ایک متفقہ سیاسی اصول بے اصولی

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کسی بھی پارٹی کو بے اصولی کے اس اصول سے سر مو انحراف کرتے ہوئے نہیں پایا گیا

barq@email.com

PESHAWAR:
ایک اچھا خاصا مشہور سیاسی ''حقیقہ'' ہے کہ ایک سیاسی لیڈر سے کسی نے پوچھا کیوں جناب آپ تو ہر پارٹی کی طرف ہو جاتے ہیں آخر آپ کی اصل پارٹی کون سی ہے۔ بولے، ہم تو حکومتی پارٹی کے مستقل رکن ہیں اب حکومتیں ہی بدل جاتی ہیں تو اس میں ہمارا کیا دوش؟

اسے کہتے ہیں اصولی اور نظریاتی سیاست لیکن آج کل کے لوگ جو سیاست کی الف بے سے بھی واقف نہیں، بے چاری سیاسی پارٹیوں پر خواہ مخواہ ''منفی تنقید'' کرتے رہتے ہیں کہ ان کا کوئی اصول نہیں، نظریہ نہیں، یہ نہیں وہ نہیں، خاص طور پر پاکستان کے لوگ تو بڑے ''منفی تنقیدیے'' ہیں اور سیاسی پارٹیوں پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہتے ہیں لیکن ہم تو خدا واسطے کی بات کریں گے، پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو آپ کچھ بھی کہیں، الوؤں کی شاخ کہیں، کوؤں کے جھنڈ کہیں، چڑیوں کا چمبہ کہیں، سانپوں کی بامبی کہیں، علی بابا چالیس چور کہیں، ٹھگوں کی ٹولی کہیں ... لیکن یہ بالکل نہیں کہیں کہ ان کا کوئی اصول یا نظریہ نہیں ہے۔

ایسا کچھ کہنے والوں کو یقیناً پاپ لگے گا بلکہ ہو سکتا ہے کسی پارٹی کی ہائے لگ جائے اور کوئی جلسہ جلوس یا دھرنا نصیب نہ ہو، ہمارے خیال میں اور یہ کوئی ایسا ویسا اڑتا ہوا خیال نہیں ہے بلکہ گہرے مطالعے اور وسیع تحقیق کا نتیجہ ہے کہ جب سے پاکستان میں سیاست کے اس سنجے دت نے آنکھ کھولی ہے جس کے لیے اداکارہ نرگس نہ جانے کتنا عرصہ روتی رہی ہے تب سے اس کی بنیاد ایک اصول پر رکھی گئی ہے اور تاحال اس اصول میں سرمو فرق نہیں آیا ہے، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں ایک طرح سے یہ ایک خاموش معاہدہ ہے جو تمام پارٹیوں کے درمیان ''طے پا'' چکا ہے۔

یہ تو معلوم نہیں کہ اس کے لیے کوئی اے پی سی بلائی گئی تھی یا نہیں لیکن ہم نے یہ معاہدہ دیکھا ہے جس پر سب پارٹیوں کے انگوٹھے لگے ہوئے ہیں ان پارٹیوں کے بھی جو ''تھیں'' ان کے بھی ''جو ہیں'' اور ان کے لیے بھی خالی جگہ چھوڑ دی گئی ہے جو آیندہ ظہور پذیر ہوں گی، یہ کوئی لمبا چوڑا معاہدہ نہیں ہے بلکہ دو لفظوں ہی میں، میری تیری، تیری میری کہانی'' بیاں کی گئی ہے اور یہ اکلوتی دفعہ یا سنگل جملہ یہ ہے کہ ہم اتحاد و اتفاق اور قومی یکجہتی کے ساتھ ''بے اصولی'' کے واحد اصول پر ہمیشہ کار بند رہیں گے، اور تاریخ گواہ ہے کہ ساتھ ہی جغرافیہ بھی گواہ نمبر دو ہے کہ آج تک کسی نے بھی اس اصول یعنی ''بے اصولی'' سے کبھی روگردانی نہیں کی ہے۔

پارٹی کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو یک رنگی ہو دورنگی ہو یا سہ رنگی ... قبر میں ہو یا ابھی زیر تولید ہو ... اس کے لیے یہی رہنماء اصول تھا، ہے اور رہے گا، کہ بے اصولی کے اس اصول بلکہ سنہری اصول پر ہمیشہ کاربند رہا کریں گے، چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، مرغا انڈہ دے یا مرغی بانگ دے ہمارا ایک یہ اصول رہے گا کہ کسی اصول کو منہ نہیں لگائیں اور اگر غلطی سے لگا بھی لیں تو فوراً تھو تھو کر کے توبہ تائب ہو جائیں گے اور منہ کو سات بار کلی کر کے بے اصولی کی مالا جپنا شروع کر دیں گے، داد دینا پڑے گی آفرین کی۔

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کسی بھی پارٹی کو بے اصولی کے اس اصول سے سر مو انحراف کرتے ہوئے نہیں پایا گیا بلکہ تقریباً ہر پارٹی نے اس ''اصول'' کے لیے بڑے بڑے نقصان بھی اٹھائے ہیں، اپنے نظریات، اپنے منشور اور اپنے نعرے تک قربان کیے ہیں حتیٰ کہ ووٹ لینے کے بعد اپنے ووٹروں کو بھی نظر انداز کیا ہے لیکن اس اصول پر سختی سے عمل پیرا رہے ہیں، ویسے ہم نے اکثر لیڈروں اور پارٹیوں کو دیکھا ہے کہ اس بنیادی اور متفق علیہ ''اصول'' کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دے دیتی ہیں لیکن مجال ہے کہ اس اصول پر ذرا سی بھی آنچ آنے دی۔

اسمبلیوں میں طرح طرح کی کٹھنائیاں برداشت کیں، عوام کی خدمت کے لیے دن رات ایک کیا، گلی گلی پھرے، بلکہ اکثر تو ملک کے باہر بھی سرکاری جہاز میں جا کر گلی گلی کشکول پھرا کیے اور تو اور وزارتوں کا بار عظیم بھی اٹھاتے رہے لیکن کبھی نہ اف کی اور نہ ہی اس اصول سے ذرا بھی ہٹے، آپ نے اکثر سنا اور پڑھا ہو گا کہ ''ہم اصول پر سمجھوتہ نہیں کریں گے'' اور یہ سچ ہے اس رہنماء متفقہ اور بنیادی ''اصول'' پر سمجھوتہ ... نو، نیور ... جس طرح ہم پشتونوں نے صرف ایک ہی بات پر اتفاق کیا ہوا ہے کہ ''اتفاق'' بالکل نہیں کریں گے چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے لیکن ''ناانصافی'' پر اتفاق سدا قائم و دائم بلکہ سدا سہاگن رہے گا۔

ٹھیک ویسا ہی اتفاق یہاں بھی پایا جاتا ہے بلکہ صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے ورنہ بات ایک ہی ہے یعنی یہ اتفاق کہ اتفاق بالکل نہیں کریں گے اور اگر کبھی بھول چوک سے ایسا ہو بھی جائے تو فوراً توبہ تائب ہو کر اپنے بنیادی اصول پر لوٹ آئیں گے اور کفارے کے طور پر جتنا بھی ممکن ہو سکے اس اصول کو مزید تقویت فراہم کریں گے، یہ بڑا بابرکت اصول ہے جس سے اس پر اتفاق ہونے لگا ہے تب سے دشمن مخالفت اور ایک دوسرے کے ساتھ تو تو میں میں، مشت و گریبانی اور جوتم پیزار بالکل ختم ہو گئے ہیں اور شانتی ہی شانتی ہے۔


کم از کم اپنے جدی پشتی دشمن کے خلاف تو یہ ایکا اتنا زبردست ہے جتنا ایک خاص قسم کے جانوروں میں پایا جاتا ہے، یہ جانور جسے ''وفاداری'' کا سب سے اونچا ٹائٹل بھی دیا جا چکا ہے کیونکہ یہ اتنا وفادار ہوتا ہے کہ اپنے مالک کے لیے اپنی نسل کا بھی قیمہ بنا دیتا ہے جہاں اپنی نسل کا کوئی جانور دیکھتے ہیں اس پر چڑھ دوڑتے ہیں، اگر کاٹنے بھبھوڑنے کا موقع نہ بھی ملے تو کم از کم بھونکنا تو اپنی وفاداری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ کسی نے کسی سے ایک مرتبہ پوچھا کہ آخر یہ جانور ایک لقمے کے لیے اپنی نسل کا دشمن کیوں بن جاتا ہے۔ تو اس دانا نے کہا کہ یہ صحبت کی تاثیر ہے

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طامع کند

اتنا زمانہ انسانوں کے ساتھ رہ کر اس نے وہی تو سیکھنا تھا جو انسانوں میں ہوتا ہے یعنی اپنوں پر بھونکنا اور کاٹنا، یہ بھی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ یہ جانور اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے یہ مالک کا نہیں صرف لقمے کا وفادار ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ایک نواب نے ایک دن بینگن کی تعریف کی تو مصاحین نے بینگن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے، کچھ دن بعد نواب صاحب کو بینگن سے پرخاش ہو گئی اور اس کی برائی کی، درباری بھی اس کی برائی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولنے لگے۔

کسی نے ان سے پوچھا کل تو تم نے بینگن کی تعریف کی تھی اور آج برائی کر رہے ہو، تو اس نے جواب دیا کہ تنخواہ ہمیں بینگن نہیں نواب صاحب دیتے ہیں۔ وہ جانور بھی کسی کا وفادار نہیں ہوتا صرف اپنا وفادار ہوتا ہے اور اپنے آپ کو لقمے کا وفادار پاتا ہے جیسا کہ اس بزرگ سیاست دان نے کہا تھا کہ میں صرف حکومت کا وفادار ہوں، آنے جانے والوں کا نہیں ... لیکن اس وفادار جانور کی ایک صفت اور بھی ہے ویسے تو اسے اپنے ہم نسلوں سے جنم جنم کی دشمنی ہوتی ہے لیکن اگر گاؤں میں کوئی فقیر آ جائے تو

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے بلٹیر بلڈاگ

ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملا کر اور بھونکنے کا تال ملا کر صف آرا ہو جاتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان بھی ایک اصول بے اصولی موجود ہوتی ہے لیکن خدانخواستہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اس مثال کو کسی اور پر چپکا رہے ہیں تو غلط سمجھ رہے ہیں، کہاں بے اصول جانور اور کہاں بااصول بندے ... چہ نسبت خاک را با عالم پاک، وہ تو نوالے کے وفادار ہوتے ہیں جب کہ یہاں ایک حد درجے اعلیٰ اور سیاست کے روح رواں ''اصول'' کے لیے وفاداری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک جگہ کوے اور بگلے کو اکٹھے بیٹھے دیکھا تو حیرت ہوئی کہ ان دونوں میں ''یارانہ'' کس طرح ہو گیا، قریب گیا تو وہ چل پڑے، تب میں سمجھا کہ ان دونوں کا کس اصول پر اتفاق ہے وہ دونوں لنگڑے تھے

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار،میں چِِلّاوں ہائے دل

اور سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور لیڈروں میں بھی ایک ''قدر مشترک'' تو ہے، ورنہ اگر یہ اصولِ بے وصولی نہ ہوتا تو نہ جانے کیا ہو جاتا ہے، عین ممکن ہے کہ فائدہ فقیر کو ہو جاتا جو سراسر ایک بہت بڑی بے اصولی اور اتحاد و یک جہتی کے لیے نقصان دہ بات ہوتی۔
Load Next Story