زہر بھرا ہے پیراہن میں

مغربی ممالک کی کمپنیاں اپنے ملبوسات مشرقی ملکوں میں کیوں تیار کرواتی ہیں.

فوٹو : فائل

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جدید فیشن کے ملبوسات بنانے والی بیشتر یورپی کمپنیاں اپنے آرڈر ایشیائی ممالک میں کیوں تیار کرواتی ہیں، بالخصوص بنگلادیش، بھارت اور چین ان کمپنیوں کے منظور نظر کیوں ہیں؟

اس راز پر سے پردہ اٹھانے والی ماحولیاتی تحفظ کی بین الااقوامی تنظیم گرین پیس کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے، کیوں کہ جدید فیشن کے ملبوسات کو نرم اور منفرد رنگوں کے ڈیزائن دینے اور تیار کرنے میں زہریلے مادے شامل کرنے پڑتے ہیں اور چوں کہ یورپی ممالک میں ان زہریلے کیمیائی مادوں کے استعمال پر پابندی ہے، لہٰذا یہ کام بغیر کسی دقت کے مذکورہ ممالک میں انجام دیا جاسکتا ہے۔




گرین پیس کے ماہرین نے یہ انکشاف اس مطالعاتی جائزے کی بنیاد پر کیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ 20 بین الااقوامی یورپی کمپنیوں کے 141 لباسوں کے نمونوں میں ایسے زہریلے کیمیائی مادوں کی باقیات ملنے کی تصدیق ہوئی ہے جس کے باعث انسانی ہارمونز میں عدم توازن، جلد کی الرجی اور مختلف کینسر پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب ان کپڑوں کو دوران تیاری دھویا جاتا ہے، تو نہ صرف اس سے فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی صحت خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، بلکہ استعمال شدہ زہریلے پانی کو فلٹر کیے بغیر ندی نالوں اور دریائوں میں انڈیل دیا جاتا ہے، جس سے ان کے اطراف میں بسنے والی آبادیاں متاثر ہوتی ہیں اور آبی حیات بھی زہرآلود ہوجاتی ہے اور جب ان آلودہ مچھلیوں وغیرہ کو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے تو متعدد مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تاہم گرین پیس کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کے بعد جدید فیشن کے ملبوسات تیار کرنے والی بہت سے یورپی کمپنیوں نے اپنے اداروں میں کوالٹی کنٹرول کو مزید سخت کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے ایشیائی ممالک میں ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بھی زہریلے کیمیائی مادوں کے تلف کرنے کے ضوابط پر عمل کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
Load Next Story