سقوط ڈھاکا سے سبق لیا جائے
آج ہم آدھے دھڑ کے ساتھ زندہ ہیں، مگر پھر بھی ہم تاریخ سے سبق نہیں لے رہے
ISLAMABAD:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
16 دسمبر 1971 ہماری تاریخ کا سب سے المناک دن۔۔۔۔۔ کہ جب 1947 میں قائم ہونے والا ملک ''پاکستان'' اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا، جب مشرقی پاکستان معصوم لوگوں کی آہوں سے گونج رہا تھا، جب اقتدار میں آنے والوں نے عوام کی رگوں میں دوڑنے والے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ ڈالا تھا! ہاں۔۔۔۔ یہ وہی دور تھا جب ہر طرف ظلم، جبر اور لہو کی داستانیں رقم ہورہی تھیں اور ہر اس شخص کے سر کی قیمت لگائی جارہی تھی جو یہ چاہتا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں اور اسی طرح متحد ہو کر دشمن کے ہر ناپاک ارادے اور سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور ہر معرکے میں دشمن کو شکست کھاتا دیکھیں، مگر کچھ کرداروں نے اس خوبصورت کہانی کو ایک الم ناک موڑ دے دیا۔ ایک ایسی کہانی کو جس کا ہر کردار منفی شخصیت کا مالک تھا، خواہ وہ یحییٰ خان ہو یا ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن ہو یا اندرا گاندھی۔
تاریخ کی اس کہانی نے ماضی میں چلی آئی تمام کہانیوں کے اصول و ضوابط توڑ ڈالے تھے، غیروں سے کیا شکوہ کناں ہونا جب اپنوں نے ہی بیچ منجدھار میں آکے ساتھ چھوڑ دیا، ذوالفقار علی بھٹو، یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمٰن، ان تینوں نے پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اپنی قوم کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیا، اس پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جس کی خاطر لاکھوں کروڑوں لوگ ہجرت کرکے آئے تھے، اپنا سب کچھ چھوڑ کے، اپنی جان کی پروا کیے بغیر اور جانے کتنے ہی لوگوں نے اپنی جانیں اس وطن پر نچھاور کردی تھیں۔ ان لوگوں کے دلوں میں صرف ایک خواہش تھی اور وہ تھی پاکستان کو بنتے دیکھنا، ایک ایسے ملک میں رہنا جہاں سوائے اﷲ کے کوئی اور قانون نہ ہو، ایک ایسی مٹی میں دفن ہونا کہ جس پر چلنے والوں کا آپس میں رشتہ سوائے مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ یہ کچھ ایسی ہی خواہش تھی جس کی خاطر اتنی جدوجہد کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا، مگر کچھ ہی برسوں بعد اس گھر میں رہنے والے لوگوں نے ہی اس کے دو ٹکڑے کردیے، اس خواب کو تار تار کر دیا جو علامہ اقبال نے دیکھا تھا، اس محنت کو پاؤں تلے روند ڈالا جو قائد اعظم نے کی، اور ایسا کرنے والے وہی لوگ تھے جنھیں اپنی ''کرسی'' سے زیادہ عزیز کوئی شے معلوم نہیں ہوتی تھی، جنہوں نے اپنے لیے نہ ختم ہونے والی نفرتوں اور کدورتوں کے دَر کھول دیے تھے۔
1970 کے الیکشن تو یقیناً جنرل یحییٰ خان نے شفاف اور منصفانہ کرا دیے تھے لیکن اس کے بعد کے حالات نے سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا تھا۔ نہ تو اس الیکشن میں کامیاب ہونے والی قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوسکا اور نہ ہی دو بڑی سیاسی جماعتیں اسمبلی سے باہر کسی سمجھوتے پر پہنچ سکیں۔
شیخ مجیب الرحمن کو گورنمنٹ بنانے کا موقع نہ دیا گیا تو مجیب الرحمن کے چاہنے والوں نے مشرقی پاکستان کو پاکستان کا حصہ ماننے سے انکار کردیا اور مشرقی پاکستان میں شورش بڑھتی چلی گئی، لیکن لوگوں کو پھر بھی ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید حالات سدھر جائیں، شاید حکمران کچھ عقل کے ناخن لیں، شاید کہ حکمرانوں کو نظریہ پاکستان یاد آجائے، شاید حکمران ایثار و قربانی سے کام لیں، مگر 25 مارچ 1971 میں یہ آس بھی ختم ہوگئی جب چیف مارشل لاء ایڈمناسٹریٹر نے صوبائی کمانڈر کو آرمی ایکشن لینے کا حکم دیا اور بنگالی جوانوں نے جو ''مکتی باہنی'' کے نام سے جانے جاتے تھے، ہندوستانی فوج کے ساتھ مل کر ہر میدان میں پاک فوج سے معرکہ آرائی کی اور مملکت کے اندرونی خلفشار اور شورش نے جنگ کا روپ دھار لیا اور اس جنگ میں پِسنے والا صرف ایک جسم تھا، اور اس جسم کی مالک تھی ''پاکستانی عوام''۔ اسی کشمکش میں کہانی کا وہ موڑ آگیا جس کے بعد متحدہ پاکستان نے نہ کوئی یومِ پاکستان منایا اور نہ یومِ آزادی۔ یعنی 16 دسمبر 1971... اس دن ہر وہ آنکھ خون کے آنسو رو رہی تھی کہ جس نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں پاکستانی کمانڈر کو شکست کی دستاویز پر دستخط کرتے دیکھا، ہر اس انسان کی آس ٹوٹ گئی جو پاکستان سے محبت رکھتا تھا، اور انھی ڈوبتی کشتیوں، اشکبار آنکھوں اور ٹوٹتی سسکیوں کے ساتھ ہی پاکستان اپنے آدھے دھڑ سے الگ ہوگیا، انھی چیخوں اور آہوں کے جلو میں ''بنگلہ دیش'' کی آزاد مملکت وجود میں آگئی۔
آج ہم آدھے دھڑ کے ساتھ زندہ ہیں، مگر پھر بھی ہم تاریخ سے سبق نہیں لے رہے، ہم آج بھی غمِ فراق سے واقف نہیں اور آج پھر ہم اپنے پختون اور بلوچستانی بھائیوں کے دلوں میں اپنے لیے نفرت بٹھا رہے ہیں، آج پھر ہم زندگی کے اس دوراہے کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں جس کے بعد ایک بار پھر جدائی کا دکھ سہنا پڑے گا، ہم پاکستان کو مضبوط کرنے کے بجائے غیرملکی طاقتوں کے ہاتھ کھلونا بن رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب، یہ وہ صوبے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی الگ ہوا تو یقیناً پاکستان کا نام و نشان بھی دنیا کے نقشے میں نہ ہوگا، یقیناً سقوطِ ڈھاکا کوئی ایسا سانحہ نہیں جسے بھلا دیا جائے، اسے یاد رکھنا چاہیے، اس لیے نہیں کہ ہمیں پاکستان اور اس کے بنانے والے سے محبت ہے بلکہ صرف اس لیے کیونکہ ہمیں اس سے سبق لینا ہے، سبق اتحاد میں برکت کا، سبق ایثار و قربانی کا، سبق حقوق و فرائض کا اور سبق صداقت و شجاعت کا۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
16 دسمبر 1971 ہماری تاریخ کا سب سے المناک دن۔۔۔۔۔ کہ جب 1947 میں قائم ہونے والا ملک ''پاکستان'' اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا، جب مشرقی پاکستان معصوم لوگوں کی آہوں سے گونج رہا تھا، جب اقتدار میں آنے والوں نے عوام کی رگوں میں دوڑنے والے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ ڈالا تھا! ہاں۔۔۔۔ یہ وہی دور تھا جب ہر طرف ظلم، جبر اور لہو کی داستانیں رقم ہورہی تھیں اور ہر اس شخص کے سر کی قیمت لگائی جارہی تھی جو یہ چاہتا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں اور اسی طرح متحد ہو کر دشمن کے ہر ناپاک ارادے اور سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور ہر معرکے میں دشمن کو شکست کھاتا دیکھیں، مگر کچھ کرداروں نے اس خوبصورت کہانی کو ایک الم ناک موڑ دے دیا۔ ایک ایسی کہانی کو جس کا ہر کردار منفی شخصیت کا مالک تھا، خواہ وہ یحییٰ خان ہو یا ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن ہو یا اندرا گاندھی۔
تاریخ کی اس کہانی نے ماضی میں چلی آئی تمام کہانیوں کے اصول و ضوابط توڑ ڈالے تھے، غیروں سے کیا شکوہ کناں ہونا جب اپنوں نے ہی بیچ منجدھار میں آکے ساتھ چھوڑ دیا، ذوالفقار علی بھٹو، یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمٰن، ان تینوں نے پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اپنی قوم کا اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ دیا، اس پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جس کی خاطر لاکھوں کروڑوں لوگ ہجرت کرکے آئے تھے، اپنا سب کچھ چھوڑ کے، اپنی جان کی پروا کیے بغیر اور جانے کتنے ہی لوگوں نے اپنی جانیں اس وطن پر نچھاور کردی تھیں۔ ان لوگوں کے دلوں میں صرف ایک خواہش تھی اور وہ تھی پاکستان کو بنتے دیکھنا، ایک ایسے ملک میں رہنا جہاں سوائے اﷲ کے کوئی اور قانون نہ ہو، ایک ایسی مٹی میں دفن ہونا کہ جس پر چلنے والوں کا آپس میں رشتہ سوائے مسلمان ہونے کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ یہ کچھ ایسی ہی خواہش تھی جس کی خاطر اتنی جدوجہد کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا، مگر کچھ ہی برسوں بعد اس گھر میں رہنے والے لوگوں نے ہی اس کے دو ٹکڑے کردیے، اس خواب کو تار تار کر دیا جو علامہ اقبال نے دیکھا تھا، اس محنت کو پاؤں تلے روند ڈالا جو قائد اعظم نے کی، اور ایسا کرنے والے وہی لوگ تھے جنھیں اپنی ''کرسی'' سے زیادہ عزیز کوئی شے معلوم نہیں ہوتی تھی، جنہوں نے اپنے لیے نہ ختم ہونے والی نفرتوں اور کدورتوں کے دَر کھول دیے تھے۔
1970 کے الیکشن تو یقیناً جنرل یحییٰ خان نے شفاف اور منصفانہ کرا دیے تھے لیکن اس کے بعد کے حالات نے سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا تھا۔ نہ تو اس الیکشن میں کامیاب ہونے والی قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوسکا اور نہ ہی دو بڑی سیاسی جماعتیں اسمبلی سے باہر کسی سمجھوتے پر پہنچ سکیں۔
شیخ مجیب الرحمن کو گورنمنٹ بنانے کا موقع نہ دیا گیا تو مجیب الرحمن کے چاہنے والوں نے مشرقی پاکستان کو پاکستان کا حصہ ماننے سے انکار کردیا اور مشرقی پاکستان میں شورش بڑھتی چلی گئی، لیکن لوگوں کو پھر بھی ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید حالات سدھر جائیں، شاید حکمران کچھ عقل کے ناخن لیں، شاید کہ حکمرانوں کو نظریہ پاکستان یاد آجائے، شاید حکمران ایثار و قربانی سے کام لیں، مگر 25 مارچ 1971 میں یہ آس بھی ختم ہوگئی جب چیف مارشل لاء ایڈمناسٹریٹر نے صوبائی کمانڈر کو آرمی ایکشن لینے کا حکم دیا اور بنگالی جوانوں نے جو ''مکتی باہنی'' کے نام سے جانے جاتے تھے، ہندوستانی فوج کے ساتھ مل کر ہر میدان میں پاک فوج سے معرکہ آرائی کی اور مملکت کے اندرونی خلفشار اور شورش نے جنگ کا روپ دھار لیا اور اس جنگ میں پِسنے والا صرف ایک جسم تھا، اور اس جسم کی مالک تھی ''پاکستانی عوام''۔ اسی کشمکش میں کہانی کا وہ موڑ آگیا جس کے بعد متحدہ پاکستان نے نہ کوئی یومِ پاکستان منایا اور نہ یومِ آزادی۔ یعنی 16 دسمبر 1971... اس دن ہر وہ آنکھ خون کے آنسو رو رہی تھی کہ جس نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں پاکستانی کمانڈر کو شکست کی دستاویز پر دستخط کرتے دیکھا، ہر اس انسان کی آس ٹوٹ گئی جو پاکستان سے محبت رکھتا تھا، اور انھی ڈوبتی کشتیوں، اشکبار آنکھوں اور ٹوٹتی سسکیوں کے ساتھ ہی پاکستان اپنے آدھے دھڑ سے الگ ہوگیا، انھی چیخوں اور آہوں کے جلو میں ''بنگلہ دیش'' کی آزاد مملکت وجود میں آگئی۔
آج ہم آدھے دھڑ کے ساتھ زندہ ہیں، مگر پھر بھی ہم تاریخ سے سبق نہیں لے رہے، ہم آج بھی غمِ فراق سے واقف نہیں اور آج پھر ہم اپنے پختون اور بلوچستانی بھائیوں کے دلوں میں اپنے لیے نفرت بٹھا رہے ہیں، آج پھر ہم زندگی کے اس دوراہے کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں جس کے بعد ایک بار پھر جدائی کا دکھ سہنا پڑے گا، ہم پاکستان کو مضبوط کرنے کے بجائے غیرملکی طاقتوں کے ہاتھ کھلونا بن رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب، یہ وہ صوبے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی الگ ہوا تو یقیناً پاکستان کا نام و نشان بھی دنیا کے نقشے میں نہ ہوگا، یقیناً سقوطِ ڈھاکا کوئی ایسا سانحہ نہیں جسے بھلا دیا جائے، اسے یاد رکھنا چاہیے، اس لیے نہیں کہ ہمیں پاکستان اور اس کے بنانے والے سے محبت ہے بلکہ صرف اس لیے کیونکہ ہمیں اس سے سبق لینا ہے، سبق اتحاد میں برکت کا، سبق ایثار و قربانی کا، سبق حقوق و فرائض کا اور سبق صداقت و شجاعت کا۔