’’آج ۔۔۔۔۔۔۔افراد قتل‘‘
کیوں قتل کیا گیا، کون ہے قاتل؟ میڈیا کی سرخیوں سے پولیس کی فائلوں تک......کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لُہو کا سراغ.
وہ عیسیٰ تھے، مسیحا، اور روح اﷲ بھی، نابینا کو بینا، مُردوں کو زندہ کردینے والے، جن کی کل میراث ایک گدھا، ایک پیالہ اور عصا تھا، بے نیاز رب کا بے نیاز بندہ عیسیٰ جو پیدائش سے پہلے ہی الزامات کی زد پر تھے، اور پیدا ہونے کے بعد ظلم و جبر کا شکار، لیکن ان سب سے برسرِپیکار۔
ہاں وہ عیسیٰ روح اﷲ تھے ، جب ایک چرواہے نے ان سے اُن کا عصا اور پیالہ طلب کیا تو مسکراتے ہوئے اسے تحفتاً دے دیا۔ ہاں وہ عیسٰی ابن مریم تھے کہ جب اتفاقاً کوڑھیوں کے درمیان آنکلے تو انہیں تکلیف میں دیکھ کر بے اختیار ہاتھ اٹھا کر مناجات کرنے لگے، اور پھر بارش ہونے لگی، بارش نہیں شفا برسنے لگی، اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے کوڑھی چنگے بھلے اور شفا کی لذت و آسودگی سے فیض یاب ہوئے۔ ایسے تھے وہ، عیسیٰ مسیح، بندۂ بے نیاز، اور کسی سے کچھ نہ طلب کرنے والے، سب کو دینے والا۔ بے نیاز رب کا بے نیاز بندہ عیسٰی جو واقعی مسیحا تھے۔
ہمارا یہ سسکتا، بلکتا، غم زدہ، دکھ بھرا، زخموں سے چور، آہوں سے معمور، شہر آزردہ وناپُرساں، چلتے پھرتے اور مدقوق ڈھانچوں کا شہر، لاشوں سے اٹا ہوا، خوف میں ڈوبا ہوا ، سہما ہوا شہر، شہر خموشاں۔ ہاں جسے پہلے، بہت پہلے عروس البلاد کہا جاتا تھا۔ اِس ''تھا'' میں کتنا کرب ہے، کتنا دُکھ ۔ جی اسے شہروں کی دلہن کہتے تھے۔ یہ شہر تو اب کہیں سے نہیں لگتا شہر، یہ جنگل ہے، لیکن کیسے کہیں کہ یہ جنگل ہے ۔ جنگل میں تو سب قانونِ فطرت کے تابع ہوتے ہیں، پھر کیا کہیں اسے، کچھ سمجھ نہیں آتا، ہر طرف ہتھیار بند گروہ، ہر راستے پر پہرہ، گلیاں اور سڑکیں بند، ہر ایک خوف زدہ، شعلوں میں گھرا ہوا، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے سہما ہوا، بم دھماکوں سے گونجتا ہوا، بارود کی بو میں بسا ہوا، خون انسان سے رنگین، شہرِ آزردہ و ناپُرساں، کسی عیسٰی مسیح کی راہ تکتا ہوا شہر، نوجوان بیواؤں کا شہر ، بوڑھی ماؤں کے سہاروں کو چھین لینے والا شہر ، بہنوں کی آس بھائیوں کو غائب کردینے والا شہر، بوڑھے باپ کی کمر توڑ دینے والا، بچوں کو یتیم کر دینے والا شہر، کیا کہیں اسے، سوالات ہی سوالات ہیں اور جواب ندارد، کوئی زبان نہیں کھولتا، بس لاشوں پر بین کرنے والا شہر، کس نے مانگ اجاڑ دی اس کی؟
یہ مائی کلاچی کا بسایا ہوا، مچھیروں کی بستی سے سفر کرتا ہوا، ہر سو پھیل جانے والا کراچی، سب کی ماں کی طرح تھا۔ جسے کوئی سہارا نہ دے اسے یہ اپنے سینے سے لگا کر پروان چڑھاتا تھا۔ سب کو اپنے بچوں کی طرح پالنے پوسنے والا شہر، اس شہر کا حسن تمام لسانی اکائیاں، ہر طرح کے لوگ، قسما قسم کی بولیاں، پہناوے، ہر مسلک و مذہب کے پیروکار اور ان کی عبادت گاہیں تھیں، یہ جہاں سب اک دوجے کے دکھ درد، شادی غمی اور تہواروں میں شریک ہوتے تھے، جہاں راتیں جاگتی تھیں، روشنیوں سے جگمگاتے راستے، بلاخوف و خطر فٹ پاتھ پر سونے والے مزدور اور گلیوں میں کھیلتے ہوئے، چہچہاتے ہوئے بچے اور بچیاں، کوئی راستہ کوئی گلی بند نہیں تھی۔
کوئی نوگو ایریا نہیں تھا۔ آسودگی اور طمانیت سے اس شہر کے باسیوں کے چہرے دمکتے تھے، پھر اچانک کیا ہوا؟ کوئی جواب نہیں دیتا، پھر یہاں پر پھولوں کی جگہ کانٹے اور جھاڑیاں اُگ آئیں اور پھر ان جھاڑیوں میں انسانوں کو قتل کرکے پھینکا جانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر سسکیاں لینے لگا، پھر کہیں سے ہتھوڑا گروپ نمودار ہوا، اور سوتے ہوئے مزدوروں کے سر کچلے جانے لگے، متحد شہر، تقسیم در تقسیم در تقسیم ہونا شروع ہوا اور پھر موت تھی ۔ ہر طرف موت اور خوف کا پہرا۔ کوئی سانس بھی نہیں لے سکتا تھا کیوں؟ جواب طلب کریں تو ارباب اختیار لب سی لیتے ہیں۔ خون ناحق کا حساب کون دے گا۔ اب گروہ اس شہر کی پہچان ہیں۔ اب یہاں ہر طرح کے گینگ ہیں، ہتھیاربند اور مسلح گروہ، جو کسی قانون کو نہیں مانتے، قانون اور قانون کے رکھوالے انھیں تحفظ فراہم کرتے ہیں آپ کو یقین نہیں آتا تو اخبارات کا ریکارڈ کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 9دسمبر 2012 کا ایکسپریس ملاحظہ فرما لیجیے جس کے صفحہ نمبر 4 پر ایک بکس خبر آپ کی منتظر ہے :
''عزیز بھٹی پولیس کا افسران کو خوش کرنے کے لیے انوکھا ڈراما، شانتی نظر میں گینگ وار ملزم کی موجودگی کی اطلاع پر علاقے کا محاصرہ، چھاپے سے قبل پولیس افسر نے اہل کار کے ذریعے ملزم کو کارروائی کی اطلاع کر دی ۔ ذرائع نے بتایا کہ عزیز بھٹی پولیس نے اعلیٰ افسران کے سامنے اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے ایس پی گلشن اقبال عاصم قائم خانی کو اطلاع دی کہ انھیں خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ گینگ وار کا اہم ملزم قادر بلوچ عرف گگن اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلح ہو کر گھوم رہا ہے، ملزمان اپنے ٹاچر سیل دبئی ہاؤس سے نکل کر علاقے میں گشت کر رہے ہیں اور اس وقت ملزمان کریم بخش پاڑہ گولڈن کچن والی گلی نمبر15 میں موجود ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ عزیز بھٹی تھانے کے ایک افسر نے اپنے ماتحت اہل کار کے ذریعے قادر بلوچ کو فون کرکے چھاپے کی اطلاع کر دی۔۔۔'' کیا تبصرہ کریں اس خبر پر، ٹارچر سیلوں کا شہر، انسانوں کو پرندوں کی طرح شکار کرنے والے جتھا بندوں کا شہر، جہاں قتلِ انساں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا، یہ سپرمارکیٹ جہاں قتل، اغوا، ڈکیتیاں، زمینوں پر جبری قبضے، لوگوں میں منشیات کا زہر پھیلانے والے، کسی نہ کسی اعلیٰ شخصیت کی سرپرستی میں مصروف عمل ہیں۔ پاکستان کے دشمن جانتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ختم کرنا ہے، تو اس کی شہ رگ کاٹنی ہوگی اور سب اس ناپاک منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ کراچی جہاں ملک بھر سے زیادہ معاشی سرگرمیاں ہیں۔ کراچی کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہم ہے ۔ ساحلی شہر ہونے کی بنا پر دنیا بھر میں تجارت کا راستہ اس کا سمندر ہے ۔ پاکستان کو بیک وقت فرقہ واریت، لسانی عصبیتوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا سامنا ہے ۔ ان گروہوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے اور یہ شہر ان کے لیے سونے کی کان ہے۔ بھتا مافیا کے رحم و کرم پر تاجر سراپا احتجاج رہتے ہیں اور پھر مایوس ہو کر بھتے دیتے ہیں۔ یہاں تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا اصول سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
گذشتہ تیس سال کے دوران اس شہر نے وہ زخم سہے ہیں کہ اسے لکھنے کے لیے ہمت و حوصلہ کے ساتھ، کئی جلدیں درکار ہیں۔ یوں تو کراچی وقتاً فوقتاً قتل و غارت گری کی لپیٹ میں آتا رہا ہے، مگر اس صورت حال کے ہمیشہ بہ ظاہر کچھ عوامل رہے ہیں، جیسے کسی واقعے کی بنا پر پھوٹ پڑنے والے فسادات، لیکن گذشتہ چند سال سے ہر روز کتنی ہی لاشیں گرادی جاتی ہیں اور نہ قتل کا سبب سامنے آتا ہے نہ قاتل کا چہرہ۔ شہر کے درودیوار پر لُہو سے تحریر ہوتی اس کہانی نے ''ٹارگیٹ کلنگ'' کا عنوان پایا ہے۔
7 ستمبر 2012ء کو وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے قومی اسمبلی میں ایک دستاویز جمع کرائی، جس کی تفصیلات کچھ اس طرح تھیں۔ گذشتہ 5 سال میں (کراچی میں) 1363 افراد کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا 2008 میں 104، 2009ء میں 160، 2010 میں373، 2011 میں 478 اور ستمبر 2012 میں 248 افراد ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہوئے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں مسلح گروہ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان میں گینگ اور زمینوں پر جبری قبضے کرنے والے افراد شامل ہیں۔ فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر بھی کچھ گروہ یہ کام کر رہے ہیں اور انہیں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ انسداد دہشت گردی یونٹ سی آئی اے نے گذشتہ پانچ سال میں 426 دہشت گرد گرفتار کیے۔ نومبر 2012 کے وسط میں پاکستان کی سینیٹ میں سید مشاہد حسین نے کہا کہ کراچی میں 8500 افراد کو مختلف الزامات میں پکڑا گیا، لیکن نہ تو کسی پر مقدمہ چلایا گیا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔ انہوں نے کراچی، بلوچستان اور کوئٹہ میں امن و امان کی خراب صورت حال کا ذمے دار قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قرار دیا۔
پاکستان سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ یہ ریمارکس جسٹس انور ظہیر جمالی کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے دیے جس میں جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس عارف حسین خلجی، جسٹس امیر ہانی مسلم، اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے، عدالت نے گذشتہ سال کراچی میں ہلاکتوں کے از خود نوٹس کی سماعت کا جائزہ لیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری سماعت کے دوران جسٹس سرمد جلال عثمانی نے پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چند افراد کی گرفتاری سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ عدالت نے پولیس سے سوال کیا عدالتی حکم کو جاری ہوئے تیرہ ماہ ہوگئے ہیں اب تک کراچی میں کتنے قتل ہوئے کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں اور کتنے چالان عدالت میں پیش کیے گئے۔ پولیس نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی، جس میں کہا گیا تھا کہ اب تک چار سو افراد ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ عدالت نے پولیس افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جسے چاہیں ٹارگیٹ کلنگ قرار دے دیتے ہیں اور جسے چاہیں حادثاتی موت بنا دیتے ہیں۔
منتخب ایوانوں میں ٹارگیٹ کلنگ پر بحث اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے صورت حال کے نوٹس لیے جانے کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درحقیقت ٹارگیٹ کلنگ کی تعریف کیا ہے اور سا قتل اس زمرے میں آتا ہے؟ ان وارداتوں میں کون ملوث ہے اور یہ سلسلہ کیوں رکنے میں نہیں آتا؟ ہائی کورٹ کے فوج داری مقدمات کے ماہر طاہر الرحمن تنولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹارگیٹ کلنگ کی کوئی متعین تعریف تو نہیں ہے، آپ اسے پوری پلاننگ کے ساتھ گھات لگاکر قتل کہہ سکتے ہیں۔ کراچی میں یہ قتل بہت منظم انداز میں ہورہے ہیں۔ ان وارداتوں میں ملوث کے گروہ بہت بااثر اور انہیں کسی نہ کسی سیاسی، مذہبی یا لسانی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ کی بڑی وجہ قیمتی زمینوں پر قبضہ ہے۔ یہ جبری قابض کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ عوام بے یارومددگار ہیں، اسلحے کی فراوانی ہے۔ ایسے گروہ اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی شخص کو برداشت نہیں کرتے۔ اگر پولیس انہیں گرفتار کر بھی لے تو وہ گواہ نہ ہونے پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی بند کی جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
کراچی میں ایک وجہ مختلف مارکیٹ پر قبضہ کی جنگ بھی ہے۔ یہ گروہ بھتا وصول کرتے ہیں اور انہوں نے مختلف علاقوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ اگر کوئی بھتا نہ دے تو نہ صرف اس کا کاروبار تباہ کر دیا جاتا ہے بلکہ اسے زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ افراد کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ یہ گروہ اب اتنے منظم اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔ ان وارداتوں میں ملوث افراد شہادت نہ ہونے پر عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے عوام مُنظّم ہو کر ان کے خلاف گواہی دیں تو یہ کیفر کردار تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حالات اس قدر خراب ہیں کہ ''نہ نو من تیل ہوگا نا رادھا ناچے گی۔'' حکومت وقت اس کی اصل ذمہ دار ہے، لیکن اس کی اپنی مصلحتیں ہیں اور ظاہر ہے، جہاں مصلحتیں اور مفاد ہوں وہاں عوام کی کون سنتا ہے۔ ہمارے پاس خود ایک ٹارگیٹ کلنگ کا ملزم ہے جس پر بائیس افراد کے قتل کا الزام ہے، لیکن کوئی گواہ ہی نہیں ہے۔ پولیس کی تفتیش انتہائی ناقص ہے، وہ اپنے نمبر بڑھانے اور کارکردگی دکھانے کے لیے، جو دراصل عوام کی اشک شوئی کے لیے ہوتی ہے، کسی ٹارگیٹ کلر کو گرفتار کر بھی لیں تو سوائے اس کے کچھ نہیں بتاتے، کہ اس کے پاس پستول برآمد ہوا یا کلاشنکوف ملی۔ اس سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ قاتل بھی ہے۔ دنیا بھر میں جدید سائنٹیفک طریقۂ کار سے جرائم کی تحقیقات کی جاتی ہیں اور مجرم کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے، جب کہ ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں اب تک زمانہ قدیم کے اصولوں پر ہی عمل پیرا ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
ترنم خان پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی پروگرام آفیسر ہیں۔ ان کی ذمے داریوں میں جرائم کا ریکارڈ مرتب کرنا بھی ہے۔ ٹارگیٹ کلنگ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ویسے تو ٹارگیٹ کلنگ مُنظّم قتل کو کہتے ہیں، لیکن اگر آپ غور کریں تو ہر قتل مُنظم ہی اور ٹارگیٹڈ ہوتا ہے۔ ماسوائے ان چند کے جو اشتعال میں کیے جائیں۔ کراچی میں اس مُنظّم قتل عام میں تقریباً ہر لسانی، گروہی، مذہبی جماعتوں کے وہ لوگ شامل ہیں، جن پر ان سیاسی گروہوں کا بھی مکمل کنٹرول نہیں ہے ۔ ٹارگیٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی شرح کی اصل وجہ بھتا ہے۔ کراچی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے یہاں قتل وغارت گری بھتے کی علاقہ وار تقسیم پر ہے۔ ہر گروہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تحقیقاتی ادارے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے۔ کراچی میں ہر طبقۂ فکر کے لوگ متاثر ہیں۔ بڑھتی ہوئی ٹارگیٹ کلنگ کے اسباب پر حکومت سنجیدگی سے غور نہیں کرتی اور اس کی بڑی وجہ کسی بھی صورت میں ہر قیمت پر اپنا تسلط جمانا اور سیاسی و مالی مفادات کا حصول ہے۔ اگر آپ مزید غور کریں تو اس نتیجے پر بہ آسانی پہنچ جائیں گے کہ یہی جرائم پیشہ افراد انتخابات میں ان کے دست و بازو بنتے ہیں ہر گروہ ایسے افراد کے بل بوتے پر اپنی دھونس قائم رکھنا چاہتا ہے۔ جرائم کی بیخ کنی ریاست کی ذمے داری ہے اور یہ بھی کہ وہ عوام کے تمام حقوق کا تحفظ کرے، لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس کا الٹ ہو رہا ہے۔ جرائم پیشہ اور قاتلوں کی سرپرستی اور عوام کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ریاست اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
ہاں وہ عیسیٰ روح اﷲ تھے ، جب ایک چرواہے نے ان سے اُن کا عصا اور پیالہ طلب کیا تو مسکراتے ہوئے اسے تحفتاً دے دیا۔ ہاں وہ عیسٰی ابن مریم تھے کہ جب اتفاقاً کوڑھیوں کے درمیان آنکلے تو انہیں تکلیف میں دیکھ کر بے اختیار ہاتھ اٹھا کر مناجات کرنے لگے، اور پھر بارش ہونے لگی، بارش نہیں شفا برسنے لگی، اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے کوڑھی چنگے بھلے اور شفا کی لذت و آسودگی سے فیض یاب ہوئے۔ ایسے تھے وہ، عیسیٰ مسیح، بندۂ بے نیاز، اور کسی سے کچھ نہ طلب کرنے والے، سب کو دینے والا۔ بے نیاز رب کا بے نیاز بندہ عیسٰی جو واقعی مسیحا تھے۔
ہمارا یہ سسکتا، بلکتا، غم زدہ، دکھ بھرا، زخموں سے چور، آہوں سے معمور، شہر آزردہ وناپُرساں، چلتے پھرتے اور مدقوق ڈھانچوں کا شہر، لاشوں سے اٹا ہوا، خوف میں ڈوبا ہوا ، سہما ہوا شہر، شہر خموشاں۔ ہاں جسے پہلے، بہت پہلے عروس البلاد کہا جاتا تھا۔ اِس ''تھا'' میں کتنا کرب ہے، کتنا دُکھ ۔ جی اسے شہروں کی دلہن کہتے تھے۔ یہ شہر تو اب کہیں سے نہیں لگتا شہر، یہ جنگل ہے، لیکن کیسے کہیں کہ یہ جنگل ہے ۔ جنگل میں تو سب قانونِ فطرت کے تابع ہوتے ہیں، پھر کیا کہیں اسے، کچھ سمجھ نہیں آتا، ہر طرف ہتھیار بند گروہ، ہر راستے پر پہرہ، گلیاں اور سڑکیں بند، ہر ایک خوف زدہ، شعلوں میں گھرا ہوا، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے سہما ہوا، بم دھماکوں سے گونجتا ہوا، بارود کی بو میں بسا ہوا، خون انسان سے رنگین، شہرِ آزردہ و ناپُرساں، کسی عیسٰی مسیح کی راہ تکتا ہوا شہر، نوجوان بیواؤں کا شہر ، بوڑھی ماؤں کے سہاروں کو چھین لینے والا شہر ، بہنوں کی آس بھائیوں کو غائب کردینے والا شہر، بوڑھے باپ کی کمر توڑ دینے والا، بچوں کو یتیم کر دینے والا شہر، کیا کہیں اسے، سوالات ہی سوالات ہیں اور جواب ندارد، کوئی زبان نہیں کھولتا، بس لاشوں پر بین کرنے والا شہر، کس نے مانگ اجاڑ دی اس کی؟
یہ مائی کلاچی کا بسایا ہوا، مچھیروں کی بستی سے سفر کرتا ہوا، ہر سو پھیل جانے والا کراچی، سب کی ماں کی طرح تھا۔ جسے کوئی سہارا نہ دے اسے یہ اپنے سینے سے لگا کر پروان چڑھاتا تھا۔ سب کو اپنے بچوں کی طرح پالنے پوسنے والا شہر، اس شہر کا حسن تمام لسانی اکائیاں، ہر طرح کے لوگ، قسما قسم کی بولیاں، پہناوے، ہر مسلک و مذہب کے پیروکار اور ان کی عبادت گاہیں تھیں، یہ جہاں سب اک دوجے کے دکھ درد، شادی غمی اور تہواروں میں شریک ہوتے تھے، جہاں راتیں جاگتی تھیں، روشنیوں سے جگمگاتے راستے، بلاخوف و خطر فٹ پاتھ پر سونے والے مزدور اور گلیوں میں کھیلتے ہوئے، چہچہاتے ہوئے بچے اور بچیاں، کوئی راستہ کوئی گلی بند نہیں تھی۔
کوئی نوگو ایریا نہیں تھا۔ آسودگی اور طمانیت سے اس شہر کے باسیوں کے چہرے دمکتے تھے، پھر اچانک کیا ہوا؟ کوئی جواب نہیں دیتا، پھر یہاں پر پھولوں کی جگہ کانٹے اور جھاڑیاں اُگ آئیں اور پھر ان جھاڑیوں میں انسانوں کو قتل کرکے پھینکا جانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر سسکیاں لینے لگا، پھر کہیں سے ہتھوڑا گروپ نمودار ہوا، اور سوتے ہوئے مزدوروں کے سر کچلے جانے لگے، متحد شہر، تقسیم در تقسیم در تقسیم ہونا شروع ہوا اور پھر موت تھی ۔ ہر طرف موت اور خوف کا پہرا۔ کوئی سانس بھی نہیں لے سکتا تھا کیوں؟ جواب طلب کریں تو ارباب اختیار لب سی لیتے ہیں۔ خون ناحق کا حساب کون دے گا۔ اب گروہ اس شہر کی پہچان ہیں۔ اب یہاں ہر طرح کے گینگ ہیں، ہتھیاربند اور مسلح گروہ، جو کسی قانون کو نہیں مانتے، قانون اور قانون کے رکھوالے انھیں تحفظ فراہم کرتے ہیں آپ کو یقین نہیں آتا تو اخبارات کا ریکارڈ کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 9دسمبر 2012 کا ایکسپریس ملاحظہ فرما لیجیے جس کے صفحہ نمبر 4 پر ایک بکس خبر آپ کی منتظر ہے :
''عزیز بھٹی پولیس کا افسران کو خوش کرنے کے لیے انوکھا ڈراما، شانتی نظر میں گینگ وار ملزم کی موجودگی کی اطلاع پر علاقے کا محاصرہ، چھاپے سے قبل پولیس افسر نے اہل کار کے ذریعے ملزم کو کارروائی کی اطلاع کر دی ۔ ذرائع نے بتایا کہ عزیز بھٹی پولیس نے اعلیٰ افسران کے سامنے اپنی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے ایس پی گلشن اقبال عاصم قائم خانی کو اطلاع دی کہ انھیں خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ گینگ وار کا اہم ملزم قادر بلوچ عرف گگن اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلح ہو کر گھوم رہا ہے، ملزمان اپنے ٹاچر سیل دبئی ہاؤس سے نکل کر علاقے میں گشت کر رہے ہیں اور اس وقت ملزمان کریم بخش پاڑہ گولڈن کچن والی گلی نمبر15 میں موجود ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ عزیز بھٹی تھانے کے ایک افسر نے اپنے ماتحت اہل کار کے ذریعے قادر بلوچ کو فون کرکے چھاپے کی اطلاع کر دی۔۔۔'' کیا تبصرہ کریں اس خبر پر، ٹارچر سیلوں کا شہر، انسانوں کو پرندوں کی طرح شکار کرنے والے جتھا بندوں کا شہر، جہاں قتلِ انساں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا، یہ سپرمارکیٹ جہاں قتل، اغوا، ڈکیتیاں، زمینوں پر جبری قبضے، لوگوں میں منشیات کا زہر پھیلانے والے، کسی نہ کسی اعلیٰ شخصیت کی سرپرستی میں مصروف عمل ہیں۔ پاکستان کے دشمن جانتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ختم کرنا ہے، تو اس کی شہ رگ کاٹنی ہوگی اور سب اس ناپاک منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ کراچی جہاں ملک بھر سے زیادہ معاشی سرگرمیاں ہیں۔ کراچی کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہم ہے ۔ ساحلی شہر ہونے کی بنا پر دنیا بھر میں تجارت کا راستہ اس کا سمندر ہے ۔ پاکستان کو بیک وقت فرقہ واریت، لسانی عصبیتوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا سامنا ہے ۔ ان گروہوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے اور یہ شہر ان کے لیے سونے کی کان ہے۔ بھتا مافیا کے رحم و کرم پر تاجر سراپا احتجاج رہتے ہیں اور پھر مایوس ہو کر بھتے دیتے ہیں۔ یہاں تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا اصول سب سے زیادہ نمایاں ہے۔
گذشتہ تیس سال کے دوران اس شہر نے وہ زخم سہے ہیں کہ اسے لکھنے کے لیے ہمت و حوصلہ کے ساتھ، کئی جلدیں درکار ہیں۔ یوں تو کراچی وقتاً فوقتاً قتل و غارت گری کی لپیٹ میں آتا رہا ہے، مگر اس صورت حال کے ہمیشہ بہ ظاہر کچھ عوامل رہے ہیں، جیسے کسی واقعے کی بنا پر پھوٹ پڑنے والے فسادات، لیکن گذشتہ چند سال سے ہر روز کتنی ہی لاشیں گرادی جاتی ہیں اور نہ قتل کا سبب سامنے آتا ہے نہ قاتل کا چہرہ۔ شہر کے درودیوار پر لُہو سے تحریر ہوتی اس کہانی نے ''ٹارگیٹ کلنگ'' کا عنوان پایا ہے۔
7 ستمبر 2012ء کو وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے قومی اسمبلی میں ایک دستاویز جمع کرائی، جس کی تفصیلات کچھ اس طرح تھیں۔ گذشتہ 5 سال میں (کراچی میں) 1363 افراد کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا 2008 میں 104، 2009ء میں 160، 2010 میں373، 2011 میں 478 اور ستمبر 2012 میں 248 افراد ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہوئے ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں مسلح گروہ سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان میں گینگ اور زمینوں پر جبری قبضے کرنے والے افراد شامل ہیں۔ فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر بھی کچھ گروہ یہ کام کر رہے ہیں اور انہیں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ انسداد دہشت گردی یونٹ سی آئی اے نے گذشتہ پانچ سال میں 426 دہشت گرد گرفتار کیے۔ نومبر 2012 کے وسط میں پاکستان کی سینیٹ میں سید مشاہد حسین نے کہا کہ کراچی میں 8500 افراد کو مختلف الزامات میں پکڑا گیا، لیکن نہ تو کسی پر مقدمہ چلایا گیا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔ انہوں نے کراچی، بلوچستان اور کوئٹہ میں امن و امان کی خراب صورت حال کا ذمے دار قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قرار دیا۔
پاکستان سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ یہ ریمارکس جسٹس انور ظہیر جمالی کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے دیے جس میں جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس عارف حسین خلجی، جسٹس امیر ہانی مسلم، اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے، عدالت نے گذشتہ سال کراچی میں ہلاکتوں کے از خود نوٹس کی سماعت کا جائزہ لیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری سماعت کے دوران جسٹس سرمد جلال عثمانی نے پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چند افراد کی گرفتاری سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ عدالت نے پولیس سے سوال کیا عدالتی حکم کو جاری ہوئے تیرہ ماہ ہوگئے ہیں اب تک کراچی میں کتنے قتل ہوئے کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں اور کتنے چالان عدالت میں پیش کیے گئے۔ پولیس نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی، جس میں کہا گیا تھا کہ اب تک چار سو افراد ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ عدالت نے پولیس افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جسے چاہیں ٹارگیٹ کلنگ قرار دے دیتے ہیں اور جسے چاہیں حادثاتی موت بنا دیتے ہیں۔
منتخب ایوانوں میں ٹارگیٹ کلنگ پر بحث اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے صورت حال کے نوٹس لیے جانے کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ درحقیقت ٹارگیٹ کلنگ کی تعریف کیا ہے اور سا قتل اس زمرے میں آتا ہے؟ ان وارداتوں میں کون ملوث ہے اور یہ سلسلہ کیوں رکنے میں نہیں آتا؟ ہائی کورٹ کے فوج داری مقدمات کے ماہر طاہر الرحمن تنولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹارگیٹ کلنگ کی کوئی متعین تعریف تو نہیں ہے، آپ اسے پوری پلاننگ کے ساتھ گھات لگاکر قتل کہہ سکتے ہیں۔ کراچی میں یہ قتل بہت منظم انداز میں ہورہے ہیں۔ ان وارداتوں میں ملوث کے گروہ بہت بااثر اور انہیں کسی نہ کسی سیاسی، مذہبی یا لسانی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ کی بڑی وجہ قیمتی زمینوں پر قبضہ ہے۔ یہ جبری قابض کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ عوام بے یارومددگار ہیں، اسلحے کی فراوانی ہے۔ ایسے گروہ اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی شخص کو برداشت نہیں کرتے۔ اگر پولیس انہیں گرفتار کر بھی لے تو وہ گواہ نہ ہونے پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی بند کی جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
کراچی میں ایک وجہ مختلف مارکیٹ پر قبضہ کی جنگ بھی ہے۔ یہ گروہ بھتا وصول کرتے ہیں اور انہوں نے مختلف علاقوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ اگر کوئی بھتا نہ دے تو نہ صرف اس کا کاروبار تباہ کر دیا جاتا ہے بلکہ اسے زندگی سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ افراد کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ یہ گروہ اب اتنے منظم اور جدید ترین اسلحہ سے لیس ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔ ان وارداتوں میں ملوث افراد شہادت نہ ہونے پر عدالتوں سے رہا ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے عوام مُنظّم ہو کر ان کے خلاف گواہی دیں تو یہ کیفر کردار تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حالات اس قدر خراب ہیں کہ ''نہ نو من تیل ہوگا نا رادھا ناچے گی۔'' حکومت وقت اس کی اصل ذمہ دار ہے، لیکن اس کی اپنی مصلحتیں ہیں اور ظاہر ہے، جہاں مصلحتیں اور مفاد ہوں وہاں عوام کی کون سنتا ہے۔ ہمارے پاس خود ایک ٹارگیٹ کلنگ کا ملزم ہے جس پر بائیس افراد کے قتل کا الزام ہے، لیکن کوئی گواہ ہی نہیں ہے۔ پولیس کی تفتیش انتہائی ناقص ہے، وہ اپنے نمبر بڑھانے اور کارکردگی دکھانے کے لیے، جو دراصل عوام کی اشک شوئی کے لیے ہوتی ہے، کسی ٹارگیٹ کلر کو گرفتار کر بھی لیں تو سوائے اس کے کچھ نہیں بتاتے، کہ اس کے پاس پستول برآمد ہوا یا کلاشنکوف ملی۔ اس سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ قاتل بھی ہے۔ دنیا بھر میں جدید سائنٹیفک طریقۂ کار سے جرائم کی تحقیقات کی جاتی ہیں اور مجرم کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے، جب کہ ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں اب تک زمانہ قدیم کے اصولوں پر ہی عمل پیرا ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
ترنم خان پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی پروگرام آفیسر ہیں۔ ان کی ذمے داریوں میں جرائم کا ریکارڈ مرتب کرنا بھی ہے۔ ٹارگیٹ کلنگ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ویسے تو ٹارگیٹ کلنگ مُنظّم قتل کو کہتے ہیں، لیکن اگر آپ غور کریں تو ہر قتل مُنظم ہی اور ٹارگیٹڈ ہوتا ہے۔ ماسوائے ان چند کے جو اشتعال میں کیے جائیں۔ کراچی میں اس مُنظّم قتل عام میں تقریباً ہر لسانی، گروہی، مذہبی جماعتوں کے وہ لوگ شامل ہیں، جن پر ان سیاسی گروہوں کا بھی مکمل کنٹرول نہیں ہے ۔ ٹارگیٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی شرح کی اصل وجہ بھتا ہے۔ کراچی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے یہاں قتل وغارت گری بھتے کی علاقہ وار تقسیم پر ہے۔ ہر گروہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تحقیقاتی ادارے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے۔ کراچی میں ہر طبقۂ فکر کے لوگ متاثر ہیں۔ بڑھتی ہوئی ٹارگیٹ کلنگ کے اسباب پر حکومت سنجیدگی سے غور نہیں کرتی اور اس کی بڑی وجہ کسی بھی صورت میں ہر قیمت پر اپنا تسلط جمانا اور سیاسی و مالی مفادات کا حصول ہے۔ اگر آپ مزید غور کریں تو اس نتیجے پر بہ آسانی پہنچ جائیں گے کہ یہی جرائم پیشہ افراد انتخابات میں ان کے دست و بازو بنتے ہیں ہر گروہ ایسے افراد کے بل بوتے پر اپنی دھونس قائم رکھنا چاہتا ہے۔ جرائم کی بیخ کنی ریاست کی ذمے داری ہے اور یہ بھی کہ وہ عوام کے تمام حقوق کا تحفظ کرے، لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس کا الٹ ہو رہا ہے۔ جرائم پیشہ اور قاتلوں کی سرپرستی اور عوام کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ریاست اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔