میرے بھائی جان
بے پناہ خوبیوں کے مالک یہ عظیم انسان میرے بڑے بھائی تھے۔ ہم تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے
آپ میں سے جن خواتین وحضرات کو اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں واقع ایشیا کے سب سے بڑے بک اسٹورز میں سے ایک، سعید بک بینک، دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ کسی مخصوص بزنس میں ایسی عظیم الشان ایمپائرکھڑی کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے کے پیچھے کسی انتہائی غیر معمولی ذہین انسان کی خدا داد صلاحیت، پیشہ ورانہ مہارت، مستقل مزاجی اور ایک طویل مدت کی شب و روز کی محنت کار فرما رہی ہو گی۔
اس شاندار اور پاکستان میں اپنی نوعیت کے واحد وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے دو منزلہ (گراؤنڈ پلس ٹو) سپر بک اسٹور کے بانی، سعید جان قریشی تھے جو8 ستمبر 2015 ء کو 77سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
بے پناہ خوبیوں کے مالک یہ عظیم انسان میرے بڑے بھائی تھے۔ ہم تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے جب کہ سات بہن بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا تھا، وہ مجھ سے 6 سال بڑے تھے۔ اپنے سب بہن بھائیوں کی طرح ان کی جائے پیدائش بھی زیریں سندھ کے موجودہ ضلع بدین کا چھوٹا سا شہر ٹنڈو غلام علی ہے، جہاں انھوں نے 1938ء میں، افسانوی شہرت کے مالک، بہت بڑے جاگیردار اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ (جو اس زمانے میں وزیراعظم کہلاتے تھے)، میر بندہ علی خان تالپور کے ایک ملازم مستری تاج محمد قریشی کے گھر شب معراج کی مبارک گھڑیوں میں آنکھ کھولی۔
ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول ٹنڈو غلام علی میں حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ثانوی تعلیم کے لیے شہر سے چند میل دور پنجابی آبادکاروں کے گاؤں 70چک کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا، کیونکہ اس وقت تک ٹنڈوغلام علی میں ہائی اسکول توکیا مڈل اسکول بھی نہیں تھا۔ بعدازاں انھیں نورمحمد ہائی اسکول حیدرآباد میں داخلہ مل گیا، جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، جو سندھ یونیورسٹی لیتی تھی۔
ابا جان کی طویل بیماری اور ریٹائرمنٹ کے بعد چونکہ گھرکا سارا بوجھ ان کے کاندھوں پر آن پڑا تھا، اس لیے وہ مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔ وہ شروع ہی سے کاروبار میں دلچسپی رکھتے تھے سو انھوں نے ٹنڈے میں ہی ہارڈ ویئر اینڈ گلاس ویئرکی دکان سے کاروبار شروع کیا لیکن یہ کامیاب نہیں رہا اور وہ پشاور چلے گئے اور صدر میں واقع لندن بک کمپنی نامی بڑے بک اسٹور میں، جس کی دوسری برانچ راولپنڈی میں تھی، سیلزمین ہو گئے۔
لندن بک کمپنی بیرون ملک سے کتابیں امپورٹ بھی کرتی تھی اور ان کا بڑا پرانا اور جما جمایا بزنس تھا۔ بھائی جان محنت اورکام سے لگن کی بنا پر تھوڑے ہی عرصے میں ترقی کر کے منیجر بن گئے۔ اسی زمانے میں اپوا نے ارباب روڈ پرلندن بک کمپنی کے عین سامنے واقع اپنے پلاٹ پر دکانیں تعمیرکیں تو بھائی جان نے بھی اپنی جمع پونجی سے ان میں سے ایک دکان لے لی اور ملازمت چھوڑ کر سعید بک بینک کے نام سے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے برکت دی، ان کا بزنس تیزی سے ترقی کرنے لگا اور وہ اسے وسعت دینے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ 60 ء کی دہائی کا زمانہ تھا، میں بھائی جان سے ملنے پہلی بار پشاور گیا تو مجھے یوں لگا جیسے امریکا آ گیا ہوں۔ سرد جنگ زوروں پر تھی، ایوب خان نے بڈھ بیڑکا فوجی اڈہ امریکا کو دے رکھا تھا جسے وہ روس کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال کرتا تھا۔ ہماری نسل کے لوگ آج بھی وہ واقعہ نہیں بھولے ہوں گے جب اس اڈے سے اڑ کر روس پر جاسوسی پروازکرنے والے ایک امریکی یو 2 طیارے کو وہاں گرا لیا گیا اور روسی وزیراعظم نکتیا خروشیف نے اس پر اپنا رد عمل یوں ظاہرکیا کہ نقشے پر پشاورکے گرد سرخ دائرہ کھینچ کر دھمکی دی کہ اگر پھر کسی امریکی طیارے نے وہاں سے پرواز کی تو وہ اس شہرکو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔
صدر کے علاقے میں ہر طرف امریکی ہی امریکی دکھائی دیتے تھے۔ نیکر پہنے مرد، جو دراصل امریکی فوجی ہوتے تھے اور منی اسکرٹ میں ملبوس ان کی عورتیں ہر طرف مٹرگشت کرتی یا دکانوں میں خریداری کرتی نظر آتی تھیں۔ امریکا سے ان فوجیوں کے لیے سگریٹ، شراب اور ڈبوں میں بند خورونوش کا سامان اس قدر وافر مقدار میں آتا تھا کہ کھلے عام دکانوں پر بکتا تھا، ساتھ ہی لنڈی کوتل کے راستے افغانستان سے اسمگلنگ کا عالم یہ تھا کہ کھوکھوں پر روسی سگریٹ اور پولینڈ کے ماچس فروخت ہوتے اور وہ بھی اتنے سستے کہ مقامی چیزوں کوکوئی پوچھتا نہ تھا۔
چند سالوں بعد جب میرا دوبارہ جانا ہوا تو میں نے پشاور پرغیرملکی سیاحوں کی یلغار دیکھی۔ ان میں یورپی ملکوں کے باشندوں کے ساتھ چینیوں اور جاپانیوں سمیت ایشیائیوں کی بھی خاصی تعداد شامل تھی۔ بڈھ بیڑ کا فوجی اڈہ خالی کرنے سے پہلے امریکیوں کی یہاں بڑی تعداد میں موجودگی اور پھر غیر ملکی سیاحوں کے امڈتے ہوئے سیلاب کی وجہ سے پشاور میں بک سیلنگ بزنس کو بڑا فروغ ملا اور سعید بک بینک نے خوب ترقی کی۔
بھائی جان نے اسی اپوا مارکیٹ میں تین چار مزید دکانیں خرید کر انھیں حسب خواہش ازسرنو تعمیر کروا کے بیسمنٹ سمیت بڑی جگہ میں تبدیل کیا اور چھوٹی دکان سے اس میں منتقل ہو گئے۔ دریں اثنا ان کے بچے بڑے ہو چکے تھے، تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی نہ صرف شادیاں ہو چکی تھیں بلکہ دونوں صاحبزادے احمد اور اکبرکاروبار میں والد کا ہاتھ بھی بٹانے لگے تھے۔
اس مرحلے پر جب سعید بک بینک نے اپنا کاروبار ملک گیر پیمانے پر پھیلا لیا اور اسے پاکستان کے سب سے بڑے کتابوں کے درآمد کندگان کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا، جس کے لیے بھائی جان اور ان کے صاحبزادے ہر سال باری باری جرمنی میں ہونے والے بین الاقوامی کتب میلے میں شریک ہو کر کتابوں کا انتخاب کیا کرتے تھے، سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ اچانک افغانستان کے حالات میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔
قریبی پڑوسی ہونے کی وجہ سے پشاورکا ان سے متاثر ہونا فطری عمل تھا۔ پہلے خانہ جنگی، پھر طالبان فیکٹر اور اس کے بعد نائن الیون اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی افغان جنگ کے اثرات نے پشاورکے حالات کو بری طرح متاثر کیا، رہی سہی کسر دہشتگردی کے خلاف جنگ نے پوری کر دی۔ ان سارے عوامل کے کاروبار پرانتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے، نتیجتاً سعید بک بینک پشاور سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ وہ جو کہتے ہیں ناکہ قدرت کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، سو فیصد سچ ہے۔ اسلام آباد آنا بھائی جان کے لیے بہت مبارک ثابت ہوا جہاں ان کا شروع کیا ہوا کاروبار ماشا اللہ دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے اور ایف الیون میں سعید بک بینک کی دوسری برانچ بھی کھل چکی ہے۔
اپنے بزنس کے بارے میں بھائی جان نے کبھی کچھ نہیں چھپایا اور بارہا تفصیل سے اظہار خیال کر چکے تھے، اس سلسلے میں ان کا آخری انٹرویو وفات سے چھ ماہ قبل 26 فروری 2015ء کو انگریزی اخبار میں شایع ہوا، جو شیزا ملک نے لیا تھا۔ Living Colours: For the Love of Books۔ امریکی اخبار ' دی نیویارک ٹائمز نے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 24 نومبر2015ء کوA Storied Bookstore and Its Late Oracle Leave an Imprint on Islamabadکے زیرعنوان روڈ نورڈ لینڈ کا ایک مفصل مضمون شایع کیا۔ بین الاقوامی ساکھ کے حامل اسی اخبار میں 30 نومبر 2015ء کو پھر لائم او' برین کا دوسرا مضمون شایع ہوا جس کا عنوان تھا :
The Next Chapter for Islamabads Biggest Bookstore
اس مضمون میں بھائی جان اور ان کے بزنس کے بارے میں احمد سعید سے بات چیت کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتوں کا بھی ذکر تھا۔ آج اس بڑھاپے میں بھی اپنے بھائی جان کو ان کے ساتھ بیتے ہوئے اپنے بچپن اور لڑکپن کی یادوں کے حوالے سے بہت مس کرتا ہوں اور چشم تصور سے خود کو ان کے ساتھ ملکر درخت سے بیر اور میروں کے باغ سے آم توڑتے، ابا کی بندوق سے چھپ کر موروں کا شکار کرتے، بھائی بہنوں کی عیدی کے پیسوں میں غبن کرتے، پال ڈلے ہوئے آموں کے مٹکے چھت پر چڑھ کر چھپ کر آم کھاتے، روزے رکھ کر سونے کے بہانے کمرے میں بند ہو کر صراحی سے گلاس بھر بھر کر ٹھنڈا پانی پیتے اور بھڑوں کے چھتے میں پتھر مار کر بھاگتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ بھائی جان کے ساتھ مل کر کی ہوئی ان شرارتوں کی یادیں میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔
اس شاندار اور پاکستان میں اپنی نوعیت کے واحد وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے دو منزلہ (گراؤنڈ پلس ٹو) سپر بک اسٹور کے بانی، سعید جان قریشی تھے جو8 ستمبر 2015 ء کو 77سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
بے پناہ خوبیوں کے مالک یہ عظیم انسان میرے بڑے بھائی تھے۔ ہم تین بھائیوں میں وہ سب سے بڑے تھے جب کہ سات بہن بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا تھا، وہ مجھ سے 6 سال بڑے تھے۔ اپنے سب بہن بھائیوں کی طرح ان کی جائے پیدائش بھی زیریں سندھ کے موجودہ ضلع بدین کا چھوٹا سا شہر ٹنڈو غلام علی ہے، جہاں انھوں نے 1938ء میں، افسانوی شہرت کے مالک، بہت بڑے جاگیردار اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ (جو اس زمانے میں وزیراعظم کہلاتے تھے)، میر بندہ علی خان تالپور کے ایک ملازم مستری تاج محمد قریشی کے گھر شب معراج کی مبارک گھڑیوں میں آنکھ کھولی۔
ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول ٹنڈو غلام علی میں حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ثانوی تعلیم کے لیے شہر سے چند میل دور پنجابی آبادکاروں کے گاؤں 70چک کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا، کیونکہ اس وقت تک ٹنڈوغلام علی میں ہائی اسکول توکیا مڈل اسکول بھی نہیں تھا۔ بعدازاں انھیں نورمحمد ہائی اسکول حیدرآباد میں داخلہ مل گیا، جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، جو سندھ یونیورسٹی لیتی تھی۔
ابا جان کی طویل بیماری اور ریٹائرمنٹ کے بعد چونکہ گھرکا سارا بوجھ ان کے کاندھوں پر آن پڑا تھا، اس لیے وہ مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔ وہ شروع ہی سے کاروبار میں دلچسپی رکھتے تھے سو انھوں نے ٹنڈے میں ہی ہارڈ ویئر اینڈ گلاس ویئرکی دکان سے کاروبار شروع کیا لیکن یہ کامیاب نہیں رہا اور وہ پشاور چلے گئے اور صدر میں واقع لندن بک کمپنی نامی بڑے بک اسٹور میں، جس کی دوسری برانچ راولپنڈی میں تھی، سیلزمین ہو گئے۔
لندن بک کمپنی بیرون ملک سے کتابیں امپورٹ بھی کرتی تھی اور ان کا بڑا پرانا اور جما جمایا بزنس تھا۔ بھائی جان محنت اورکام سے لگن کی بنا پر تھوڑے ہی عرصے میں ترقی کر کے منیجر بن گئے۔ اسی زمانے میں اپوا نے ارباب روڈ پرلندن بک کمپنی کے عین سامنے واقع اپنے پلاٹ پر دکانیں تعمیرکیں تو بھائی جان نے بھی اپنی جمع پونجی سے ان میں سے ایک دکان لے لی اور ملازمت چھوڑ کر سعید بک بینک کے نام سے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے برکت دی، ان کا بزنس تیزی سے ترقی کرنے لگا اور وہ اسے وسعت دینے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ 60 ء کی دہائی کا زمانہ تھا، میں بھائی جان سے ملنے پہلی بار پشاور گیا تو مجھے یوں لگا جیسے امریکا آ گیا ہوں۔ سرد جنگ زوروں پر تھی، ایوب خان نے بڈھ بیڑکا فوجی اڈہ امریکا کو دے رکھا تھا جسے وہ روس کے خلاف جاسوسی کے لیے استعمال کرتا تھا۔ ہماری نسل کے لوگ آج بھی وہ واقعہ نہیں بھولے ہوں گے جب اس اڈے سے اڑ کر روس پر جاسوسی پروازکرنے والے ایک امریکی یو 2 طیارے کو وہاں گرا لیا گیا اور روسی وزیراعظم نکتیا خروشیف نے اس پر اپنا رد عمل یوں ظاہرکیا کہ نقشے پر پشاورکے گرد سرخ دائرہ کھینچ کر دھمکی دی کہ اگر پھر کسی امریکی طیارے نے وہاں سے پرواز کی تو وہ اس شہرکو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔
صدر کے علاقے میں ہر طرف امریکی ہی امریکی دکھائی دیتے تھے۔ نیکر پہنے مرد، جو دراصل امریکی فوجی ہوتے تھے اور منی اسکرٹ میں ملبوس ان کی عورتیں ہر طرف مٹرگشت کرتی یا دکانوں میں خریداری کرتی نظر آتی تھیں۔ امریکا سے ان فوجیوں کے لیے سگریٹ، شراب اور ڈبوں میں بند خورونوش کا سامان اس قدر وافر مقدار میں آتا تھا کہ کھلے عام دکانوں پر بکتا تھا، ساتھ ہی لنڈی کوتل کے راستے افغانستان سے اسمگلنگ کا عالم یہ تھا کہ کھوکھوں پر روسی سگریٹ اور پولینڈ کے ماچس فروخت ہوتے اور وہ بھی اتنے سستے کہ مقامی چیزوں کوکوئی پوچھتا نہ تھا۔
چند سالوں بعد جب میرا دوبارہ جانا ہوا تو میں نے پشاور پرغیرملکی سیاحوں کی یلغار دیکھی۔ ان میں یورپی ملکوں کے باشندوں کے ساتھ چینیوں اور جاپانیوں سمیت ایشیائیوں کی بھی خاصی تعداد شامل تھی۔ بڈھ بیڑ کا فوجی اڈہ خالی کرنے سے پہلے امریکیوں کی یہاں بڑی تعداد میں موجودگی اور پھر غیر ملکی سیاحوں کے امڈتے ہوئے سیلاب کی وجہ سے پشاور میں بک سیلنگ بزنس کو بڑا فروغ ملا اور سعید بک بینک نے خوب ترقی کی۔
بھائی جان نے اسی اپوا مارکیٹ میں تین چار مزید دکانیں خرید کر انھیں حسب خواہش ازسرنو تعمیر کروا کے بیسمنٹ سمیت بڑی جگہ میں تبدیل کیا اور چھوٹی دکان سے اس میں منتقل ہو گئے۔ دریں اثنا ان کے بچے بڑے ہو چکے تھے، تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی نہ صرف شادیاں ہو چکی تھیں بلکہ دونوں صاحبزادے احمد اور اکبرکاروبار میں والد کا ہاتھ بھی بٹانے لگے تھے۔
اس مرحلے پر جب سعید بک بینک نے اپنا کاروبار ملک گیر پیمانے پر پھیلا لیا اور اسے پاکستان کے سب سے بڑے کتابوں کے درآمد کندگان کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا، جس کے لیے بھائی جان اور ان کے صاحبزادے ہر سال باری باری جرمنی میں ہونے والے بین الاقوامی کتب میلے میں شریک ہو کر کتابوں کا انتخاب کیا کرتے تھے، سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ اچانک افغانستان کے حالات میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں۔
قریبی پڑوسی ہونے کی وجہ سے پشاورکا ان سے متاثر ہونا فطری عمل تھا۔ پہلے خانہ جنگی، پھر طالبان فیکٹر اور اس کے بعد نائن الیون اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی افغان جنگ کے اثرات نے پشاورکے حالات کو بری طرح متاثر کیا، رہی سہی کسر دہشتگردی کے خلاف جنگ نے پوری کر دی۔ ان سارے عوامل کے کاروبار پرانتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے، نتیجتاً سعید بک بینک پشاور سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ وہ جو کہتے ہیں ناکہ قدرت کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، سو فیصد سچ ہے۔ اسلام آباد آنا بھائی جان کے لیے بہت مبارک ثابت ہوا جہاں ان کا شروع کیا ہوا کاروبار ماشا اللہ دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے اور ایف الیون میں سعید بک بینک کی دوسری برانچ بھی کھل چکی ہے۔
اپنے بزنس کے بارے میں بھائی جان نے کبھی کچھ نہیں چھپایا اور بارہا تفصیل سے اظہار خیال کر چکے تھے، اس سلسلے میں ان کا آخری انٹرویو وفات سے چھ ماہ قبل 26 فروری 2015ء کو انگریزی اخبار میں شایع ہوا، جو شیزا ملک نے لیا تھا۔ Living Colours: For the Love of Books۔ امریکی اخبار ' دی نیویارک ٹائمز نے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 24 نومبر2015ء کوA Storied Bookstore and Its Late Oracle Leave an Imprint on Islamabadکے زیرعنوان روڈ نورڈ لینڈ کا ایک مفصل مضمون شایع کیا۔ بین الاقوامی ساکھ کے حامل اسی اخبار میں 30 نومبر 2015ء کو پھر لائم او' برین کا دوسرا مضمون شایع ہوا جس کا عنوان تھا :
The Next Chapter for Islamabads Biggest Bookstore
اس مضمون میں بھائی جان اور ان کے بزنس کے بارے میں احمد سعید سے بات چیت کے حوالے سے کچھ دلچسپ باتوں کا بھی ذکر تھا۔ آج اس بڑھاپے میں بھی اپنے بھائی جان کو ان کے ساتھ بیتے ہوئے اپنے بچپن اور لڑکپن کی یادوں کے حوالے سے بہت مس کرتا ہوں اور چشم تصور سے خود کو ان کے ساتھ ملکر درخت سے بیر اور میروں کے باغ سے آم توڑتے، ابا کی بندوق سے چھپ کر موروں کا شکار کرتے، بھائی بہنوں کی عیدی کے پیسوں میں غبن کرتے، پال ڈلے ہوئے آموں کے مٹکے چھت پر چڑھ کر چھپ کر آم کھاتے، روزے رکھ کر سونے کے بہانے کمرے میں بند ہو کر صراحی سے گلاس بھر بھر کر ٹھنڈا پانی پیتے اور بھڑوں کے چھتے میں پتھر مار کر بھاگتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ بھائی جان کے ساتھ مل کر کی ہوئی ان شرارتوں کی یادیں میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔