پیسے کے پیچھے
اردو، ہندی اور پنجابی کا لفظ ’’پیسہ‘‘ بہت قدیم لفظ ہے۔ لغات اس کا سنسکرت ماخذ فراہم کرتی ہیں۔
NEW DELHI:
شاعر نے کہا تھا:
ذکر چھڑ گیا جب قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
معروف صحافی اور دانشور خالد احمد نے اپنے اس مضمون میں لفظ ''پیسہ'' کا ذکر چھیڑا ہے اور پھر بات کہاں کہاں تک پہنچی، یہ آپ خود ملاحظہ کرلیں۔
اردو، ہندی اور پنجابی کا لفظ ''پیسہ'' بہت قدیم لفظ ہے۔ لغات اس کا سنسکرت ماخذ فراہم کرتی ہیں۔ میں اس خیال سے اختلاف کرتا ہوں کہ یہ پرتگیزی ''پیسیٹا'' (Peseta)، جوخودسپینی ''پیسو'' (Peso) کی تخفیف ہے، کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ جنوبی ایشیا میں ''پیسہ'' نامعلوم زمانے سے ''دولت'' کے معنوںمیں استعمال ہو رہا ہے۔ آج یہ کرنسی کا ایک یونٹ یعنی روپے کا سوواں حصہ ہے۔ کئی اطالوی سپینی لفظوں، مثلاً ''پائسترے'' (Piastre) سے متعلق لغات کہتی ہیں کہ یہ کبھی مشرق قریب میں مستعمل تھے۔
''پیسو'' کا لاطینی مادہ ''پنڈیرے'' (Pendere) یعنی ''وزن کرنا'' ہے۔ چونکہ وزن کرنے کے لیے چیزوں کو لٹکایا جاتا تھا لہٰذا اس کا ایک مطلب ''لٹکانا'' بھی ہے۔ ان دونوں تصورات کے ملاپ یعنی ''لٹکا کر وزن کرنا'' کے لیے ایک دوسرا لفظ ''پونڈیرے'' (Pon-dere) بھی ہے۔ ان دونوں نے کئی لفظ جنم دیئے۔
''پنیڈیرے'' نے پنیڈنٹ (Pen-dent) پیدا کیا جس کا مطلب ''زیور'' ہے جو ''لٹکتا'' ہے۔ اسی طرح Pensive ''تفکر کرنے والا'' ہے جو اپنے ذہن میں خیالات کو ''تولتا'' رہتا ہے۔ ''پونڈیرے'' نے Ponder یعنی ''غور و فکر کرنا'' جیسا لفظ بنایا۔ Preponderant یعنی ''مزید تولنا'' بھی اسی سے نکلا ہے۔ پھر برطانوی کرنسی ''پاؤنڈ'' بالکل سامنے کی چیز ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانسیسی نے ''پونڈیرے'' اور ''پینڈیرے'' میں امتیاز قائم رکھا ہے۔ یہاں ''Pondre'' کا مطلب تو ''لٹکانا'' ہی ہے تاہم Pandre اور Penser کو الگ الگ کردیا گیا۔ ''پینسر'' کا مطلب ''وزن کرنا'' ہے۔ یہ سپینی ''پیسو'' (پیسہ) سے مشابہہ ہے۔ یعنی اس تمام عمل کے دوران ایک حرف ''ن'' (N) کا اخراج ہوا۔
میرے خیال میں اردو ''پیسہ'' کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ یہاں بھی قدرتی عمل کے ذریعے ''ن'' غائب ہوگیا۔ اردو ''کریانہ فروش'' کو ''پنساری'' بھی کہتی ہے۔ میرے نزدیک اس کا مادہ ''پنس'' (Pins) ہے اور اس کا ماخذ تصور ''تولنے'' کا عمل ہے۔ ''پنساری'' خوردنی اشیا مثلاً مصالحے وغیرہ ترازو پر ''تولتا'' ہے اور فروخت کرتا ہے۔
رگ وید میں ایک طبقہ ''پانی'' مذکور ہے۔ یہ روپیہ قرض دینے والے لوگ تھے۔ ہڑپہ اور بابل کے درمیان ہونے والی تجارت کا تمام تر دارومدار انہی پر تھا۔ آریا اس طبقہ سے نفرت کرتے تھے اور انہیں ''لعنتی'' پکارتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لالچی لوگ تجارت کے لیے بھیجی جانے والی کشیوں سے اپنی قوت حاصل کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس حقارت کا سبب ''پانیوں'' کی مالی قوت ہو۔
آریاؤں کے غلبہ کے بعد بھی دولت کے مالک یہی ''پانی'' تھے لہٰذا آریا خود کو بے بس محسوس کرتے تھے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ''پیسہ'' تولنے کے عمل سے نکلا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ''پنساری'' اور ''پانی'' کا مادہ بھی مشترک ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ انگریزی Pension اسی عمل کی نشانی ہے جس نے ''پیسو'' تخلیق کیا۔
''پیسے'' کی تاریخ بھی نرالی ہے۔ لاطینی ''پیکو'' کے معنی ''مویشی'' ہیں۔ لیکن اس سے نکلنے والے ایک لفظ Pecuniary کا مطلب ''پیسہ سے متعلق'' ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ آریا کسی زمانے میں مویشیوں کو کرنسی کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ لاطینی عمل سنسکرت میں بھی ہوا ہو۔ یہاں بھی ''پیسہ'' مویشی کے لیے بولے جانے والے لفظ ''پشو'' سے نکلا ہو۔ ''روپیہ'' کو ''ٹکا'' بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضرب لگانے کا عمل ہے۔ (پنجابی میں ''ٹک لگانا'' دراصل ضرب لگانا ہے)۔
زمانہ قدیم کے ٹکسالوں میں سکہ ڈھالنے کے لیے ضرب لگائی جاتی تھی۔ ''روپیہ'' کی ایک شکل ''روپلی'' بھی ہے جو روسی ''روبل'' سے مماثل ہے۔ ''روبل'' کا مطلب دیکھیے۔ ''ایک ایسی چیز جسے ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ہو۔'' بنگالی روپیہ کو ''ٹکا'' ہی کہتے ہیں۔ ہم نے ''ٹکسال'' تو قائم رکھا ہے لیکن ''روپیہ'' سے اس کا تعلق نہیں جوڑ پاتے۔
''پاؤنڈ'' کی کہانی یہ ہے کہ یہ بنا تو ''تولنے'' (Pondere) سے تھا لیکن بعدازاں اس میں ''ضرب لگانے'' کا پہلو بھی آگیا۔ سکوں پر کندہ کاری کے لیے بھاری ہتھوڑے سے ضرب لگانا ضروری تھا۔ لہٰذا یہ لفظ (پاؤنڈ) ''خاص انداز میں ضرب لگانے'' کے لیے بھی مستعمل ہوگیا۔ اگر آپ کسی شے کو ''سفوف'' بنانا چاہتے ہیں (اس کے انگریزی متبادل Powder کی صورت اور صوت پر غور کریں) تو پہلے اسے Pound کرنا ہوگا۔
ہمارا اردو لفظ ''پیسنا'' بھی ''پیسہ'' ''پنساری'' کی ایک کڑی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ''ن'' غائب ہوگیا۔ اور سکوں پر ضرب لگانے کا عمل ایک دوسرے فعل کی تخلیق کا موجب بن گیا۔
شاعر نے کہا تھا:
ذکر چھڑ گیا جب قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
معروف صحافی اور دانشور خالد احمد نے اپنے اس مضمون میں لفظ ''پیسہ'' کا ذکر چھیڑا ہے اور پھر بات کہاں کہاں تک پہنچی، یہ آپ خود ملاحظہ کرلیں۔
اردو، ہندی اور پنجابی کا لفظ ''پیسہ'' بہت قدیم لفظ ہے۔ لغات اس کا سنسکرت ماخذ فراہم کرتی ہیں۔ میں اس خیال سے اختلاف کرتا ہوں کہ یہ پرتگیزی ''پیسیٹا'' (Peseta)، جوخودسپینی ''پیسو'' (Peso) کی تخفیف ہے، کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ جنوبی ایشیا میں ''پیسہ'' نامعلوم زمانے سے ''دولت'' کے معنوںمیں استعمال ہو رہا ہے۔ آج یہ کرنسی کا ایک یونٹ یعنی روپے کا سوواں حصہ ہے۔ کئی اطالوی سپینی لفظوں، مثلاً ''پائسترے'' (Piastre) سے متعلق لغات کہتی ہیں کہ یہ کبھی مشرق قریب میں مستعمل تھے۔
''پیسو'' کا لاطینی مادہ ''پنڈیرے'' (Pendere) یعنی ''وزن کرنا'' ہے۔ چونکہ وزن کرنے کے لیے چیزوں کو لٹکایا جاتا تھا لہٰذا اس کا ایک مطلب ''لٹکانا'' بھی ہے۔ ان دونوں تصورات کے ملاپ یعنی ''لٹکا کر وزن کرنا'' کے لیے ایک دوسرا لفظ ''پونڈیرے'' (Pon-dere) بھی ہے۔ ان دونوں نے کئی لفظ جنم دیئے۔
''پنیڈیرے'' نے پنیڈنٹ (Pen-dent) پیدا کیا جس کا مطلب ''زیور'' ہے جو ''لٹکتا'' ہے۔ اسی طرح Pensive ''تفکر کرنے والا'' ہے جو اپنے ذہن میں خیالات کو ''تولتا'' رہتا ہے۔ ''پونڈیرے'' نے Ponder یعنی ''غور و فکر کرنا'' جیسا لفظ بنایا۔ Preponderant یعنی ''مزید تولنا'' بھی اسی سے نکلا ہے۔ پھر برطانوی کرنسی ''پاؤنڈ'' بالکل سامنے کی چیز ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانسیسی نے ''پونڈیرے'' اور ''پینڈیرے'' میں امتیاز قائم رکھا ہے۔ یہاں ''Pondre'' کا مطلب تو ''لٹکانا'' ہی ہے تاہم Pandre اور Penser کو الگ الگ کردیا گیا۔ ''پینسر'' کا مطلب ''وزن کرنا'' ہے۔ یہ سپینی ''پیسو'' (پیسہ) سے مشابہہ ہے۔ یعنی اس تمام عمل کے دوران ایک حرف ''ن'' (N) کا اخراج ہوا۔
میرے خیال میں اردو ''پیسہ'' کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ یہاں بھی قدرتی عمل کے ذریعے ''ن'' غائب ہوگیا۔ اردو ''کریانہ فروش'' کو ''پنساری'' بھی کہتی ہے۔ میرے نزدیک اس کا مادہ ''پنس'' (Pins) ہے اور اس کا ماخذ تصور ''تولنے'' کا عمل ہے۔ ''پنساری'' خوردنی اشیا مثلاً مصالحے وغیرہ ترازو پر ''تولتا'' ہے اور فروخت کرتا ہے۔
رگ وید میں ایک طبقہ ''پانی'' مذکور ہے۔ یہ روپیہ قرض دینے والے لوگ تھے۔ ہڑپہ اور بابل کے درمیان ہونے والی تجارت کا تمام تر دارومدار انہی پر تھا۔ آریا اس طبقہ سے نفرت کرتے تھے اور انہیں ''لعنتی'' پکارتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لالچی لوگ تجارت کے لیے بھیجی جانے والی کشیوں سے اپنی قوت حاصل کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس حقارت کا سبب ''پانیوں'' کی مالی قوت ہو۔
آریاؤں کے غلبہ کے بعد بھی دولت کے مالک یہی ''پانی'' تھے لہٰذا آریا خود کو بے بس محسوس کرتے تھے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ''پیسہ'' تولنے کے عمل سے نکلا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ''پنساری'' اور ''پانی'' کا مادہ بھی مشترک ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ انگریزی Pension اسی عمل کی نشانی ہے جس نے ''پیسو'' تخلیق کیا۔
''پیسے'' کی تاریخ بھی نرالی ہے۔ لاطینی ''پیکو'' کے معنی ''مویشی'' ہیں۔ لیکن اس سے نکلنے والے ایک لفظ Pecuniary کا مطلب ''پیسہ سے متعلق'' ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ آریا کسی زمانے میں مویشیوں کو کرنسی کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ لاطینی عمل سنسکرت میں بھی ہوا ہو۔ یہاں بھی ''پیسہ'' مویشی کے لیے بولے جانے والے لفظ ''پشو'' سے نکلا ہو۔ ''روپیہ'' کو ''ٹکا'' بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضرب لگانے کا عمل ہے۔ (پنجابی میں ''ٹک لگانا'' دراصل ضرب لگانا ہے)۔
زمانہ قدیم کے ٹکسالوں میں سکہ ڈھالنے کے لیے ضرب لگائی جاتی تھی۔ ''روپیہ'' کی ایک شکل ''روپلی'' بھی ہے جو روسی ''روبل'' سے مماثل ہے۔ ''روبل'' کا مطلب دیکھیے۔ ''ایک ایسی چیز جسے ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ہو۔'' بنگالی روپیہ کو ''ٹکا'' ہی کہتے ہیں۔ ہم نے ''ٹکسال'' تو قائم رکھا ہے لیکن ''روپیہ'' سے اس کا تعلق نہیں جوڑ پاتے۔
''پاؤنڈ'' کی کہانی یہ ہے کہ یہ بنا تو ''تولنے'' (Pondere) سے تھا لیکن بعدازاں اس میں ''ضرب لگانے'' کا پہلو بھی آگیا۔ سکوں پر کندہ کاری کے لیے بھاری ہتھوڑے سے ضرب لگانا ضروری تھا۔ لہٰذا یہ لفظ (پاؤنڈ) ''خاص انداز میں ضرب لگانے'' کے لیے بھی مستعمل ہوگیا۔ اگر آپ کسی شے کو ''سفوف'' بنانا چاہتے ہیں (اس کے انگریزی متبادل Powder کی صورت اور صوت پر غور کریں) تو پہلے اسے Pound کرنا ہوگا۔
ہمارا اردو لفظ ''پیسنا'' بھی ''پیسہ'' ''پنساری'' کی ایک کڑی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ''ن'' غائب ہوگیا۔ اور سکوں پر ضرب لگانے کا عمل ایک دوسرے فعل کی تخلیق کا موجب بن گیا۔