگر غزہ کی پٹی فلسطینیوں کو واپس دینے کا وعدہ کرتا رہتا ہے، مگر وہ بھول کر بھی گولان کی پہاڑیوں کا نام نہیں لیتا ہے، کیوںکہ غزہ کی پٹی میں پانی کے زیرزمین ذخائر بہت کم ہیں جب کہ گولان کی پہاڑیوں پر ہونے والی بارشوں کے پانی پر ہی اسرائیل کا دارو مدار ہے۔
مشرق وسطی کی تاریخ میں نہرسوئز بھی اسی شہرت کی حامل ہے۔ اس نہر پر اجارہ داری کے لیے مصر اور اسرائیل، فرانس، برطانیہ برسرپیکار رہے اور یہ تنازعہ ہزار ہا افراد کی جان لے کر رہا۔ چیچنیا کی جنگ کے دوران جو قتل و غارت گری ہوئی امریکا اسے روس کا اندرونی معاملہ قرار دے کر خاموش تماشائی بنا رہا لیکن جب امریکا نے افغانستان میں کشت و خون کا بازار گرم کیا تو روس نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔
یہ مسلم ممالک کو تباہ کرنے اور ان کے وسائل پر تصرف حاصل کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔70 کی دہائی کے آخر میں جب عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی تو اس وقت کے صدر جمی کارٹر نے کہا تھا،''خلیج فارس کے علاقے سے امریکا کو تیل کی سپلائی میں کسی نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اسے امریکا پر حملہ سمجھا جائے گا اور پھر ہمیں اختیار ہوگا کہ اس معاملے سے جس طرح چاہیں نمٹیں۔''
اگر ہم انسانی تاریخ کے 3000 سالوں پر نظر دوڑائیں تو صرف 300 سال ایسے ملیں گے جن میں انسانوں نے جنگ سے شوق نہیں فرمایا اور ان تین ہزار سالوں میں سب سے خطرناک بیسویں صدی تھی، جس نے انسان و حیوان سمیت ماحول کو بری طرح سے متاثر کیا۔ اسی صدی میں انسان نے ایٹم بم کا تجربہ کیا اور قیامت تک کے لیے اپنے اعمال میں سیاہ کاری لکھوالی۔
جنگ سے صرف انسانی جانوں ہی کا ضیاع نہیں ہوتا بل کہ ایک طویل عرصے تک زمین پر انسانیت کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے کے تقریباً سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پیدا ہونے والے بچے اس کے اثرات لے کر پیدا ہو رہے ہیں۔ کمبوڈیا، ویتنام، عراق، لبنان اور افغانستان، جنگوں کے اس تسلسل نے زمین پر انسان کا رہنا کس قدر دوبھر کر دیا ہے اس کا اندازہ عام انسان کو ہو ہی نہیں سکتا۔ بھاری اسلحے کے استعمال سے قدرت کا قائم کردہ ماحولیاتی توازن انتہائی بگاڑ کا شکار ہوگیا ہے۔ موسم بگڑ کر رہ گئے ہیں۔
انسانی ہوس نے سمندروں کو بھی نہیں بخشا، نیوی کی مشقیں اور سمندر کے بیچ جزیروں پر Testingنے سمندری ماحول کو تباہ کردیا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ 1992میں جب مشرقی جرمنی سے سوویت افواج نے انخلا شروع کیا تو 15لاکھ ٹن اسلحے کو کھلی فضا میں جلایا گیا۔ امریکا میں اب بھی 20 ہزار مقامات پر 30 ہزار ٹن کیمیائی ہتھیار موجود ہیں، جو کسی بھی وقت کسی بھیانک حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے 65 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
امریکا میں ایک کار سال بھر میں جس قدر ایندھن جلا کر فضا میں زہریلی گیس خارج کرتی ہے، جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا ایف سولہ طیارہ صرف ایک گھنٹے میں اتنا ایندھن جلا کر فضا کو زہریلی گیسوں سے آلودہ کر دیتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہیوی بم گرانے سے وہاں کا درجۂ حرارت 3ہزار سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف اطراف کا تنوع تباہ و برباد ہوجاتا ہے بل کہ وہاں کی زرخیز مٹی بھی تباہ ہوجاتی ہے، جسے دوبارہ زرخیز ہونے میں سیکڑوں اور بعض اوقات ہزار سال سے زاید کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ بل کہ اس کی جنگ کے دوران نیٹو کے طیاروں نے بلغراد کی ایک کیمیکل فیکٹری پر بم باری کی جس میں سے کلورین، ایتھین، ڈائی کلورائڈ جیسی گیسوں کا اخراج ہوا۔ یہ گیسیں انسان، جانور اور فضا و ماحول کے لیے انتہائی مضر اثرات کی حامل ہیں۔
میرین پلوشن بلیٹن کی ایک رپورٹ کے مطابق 19سے 26 جنوری 1991کے دوران 6 سے8 ملین بیرل خام تیل خلیج کے پانیوں میں شامل ہوا۔ یہ تیل خلیج کی جنگ میں ڈوبنے والے تیل بردار جہازوں سے خارج ہوا۔ اس کی وجہ سے 30 ہزار سمندری پرندے ہلاک ہوئے۔ خلیج فارس کے 30 فی صد تیمر کے جنگلات برباد ہوئے اور 50 فی صد مونگے کی چٹانوں کو نقصان پہنچا۔
صدام حسین نے کویت سے پسپا ہوتے ہوئے کویت کی تیل کی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان تنصیبات سے روزانہ 5سے6 ملین بیرل تیل جلا اور ہزاروں ٹن روزانہ کاربن ڈائی آکسائڈ اور سلفر ڈائی آکسائڈ (یہ تیزابی بارش کے ابتدائی عناصر ہیں) فضا میں خارج ہوئے۔ خلیج کی جنگ کے خاتمے کے بعد ایران اور سعودی عرب میں سیاہ اور مٹیالے رنگ کی بارشیں ہوئیں اور کشمیر کے کچھ حصوں میں سیاہ رنگ کی برف باری بھی ہوئی۔
آئیے اب ذرا قریب سے دیکھتے ہیں کہ امریکا کے جنگی جنون کو پاکستان کس طرح بھگت رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق عراق اور پھر افغانستان کی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تباہی صرف ان دو ملکوں تک محدود نہیں بل کہ اس کے نقصانات کا دائرہ پڑوسی ممالک پاکستان، ایران، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر جنوبی ایشیا میں بنگلادیش تک پھیلا ہوا ہے۔
افغانستان میں امریکا کی کارپٹ بم باری کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ کارپٹ بم باری سے مراد انتہائی اعلیٰ قوت کے حامل ایسے روایتی اور بغیر گائیڈ گولے برسانا ہے جن کا بنیادی مقصد 1تا ڈیڑھ کلومیٹر چوڑے اور 14سے18کلومیٹر لمبے رقبے پر ہر چیز کو تہس نہس کردینا ہوتا ہے، جس سے لامحالہ انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نقصانات بھی وسیع پیمانے پر ہوتے ہیں۔ اس بم باری سے دھوئیں اور گرد کے پہاڑ بن جاتے ہیں۔
گرد کا بڑا حصہ تو کچھ دیر بعد بیٹھ جاتا ہے لیکن باریک گرد اور دھواں کافی عرصے تک فضا میں رہنے کے بعد ہواؤں کے ذریعے دور دراز علاقوں میں جا پہنچتا ہے۔ اس بم باری سے زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں واقع ارضیاتی پرتوں میں تبدیلی سے تیل کی موجودگی والے علاقے متاثر ہوسکتے ہیں، کیوںکہ ان بم زدہ علاقوں کی کیمیائی ساخت میں تبدیلی ہوچکی ہے۔
افغانستان جنگ سے خطّے کے موسم بھی انتہائی بے ترتیب ہوچکے ہیں۔ ان جنگوں سے بڑے پیمانے پر جنگلات بھی متاثر ہوئے جس سے مون سونی نظام میں بھی خلل واقع ہوا۔ افغانستان کی جنگ میں سردیوں کے موسم میں جب بارشوں کا نظام مشرق کی سمت میں سفر کرتا ہے تو اس موقع پر جنگ کے اثرات نے مشرق کی سمت میں پاکستان اور اس کے پڑوسی علاقوں میں سوائے جنوب اور وسطی ایشیا کے سب کو متاثر کیا اور متاثرہ ہواؤں نے ایک ہفتے کے اندر ان آلودہ بادلوں کو نصف دنیا میں پھیلا دیا۔ مون سون کے نظام میں اس تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمالیہ کے جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ماہرین موسمیات کہتے ہیں کہ مون سون سسٹم کے مغربی حصّے کی شدت میں کمی آجانے سے اس سسٹم میں موجود مرطوب ہوائیں سردی کے موسم میں پاکستان کے مغربی اور اور شمال مغربی حصوں میں ربیع کی فصل کے لیے نہ پہنچ سکی تھیں جب کہ سردی کے موسم میں عموماً 6 یا6 سے زاید طوفان پاکستان سے گزرتے ہیں، جن مین پامیر اور افغانستان میں بنے والے زیادہ دباؤ کے باعث بارشیں بھی ہوتی ہیں، لیکن اب کچھ سال سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔ بارشوں کی کمی سے گندم کا ہدف بھی متاثر ہوا ہے۔
آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے معیشت پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں اور اس سے خصوصی طور زرعی سرگرمیاں اُس وقت متاثر ہوتی ہیں جب پانی کی دست یابی کم ہوجائے۔ پانی کی کمی سے زیر زمین بھی پانی کم ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگ خشک سالی کے دنوں میں ٹیوب ویل سے بھی استفادہ نہیں کرسکتے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت کی ایک وجہ پڑوس میں ہونے والی جنگوں سے موسموں کی تبدیلی بھی ہے۔ اس کے علاوہ 1980میں پہلی مرتبہ افغان مہاجرین کی آمد سے جنگلات کا رقبہ متاثر ہوا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔
اگر حالیہ صورت حال کو دیکھیں تو موسمیاتی تبدیلیوں نے کرۂ ارض کو پہلے ہی خطرے دوچار کردیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے IPCC کی تازہ رپورٹ بھی مندرجہ نتائج کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے مطابق سائنس دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب اس بات پر متفق ہے کہ موسموں میں جو تبدیلیاں اور بے ترتیبی پیدا ہو رہی ہے اور اس کی و جہ وہ انسانی سرگرمیاں ہیں جن کے نتیجے میں کاربن گیس کا اخراج ہوتا ہے۔
یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں زرعی پیداوار میں کمی، خشک سالی، سیلابوں اور طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ، سمندر کی سطح اور پانی میں تیزابیت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان معلومات کے باوجود 1970 سے لے کر2010 تک ایسی تمام انسانی سرگرمیاں جاری رہیں جن سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ 2000 سے لے کر2010 تک کی دہائی میں ہوا ہے۔
عالمی طاقتیں جنگوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے باخبر ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ ان کی یہ خاموشی مجرمانہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں جنگوں سے ہونے والے نقصانات کا تفصیلی جائزہ لے کر اسے دنیا بھر میں پیش کیا جائے، تاکہ سبھی کی توجہ اس طرف مبذول ہو اور ہندوستان پر اس کی جنگی پالیسی کے حوالے سے دباؤ بڑھایا جائے۔
اگرچہ 1992میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماحولیات کے حوالے سے ایک قرارداد بھی پیش کی گئی ہے کہ ''دورانِ جنگ ماحولیات کا تحفظ کیا جائے'' اور اس قرارداد کے آگے درج تھا کہ '' ماحول کی تباہی کو عسکری ضرورت نہیں کہا جاسکتا اور ایسی بے توجہی واضع طور پر عالمی قوانین کے خلاف ہوگی۔''
اسی طرح ہلال احمر کی بین الاقوامی کمیٹی نے 1983اور1994میں دوران جنگ ماحولیات کے تحفظ کے لیے راہ نما اصول متعین کیے تھے جنہیں فوجی مینوئل میں شامل کیا گیا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرفہرست رہ کر خود کو عالمی توجہ کا مرکز بنا چکا ہے اور اب ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوستان کی اس کھلی دہشت گردی کے خلاف بھی اُسے آواز اُٹھانا چاہیے۔ ہوسکتا ہے اس آواز میں ہمارے ساتھ دنیا کی آواز بھی شامل ہوجائے۔
دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور کسی جنگ کی صورت میں جو تباہی پھیلے گی اسے تصور کی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ جنگ کی صورت میں انسان اور ماحول کی تباہی لازم و ملزوم ہے۔ اس خطے سے شاید انسان اور حیوان کا وجود ہی مٹ جائے۔
اس وقت موسمیاتی تغیر جس طرح کرۂ ارض کی تباہی کے درپے ہیں اور پاکستان جس طرح اس خطرے سے دوچار ممالک میں سرفہرست ہے اور ہندوستان کے عوام جس غربت اور بدحالی سے دوچار ہیں، اسے دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں اچھے پڑوسیوں کی طرح ہاتھ میں ہاتھ دیے غربت بدحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہوتے لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ کسی بڑی یا چھوٹی جنگ کا خمیازہ دونوں طرف کے عوام مزید بدحالی، غربت اور موسمیاتی خطرات کی صورت میں بھگتیں گے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب کی جنگوں میں انسانیت اور قدرتی ماحول کو کیا کیا نقصانات پہنچتے رہے ہیں۔
اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 21 ویں صدی میں جنگوں کا مقصد سیاسی بالا دستی نہیں بلکہ صرف اور صرف دوسرے ممالک کے وسائل پر تصرف حاصل کرنا ہے۔ یہ وسائل زرخیز زمینوں کی صورت ہوں یا تیل اور پانی کی صورت۔
ماضی قریب اور موجود میں تمام جنگیں وسائل کے حصول کے لیے ہوئی تھیں اور آئندہ بھی ہوسکتی ہیں۔ بڑے ممالک چھوٹے ممالک کو تر نوالہ سمجھ کر نگل لینا چاہتے ہیں۔ عسکری ماہرین کے مطابق اکتوبر 1999 میں امریکا کی تمام تر توجہ وسط ایشیا پر مرکوز ہوئی تھی۔ عام لوگ اسے خطے میں روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا ردعمل سمجھتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ان تیل و گیس کے ذخائر کی کشش تھی جو بحیرۂ خزر اور اس کے اطراف میں موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ تیل کے ذخائر آذربائیجان میں ہیں جن کا اندازہ 3.7 ملین بیرل لگایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان میں بھی ذخائر موجود ہیں۔ وسائل کے اسی تناظر میں عرب اسرائیل جنگ کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس جھگڑے کی گہرائی میں تیل کے ساتھ ساتھ پانی بھی موجیں مارتا نظر آئے گا۔ اس خیال کی تائید لیبیا کے صدر معمر قذافی کا یہ بیان کرتا ہے،''عرب اب یہ جان گئے ہیں کہ دراصل اسرائیل ان کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور ان وسائل میں تیل کے ساتھ ساتھ پانی بھی شامل ہے۔''
بعدازاں جب مصر کے صدر انورالسادات نے دریائے نیل کے پانی کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت اسرائیل کو دینا چاہا تو یہ فیصلہ بالآخر ان کی حکومت لے ڈوبا۔ اس کے بعد بھی اسرائیل اکثروبیشتر زبانی ہی سہی مگر غزہ کی پٹی فلسطینیوں کو واپس دینے کا وعدہ کرتا رہتا ہے، مگر وہ بھول کر بھی گولان کی پہاڑیوں کا نام نہیں لیتا ہے، کیوںکہ غزہ کی پٹی میں پانی کے زیرزمین ذخائر بہت کم ہیں جب کہ گولان کی پہاڑیوں پر ہونے والی بارشوں کے پانی پر ہی اسرائیل کا دارو مدار ہے۔
مشرق وسطی کی تاریخ میں نہرسوئز بھی اسی شہرت کی حامل ہے۔ اس نہر پر اجارہ داری کے لیے مصر اور اسرائیل، فرانس، برطانیہ برسرپیکار رہے اور یہ تنازعہ ہزار ہا افراد کی جان لے کر رہا۔ چیچنیا کی جنگ کے دوران جو قتل و غارت گری ہوئی امریکا اسے روس کا اندرونی معاملہ قرار دے کر خاموش تماشائی بنا رہا لیکن جب امریکا نے افغانستان میں کشت و خون کا بازار گرم کیا تو روس نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔
یہ مسلم ممالک کو تباہ کرنے اور ان کے وسائل پر تصرف حاصل کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔70 کی دہائی کے آخر میں جب عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی تو اس وقت کے صدر جمی کارٹر نے کہا تھا،''خلیج فارس کے علاقے سے امریکا کو تیل کی سپلائی میں کسی نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اسے امریکا پر حملہ سمجھا جائے گا اور پھر ہمیں اختیار ہوگا کہ اس معاملے سے جس طرح چاہیں نمٹیں۔''
اگر ہم انسانی تاریخ کے 3000 سالوں پر نظر دوڑائیں تو صرف 300 سال ایسے ملیں گے جن میں انسانوں نے جنگ سے شوق نہیں فرمایا اور ان تین ہزار سالوں میں سب سے خطرناک بیسویں صدی تھی، جس نے انسان و حیوان سمیت ماحول کو بری طرح سے متاثر کیا۔ اسی صدی میں انسان نے ایٹم بم کا تجربہ کیا اور قیامت تک کے لیے اپنے اعمال میں سیاہ کاری لکھوالی۔
جنگ سے صرف انسانی جانوں ہی کا ضیاع نہیں ہوتا بل کہ ایک طویل عرصے تک زمین پر انسانیت کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ جاپان پر ایٹم بم گرانے کے تقریباً سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پیدا ہونے والے بچے اس کے اثرات لے کر پیدا ہو رہے ہیں۔ کمبوڈیا، ویتنام، عراق، لبنان اور افغانستان، جنگوں کے اس تسلسل نے زمین پر انسان کا رہنا کس قدر دوبھر کر دیا ہے اس کا اندازہ عام انسان کو ہو ہی نہیں سکتا۔ بھاری اسلحے کے استعمال سے قدرت کا قائم کردہ ماحولیاتی توازن انتہائی بگاڑ کا شکار ہوگیا ہے۔ موسم بگڑ کر رہ گئے ہیں۔
انسانی ہوس نے سمندروں کو بھی نہیں بخشا، نیوی کی مشقیں اور سمندر کے بیچ جزیروں پر Testingنے سمندری ماحول کو تباہ کردیا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ 1992میں جب مشرقی جرمنی سے سوویت افواج نے انخلا شروع کیا تو 15لاکھ ٹن اسلحے کو کھلی فضا میں جلایا گیا۔ امریکا میں اب بھی 20 ہزار مقامات پر 30 ہزار ٹن کیمیائی ہتھیار موجود ہیں، جو کسی بھی وقت کسی بھیانک حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے 65 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
امریکا میں ایک کار سال بھر میں جس قدر ایندھن جلا کر فضا میں زہریلی گیس خارج کرتی ہے، جنگی مقاصد کے لیے بنایا گیا ایف سولہ طیارہ صرف ایک گھنٹے میں اتنا ایندھن جلا کر فضا کو زہریلی گیسوں سے آلودہ کر دیتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہیوی بم گرانے سے وہاں کا درجۂ حرارت 3ہزار سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف اطراف کا تنوع تباہ و برباد ہوجاتا ہے بل کہ وہاں کی زرخیز مٹی بھی تباہ ہوجاتی ہے، جسے دوبارہ زرخیز ہونے میں سیکڑوں اور بعض اوقات ہزار سال سے زاید کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ بل کہ اس کی جنگ کے دوران نیٹو کے طیاروں نے بلغراد کی ایک کیمیکل فیکٹری پر بم باری کی جس میں سے کلورین، ایتھین، ڈائی کلورائڈ جیسی گیسوں کا اخراج ہوا۔ یہ گیسیں انسان، جانور اور فضا و ماحول کے لیے انتہائی مضر اثرات کی حامل ہیں۔
میرین پلوشن بلیٹن کی ایک رپورٹ کے مطابق 19سے 26 جنوری 1991کے دوران 6 سے8 ملین بیرل خام تیل خلیج کے پانیوں میں شامل ہوا۔ یہ تیل خلیج کی جنگ میں ڈوبنے والے تیل بردار جہازوں سے خارج ہوا۔ اس کی وجہ سے 30 ہزار سمندری پرندے ہلاک ہوئے۔ خلیج فارس کے 30 فی صد تیمر کے جنگلات برباد ہوئے اور 50 فی صد مونگے کی چٹانوں کو نقصان پہنچا۔
صدام حسین نے کویت سے پسپا ہوتے ہوئے کویت کی تیل کی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان تنصیبات سے روزانہ 5سے6 ملین بیرل تیل جلا اور ہزاروں ٹن روزانہ کاربن ڈائی آکسائڈ اور سلفر ڈائی آکسائڈ (یہ تیزابی بارش کے ابتدائی عناصر ہیں) فضا میں خارج ہوئے۔ خلیج کی جنگ کے خاتمے کے بعد ایران اور سعودی عرب میں سیاہ اور مٹیالے رنگ کی بارشیں ہوئیں اور کشمیر کے کچھ حصوں میں سیاہ رنگ کی برف باری بھی ہوئی۔
آئیے اب ذرا قریب سے دیکھتے ہیں کہ امریکا کے جنگی جنون کو پاکستان کس طرح بھگت رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق عراق اور پھر افغانستان کی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی ماحولیاتی تباہی صرف ان دو ملکوں تک محدود نہیں بل کہ اس کے نقصانات کا دائرہ پڑوسی ممالک پاکستان، ایران، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر جنوبی ایشیا میں بنگلادیش تک پھیلا ہوا ہے۔
افغانستان میں امریکا کی کارپٹ بم باری کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ کارپٹ بم باری سے مراد انتہائی اعلیٰ قوت کے حامل ایسے روایتی اور بغیر گائیڈ گولے برسانا ہے جن کا بنیادی مقصد 1تا ڈیڑھ کلومیٹر چوڑے اور 14سے18کلومیٹر لمبے رقبے پر ہر چیز کو تہس نہس کردینا ہوتا ہے، جس سے لامحالہ انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نقصانات بھی وسیع پیمانے پر ہوتے ہیں۔ اس بم باری سے دھوئیں اور گرد کے پہاڑ بن جاتے ہیں۔
گرد کا بڑا حصہ تو کچھ دیر بعد بیٹھ جاتا ہے لیکن باریک گرد اور دھواں کافی عرصے تک فضا میں رہنے کے بعد ہواؤں کے ذریعے دور دراز علاقوں میں جا پہنچتا ہے۔ اس بم باری سے زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں واقع ارضیاتی پرتوں میں تبدیلی سے تیل کی موجودگی والے علاقے متاثر ہوسکتے ہیں، کیوںکہ ان بم زدہ علاقوں کی کیمیائی ساخت میں تبدیلی ہوچکی ہے۔
افغانستان جنگ سے خطّے کے موسم بھی انتہائی بے ترتیب ہوچکے ہیں۔ ان جنگوں سے بڑے پیمانے پر جنگلات بھی متاثر ہوئے جس سے مون سونی نظام میں بھی خلل واقع ہوا۔ افغانستان کی جنگ میں سردیوں کے موسم میں جب بارشوں کا نظام مشرق کی سمت میں سفر کرتا ہے تو اس موقع پر جنگ کے اثرات نے مشرق کی سمت میں پاکستان اور اس کے پڑوسی علاقوں میں سوائے جنوب اور وسطی ایشیا کے سب کو متاثر کیا اور متاثرہ ہواؤں نے ایک ہفتے کے اندر ان آلودہ بادلوں کو نصف دنیا میں پھیلا دیا۔ مون سون کے نظام میں اس تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمالیہ کے جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ماہرین موسمیات کہتے ہیں کہ مون سون سسٹم کے مغربی حصّے کی شدت میں کمی آجانے سے اس سسٹم میں موجود مرطوب ہوائیں سردی کے موسم میں پاکستان کے مغربی اور اور شمال مغربی حصوں میں ربیع کی فصل کے لیے نہ پہنچ سکی تھیں جب کہ سردی کے موسم میں عموماً 6 یا6 سے زاید طوفان پاکستان سے گزرتے ہیں، جن مین پامیر اور افغانستان میں بنے والے زیادہ دباؤ کے باعث بارشیں بھی ہوتی ہیں، لیکن اب کچھ سال سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔ بارشوں کی کمی سے گندم کا ہدف بھی متاثر ہوا ہے۔
آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے معیشت پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں اور اس سے خصوصی طور زرعی سرگرمیاں اُس وقت متاثر ہوتی ہیں جب پانی کی دست یابی کم ہوجائے۔ پانی کی کمی سے زیر زمین بھی پانی کم ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگ خشک سالی کے دنوں میں ٹیوب ویل سے بھی استفادہ نہیں کرسکتے۔ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت کی ایک وجہ پڑوس میں ہونے والی جنگوں سے موسموں کی تبدیلی بھی ہے۔ اس کے علاوہ 1980میں پہلی مرتبہ افغان مہاجرین کی آمد سے جنگلات کا رقبہ متاثر ہوا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔
اگر حالیہ صورت حال کو دیکھیں تو موسمیاتی تبدیلیوں نے کرۂ ارض کو پہلے ہی خطرے دوچار کردیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے IPCC کی تازہ رپورٹ بھی مندرجہ نتائج کی تصدیق کرتی ہے۔ اس کے مطابق سائنس دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب اس بات پر متفق ہے کہ موسموں میں جو تبدیلیاں اور بے ترتیبی پیدا ہو رہی ہے اور اس کی و جہ وہ انسانی سرگرمیاں ہیں جن کے نتیجے میں کاربن گیس کا اخراج ہوتا ہے۔
یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں زرعی پیداوار میں کمی، خشک سالی، سیلابوں اور طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ، سمندر کی سطح اور پانی میں تیزابیت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان معلومات کے باوجود 1970 سے لے کر2010 تک ایسی تمام انسانی سرگرمیاں جاری رہیں جن سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ 2000 سے لے کر2010 تک کی دہائی میں ہوا ہے۔
عالمی طاقتیں جنگوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے باخبر ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ ان کی یہ خاموشی مجرمانہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں جنگوں سے ہونے والے نقصانات کا تفصیلی جائزہ لے کر اسے دنیا بھر میں پیش کیا جائے، تاکہ سبھی کی توجہ اس طرف مبذول ہو اور ہندوستان پر اس کی جنگی پالیسی کے حوالے سے دباؤ بڑھایا جائے۔
اگرچہ 1992میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماحولیات کے حوالے سے ایک قرارداد بھی پیش کی گئی ہے کہ ''دورانِ جنگ ماحولیات کا تحفظ کیا جائے'' اور اس قرارداد کے آگے درج تھا کہ '' ماحول کی تباہی کو عسکری ضرورت نہیں کہا جاسکتا اور ایسی بے توجہی واضع طور پر عالمی قوانین کے خلاف ہوگی۔''
اسی طرح ہلال احمر کی بین الاقوامی کمیٹی نے 1983اور1994میں دوران جنگ ماحولیات کے تحفظ کے لیے راہ نما اصول متعین کیے تھے جنہیں فوجی مینوئل میں شامل کیا گیا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرفہرست رہ کر خود کو عالمی توجہ کا مرکز بنا چکا ہے اور اب ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوستان کی اس کھلی دہشت گردی کے خلاف بھی اُسے آواز اُٹھانا چاہیے۔ ہوسکتا ہے اس آواز میں ہمارے ساتھ دنیا کی آواز بھی شامل ہوجائے۔