بھارت کا جنگی جنون حد سے بڑھنے لگا 1200 کروڑ ڈالر کے لڑاکا طیارے خریدے گا
بھارت 150 لڑاکا طیارے خریدنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ ایک طیارے پر 65 سے 80 ملین ڈالر تک خرچ کرنے کےلئے بھی تیار ہے
بھارت میں آج بھی 40 فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے جہاں تقریباً 50 کروڑ لوگوں کو پورے دن میں بڑی مشکل سے صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر آتا ہے۔ اس کے باوجود، اپنے جنگی جنون کی تسکین کےلئے بھارت مسلسل نئے عسکری معاہدوں کی کوششوں میں مصروف ہے اور اب وہ لڑاکا طیاروں کی خریداری پر 12 ارب ڈالر (1200 کروڑ ڈالر) خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
دفاعی خبریں اور تجزیئے فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے ''جینز'' (Jane's) کے مطابق، بھارت اپنی فضائیہ میں مزید 150 لڑاکا طیارے شامل کرنے کا اتنی شدت سے خواہش مند ہے کہ وہ ایک طیارے پر 65 ملین سے 80 ملین ڈالر تک خرچ کرنے کےلئے تیار ہے۔ اس بارے میں بھارتی حکومت نے مختلف ممالک کی لڑاکا طیارے بنانے والی کمپنیوں کو خطوط لکھے ہیں جن میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ لڑاکا طیاروں کی خریداری کا ایسا کوئی بھی معاہدہ صرف اسی صورت میں کیا جائے گا جب طیارے فروخت کرنے والی کمپنی اپنا پروڈکشن پلانٹ بھارت میں لگائے گی اور بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر وہ طیارے بھارت میں بنائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کسی معاہدے کی مالیت 12 ارب ڈالر یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
غیرملکی کمپنیوں سے بھارت میں لڑاکا طیاروں کے پلانٹ لگانے اور یہ ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل کرنے کا تقاضا نریندر مودی کے ''ہندوستان میں تیار'' پروگرام کا حصہ بھی ہے جس کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کو زبردست مالی فوائد کا لالچ دیا جارہا ہے۔
البتہ دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا یہی ''فرمائشی پروگرام'' ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ فرانسیسی کمپنی ''ڈسالٹ'' سے ''رافیل'' لڑاکا طیاروں کی خریداری کا معاہدہ ہے۔ بھارتی حکومت 126 عدد رافیل لڑاکا طیارے خریدنا چاہتی تھی لیکن اس نے ڈسالٹ کے سامنے شرط رکھی کہ یہ لڑاکا طیارے بھارت میں بنائے جائیں گے جبکہ بھارت کو ان کی ٹیکنالوجی بھی منتقل کی جائے گی۔ طویل مذاکرات کے باوجود اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوپایا اور نتیجتاً بھارت نے محدود مقامی شراکت کی بنیاد پر ڈسالٹ سے 36 عدد رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔
بھارت کو مقامی تیاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کی بنیاد پر لڑاکا طیارے فروخت کرنے میں دو ادارے زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں: سویڈن کا ''ساب'' اور امریکہ کا لاک ہیڈ مارٹن۔ دونوں اداروں نے باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق بھی کی ہے۔ ''ساب'' جس کے ''گریپن'' لڑاکا طیارے زیادہ مشہور ہیں، بھارت کو فروخت کے ساتھ ساتھ ان طیاروں کی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کےلئے تیار ہے۔ لیکن لاک ہیڈ مارٹن نے ایک قدم اور آگے بڑھادیا ہے: اس نے پیشکش کی ہے کہ اگر بھارت اس سے ایف 16 لڑاکا طیارے خریدنے کا ''بڑا معاہدہ'' کرلیتا ہے تو وہ اِن طیاروں کی ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل کرنے اور وہاں پروڈکشن پلانٹ لگانے کے ساتھ ساتھ بھارت کو یہ اختیار بھی دے گا کہ وہ اپنے ہاں بنائے ہوئے ایف 16 لڑاکا طیارے، دنیا کے کسی بھی ملک کو فروخت کرسکے۔
غیر مصدقہ خبروں کے مطابق، لاک ہیڈ مارٹن کے متوقع بھارتی پروڈکشن پلانٹ میں ایف 16 طیاروں کا جدید ترین ورژن ''بلاک 70/72'' بنایا جائے گا جو اسرائیل کو بطورِ خاص ''تحفے'' میں دیئے گئے امریکی ''ایف 16 آئی'' (F-16I) سے بھی زیادہ جدید ہوگا۔ اس کا متبادل نام F-16IN بھی ہے اور اسے اب تک بنایا گیا سب سے خطرناک ایف 16 بھی قرار دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ لاک ہیڈ مارٹن کا تعلق نجی شعبے سے ضرور ہے لیکن اس کا کوئی بھی منصوبہ اور معاہدہ امریکی حکومت اور پنٹاگون کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوتا۔ بھارتی حکومت کےلئے لاک ہیڈ مارٹن کا فراخدلانہ تعاون یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ نہ صرف برصغیر بلکہ ایشیا میں بھی ہندوستان کو ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھنے کا خواہشمند ہے؛ چاہے اس کی وجہ سے خطّے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ ہی کیوں نہ شروع ہوجائے۔
دفاعی خبریں اور تجزیئے فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے ''جینز'' (Jane's) کے مطابق، بھارت اپنی فضائیہ میں مزید 150 لڑاکا طیارے شامل کرنے کا اتنی شدت سے خواہش مند ہے کہ وہ ایک طیارے پر 65 ملین سے 80 ملین ڈالر تک خرچ کرنے کےلئے تیار ہے۔ اس بارے میں بھارتی حکومت نے مختلف ممالک کی لڑاکا طیارے بنانے والی کمپنیوں کو خطوط لکھے ہیں جن میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ لڑاکا طیاروں کی خریداری کا ایسا کوئی بھی معاہدہ صرف اسی صورت میں کیا جائے گا جب طیارے فروخت کرنے والی کمپنی اپنا پروڈکشن پلانٹ بھارت میں لگائے گی اور بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر وہ طیارے بھارت میں بنائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کسی معاہدے کی مالیت 12 ارب ڈالر یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
غیرملکی کمپنیوں سے بھارت میں لڑاکا طیاروں کے پلانٹ لگانے اور یہ ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل کرنے کا تقاضا نریندر مودی کے ''ہندوستان میں تیار'' پروگرام کا حصہ بھی ہے جس کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کو زبردست مالی فوائد کا لالچ دیا جارہا ہے۔
البتہ دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا یہی ''فرمائشی پروگرام'' ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ فرانسیسی کمپنی ''ڈسالٹ'' سے ''رافیل'' لڑاکا طیاروں کی خریداری کا معاہدہ ہے۔ بھارتی حکومت 126 عدد رافیل لڑاکا طیارے خریدنا چاہتی تھی لیکن اس نے ڈسالٹ کے سامنے شرط رکھی کہ یہ لڑاکا طیارے بھارت میں بنائے جائیں گے جبکہ بھارت کو ان کی ٹیکنالوجی بھی منتقل کی جائے گی۔ طویل مذاکرات کے باوجود اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوپایا اور نتیجتاً بھارت نے محدود مقامی شراکت کی بنیاد پر ڈسالٹ سے 36 عدد رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔
بھارت کو مقامی تیاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کی بنیاد پر لڑاکا طیارے فروخت کرنے میں دو ادارے زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں: سویڈن کا ''ساب'' اور امریکہ کا لاک ہیڈ مارٹن۔ دونوں اداروں نے باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق بھی کی ہے۔ ''ساب'' جس کے ''گریپن'' لڑاکا طیارے زیادہ مشہور ہیں، بھارت کو فروخت کے ساتھ ساتھ ان طیاروں کی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کےلئے تیار ہے۔ لیکن لاک ہیڈ مارٹن نے ایک قدم اور آگے بڑھادیا ہے: اس نے پیشکش کی ہے کہ اگر بھارت اس سے ایف 16 لڑاکا طیارے خریدنے کا ''بڑا معاہدہ'' کرلیتا ہے تو وہ اِن طیاروں کی ٹیکنالوجی بھارت کو منتقل کرنے اور وہاں پروڈکشن پلانٹ لگانے کے ساتھ ساتھ بھارت کو یہ اختیار بھی دے گا کہ وہ اپنے ہاں بنائے ہوئے ایف 16 لڑاکا طیارے، دنیا کے کسی بھی ملک کو فروخت کرسکے۔
غیر مصدقہ خبروں کے مطابق، لاک ہیڈ مارٹن کے متوقع بھارتی پروڈکشن پلانٹ میں ایف 16 طیاروں کا جدید ترین ورژن ''بلاک 70/72'' بنایا جائے گا جو اسرائیل کو بطورِ خاص ''تحفے'' میں دیئے گئے امریکی ''ایف 16 آئی'' (F-16I) سے بھی زیادہ جدید ہوگا۔ اس کا متبادل نام F-16IN بھی ہے اور اسے اب تک بنایا گیا سب سے خطرناک ایف 16 بھی قرار دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ لاک ہیڈ مارٹن کا تعلق نجی شعبے سے ضرور ہے لیکن اس کا کوئی بھی منصوبہ اور معاہدہ امریکی حکومت اور پنٹاگون کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوتا۔ بھارتی حکومت کےلئے لاک ہیڈ مارٹن کا فراخدلانہ تعاون یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ نہ صرف برصغیر بلکہ ایشیا میں بھی ہندوستان کو ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھنے کا خواہشمند ہے؛ چاہے اس کی وجہ سے خطّے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ ہی کیوں نہ شروع ہوجائے۔