ضرب عضب کی کامیابیوں پر دشمن کا وار
سانحات جھیلتے کوئٹہ پر ایک اور قیامت گزر گئی
ابھی 8 اگست کو ہونے والے سانحے سول اسپتال کا غم عوام بھول بھی نہ پائے تھے اور نہ ہی اس میں شہید ہونے والوں کے ورثاء کی دل جوئی کے لیے کچھ کر نہ پائے تھے کہ ایک اور سانحہ کوئٹہ کا مقدر بن گیا۔
سانحہ8 اگست کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا گیا اور شہداء کے لواحقین کی داد رسی کے لیے ہر کوئی دن بھر دُعاگو رہا۔ ابھی دن کی روشنی ڈھلی ہی تھی کہ شہر سے15 کلومیٹر دور پولیس ٹریننگ کالج پر ہونے والی نامعلوم افراد کی فائرنگ نے سکوت میں دراڑیں ڈال دیں۔ پہلی خبر آئی کہ فائرنگ سے3 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں نے یلغار کردی ہے اور کالج میں موجود700 کے قریب زیرتربیت پولیس ریکروٹس کو یرغمال بنالیا ہے۔
اس خبر پر پورا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دوڑا اور شہر سے15 کلو میٹر کے فاصلے پر جائے وقوعہ پر پہنچا تو وہاں صورت حال کچھ اور ہی تھی۔ فرنٹیئر کور کی نفری نے سریاب کے پورے علاقے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ کوئٹہ کی بین الصوبائی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
میڈیا کی ٹیمیں جب پولیس ٹریننگ کالج کے قریب پہنچیں تو وہاں منظر ہی کچھ اور تھا۔ ایک طرف فرنٹیئر کور کی درجنوں گاڑیوں سے ایف سی کے ٹروپس اُتر کر پولیس ٹریننگ کالج کی طرف دوڑے جارہے تھے اور دوسری طرف پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے صفیں باندھ لی تھیں۔ پولیس ٹریننگ کالج کے اندر سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ علاقے کے قرب وجوار کی آبادی تو ویسے ہی محصور ہو کر رہ گئی تھی۔
پاک فوج، ایف سی کے جوان دھڑا دھڑا پولیس ٹریننگ کالج کے اندر جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے، کیوںکہ میڈیا کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر اُڑتی اُڑتی خبریں آنے لگیں تو معلوم ہوا کہ دہشت گردوں نے8 اگست کے سانحہ سول اسپتال کے بعد کوئٹہ کو پھر خون سے رنگنے کا خوف ناک منصوبہ بنالیا تھا۔
جب زیرتربیت 700 کے قریب اہل کار اپنے ہاسٹلز اور بیرکس میں دن بھر کی تھکادینے والی تربیت کے بعد سونے کی تیاریاں کررہے تھے ایسے میں پولیس ٹریننگ کالج کی عقبی دیوار سے تین دہشت گردکالج کے احاطے میں داخل ہوئے اور پہلی چیک پوسٹ پر تعینات پولیس اہل کار پر فائرنگ کردی۔ پولیس اہلکار نے بھرپور مزاحمت کی اس دوران تینوں دہشت گرد ٹریننگ کالج کے مین ہاسٹل میں پہنچنے میں کام یاب ہوگئے، جہاں سیکڑوں زیرتربیت پولیس اہل کار ابھی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
ان کے والدین نے انہیں اپنی زندگیوں، بہن بھائیوں کی کفالت کا ذریعہ بناکر پولیس میں بھرتی کرایا بھی تو ان کے اہلخانہ ان کی تربیت کے بعد ان کی تن خواہ سے اپنے گھر کے اخراجات چلانے اور ان کی شادی سے متعلق سوچ رہے اور اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی اُمیدوں کا یوں خون کردیا جائے گا۔
دہشت گردوں نے ہاسٹل میں داخل ہوتے ہی نہتے زیرتربیت پولیس اہل کاروں پر اندھادھند فائرنگ کردی، جس سے کئی جوان شہید اور کئی خون میں لت پت ہوگئے۔ دوسری طرف پاک فوج اور ایف سی نے دہشت گردوں کی طرف سے یرغمال بنائے گئے سیکڑوں جوانوں کو بہ حفاظت بازیاب کرانے کی حکمت عملی طے کرکے آپریشن شروع کردیا۔ رات کے اندھیرے میں جب سیکیوریٹی فورسز نے حکمت عملی کے تحت علاقے کی بجلی بند کرکے کارروائی شروع کی تو اندھیرے میں ایمبولینسوں کی سرخ بتیوں کی روشنیوں میں صاف لگ ہورہا تھا کہ اندر کوئی بڑا سانحہ ہوگیا ہے۔
زخمیوں کو کوئٹہ کے سول اسپتال، بی ایم سی کمپلیکس، سی ایم ایچ، ایف سی اسپتال اور شیخ خلیفہ بن زید اسپتال منتقل کیا جانے لگا۔ رات کے اندھیرے کو چیرتی ہوئی گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایسے میں ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی، جس نے قرب و جوار کے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ میڈیا کو کالج کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی تاہم ذرائع سے معلوم ہوا کہ پی ٹی سی میں تین دہشت گرد داخل ہوئے تھے جن میں سے ایک کو سیکیوریٹی فورسز نے موقع پر بھون ڈالا۔
سیکیوریٹی آپریشن کی حکمت عملی کے تحت رفتہ رفتہ دوسرے دہشت گردوں کی سرکوبی کا مشن جاری تھا کہ ایسے میں دونوں دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ اس صورت حال میں ایمبولینسوں کی رفتار مزید بڑھ گئی اور زخمیوں کو اسپتالوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا۔ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ زخمی کتنی تعداد میں ہیں۔ دوسری طرف کوئٹہ کے تمام اسپتالوں میں ایمرجینسی نافذ کرکے تمام ڈاکٹروں اور متعلقہ اسٹاف کو طلب کرلیا گیا۔ پہلے تین زخمیوں کی اطلاعات تھیں اس کے بعد زخمیوں کا تانتا بندھتا چلا گیا۔
کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض، انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل شیر افگن، آئی جی پولیس احسن محبوب اور صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی جائے وقوعہ پر پہنچے اور آپریشن کا جائزہ لیا۔ تینوں دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ پاک فوج، فرنٹیئر کور کا کیو آر ایف ونگ آئی ایف سی اس کے بعد اے ٹی ایف اور لائٹ کمانڈو بٹالین نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا اور انہیں ہلاک کردیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ تین دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ اسکول پر حملہ کیا تھا۔ انہوں نے پہلے واچ ٹاور پر موجود سنتری کو نشانہ بنایا، جس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ اس کے شہید ہونے کے بعد وہ ہاسٹل میں داخل ہوئے ہیں جہاں پر تین کمپاؤنڈ ہیں، ہاسٹل میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔ سب سے پہلے فرنٹیئر کور کا کیو آر ایف ونگ آئی ایف سی اس کے بعد اے ٹی ایف اور لائٹ کمانڈو بٹالین پہنچیں۔ ان سب نے مل کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا اور اس تمام آپریشن کو چار گھنٹے میں مکمل کرلیا۔ تین دہشت گردوں میں سے دو نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جب کہ ایک کو ہمارے جوانوں نے نشانہ بنایا۔
سرفراز بگٹی نے سیکیوریٹی فورسز کی بھی تعریف کی ان کا کہنا تھا کہ رات میں اتنی جلدی آپریشن مکمل کرنا ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیرداخلہ بلوچستان نے شہدا کے خاندانوں سے اظہار یکجہتی بھی کیا انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات دہشت گردی کے خلاف ہمارے ارادوں کو کم زور نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن نے کہا کہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرنے والوں کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی سے تھا اور انھیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ آئی جی ایف سی نے خیال ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ کچھ پولیس اہل کار بھی حملہ آوروں سے ملے ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سیکیوریٹی اداروں نے اس سے قبل حالیہ مہینوں میں کئی بار حملوں کی کوشش کی، جنھیں ناکام بنا دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ شدت پسندوں نے محرم کے موقع پر بھی ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم سیکیوریٹی اداروں نے اسے ناکام بنا دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں غیرملکی سیکیوریٹی ایجنسیاں ملوث ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ یہ حملہ سیکیوریٹی میں کسی نقص کی وجہ سے ہوا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات سامنے آئی تو اس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں گی۔ ایک دہشت گرد پہلے ہی خودکش دھماکا کرچکا تھا ،2ہاسٹل کے داخلی راستے میں موجود تھے۔
آئی جی ایف سی نے بتایا کہ 3سے 4گھنٹے میں آپریشن مکمل کیا گیا۔ میجر جنرل شیر افگن نے کہا کہ یہ کھلی جنگ ہے، پہلے بھی بہت سے حملے ناکام بنائے، دس محرم کو بھی بڑے حملے کا منصوبہ ناکام بنادیاگیا، آئی جی ایف سی نے کہا کہ جب اندر اور باہر کے دشمن ملے ہوئے ہوں تو ایسا ہوتا ہے، یہاں کے کچھ لوگوں نے دہشت گردوں کی مدد کی ہوگی۔
جوں جوں رات گزرتی گئی زخمیوں کی تعداد اور شہادتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ صبح تک شہید اہل کاروں کی تعداد61 ہوچکی تھی، 78 زخمیوں کو سول اسپتال،28 زخمیوں کو بی ایم سی اسپتال لایا گیا، جب کہ دیگر زخمیوں کو سی ایم ایچ، ایف سی اسپتال اور شیخ خلیفہ بن زید اسپتال پہنچایا گیا۔
اسپتالوں میں پہلے ہی ایمرجینسی نافذ کردی گئی تھی اور ڈاکٹروں سمیت تمام عملے کو ہنگامی بنیادوں پر طلب کرلیا گیا تھا۔ تقریباً4 گھنٹے میں سیکیوریٹی فورسز نے آپریشن مکمل کرلیا، تاہم رات کی تاریکی میں پولیس ٹریننگ کالج کی وسیع و عریض عمارت میں سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری رکھا گیا، جو صبح تک جاری رہا۔ جب پوری عمارت کو کلیئر قرار دے دیا گیا تو میڈیا کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔
ایسے میں جب میڈیا نے عمارت کی چار دیواری پر نظر دوڑائی تو سیکیوریٹی لیپس کے حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا۔8 اگست کو سول اسپتال کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی میں جب کوئٹہ اور بلوچستان کے وکلاء کی سنیئر قیادت سمیت بڑی تعداد میں وکلاء کو شہید کردیا گیا تھا، ایسے میں لگ رہا تھا کہ شاید یہ شہر پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت ہے، لیکن کون جانتا تھا کہ ایک اور قیامت منتظر ہے۔
سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات کا مقصد سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے اور اس میں بیرونی قوتیں کارفرما ہیں، جس کے کئی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں اس میں ملوث ہیں۔ بھارتی جاسوس کل بوشن یادیو کا رنگے ہاتھوں پکڑے جانا تو بھارت کو بے نقاب کر گیا۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل شیر افگن کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملے میں ملوث تینوں دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں اور اسی بات کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی دہرایا ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، وفاقی وزراء، گورنر، وزیراعلیٰ بلوچستان، صوبائی وزراء، سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے بڑے سانحات کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس بات کا واضح عندیہ دیا ہے کہ ملک کی سلامتی و استحکام کے لیے پوری قوم پاک فوج کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، مشیر قومی سلامتی اُمور ناصر جنجوعہ اور دیگر اعلیٰ حکام نے بھی کوئٹہ کے اس الم ناک سانحے پر کوئٹہ کا دورہ کیا۔ بلوچستان حکومت نے اس سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں دہشت گردی کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایک قابل نفرت عمل قرار دیا ہے انہوں نے اپنے بیان میں اس حملے میں زیر تربیت اہل کاروں کے زخمی ہونے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سیکیوریٹی فورسز جلد ہی حملہ آوروں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچانے میں کام یاب ہوں گی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردوں کے حملہ کی انٹیلی جنس اطلاع موجود تھی۔
پاک فوج، ایف سی اور پولیس نے بہترین رابطہ کا مظاہرہ کیا۔ سیکیوریٹی اداروں نے جان کی بازی لگا کر بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا۔ انہوں نے کہا کہ جام شہادت نوش کرنے والے قوم کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تین چار روز قبل انٹیلی جنس اطلاعات موجود تھیں۔ ہم نے پورے شہر اور صوبہ میں ہائی الرٹ کروایا ہوا تھا تین چار روز پہلے ہمیں پتا تھا کہ دہشت گرد کوئٹہ شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کافی الرٹ تھے۔ شاید دہشت گردوں کو کوئٹہ شہر کے اندر موقع نہیں ملا تو وہ پولیس ٹریننگ سینٹر پہنچ گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں کی یہ بزدلانہ کارروائی ضرب عضب کی کام یابیوں پر وار ہے، اس طرح دہشت اور وحشت کے ہرکاروں نے قوم کے حوصلے کو توڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں تو وہ کام یاب نہیں ہوں گے، تاہم ہمیں بہ طور قوم اور خاص طور پر ہمارے سیکیوریٹی اداروں کو ہر وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں جب اُڑی حملے کے بعد بھارت تلملارہا تھا اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہا تھا، دہشت گردی کی ایسی کارروائی متوقع تھی جیسی کوئٹہ میں ہوئی۔ اس حوالے سے سوچنے اور سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
سانحہ پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں شہید ہونے والے
کیپٹن روح اللہ (مہمند ایجنسی)
آصف مراد(تربت)
زبیر احمد (تربت)
آصف حسین (تربت)
محمد نور (پنجگور)
شاہ خالد (لورالائی)
محمد یوسف (پشین)
جانب علی (پنجگور)
مراد (تربت)
سرتاج (تربت)
محمود (تربت)
عامر (قلعہ عبداللہ)
سیم جاوید (تربت)
لیاقت علی
امین
محمد عباس (قلعہ عبداللہ)
شہباز (کوئٹہ)
گلزار (تربت)
عبدالحکیم (تربت)
محمد یوسف (تربت)
شکیل (گوادر)
عبدالقادر (پسنی)
محمد طیب (قلعہ عبداللہ)
سالار احمد (ڈیرہ بگٹی)
عبدالواحد (پنجگور)
دلاور (کوئٹہ)
شعیب (تربت)
حیدر علی (ڈیرہ بگٹی)
ماجد علی (پنجگور)
شاہد حسین (تربت)
سراج الدین (قلعہ عبداللہ)
طارق (تربت)
واجد علی (تربت)
نوید احمد (پنجگور)
شاہد حسین (پنجگور)
امین اللہ (پنجگور)
محبوب (پنجگور)
اسماعیل (تربت)
ظاہر احمد (پنجگور)
محمد حیات (ہرنائی)
عبدالجبار (سبی)
نصیب اللہ (قلعہ عبداللہ)
محمد نسیم (قلعہ عبداللہ)
لیاقت علی (پنجگور)
چاکر علی (تربت)
امداد عبداللہ
شعیب (تربت)
فردوس (تربت)
اعجاز (خضدار)
شفاق احمد (پنجگور)
سرتاج غنی (تربت)
ابرار احمد (لورالائی)
صف حیات (تربت)
محب اللہ (مستونگ)
(سات شہدا کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی)
سانحہ8 اگست کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس منعقد کیا گیا اور شہداء کے لواحقین کی داد رسی کے لیے ہر کوئی دن بھر دُعاگو رہا۔ ابھی دن کی روشنی ڈھلی ہی تھی کہ شہر سے15 کلومیٹر دور پولیس ٹریننگ کالج پر ہونے والی نامعلوم افراد کی فائرنگ نے سکوت میں دراڑیں ڈال دیں۔ پہلی خبر آئی کہ فائرنگ سے3 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں نے یلغار کردی ہے اور کالج میں موجود700 کے قریب زیرتربیت پولیس ریکروٹس کو یرغمال بنالیا ہے۔
اس خبر پر پورا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دوڑا اور شہر سے15 کلو میٹر کے فاصلے پر جائے وقوعہ پر پہنچا تو وہاں صورت حال کچھ اور ہی تھی۔ فرنٹیئر کور کی نفری نے سریاب کے پورے علاقے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ کوئٹہ کی بین الصوبائی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
میڈیا کی ٹیمیں جب پولیس ٹریننگ کالج کے قریب پہنچیں تو وہاں منظر ہی کچھ اور تھا۔ ایک طرف فرنٹیئر کور کی درجنوں گاڑیوں سے ایف سی کے ٹروپس اُتر کر پولیس ٹریننگ کالج کی طرف دوڑے جارہے تھے اور دوسری طرف پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے صفیں باندھ لی تھیں۔ پولیس ٹریننگ کالج کے اندر سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ علاقے کے قرب وجوار کی آبادی تو ویسے ہی محصور ہو کر رہ گئی تھی۔
پاک فوج، ایف سی کے جوان دھڑا دھڑا پولیس ٹریننگ کالج کے اندر جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسے میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے، کیوںکہ میڈیا کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر اُڑتی اُڑتی خبریں آنے لگیں تو معلوم ہوا کہ دہشت گردوں نے8 اگست کے سانحہ سول اسپتال کے بعد کوئٹہ کو پھر خون سے رنگنے کا خوف ناک منصوبہ بنالیا تھا۔
جب زیرتربیت 700 کے قریب اہل کار اپنے ہاسٹلز اور بیرکس میں دن بھر کی تھکادینے والی تربیت کے بعد سونے کی تیاریاں کررہے تھے ایسے میں پولیس ٹریننگ کالج کی عقبی دیوار سے تین دہشت گردکالج کے احاطے میں داخل ہوئے اور پہلی چیک پوسٹ پر تعینات پولیس اہل کار پر فائرنگ کردی۔ پولیس اہلکار نے بھرپور مزاحمت کی اس دوران تینوں دہشت گرد ٹریننگ کالج کے مین ہاسٹل میں پہنچنے میں کام یاب ہوگئے، جہاں سیکڑوں زیرتربیت پولیس اہل کار ابھی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
ان کے والدین نے انہیں اپنی زندگیوں، بہن بھائیوں کی کفالت کا ذریعہ بناکر پولیس میں بھرتی کرایا بھی تو ان کے اہلخانہ ان کی تربیت کے بعد ان کی تن خواہ سے اپنے گھر کے اخراجات چلانے اور ان کی شادی سے متعلق سوچ رہے اور اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی اُمیدوں کا یوں خون کردیا جائے گا۔
دہشت گردوں نے ہاسٹل میں داخل ہوتے ہی نہتے زیرتربیت پولیس اہل کاروں پر اندھادھند فائرنگ کردی، جس سے کئی جوان شہید اور کئی خون میں لت پت ہوگئے۔ دوسری طرف پاک فوج اور ایف سی نے دہشت گردوں کی طرف سے یرغمال بنائے گئے سیکڑوں جوانوں کو بہ حفاظت بازیاب کرانے کی حکمت عملی طے کرکے آپریشن شروع کردیا۔ رات کے اندھیرے میں جب سیکیوریٹی فورسز نے حکمت عملی کے تحت علاقے کی بجلی بند کرکے کارروائی شروع کی تو اندھیرے میں ایمبولینسوں کی سرخ بتیوں کی روشنیوں میں صاف لگ ہورہا تھا کہ اندر کوئی بڑا سانحہ ہوگیا ہے۔
زخمیوں کو کوئٹہ کے سول اسپتال، بی ایم سی کمپلیکس، سی ایم ایچ، ایف سی اسپتال اور شیخ خلیفہ بن زید اسپتال منتقل کیا جانے لگا۔ رات کے اندھیرے کو چیرتی ہوئی گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایسے میں ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی، جس نے قرب و جوار کے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ میڈیا کو کالج کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی تاہم ذرائع سے معلوم ہوا کہ پی ٹی سی میں تین دہشت گرد داخل ہوئے تھے جن میں سے ایک کو سیکیوریٹی فورسز نے موقع پر بھون ڈالا۔
سیکیوریٹی آپریشن کی حکمت عملی کے تحت رفتہ رفتہ دوسرے دہشت گردوں کی سرکوبی کا مشن جاری تھا کہ ایسے میں دونوں دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ اس صورت حال میں ایمبولینسوں کی رفتار مزید بڑھ گئی اور زخمیوں کو اسپتالوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا۔ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ زخمی کتنی تعداد میں ہیں۔ دوسری طرف کوئٹہ کے تمام اسپتالوں میں ایمرجینسی نافذ کرکے تمام ڈاکٹروں اور متعلقہ اسٹاف کو طلب کرلیا گیا۔ پہلے تین زخمیوں کی اطلاعات تھیں اس کے بعد زخمیوں کا تانتا بندھتا چلا گیا۔
کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض، انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل شیر افگن، آئی جی پولیس احسن محبوب اور صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی جائے وقوعہ پر پہنچے اور آپریشن کا جائزہ لیا۔ تینوں دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ پاک فوج، فرنٹیئر کور کا کیو آر ایف ونگ آئی ایف سی اس کے بعد اے ٹی ایف اور لائٹ کمانڈو بٹالین نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا اور انہیں ہلاک کردیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ تین دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ اسکول پر حملہ کیا تھا۔ انہوں نے پہلے واچ ٹاور پر موجود سنتری کو نشانہ بنایا، جس نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ اس کے شہید ہونے کے بعد وہ ہاسٹل میں داخل ہوئے ہیں جہاں پر تین کمپاؤنڈ ہیں، ہاسٹل میں داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔ سب سے پہلے فرنٹیئر کور کا کیو آر ایف ونگ آئی ایف سی اس کے بعد اے ٹی ایف اور لائٹ کمانڈو بٹالین پہنچیں۔ ان سب نے مل کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا اور اس تمام آپریشن کو چار گھنٹے میں مکمل کرلیا۔ تین دہشت گردوں میں سے دو نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جب کہ ایک کو ہمارے جوانوں نے نشانہ بنایا۔
سرفراز بگٹی نے سیکیوریٹی فورسز کی بھی تعریف کی ان کا کہنا تھا کہ رات میں اتنی جلدی آپریشن مکمل کرنا ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیرداخلہ بلوچستان نے شہدا کے خاندانوں سے اظہار یکجہتی بھی کیا انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات دہشت گردی کے خلاف ہمارے ارادوں کو کم زور نہیں کر سکتے۔
اس موقع پر آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن نے کہا کہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرنے والوں کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی سے تھا اور انھیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ آئی جی ایف سی نے خیال ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ کچھ پولیس اہل کار بھی حملہ آوروں سے ملے ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سیکیوریٹی اداروں نے اس سے قبل حالیہ مہینوں میں کئی بار حملوں کی کوشش کی، جنھیں ناکام بنا دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ شدت پسندوں نے محرم کے موقع پر بھی ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم سیکیوریٹی اداروں نے اسے ناکام بنا دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں غیرملکی سیکیوریٹی ایجنسیاں ملوث ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ یہ حملہ سیکیوریٹی میں کسی نقص کی وجہ سے ہوا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات سامنے آئی تو اس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں گی۔ ایک دہشت گرد پہلے ہی خودکش دھماکا کرچکا تھا ،2ہاسٹل کے داخلی راستے میں موجود تھے۔
آئی جی ایف سی نے بتایا کہ 3سے 4گھنٹے میں آپریشن مکمل کیا گیا۔ میجر جنرل شیر افگن نے کہا کہ یہ کھلی جنگ ہے، پہلے بھی بہت سے حملے ناکام بنائے، دس محرم کو بھی بڑے حملے کا منصوبہ ناکام بنادیاگیا، آئی جی ایف سی نے کہا کہ جب اندر اور باہر کے دشمن ملے ہوئے ہوں تو ایسا ہوتا ہے، یہاں کے کچھ لوگوں نے دہشت گردوں کی مدد کی ہوگی۔
جوں جوں رات گزرتی گئی زخمیوں کی تعداد اور شہادتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ صبح تک شہید اہل کاروں کی تعداد61 ہوچکی تھی، 78 زخمیوں کو سول اسپتال،28 زخمیوں کو بی ایم سی اسپتال لایا گیا، جب کہ دیگر زخمیوں کو سی ایم ایچ، ایف سی اسپتال اور شیخ خلیفہ بن زید اسپتال پہنچایا گیا۔
اسپتالوں میں پہلے ہی ایمرجینسی نافذ کردی گئی تھی اور ڈاکٹروں سمیت تمام عملے کو ہنگامی بنیادوں پر طلب کرلیا گیا تھا۔ تقریباً4 گھنٹے میں سیکیوریٹی فورسز نے آپریشن مکمل کرلیا، تاہم رات کی تاریکی میں پولیس ٹریننگ کالج کی وسیع و عریض عمارت میں سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری رکھا گیا، جو صبح تک جاری رہا۔ جب پوری عمارت کو کلیئر قرار دے دیا گیا تو میڈیا کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔
ایسے میں جب میڈیا نے عمارت کی چار دیواری پر نظر دوڑائی تو سیکیوریٹی لیپس کے حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا۔8 اگست کو سول اسپتال کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی میں جب کوئٹہ اور بلوچستان کے وکلاء کی سنیئر قیادت سمیت بڑی تعداد میں وکلاء کو شہید کردیا گیا تھا، ایسے میں لگ رہا تھا کہ شاید یہ شہر پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قیامت ہے، لیکن کون جانتا تھا کہ ایک اور قیامت منتظر ہے۔
سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات کا مقصد سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے اور اس میں بیرونی قوتیں کارفرما ہیں، جس کے کئی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں اس میں ملوث ہیں۔ بھارتی جاسوس کل بوشن یادیو کا رنگے ہاتھوں پکڑے جانا تو بھارت کو بے نقاب کر گیا۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل شیر افگن کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملے میں ملوث تینوں دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں اور اسی بات کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی دہرایا ہے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، وفاقی وزراء، گورنر، وزیراعلیٰ بلوچستان، صوبائی وزراء، سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے بڑے سانحات کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس بات کا واضح عندیہ دیا ہے کہ ملک کی سلامتی و استحکام کے لیے پوری قوم پاک فوج کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، مشیر قومی سلامتی اُمور ناصر جنجوعہ اور دیگر اعلیٰ حکام نے بھی کوئٹہ کے اس الم ناک سانحے پر کوئٹہ کا دورہ کیا۔ بلوچستان حکومت نے اس سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں دہشت گردی کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایک قابل نفرت عمل قرار دیا ہے انہوں نے اپنے بیان میں اس حملے میں زیر تربیت اہل کاروں کے زخمی ہونے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سیکیوریٹی فورسز جلد ہی حملہ آوروں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچانے میں کام یاب ہوں گی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردوں کے حملہ کی انٹیلی جنس اطلاع موجود تھی۔
پاک فوج، ایف سی اور پولیس نے بہترین رابطہ کا مظاہرہ کیا۔ سیکیوریٹی اداروں نے جان کی بازی لگا کر بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا۔ انہوں نے کہا کہ جام شہادت نوش کرنے والے قوم کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تین چار روز قبل انٹیلی جنس اطلاعات موجود تھیں۔ ہم نے پورے شہر اور صوبہ میں ہائی الرٹ کروایا ہوا تھا تین چار روز پہلے ہمیں پتا تھا کہ دہشت گرد کوئٹہ شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کافی الرٹ تھے۔ شاید دہشت گردوں کو کوئٹہ شہر کے اندر موقع نہیں ملا تو وہ پولیس ٹریننگ سینٹر پہنچ گئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں کی یہ بزدلانہ کارروائی ضرب عضب کی کام یابیوں پر وار ہے، اس طرح دہشت اور وحشت کے ہرکاروں نے قوم کے حوصلے کو توڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں تو وہ کام یاب نہیں ہوں گے، تاہم ہمیں بہ طور قوم اور خاص طور پر ہمارے سیکیوریٹی اداروں کو ہر وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں جب اُڑی حملے کے بعد بھارت تلملارہا تھا اور پاکستان کو دھمکیاں دے رہا تھا، دہشت گردی کی ایسی کارروائی متوقع تھی جیسی کوئٹہ میں ہوئی۔ اس حوالے سے سوچنے اور سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
سانحہ پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں شہید ہونے والے
کیپٹن روح اللہ (مہمند ایجنسی)
آصف مراد(تربت)
زبیر احمد (تربت)
آصف حسین (تربت)
محمد نور (پنجگور)
شاہ خالد (لورالائی)
محمد یوسف (پشین)
جانب علی (پنجگور)
مراد (تربت)
سرتاج (تربت)
محمود (تربت)
عامر (قلعہ عبداللہ)
سیم جاوید (تربت)
لیاقت علی
امین
محمد عباس (قلعہ عبداللہ)
شہباز (کوئٹہ)
گلزار (تربت)
عبدالحکیم (تربت)
محمد یوسف (تربت)
شکیل (گوادر)
عبدالقادر (پسنی)
محمد طیب (قلعہ عبداللہ)
سالار احمد (ڈیرہ بگٹی)
عبدالواحد (پنجگور)
دلاور (کوئٹہ)
شعیب (تربت)
حیدر علی (ڈیرہ بگٹی)
ماجد علی (پنجگور)
شاہد حسین (تربت)
سراج الدین (قلعہ عبداللہ)
طارق (تربت)
واجد علی (تربت)
نوید احمد (پنجگور)
شاہد حسین (پنجگور)
امین اللہ (پنجگور)
محبوب (پنجگور)
اسماعیل (تربت)
ظاہر احمد (پنجگور)
محمد حیات (ہرنائی)
عبدالجبار (سبی)
نصیب اللہ (قلعہ عبداللہ)
محمد نسیم (قلعہ عبداللہ)
لیاقت علی (پنجگور)
چاکر علی (تربت)
امداد عبداللہ
شعیب (تربت)
فردوس (تربت)
اعجاز (خضدار)
شفاق احمد (پنجگور)
سرتاج غنی (تربت)
ابرار احمد (لورالائی)
صف حیات (تربت)
محب اللہ (مستونگ)
(سات شہدا کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی)