تیس کروڑ روپے کا امتحان

گذشتہ جمعہ کو پشاور پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا

ISLAMABAD:
گذشتہ جمعہ کو پشاور پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ مظاہرہ کرنے والے اساتذہ یا طلبا نہیں بلکہ پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان تھے۔ پرائیویٹ اسکولز کے مالکان اس لیے سڑکوں پر تھے کہ جماعت پنجم کے طلباء کے لیے بورڈ کا امتحان نہیں ہونا چاہیے۔شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اسکول مالکان طلباء کی بات کر رہے تھے کیونکہ ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ تعلیم کا معیار بہتر بنانے کی بجائے فیسوں میں اٖضافے میں ہی مگن رہتے ہیں،اس حوالے سے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہر گزنہیں کیوں کہ مجھے ہر سال بچوں کے فیس کارڈ میں یہ اضافہ کئی برسوں سے دیکھنا،ادا اور برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

فیسیں ہر سال بڑھا دی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔اسکول مالکان جن میں آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ کے صوبائی صدر اور سابق رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ذاکر شاہ اور ایک دوسری پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے راہ نما یاور نصیر شامل تھے ،نے دھواں دار تقاریر کیں۔مسئلہ یہ ہے کہ جماعت پنجم کے طلباء کا امتحان جو ہمیشہ سے اسکول انتظامیہ لیا کرتی ہے کے ساتھ ساتھ پشاور تعلیمی بورڈ سمیت صوبے کے آٹھ تعلیمی بورڈز سالانہ امتحان سے قبل طلباء کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کے لیے ماڈل پیپرز کے تحت ایک الگ سے امتحان لیں گے۔

یہ فیصلہ دلچسپ بھی ہے اور عجیب و غریب بھی کہ آخر کم عمر بچوں کے لیے اس امتحان کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ حکومت میںشامل چند لوگ سمجھتے ہیں کہ اس نئے نظام سے معیار تعلیم بہتر ہو جائے گا،یہ نظام بیک وقت سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروںکے طلباء کے لیے ہو گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت اس نظام کے ذریعے پرائیویٹ اسکولز کے مالکان سے مزید رقم نکلوانا چاہتی ہے کیونکہ امتحانات کی فیس کی مد میںفی الحال تو حکومت خود تعلیمی بورڈز کو ادائیگی کرے گی اور پھر بتدریج یہ رقم نجی تعلیمی اداروں کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔

جس سے تعلیمی بورڈز کو کروڑوں روپے کی آمدنی ہو گی۔مجھے ابھی تک سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر ہوتی دکھائی نہیں دی مگر جو نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ آنے والے دنوں میں پرائیویٹ اسکولوں کو بھی سرکاری اسکولوں کی سطح پر لانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے اور رہ گئے طلباء ان کی فیسوں میں اضافہ کر دیا جائے گا ان کے والدین فیسیں بھرنے کے چکر میں لگے رہیں گے جب کہ اسکول مالکان کا کچھ نہ جائے گا۔


خیبر پختون خوا کے پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان کا مؤقف ہے کہ صوبائی حکومت آئے روز سرکاری نصاب میں تبدیلیاں کر رہی ہے جو ناقابل قبول ہے، یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت نے کیا تبدیلیاں کی ہیں تاہم یہ ضرور کہا گیا ہے کہ حکومت جدید تعلیم اور نئے تقاضوں کے نام پر نصاب بدل رہی ہے۔ان مالکان نے عوام کی ایک دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا کہ خلفاء راشدین ،صحابہ کرام، اوردیگر بزرگان دین کے اسباق کو نکالا جا رہا ہے اور ان کی جگہ مدر ٹریسا، گورونانک،مارکوپولو اور دیگر مغربی لیڈرز کے حالات زندگی کو نصاب کا حصہ بنایا جا رہا ہے جو پاکستان اور سالمیت اسلام کے منافی اور کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔ یہ اسکول مالکان کا کہنا ہے، اس پر کیا تبصرہ کیا جائے، بات دل و دماغ کو لگتی نہیں، یہ مغربی لیڈر نہیں تاریخ اور انسانیت کے قابل احترام کردار ہیں جنھیں جانا معلومات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

سیدھا سادا مطالبہ یہ ہے کہ پانچویں جماعت کا امتحان بورڈ نہ لے تاکہ اخراجات نہ بڑھیں اور ان اخراجات کا بوجھ والدین پر نہ پڑے۔مالکان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت کو نظام تعلیم بہتر کرنا ہے تو اس کی اصلاح نویں اور دسویں جماعت سے کی جائے جب نویں اور دسویں جماعت میں عوام کو تبدیلی دکھائی دے گی اور میرٹ کا بول بالا ہو گا تو کسی نئے تجربے کا سوچا جائے ۔مزید آگے بڑھتے ہوئے اسکول مالکان نے طلباء کو یہ بھی ہدایت جاری کر دی کہ وہ بورڈ کی جانب سے جاری انرولمنٹ فارم نہ بھریں۔ پرائیویٹ اسکول مالکان یہ بھی کہتے ہیں حکومت کی جانب سے امتحان لینے سے ایک پیچیدگی اور بھی ہے کہ طلباء کو دو دو امتحانات کی تیاری مشکل ہو جائے گی۔

یہ بات بھی دل کو لگتی ہے کہ آخر دو امتحانوں کی کیا ضرورت ہے،حکومت سے جب ان معاملات پر بات کی جائے تو ان کا مؤقف کچھ اور ہے ان کے خیال میں اس طرح یکساں نظام تعلیم کے نفاذ کی راہ ہموار ہو گی جب صوبے کے پانچ لاکھ پندرہ ہزار طلباء و طالبات ایک ہی طرز پر تیار کیے گئے ماڈل پیپرز دیں گے تو سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا اوربرابر کا مقابلہ ہو گا جب کہ طلباء اگلی جماعتوں میں زیادہ بہتر نتائج دیں گے۔صوبے میں دو لاکھ طلباء پرائیویٹ جب کہ تین لاکھ پندرہ ہزار سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں ۔اس حوالے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ صوبائی حکومت طلباء سے امتحان کی فیس نہیں لے گی بلکہ برطانوی ادارے ڈی ایف آئی ڈی سے ملنے والی رقم میں سے فی طالب علم 425 روپے تعلیمی بورڈ کو دیے جائیں گے جو پیپرز پرنٹ کریں گے اور ان پرچوں کی چیکنگ وغیرہ کی جائے گی۔اس طرح حکومت صوبہ خیبر پختون خوا کے آٹھ تعلیمی بورڈز میں 32 کروڑ90 لاکھ روپے تقسیم کرے گی۔

گویا سارا قصہ اس رقم کے گرد گھومتا ہے جسے محض ضایع ہی کیا جانا ہے تو تاویلیں بے شمار وگرنہ سمجھ میں اب بھی نہیں آ رہا کہ ایک بچہ آخر دو امتحان کیوں دے؟پہلے ہی تعلیمی بورڈز نے جو گندڈال رکھا ہے اگر اسے صاف کر لیا جائے تو نہ صرف تعلیم کا معیار بہتر ہو جائے بلکہ حکومت کے کروڑوں روپے بھی بچ جائیں گے۔ان الزامات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ تعلیمی بورڈز میں کرپشن عروج پر ہے، کہا جاتا ہے کہ جو اسکول نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں وہ اچھی خاصی رقم بھی خرچ کرتے ہیں۔کرپشن کا ثبوت نہیں ملتا اور اگر ملتا تو پھر جیلوں میں جگہ نہ ملتی لیکن تعلیم کے شعبہ میں اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے کچھ اچھا کیا ہے تو اس کے نتائج جلد یا بدیر عوام کے سامنے ہوں گے۔مگر کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ سال میں ہزاروں ماسٹر ڈگری ہولڈرز ،سیکڑوں پی ایچ ڈی اور ایم فل کرنے والوں کو نوکریاں کون دے گا ؟پانچویں کا ایک امتحان یا دو ،میٹرک کے امتحانات میں ہال بکیں یا نہیں!انٹری ٹیسٹ ہوں یا نہ اور پھر نوکریوں کے لیے این ٹی ایس کا نظام ہو، اصل بات اداروں کی مضبوطی اور غیر ملکی امداد کی بجائے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔بائیو میٹرک سسٹم کے بعد خیبر پختون خوا میں اگر اساتذہ نے وقت پر اسکول آنا شروع کر دیا تو کیا معیار تعلیم بھی بہتر ہوا، اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نظام تعلیم میں بہتری ہماری نسلوں کی بہتری ہے اور حکومت کو نجی تعلیمی اداروں کے مالکان سمیت ماہرین تعلیم کے ساتھ مل بیٹھ کر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ورنہ خیبر پختون خوا کے طلباء سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔
Load Next Story