موجودہ صورت حال پر چند باتیں

زرداری نے کیانی کو توسیع دینے کی پیش کش کی جس کو انھیں قبول کرنا پڑا

ISLAMABAD:
1975ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی سربراہ کمانڈر ان چیف (سی این سی) کے عہدے کا نام بدل کر چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) رکھ دیا اور اس طرح یہ منصب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (جے سی ایس سی) کے ماتحت ہو گیا۔

مسلح افواج میں جدید یکجہتی پیدا کرنے کا ان کا ویژن درست تھا لیکن اس کا اصل مقصد کسی ممکنہ فوجی بغاوت کا راستہ بند کرنا تھا تاکہ طاقت کا ایک اور مرکز تخلیق کر لیا جائے۔ لیکن جب 1977ء میں فوجی بغاوت ہوئی تو چیئرمین جے سی ایس سی بے اختیار رہ گیا اور وہ سی او اے ایس کو مارشل لاء نافذ کرنے سے نہ روک سکا۔ سی او اے ایس آج بھی سی این سی ہی ہے گو کہ اس کا نام تبدیل ہو چکا ہے۔

اس ضمن میں میرے 29 اگست 2016ء کے آرٹیکل ''صرف انکار کر دیں'' کو دیکھئے جس میں کہا گیا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف کے طور پر بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود جو انھوں نے اپنے فرائض منصبی سے بڑھ کر دکھائی تاہم وہ حکومت کی طرف سے اپنے عہدے کی مدت میں توسیع قبول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

مسلم لیگ (ن) جو پانامہ لیکس کے علاوہ بھی بہت سے تنازعات میں گھری ہے وہ بڑی شد و مد سے جنرل راحیل شریف کے نومبر 2016ء میں ریٹائر ہونے سے پہلے ''اسٹیٹس کو'' ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتی ہے''۔ عمران خان کی طرف سے اسلام آباد کو بند کرنے کے اعلان نے دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ میرے نزدیک ہمارا بہترین سی او اے ایس جنرل وحید کاکڑ تھا جس نے 1995ء میں بینظیر کی طرف سے مدت ملازمت میں سال بھر کی توسیع کی پیشکش پر صاف لفظوں میں انکار کر دیا کیونکہ ان کے خیال میں اس سے آرمی میں معمول کے مطابق ترقیوں کے سلسلہ میں رخنہ پیدا ہو گا۔

یہاں میں جنرل کاکڑ کے اس بیان کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''فوج کی اعلیٰ قیادت جس قدر بھی مخلص کیوں نہ ہو انھیں سب سے اونچے عہدے تک پہنچنے کی طلب ضرور رہتی ہے کیونکہ اسی مقصد کے لیے انھوں نے اپنے پورے کیرئیر میں تیاری کی ہوتی ہے۔ بہت سے باصلاحیت افسران سروس سے پہلے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے معمول کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے''۔

زرداری نے کیانی کو توسیع دینے کی پیش کش کی جس کو انھیں قبول کرنا پڑا اور یوں انھیں زرداری حکومت کی کرپشن کو بھی نظرانداز کرنا پڑا۔ کسی قریبی رشتہ دار کو مسلح افواج وابستہ اداروں کے ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ خرابی پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ مشرف کے لیے ذاتی وفاداری کی میرٹ سے زیادہ اہمیت تھی جب کہ کیانی زیادہ تر اور راحیل شریف نے ہمیشہ میرٹ پر ہی انتخاب کیا۔


آج تمام لیفٹیننٹ جنرلز جو پیشہ وارانہ طور پر باصلاحیت ہیں انھوں نے مختلف درجوں پر جنگ کا تجربہ بھی حاصل کیا لہٰذا کور کمانڈر اور پرنسپل اسٹاف افسر (پی ایس او) کے طور پر ان کی کارکردگی کا مکمل جائزہ لیا جا سکتا ہے تاکہ اگر کہیں کوئی منفی پہلو ہو تو نظر آ جائے۔ جنرل کیانی نے جو لٹمس ٹیسٹ مقرر کیا تھا اس میں سنیارٹی کا معیار وہی رکھا گیا تھا جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے ہے۔

امکانی طور پر کسی ناپختہ ذہن والے ''نان اسٹیٹ ایکٹر'' نے جس کا تعلق مسلم لیگ ن کے اندرونی حلقے سے ہو سکتا ہے' ایک کہانی گھڑی جس کا مقصد جنرل راحیل شریف بلکہ پوری فوج کو دباؤ میں لانا تھا۔ اس کا خیال ہو گا کہ اس طرح سی او اے ایس کو اپنی بات ماننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن اسے احساس نہیں تھا کہ اس سے کتنا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ جو بھی اس کا ذمے دار تھا اس نے دشمن کے پراپیگنڈے کو اور زیادہ ہوا دے دی جب کہ ذمے دار کو سزا دی جانی چاہیے۔

اعلیٰ تر قومی مقاصد کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ 1975ء میں جس مقصد کی خاطر جے سی ایس سی کا عہدہ قائم کیا گیا تھا اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ یہاں میں اپنے ایک اور آرٹیکل کا حوالہ دینا چاہوں گا جس کا عنوان تھا ''اکیسویں صدی کی جنگیں لڑنا'' اس میں کہا گیا تھا کہ ''بھارت کے ساتھ ہونے والی کوئی بھی جنگ ہمارے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہو گی لہٰذا یہ جنگ بہت تیزی اور انتہا درجہ کی شدّت کی متقاضی ہو گی جو نہایت محدود مدت کے لیے لڑی جائے گی گو کہ اس میں فضائیہ اور بحریہ بھی شامل ہونگی لیکن اس کی حتمی فتح یا شکست کا فیصلہ زمین پر ہی ہو گا۔

چیئرمین جے سی ایس سی کا مقصد اس کو مکمل اختیارات سونپنا تھا تاکہ وہ تمام دفاعی افواج پر مکمل کنٹرول کر سکے''۔ چونکہ جنرل راحیل شریف کو مکمل مقبولیت حاصل ہے اور قوم چاہتی ہے کہ وہ ملک کی خدمت جاری رکھیں لہٰذا انھیں متحدہ کمان کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے جن کا ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو ہی ہو۔ وزیراعظم کسی بھی تعیناتی کے لیے اپنے پسندیدہ شخص کو منتخب کریں گے۔

شریف برادران نے ملک کی صدارت کے لیے سرتاج عزیز کے بجائے پہلے رفیق تارڑ کو اور اب ممنون حسین کو صدر بنایا۔ رفیق تارڑ اس امتحان میں اس وقت ناکام ہو گئے جب مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ کیا اب اگر دوبارہ ویسی صورت حال پیدا ہوئی تو صدر ممنون حسین کسی مختلف کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے؟

جسٹس سید منصور علی شاہ نے حکومت کے خلاف چند فیصلے دیے ہیں اس کے باوجود انھیں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا ہے جسے بابر اعوان نے ایک معجزہ قرار دیا۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہاس بار وہ سی او اے ایس کی تعیناتی کے لیے اپنی روایتی مشق سے روگردانی کریں جو ایک اور معجزہ ثابت ہو گا۔ہماری موجود سیکیورٹی کے حالات کے پیش نظرممکن ہے کہ راحیل شریف مزید ایک سال کے لیے ملک کی خدمت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔

ریٹائرڈ آرمی رینکس سے ملنے والے فیڈ بیک کے مطابق سنیارٹی میں قومی تناؤ کو مقدم رکھنے والے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس میں کسی قسم کے ذاتی مفاد کا خیال نہیں کیا جانا چاہیے اور اس بات کا بھرپور احساس رہنا چاہیے کہ ہم پاکستان آرمی کے سی او اے ایس کا انتخاب کر رہے ہیں کسی فیکٹری منیجر کا نہیں۔
Load Next Story