انتہا پسند ہندوؤں کو بالی ووڈ میں پاکستانی فنکاروں کی کامیابی ہضم نہیں ہوتی مومل شیخ
مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، پاکستانی فلم انڈسٹری میں اچھا کام ہورہا ہے، ماڈل
ماڈل و اداکارہ مومل شیخ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد جاوید شیخ کی شہرت کو کامیابی کی سیڑھی نہیں بنایا، اپنی صلاحیتوں کے بھروسے پر کیرئیر کی منازل طے کیں، ٹی وی کے ساتھ اگر کسی اچھے اسکرپٹ کی آفر ہوئی تو فلم کروں گی۔ بامقصد فلم میکنگ ہی پاکستان فلم انڈسٹری کی ساکھ کو مزید مضبوط کرسکتی ہے۔
اپنے ایک انٹرویو میں مومل شیخ کا کہنا تھا کہ فنکار اپنے کردار اور پروجیکٹ کی نوعیت کو دیکھنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ میرے نزدیک معیار ہی اولین ترجیح ہے، بالی ووڈ بلاشبہ ایک بڑی فلم انڈسٹری ہے جہاں کے فلم میکر پاکستانی فنکاروں اور گلوکاروں کی صلاحیتوں کے متعرف ہیں مگر چند انتہا پسند عناصر کو انکی شہرت اور کامیابیاں ہضم نہیں ہوتیں۔ اسی لیے موقع ملتے ہی ان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مومل شیخ نے کہا کہ کسی کی سفارش سے آپ کو چانس تو مل سکتا ہے مگر کامیابی نہیں۔ اس کے لیے آپ کو محنت کرنا ہوتی ہے۔ میرے والد جاوید شیخ شوبزانڈسٹری کی ایک معروف شخصیت ہیں ان کی صاحبزادی ہونے کے باعث کافی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے کافی نروس ہوتی ہوں مگر سیٹ پر ان کا رویہ ایک پروفیشنل اداکار کی طرح ہی ہوتا ہے۔ میری پہلی فلم ''ہیپی بھاگ جائے گی'' جس میں اپنے والد کے ساتھ اسکرین شیئر کرکے بے حد خوشی ہوئی۔ مستقبل میں بھی ان کے ساتھ کسی پاکستانی فلم میں کام کرنا چاہوں گی۔ مومل شیخ نے کہا کہ بالی ووڈ کی طرح ہمارے ہاں بھی بہترین کام ہورہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہمارے والد نے ہم بہن بھائیوں کے درمیان کبھی فرق نہیں رکھا البتہ اچھے اور برے کی تمیز کے بارے میں ضرور بتایا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اپنے ایک انٹرویو میں مومل شیخ کا کہنا تھا کہ فنکار اپنے کردار اور پروجیکٹ کی نوعیت کو دیکھنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ میرے نزدیک معیار ہی اولین ترجیح ہے، بالی ووڈ بلاشبہ ایک بڑی فلم انڈسٹری ہے جہاں کے فلم میکر پاکستانی فنکاروں اور گلوکاروں کی صلاحیتوں کے متعرف ہیں مگر چند انتہا پسند عناصر کو انکی شہرت اور کامیابیاں ہضم نہیں ہوتیں۔ اسی لیے موقع ملتے ہی ان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مومل شیخ نے کہا کہ کسی کی سفارش سے آپ کو چانس تو مل سکتا ہے مگر کامیابی نہیں۔ اس کے لیے آپ کو محنت کرنا ہوتی ہے۔ میرے والد جاوید شیخ شوبزانڈسٹری کی ایک معروف شخصیت ہیں ان کی صاحبزادی ہونے کے باعث کافی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے کافی نروس ہوتی ہوں مگر سیٹ پر ان کا رویہ ایک پروفیشنل اداکار کی طرح ہی ہوتا ہے۔ میری پہلی فلم ''ہیپی بھاگ جائے گی'' جس میں اپنے والد کے ساتھ اسکرین شیئر کرکے بے حد خوشی ہوئی۔ مستقبل میں بھی ان کے ساتھ کسی پاکستانی فلم میں کام کرنا چاہوں گی۔ مومل شیخ نے کہا کہ بالی ووڈ کی طرح ہمارے ہاں بھی بہترین کام ہورہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہمارے والد نے ہم بہن بھائیوں کے درمیان کبھی فرق نہیں رکھا البتہ اچھے اور برے کی تمیز کے بارے میں ضرور بتایا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔