توہین عدالت کے نوٹس کا جواب قانونی مشورے کے بعد دوں گا الطاف حسین

عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے تحقیقات میں برطانوی پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کیا، الطاف حسین

الطاف حسین نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انتظامیہ ان واقعات کو روکنے میں نا کام رہی ہے۔ فوٹو: فائل

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دئیے گئے توہین عدالت کے نوٹس کا جواب قانونی اور آئینی مشورے کے بعد دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر نہ احتجاج کریں گے اور نہ شور کریں گے۔

لال قلعہ میں ایم کیو ایم کے کارکنوں سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے تحقیقات میں برطانوی پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کیا، ہمارا دامن صاف تھا اور رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ قصبہ کالونی میں 26 سال پہلے خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں 300 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا مگر اس قتل عام میں ملوث حملہ آوروں کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا۔


انہوں نے کہا کہ جدید ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے گھروں میں گھس کر لوگوں کو قتل کیا، گھروں میں آگ لگانے کے پاؤڈر پھینک کر ان میں آگ لگا دی۔ قتل و گارت گری کا یہ سلسلہ 6 گھنٹے تک جاری رہا مگر پولیس کسی کی جان بچانے نہیں پہنچی۔

الطاف حسین نے کہا کہ ان کے پاس ان تمام واقعات کے ثبوت اور شواہد بھی موجود ہیں۔ اگر حکومت اور سپریم کورٹ اس حوالے سے کارروائی کرنا چاہتی ہے تو وہ یہ تمام شواہد حکومت کو فراہم کریں گے۔

ایم کیو ایم کے قائد نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انتظامیہ ان واقعات کو روکنے میں نا کام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال لیاری میں بھی قتل وغارت گری کا ایسا ہی سنگین واقعہ پیش آیا، لوگوں کو بسوں سے اتار کر شناخت کر کے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا مگر حکام نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ججز کے 3 رکنی بنچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ الطاف حسین نے ٹیلی فون پر اپنے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ الطاف حسین نے خطاب میں جو زبان استعمال کی وہ نہ صرف توہین آمیز تھی بلکہ اس میں دھمکی کا عنصر بھی شامل تھا۔
Load Next Story