میاں بیوی اور وہ
میاں بیوی کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ ہوتا ہے، یہ ڈور جتنی مضبوط ہوتی ہے اتنی نازک بھی
میاں بیوی کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ ہوتا ہے، یہ ڈور جتنی مضبوط ہوتی ہے اتنی نازک بھی۔ آج ذاتی تجربے کی بنیاد پر وہ واقعات سامنے آرہے ہیں کہ راقم کی زندگی میں ''وہ'' کون کون رہی ہیں۔ ان کا ذکر سامنے آنے پر کالم نگار کی اہلیہ کا کیا ردعمل رہا ہے۔ ایک درجن کے لگ بھگ خواتین ہیں جن کا تذکرہ ہوگا۔ شادی کو کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ کھانے پر کہاکہ ''آج ایک لڑکی کا فون آیا تھا'' سب گھر والے چونک گئے۔ یہ وہ دور تھا جب آتش جواں تھا اور کوچہ وکالت میں نیا نیا قدم رکھا تھا، جب کہا کہ خدیجہ کا فون آیا تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ میں کل آؤں گی۔
یہ سن کر سب گھر والے ہنسنے لگے اور والدہ مسکرانے لگیں کہ ان کی بیٹی کل آئیں گی۔ کچھ عرصہ ہوا تو لوگ اس واقعے کو بھول گئے اور ہم بھی بال بچوں والے ہوگئے، پھر کچھ وقت گزرا تو کہاکہ ایک لڑکی کا فون آیا تھا، اسے گاڑی میں ایک جگہ ڈراپ کرنا ہے۔ زیادہ دیر سسپنس رکھنا مناسب نہیں تھا۔ کہاکہ اس لڑکی کا نام صفیہ ہے، والد نے پوچھا کہ ٹھیک تو ہے نا ہماری صاحبزادی۔ جی بالکل یہ دو خواتین تو ہماری بہنیں تھیں۔ کچھ وقت گزرا تو 'ایک لڑکی کا فون آیا تھا' والا سلسلہ اتنا گھس پٹ گیا کہ بچے فوراً پوچھ لیتے کہ خدیجہ پھوپھو کا فون ہوگا یا صفیہ پھوپھو کا۔ چلیں اب مختلف عمروں کی آٹھ نو خواتین کا ذکر ہوجائے۔
جب موبائل فون نہ تھے تو کسی غیر عورت کا فون آجائے تو مرد حضرات پکڑے جاتے تھے۔ آج کل کے نوجوانوں کے تو مزے ہیں۔ جب عمر عزیز 30-32 سال کو پہنچی تو ایک خاتون کا گھر پر فون آیا۔ والدہ نے فون اٹھایا تو انھوں نے اپنا نام فریدہ بتایا۔ والدہ نے انھیں اوپر والا نمبر دیا اور انٹر کام پر کہاکہ کسی عورت کا فون آئے گا تمہارے لیے۔ جب خاتون سے بات مکمل کی تو پتا چلا کہ ہمارے ایک رشتے دار کے بارے میں معلومات حاصل کررہی تھیں، جن کی بیوی کا کچھ عرصے پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ جب فون رکھا تو دونوں خواتین نے پوچھا کہ خیریت۔ جواب دیا کہ رفیق صاحب کا رشتہ فریدہ صاحبہ کی بہن سے ڈالا گیا ہے، وہ پچاس باون سالہ لڑکے کے بارے میں معلومات حاصل کررہی تھیں۔
والدہ اور اہلیہ نے مل کر مردوں کے حوالے سے شکایات کے انبار لگادیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو رفیق کی بیوی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوگا، ان مردوں کو اپنی جوان بیٹیوں کی بھی کچھ شرم نہیں ہوتی، ابھی بیوی کو مرے سال بھر بھی نہیں ہوتا کہ بڈھے بڈھے مرد بھی شادیاں کرنے نکل پڑتے ہیں، انھیں بیوی کے ساتھ پچیس تیس برسوں کے ساتھ کا بھی کچھ احساس نہیں ہوتا۔ مردوں کی نمایندگی کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ کہی کہ شادی کرنے کو رفیق صاحب نکلے ہیں لیکن آپ دونوں خواتین مجھ پر اس طرح برس رہی ہیں جیسے میں شادی کرنے نکلا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی کی بیوی مرگئی ہے تو کیا شوہر کو بھی زندہ درگور کردیا جائے۔ تیسری بات یہ کہ اگر مرد شادی کرے گا تو ایک خاتون کا بھی گھر بس جائے گا۔ چوتھی بات یہ کہ مرد اکیلا تو رشتہ لے کر شادی کی منڈی میں نہیں آیا، دوسری جانب سے بھی نکاح کی کوئی نہ کوئی خواہش مند خاتون بھی موجود ہے۔ مردوں کی جانب سے اس وکالت نے دونوں خواتین کا غصہ ٹھنڈا کیا۔
جب عمر عزیز چالیس کے ہندسے کو چھو رہی تھی تو کسی لڑکی کے فون آنے کا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ کہنا پڑا کہ ایک نوجوان لڑکی کا فون آیا تھا، پھر ان کے نام فائزہ ، فرح اور مریم بتائے تو کوئی ٹس سے مس نہ ہوا کہ یہ ہماری بھانجیوں کے نام تھے۔ اسی طرح حلیمہ اور آمنہ کے فون آنے پر بھی کسی کے کان پر جون تک نہ رینگی کہ یہ ہماری بھتیجیوں کے نام تھے۔ چلیں انھیں چھوڑیں لیکن ثریا اور پھر عابدہ اور آخر میں نجمہ کا کیا کہیںگے جو بالکل غیر عورتیں تھیں۔ ایک مشہور خاتون، تو ایک دور کی رشتے دار، تو ایک لیڈی ایڈووکیٹ۔ اب بولیں۔
9/11 کے واقعے پر کراچی پریس کلب میں ایک پروگرام تھا۔ گھر والوں کو علم تھا کہ کہیں ہوکر آئے ہیں۔ تفصیل بتائی کہ اسٹیج پر تقریر کے بعد ایک خاتون میرے قریب آئیں، میں بھی ثریا نامی خاتون کے قریب بڑھا، وہ مزید قریب آئیں تو میں نے سر جھکادیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے شفقت سے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ''جیتے رہو بیٹا''۔ سارا سسپنس گھر والوں کا ختم ہوگیا اور شاید آپ کا بھی۔ اب عابدہ اور نجمہ کے دو واقعات رہ گئے ہیں، پہلے واقعے سے پتا چلتا ہے کہ اگر ایک مرد دو عورتوں کے درمیان صوفے پر بیٹھا ہو تو بھی اس کی بیگم کیوں اعتراض نہیں کرتی؟ یہ عابدہ کا قصہ ہے کہ بیوی معترض نہیں ہوتی، جب کہ نجمہ کے واقعے سے پتا چلتا ہے کہ شوہر کے نام اس کے دفتر کی کسی خاتون کا فون آئے تو بیوی کو کتنا برا لگتا ہے پہلے عابدہ اور پھر نجمہ۔
شادی کا کھانا خیریت سے نمٹ جائے تو تقریب کے بعد پچاس سو قریبی رشتے دار بڑے خوشگوار موڈ میں باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں عابدہ کے شوہر دو خواتین کے درمیان ایک صوفے پر بیٹھے تھے لیکن بیگم کے چہرے پر کوئی ناگواری نہ تھی، میں نے اپنی رشتے دار عابدہ خاتون سے کہاکہ فاروق بھائی دو خواتین کے درمیان بیٹھے ہیں اور آپ برداشت کررہی ہیں کہ دونوں ان کی سگی بہنیں ہیں۔ فاروق اور عابدہ اس جملے پر خاموشی سے مسکراتے رہے لیکن ان کے بھائی انور نے کہاکہ ہمارا بھائی بڑا شریف آدمی ہے۔ یہ ہے انسانی نفسیات اور یہ ہے میاں بیوی کے رشتے میں محبت و اعتماد کا جذبہ۔ نجمہ ایڈووکیٹ کا واقعہ آخری واقعہ ہے کہ بیوی کے اپنے شوہر کے بارے میں جذبات کتنے نازک ہوتے ہیں، یقین جانیے اتنی طویل تمہید صرف نجمہ کے اس واقعے کے بیان کرنے کی خاطر تھی۔
نجمہ ایک شادی شدہ خاتون وکیل ہیں۔ موبائل فون کی آمد سے قبل لوگ صرف قابل اعتماد اور جاننے والوں کو گھر کا نمبر دیا کرتے تھے، ہمارے نمبر ایک دوسرے کے پاس تھے کہ ایک فیملی کیس میں ہم میاں بیوی کے خلع کے مقدمے میں وکلا تھے۔ ایک دن گھر پر نجمہ کا فون آیا تو بیگم نے اٹھایا اور مجھے دیا۔ وہ اگلے دن کے مقدمے میں صلح کے لیے اپنی شرائط بیان کررہی تھیں۔ یوں دوسرے دن مقدمہ خیریت سے نمٹ گیا اور جوڑا ہنسی خوشی ساتھ رہنے پر رضامند ہوگیا۔ پاک و ہند کی فلموں کی طرح عدالتی کارروائی کے دوران نجمہ نے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ ''سوری، میں نے آپ کے گھر فون کیا، آپ کی وائف کو برا تو نہیں لگا''۔ نجمہ سے کہاکہ بیگم کے چہرے پر تھوڑی سی ناگواری تھی۔
اب وکیل صاحبہ کے جوابات ہی کالم کا حاصل بھی ہے اور میاں بیوی کی نفسیات کا نچوڑ بھی۔ نجمہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ میرے شوہر ڈاکٹر ہیں اور میرے گھر مرد کولیگز کے فون آتے ہیں کہ میرے خاوند نے اجازت دی ہے اور کوئی برا بھی نہیں مانتا لیکن جب لیڈی ڈاکٹرز اور نرسوں کے فون میرے شوہر کے لیے آتے ہیں تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ یہ ہے نفسیات ایک وفا شعار اور محبت کرنے والی مشرقی بیوی کی، گھر بار اور شوہر و بچوں پر مر مٹنے والی عورت کی۔ ہم اسے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔ اب شوہروں کو ایسی بیویوں کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟ میاں کو بے شک میاؤں بن کر ہی سہی، بیویوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔
شوہر کے دفتر میں خواتین ہوں تو ان سے تعلق کی نوعیت ایک حد میں ہونی چاہیے، بٹوے یا موبائل فون پر پورے گھرانے کی تصویر ہو تو کیا کہنے، ہر وقت اپنا ہدف اور منزل یاد رہتی ہے، یہ سب کچھ صنف قوی کے ساتھ ساتھ صنف نازک کے لیے بھی ہے۔ کسی شادی شدہ مرد یا عورت کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہونا چاہیے اور ''وہ'' تو بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ صرف اور صرف میاں بیوی اور بچوں کا لڑائی دنگل ہونا چاہیے۔ ورنہ یاد رکھیے! گھر بالکل خاکستر ہوجاتے ہیں، جب یہ خوبصورت مثلث بدل کر کچھ اور ہوجائے، بڑے خطرناک ہوتے ہیں تین کونے، بڑے ہی خطرناک جس پر ہوں میاں بیوی اور وہ۔
یہ سن کر سب گھر والے ہنسنے لگے اور والدہ مسکرانے لگیں کہ ان کی بیٹی کل آئیں گی۔ کچھ عرصہ ہوا تو لوگ اس واقعے کو بھول گئے اور ہم بھی بال بچوں والے ہوگئے، پھر کچھ وقت گزرا تو کہاکہ ایک لڑکی کا فون آیا تھا، اسے گاڑی میں ایک جگہ ڈراپ کرنا ہے۔ زیادہ دیر سسپنس رکھنا مناسب نہیں تھا۔ کہاکہ اس لڑکی کا نام صفیہ ہے، والد نے پوچھا کہ ٹھیک تو ہے نا ہماری صاحبزادی۔ جی بالکل یہ دو خواتین تو ہماری بہنیں تھیں۔ کچھ وقت گزرا تو 'ایک لڑکی کا فون آیا تھا' والا سلسلہ اتنا گھس پٹ گیا کہ بچے فوراً پوچھ لیتے کہ خدیجہ پھوپھو کا فون ہوگا یا صفیہ پھوپھو کا۔ چلیں اب مختلف عمروں کی آٹھ نو خواتین کا ذکر ہوجائے۔
جب موبائل فون نہ تھے تو کسی غیر عورت کا فون آجائے تو مرد حضرات پکڑے جاتے تھے۔ آج کل کے نوجوانوں کے تو مزے ہیں۔ جب عمر عزیز 30-32 سال کو پہنچی تو ایک خاتون کا گھر پر فون آیا۔ والدہ نے فون اٹھایا تو انھوں نے اپنا نام فریدہ بتایا۔ والدہ نے انھیں اوپر والا نمبر دیا اور انٹر کام پر کہاکہ کسی عورت کا فون آئے گا تمہارے لیے۔ جب خاتون سے بات مکمل کی تو پتا چلا کہ ہمارے ایک رشتے دار کے بارے میں معلومات حاصل کررہی تھیں، جن کی بیوی کا کچھ عرصے پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ جب فون رکھا تو دونوں خواتین نے پوچھا کہ خیریت۔ جواب دیا کہ رفیق صاحب کا رشتہ فریدہ صاحبہ کی بہن سے ڈالا گیا ہے، وہ پچاس باون سالہ لڑکے کے بارے میں معلومات حاصل کررہی تھیں۔
والدہ اور اہلیہ نے مل کر مردوں کے حوالے سے شکایات کے انبار لگادیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو رفیق کی بیوی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوگا، ان مردوں کو اپنی جوان بیٹیوں کی بھی کچھ شرم نہیں ہوتی، ابھی بیوی کو مرے سال بھر بھی نہیں ہوتا کہ بڈھے بڈھے مرد بھی شادیاں کرنے نکل پڑتے ہیں، انھیں بیوی کے ساتھ پچیس تیس برسوں کے ساتھ کا بھی کچھ احساس نہیں ہوتا۔ مردوں کی نمایندگی کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ کہی کہ شادی کرنے کو رفیق صاحب نکلے ہیں لیکن آپ دونوں خواتین مجھ پر اس طرح برس رہی ہیں جیسے میں شادی کرنے نکلا ہوں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی کی بیوی مرگئی ہے تو کیا شوہر کو بھی زندہ درگور کردیا جائے۔ تیسری بات یہ کہ اگر مرد شادی کرے گا تو ایک خاتون کا بھی گھر بس جائے گا۔ چوتھی بات یہ کہ مرد اکیلا تو رشتہ لے کر شادی کی منڈی میں نہیں آیا، دوسری جانب سے بھی نکاح کی کوئی نہ کوئی خواہش مند خاتون بھی موجود ہے۔ مردوں کی جانب سے اس وکالت نے دونوں خواتین کا غصہ ٹھنڈا کیا۔
جب عمر عزیز چالیس کے ہندسے کو چھو رہی تھی تو کسی لڑکی کے فون آنے کا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ کہنا پڑا کہ ایک نوجوان لڑکی کا فون آیا تھا، پھر ان کے نام فائزہ ، فرح اور مریم بتائے تو کوئی ٹس سے مس نہ ہوا کہ یہ ہماری بھانجیوں کے نام تھے۔ اسی طرح حلیمہ اور آمنہ کے فون آنے پر بھی کسی کے کان پر جون تک نہ رینگی کہ یہ ہماری بھتیجیوں کے نام تھے۔ چلیں انھیں چھوڑیں لیکن ثریا اور پھر عابدہ اور آخر میں نجمہ کا کیا کہیںگے جو بالکل غیر عورتیں تھیں۔ ایک مشہور خاتون، تو ایک دور کی رشتے دار، تو ایک لیڈی ایڈووکیٹ۔ اب بولیں۔
9/11 کے واقعے پر کراچی پریس کلب میں ایک پروگرام تھا۔ گھر والوں کو علم تھا کہ کہیں ہوکر آئے ہیں۔ تفصیل بتائی کہ اسٹیج پر تقریر کے بعد ایک خاتون میرے قریب آئیں، میں بھی ثریا نامی خاتون کے قریب بڑھا، وہ مزید قریب آئیں تو میں نے سر جھکادیا۔ فاطمہ ثریا بجیا نے شفقت سے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ''جیتے رہو بیٹا''۔ سارا سسپنس گھر والوں کا ختم ہوگیا اور شاید آپ کا بھی۔ اب عابدہ اور نجمہ کے دو واقعات رہ گئے ہیں، پہلے واقعے سے پتا چلتا ہے کہ اگر ایک مرد دو عورتوں کے درمیان صوفے پر بیٹھا ہو تو بھی اس کی بیگم کیوں اعتراض نہیں کرتی؟ یہ عابدہ کا قصہ ہے کہ بیوی معترض نہیں ہوتی، جب کہ نجمہ کے واقعے سے پتا چلتا ہے کہ شوہر کے نام اس کے دفتر کی کسی خاتون کا فون آئے تو بیوی کو کتنا برا لگتا ہے پہلے عابدہ اور پھر نجمہ۔
شادی کا کھانا خیریت سے نمٹ جائے تو تقریب کے بعد پچاس سو قریبی رشتے دار بڑے خوشگوار موڈ میں باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں عابدہ کے شوہر دو خواتین کے درمیان ایک صوفے پر بیٹھے تھے لیکن بیگم کے چہرے پر کوئی ناگواری نہ تھی، میں نے اپنی رشتے دار عابدہ خاتون سے کہاکہ فاروق بھائی دو خواتین کے درمیان بیٹھے ہیں اور آپ برداشت کررہی ہیں کہ دونوں ان کی سگی بہنیں ہیں۔ فاروق اور عابدہ اس جملے پر خاموشی سے مسکراتے رہے لیکن ان کے بھائی انور نے کہاکہ ہمارا بھائی بڑا شریف آدمی ہے۔ یہ ہے انسانی نفسیات اور یہ ہے میاں بیوی کے رشتے میں محبت و اعتماد کا جذبہ۔ نجمہ ایڈووکیٹ کا واقعہ آخری واقعہ ہے کہ بیوی کے اپنے شوہر کے بارے میں جذبات کتنے نازک ہوتے ہیں، یقین جانیے اتنی طویل تمہید صرف نجمہ کے اس واقعے کے بیان کرنے کی خاطر تھی۔
نجمہ ایک شادی شدہ خاتون وکیل ہیں۔ موبائل فون کی آمد سے قبل لوگ صرف قابل اعتماد اور جاننے والوں کو گھر کا نمبر دیا کرتے تھے، ہمارے نمبر ایک دوسرے کے پاس تھے کہ ایک فیملی کیس میں ہم میاں بیوی کے خلع کے مقدمے میں وکلا تھے۔ ایک دن گھر پر نجمہ کا فون آیا تو بیگم نے اٹھایا اور مجھے دیا۔ وہ اگلے دن کے مقدمے میں صلح کے لیے اپنی شرائط بیان کررہی تھیں۔ یوں دوسرے دن مقدمہ خیریت سے نمٹ گیا اور جوڑا ہنسی خوشی ساتھ رہنے پر رضامند ہوگیا۔ پاک و ہند کی فلموں کی طرح عدالتی کارروائی کے دوران نجمہ نے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ ''سوری، میں نے آپ کے گھر فون کیا، آپ کی وائف کو برا تو نہیں لگا''۔ نجمہ سے کہاکہ بیگم کے چہرے پر تھوڑی سی ناگواری تھی۔
اب وکیل صاحبہ کے جوابات ہی کالم کا حاصل بھی ہے اور میاں بیوی کی نفسیات کا نچوڑ بھی۔ نجمہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ میرے شوہر ڈاکٹر ہیں اور میرے گھر مرد کولیگز کے فون آتے ہیں کہ میرے خاوند نے اجازت دی ہے اور کوئی برا بھی نہیں مانتا لیکن جب لیڈی ڈاکٹرز اور نرسوں کے فون میرے شوہر کے لیے آتے ہیں تو مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ یہ ہے نفسیات ایک وفا شعار اور محبت کرنے والی مشرقی بیوی کی، گھر بار اور شوہر و بچوں پر مر مٹنے والی عورت کی۔ ہم اسے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔ اب شوہروں کو ایسی بیویوں کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟ میاں کو بے شک میاؤں بن کر ہی سہی، بیویوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔
شوہر کے دفتر میں خواتین ہوں تو ان سے تعلق کی نوعیت ایک حد میں ہونی چاہیے، بٹوے یا موبائل فون پر پورے گھرانے کی تصویر ہو تو کیا کہنے، ہر وقت اپنا ہدف اور منزل یاد رہتی ہے، یہ سب کچھ صنف قوی کے ساتھ ساتھ صنف نازک کے لیے بھی ہے۔ کسی شادی شدہ مرد یا عورت کا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہونا چاہیے اور ''وہ'' تو بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ صرف اور صرف میاں بیوی اور بچوں کا لڑائی دنگل ہونا چاہیے۔ ورنہ یاد رکھیے! گھر بالکل خاکستر ہوجاتے ہیں، جب یہ خوبصورت مثلث بدل کر کچھ اور ہوجائے، بڑے خطرناک ہوتے ہیں تین کونے، بڑے ہی خطرناک جس پر ہوں میاں بیوی اور وہ۔