بچوں کی سلامتی کو خطرہ
والدین کے خیال میں بچوں کو سڑک حادثات، ہنگاموں، اغوا اور لوٹ مارکا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
حادثات سے بچاؤکے پیش نظربعض والدین اپنے بچوں کی دیکھ بھال اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کی صحت وسلامتی کوخطرہ لاحق نہ ہو یہی وجہ ہے کہ بچے کم عمر ہوں یا بڑے گھر سے باہر نکلتے وقت ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں یا والدین کے ساتھ چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے والدین حادثاتی خوف کی وجہ سے بچوں کواپنے زیراثر اس انداز سے رکھتے ہیں جیسے وہ چابی سے چلنے والے کھلونے ہوں۔اس طرح پرورش پانے والے بچے زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں اور اپنے والدین خاص کر ماؤں پر زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں اور ان کی بہت سی صلاحیتیں اجاگر نہیں ہو پاتیں، نہ ہی جسمانی نشوونما بہتر ہوتی ہے۔ پانچ سال کی عمر ہونے تک اکثر بچے ذہنی دباؤکا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ گھرکے اندر زیادہ وقت گزارنے سے وہ معاشرے سے بالکل کٹ کر رہ جاتے ہیں اورتنہائی کے عادی ہونے لگتے ہیں۔
بچوں کوگھر میں قیدکردینے کی مثال اس کسان کی سی ہے، جو اپنی مرغیوں کو لومڑی کے ڈر سے آزاد نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح والدین بھی بچوں کو باہر نکلنے کی آزادی فراہم نہیں کرتے جس کے وہ طلب گار ہوتے ہیں اور جس کی انھیں ضرورت ہوتی ہے کیونکہ والدین کے خیال میں بچوں کو سڑک حادثات، ہنگاموں، اغوا اور لوٹ مارکا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
ابتدائی عمر میں ٹریفک کا خوف ایک حد تک کارآمد بھی نظر آتا ہے کیونکہ بچہ فطرتاً معصوم اوردنیا سے انجان ہوتا ہے اور وہ اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتا اس لیے زیادہ تر وقت انھیں والدین کے زیر اثر گزارنا چاہیے، خاص کر ماؤں سے زیادہ قریب رہتے ہوئے اس طرح ان کے درمیان ایک مضبوط رشتہ استوار ہو جاتا ہے مگر دوسری جانب ایسے بچے گھرکے ماحول سے نکل کر جب اسکول جاتے ہیں تو دوسرے بچوں کی طرح گھل مل نہیں سکتے۔
اور نہ ہی اسکول کی سرگرمیوں میں بہتر طور پر حصہ لے سکتے ہیں، اسی لیے اس قسم کے بچے دوسرے بچوں کی نسبت کند ذہن، ناخوش اور سست روی کا شکار رہتے ہیں اورآخرکار جارحیت پسند یا احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی پرورش اس انداز پر نہیں ہوپاتی، جس طرح ہونی چاہیے تھی ہمارے معاشرے میں بعض مائیں بچوں کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط پسند ہوتی ہیں۔ ایسی مائیں شاید خود بھی نفسیاتی طور پر خوفزدہ ہوتی ہیں۔ انھیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کے بچے کوکوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔
ماؤں کی اس احتیاط پسندی سے بچے بھی عاجزاور بیزار ہوجاتے ہیں، اسکول کی طرف سے پکنک پر نہیں جانا، دوست یا سہیلی کے گھر نہیں جانا ،کسی سے ملنا جلنا نہیں، دوستوں کوگھر نہ لانا وغیرہ۔ اس قسم کی ہدایات بچوں کو باغی بنا دیتی ہیں۔ بچوں کی حفاظت اورنگہداشت کا ایسا طریقہ اپنائیں کہ آپ خود بھی مطمئن ہوں اور بچے کو احساس بھی نہ ہوکہ اس کی ہر وقت چوکیداری کی جا رہی ہے۔
بچے اپنے ہم عمروں میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ معاشرے سے آہستہ آہستہ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ مثبت اورروایتی طور پر پروان چڑھنے والے بچے دوسرے بچوں سے اپنا رشتہ باآسانی قائم کرلیتے ہیں۔ اپنی دلچسپیوں میں دوسرے بچوں کو شریک کرلیتے ہیں جب کہ زیر اثر بچے ان سرگرمیوں سے محروم رہتے ہیں جس سے ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔
بیرونی ممالک میں بچوں کے رویے کو جانچنے کے لیے ایک سروے کیا گیا اور اس کی رپورٹ شایع کی گئی جس میں والدین کے زیراثر رہنے والے بچوں کی مثال جنگ کے دنوں میں کیمپ میں رہنے والے بچوں سے دی گئی ہے۔
اسی رپورٹ میں بچوں کی خصوصیات کو سامنے لایا گیا تھا، مثلاً امیراور غریب بچے چست اور سست بچے اوروالدین کے زیر اثر رہنے والے بچے۔ حکومت نے ان خاندانوں پر مشتمل لوگوں پر سروے کیا، جن میں پانچ سال تک کی عمر کے بچے موجود تھے۔اس سروے کے مطابق جن بچوں کی زیادہ حفاظت، حادثات کے خوف کی وجہ سے کی جاتی ہے، ان میں بے جا ڈر اورخوف پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ ہر وقت گھر میں رہنے کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں جب کہ محفوظ علاقوں میں رہنے والے بچے خواہ وہ کسی بھی عمرکے ہوں زیادہ مطمئن اور باصلاحیت ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک برطانوی ماہرکے مطابق اگر بچوں پر بہت زیادہ پابندی لگائی جائے تو ان کے رویے میں جارحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بچے گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں کا اظہار دوسرے بچوں کی طرح نہیں کرپاتے وہ جارحیت پسند بن جاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے دوسروں پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور رائے کے مطابق بچے گھر سے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ شریک رہ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کی نقل وحرکت پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے سے والدین اورخاص کر ماں پر بچوں کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے اور وہ ان کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا معاشرتی ماحول سے رابطہ نہیں ہوتا۔ والدین کو چاہیے کہ ایسے بچے جنھیں ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی تربیت دیں اس کے اندر مجمعے کا خوف ختم کرنے کی کوشش کریں۔
بعض مائیں اس امر پر خوشی کا اظہارکرتی نظر آتی ہیں کہ ''میرا بچہ ایک پل بھی مجھے نہیں چھوڑتا'' یاد رکھیے! یہ امر آپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آپ کا بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل نہیں رہا۔ بعض مائیں احتیاط میں اس حد تک آگے چلی جاتی ہیں کہ اپنے بچوں کو اپنا محتاج بنادیتی ہیں۔ ایسا بچہ اپنے معمولی سے معمولی کام بھی خود نہیں کرسکتا اور یہ بچہ محض چند سال کا بچہ نہیں بلکہ بیس بائیس سال کا بھی ہوسکتا ہے۔
ایسے بچے دوسروں کی تضحیک اور مذاق کا ہی نشانہ بنے رہتے ہیں۔ حد سے زیادہ بچوں کو زیر اثر رکھنے میں چونکہ والدین خود بھی بندھ جاتے ہیں، اس لیے وہ خوشی محسوس نہیں کرپاتے اور نہ ہی بچے۔ اس طرح دونوں ذہنی دباؤکا شکار رہتے ہیں۔ والدین پرکام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے مثلاً گھر سے باہر بچوں کے ساتھ جانا، اسکول لے جانا واپس لانا، کھیل کے میدان تک ساتھ جانا، ان پر نظر رکھنا، سڑک پار کرانا اور باحفاظت گھر لانا، اس انداز سے بچے اپنی سرگرمیوں کو آزادی سے جاری نہیں رکھ پاتے اور اپنا اعتماد بھی کھودیتے ہیں اور مکمل طور پر صرف والدین پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔
اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ نہ صرف ٹریفک کے نظام کو بہتر بنایا جائے بلکہ گھر کے قریب ہی کھیل کی سہولت فراہم کرنے کے لیے پارک تعمیر کیے جائیں جہاں پر بچوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو، والدین بھی مطمئن رہ سکیں اور بچے بھی اپنی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کو بغیر خوف کے جاری رکھ سکیں اورخاص طور پر معاشرتی رویوں اور تقاضوں کو روایتی طور پر آزادی سے سمجھ سکیں، ان اقدامات کی بدولت نہ صرف بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونما بہتر ہوگی بلکہ ان کا اعتماد بھی بحال ہوسکے گا اور وہ والدین یا دوسرے لوگوں پر انحصارکرنے کے بجائے خود اپنا کام بہتر طور پرانجام دے سکیں گے۔
بچوں کوگھر میں قیدکردینے کی مثال اس کسان کی سی ہے، جو اپنی مرغیوں کو لومڑی کے ڈر سے آزاد نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح والدین بھی بچوں کو باہر نکلنے کی آزادی فراہم نہیں کرتے جس کے وہ طلب گار ہوتے ہیں اور جس کی انھیں ضرورت ہوتی ہے کیونکہ والدین کے خیال میں بچوں کو سڑک حادثات، ہنگاموں، اغوا اور لوٹ مارکا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
ابتدائی عمر میں ٹریفک کا خوف ایک حد تک کارآمد بھی نظر آتا ہے کیونکہ بچہ فطرتاً معصوم اوردنیا سے انجان ہوتا ہے اور وہ اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتا اس لیے زیادہ تر وقت انھیں والدین کے زیر اثر گزارنا چاہیے، خاص کر ماؤں سے زیادہ قریب رہتے ہوئے اس طرح ان کے درمیان ایک مضبوط رشتہ استوار ہو جاتا ہے مگر دوسری جانب ایسے بچے گھرکے ماحول سے نکل کر جب اسکول جاتے ہیں تو دوسرے بچوں کی طرح گھل مل نہیں سکتے۔
اور نہ ہی اسکول کی سرگرمیوں میں بہتر طور پر حصہ لے سکتے ہیں، اسی لیے اس قسم کے بچے دوسرے بچوں کی نسبت کند ذہن، ناخوش اور سست روی کا شکار رہتے ہیں اورآخرکار جارحیت پسند یا احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی پرورش اس انداز پر نہیں ہوپاتی، جس طرح ہونی چاہیے تھی ہمارے معاشرے میں بعض مائیں بچوں کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط پسند ہوتی ہیں۔ ایسی مائیں شاید خود بھی نفسیاتی طور پر خوفزدہ ہوتی ہیں۔ انھیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کے بچے کوکوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔
ماؤں کی اس احتیاط پسندی سے بچے بھی عاجزاور بیزار ہوجاتے ہیں، اسکول کی طرف سے پکنک پر نہیں جانا، دوست یا سہیلی کے گھر نہیں جانا ،کسی سے ملنا جلنا نہیں، دوستوں کوگھر نہ لانا وغیرہ۔ اس قسم کی ہدایات بچوں کو باغی بنا دیتی ہیں۔ بچوں کی حفاظت اورنگہداشت کا ایسا طریقہ اپنائیں کہ آپ خود بھی مطمئن ہوں اور بچے کو احساس بھی نہ ہوکہ اس کی ہر وقت چوکیداری کی جا رہی ہے۔
بچے اپنے ہم عمروں میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ معاشرے سے آہستہ آہستہ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ مثبت اورروایتی طور پر پروان چڑھنے والے بچے دوسرے بچوں سے اپنا رشتہ باآسانی قائم کرلیتے ہیں۔ اپنی دلچسپیوں میں دوسرے بچوں کو شریک کرلیتے ہیں جب کہ زیر اثر بچے ان سرگرمیوں سے محروم رہتے ہیں جس سے ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔
بیرونی ممالک میں بچوں کے رویے کو جانچنے کے لیے ایک سروے کیا گیا اور اس کی رپورٹ شایع کی گئی جس میں والدین کے زیراثر رہنے والے بچوں کی مثال جنگ کے دنوں میں کیمپ میں رہنے والے بچوں سے دی گئی ہے۔
اسی رپورٹ میں بچوں کی خصوصیات کو سامنے لایا گیا تھا، مثلاً امیراور غریب بچے چست اور سست بچے اوروالدین کے زیر اثر رہنے والے بچے۔ حکومت نے ان خاندانوں پر مشتمل لوگوں پر سروے کیا، جن میں پانچ سال تک کی عمر کے بچے موجود تھے۔اس سروے کے مطابق جن بچوں کی زیادہ حفاظت، حادثات کے خوف کی وجہ سے کی جاتی ہے، ان میں بے جا ڈر اورخوف پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ ہر وقت گھر میں رہنے کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں جب کہ محفوظ علاقوں میں رہنے والے بچے خواہ وہ کسی بھی عمرکے ہوں زیادہ مطمئن اور باصلاحیت ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک برطانوی ماہرکے مطابق اگر بچوں پر بہت زیادہ پابندی لگائی جائے تو ان کے رویے میں جارحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بچے گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں کا اظہار دوسرے بچوں کی طرح نہیں کرپاتے وہ جارحیت پسند بن جاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو منوانے کے لیے دوسروں پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور رائے کے مطابق بچے گھر سے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ شریک رہ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بچوں کی نقل وحرکت پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے سے والدین اورخاص کر ماں پر بچوں کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے اور وہ ان کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا معاشرتی ماحول سے رابطہ نہیں ہوتا۔ والدین کو چاہیے کہ ایسے بچے جنھیں ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی تربیت دیں اس کے اندر مجمعے کا خوف ختم کرنے کی کوشش کریں۔
بعض مائیں اس امر پر خوشی کا اظہارکرتی نظر آتی ہیں کہ ''میرا بچہ ایک پل بھی مجھے نہیں چھوڑتا'' یاد رکھیے! یہ امر آپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آپ کا بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل نہیں رہا۔ بعض مائیں احتیاط میں اس حد تک آگے چلی جاتی ہیں کہ اپنے بچوں کو اپنا محتاج بنادیتی ہیں۔ ایسا بچہ اپنے معمولی سے معمولی کام بھی خود نہیں کرسکتا اور یہ بچہ محض چند سال کا بچہ نہیں بلکہ بیس بائیس سال کا بھی ہوسکتا ہے۔
ایسے بچے دوسروں کی تضحیک اور مذاق کا ہی نشانہ بنے رہتے ہیں۔ حد سے زیادہ بچوں کو زیر اثر رکھنے میں چونکہ والدین خود بھی بندھ جاتے ہیں، اس لیے وہ خوشی محسوس نہیں کرپاتے اور نہ ہی بچے۔ اس طرح دونوں ذہنی دباؤکا شکار رہتے ہیں۔ والدین پرکام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے مثلاً گھر سے باہر بچوں کے ساتھ جانا، اسکول لے جانا واپس لانا، کھیل کے میدان تک ساتھ جانا، ان پر نظر رکھنا، سڑک پار کرانا اور باحفاظت گھر لانا، اس انداز سے بچے اپنی سرگرمیوں کو آزادی سے جاری نہیں رکھ پاتے اور اپنا اعتماد بھی کھودیتے ہیں اور مکمل طور پر صرف والدین پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔
اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ نہ صرف ٹریفک کے نظام کو بہتر بنایا جائے بلکہ گھر کے قریب ہی کھیل کی سہولت فراہم کرنے کے لیے پارک تعمیر کیے جائیں جہاں پر بچوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو، والدین بھی مطمئن رہ سکیں اور بچے بھی اپنی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کو بغیر خوف کے جاری رکھ سکیں اورخاص طور پر معاشرتی رویوں اور تقاضوں کو روایتی طور پر آزادی سے سمجھ سکیں، ان اقدامات کی بدولت نہ صرف بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونما بہتر ہوگی بلکہ ان کا اعتماد بھی بحال ہوسکے گا اور وہ والدین یا دوسرے لوگوں پر انحصارکرنے کے بجائے خود اپنا کام بہتر طور پرانجام دے سکیں گے۔