سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی لگا دی
پرچی پربھرتی ملازمین،ٹکٹ ایجنٹس،بھرتیوںکاطریقہ کاراوردیگرتفصیلات دینے کاحکم،ایم ڈی سول ایوی ایشن،چیئرمین پی آئی اے طلب
سپریم کورٹ نے پی آئی اے کونئی بھرتیوں سے روک دیاہے اور آئندہ سماعت پر چیئرمین پی آئی اے اورایم ڈی سول ایوی ایشن اتھارٹی کوطلب کرلیاہے۔
جبکہ بھرتیوںکی تمام تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں اورحکم دیا ہے کہ ملازمین کی بھرتیوںکاطریقہ کار،اندرون اوربیرون ملک ٹکٹوںکی فروخت کیلیے ایجنٹس کی تعداداورانہیں رکھنے کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کیاجائے،عدالت نے ڈی جی سول ایوی ایشن اور چیرمین پی آئی اے کوہدایت کی کہ آئندہ پروازیں تاخیرکاشکا ر نہ ہوں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے پی آئی اے میں بدانتظامی اورکرپشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میںکہاکہ پی آئی اے میں مالی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔پی آئی اے نے اپنابزنس دوسروںکے ہاتھوں میں دے رکھاہے۔ چیئرمین نیب کی تعریف کرتے ہیں انھوں نے کرپشن کی نشاندہی کی ،ان کاروزانہ اربوں روپے کرپشن کے بارے میں بیان قابل غور ہے،ہرکوئی اپنے آپ کو ایماندارکہتاہے لیکن اندر سے کچھ اور ہوتاہے۔
پی آئی اے میں پیسہ عوام الناس کاہے،کیا فورنزک آڈٹ کرایاگیا؟پی آئی اے کے وکیل راجابشیر نے بتایا کہ فورنزک آڈٹ نہیں کرایاگیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ پی آئی اے کے ایک جہازکیلیے450ملازم ہیں، ایسے میں ایئرلائن کیامنافع کمائے گی،جہاز میں اتنے مسافرنہیں ہوتے جتنے ملازمین دیکھ بھال کیلیے رکھے گئے ہیں۔جسٹس انورظہیر جمالی نے کہا کہ پی آئی اے میں بھرتیوںکا عمل اب بھی جاری ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ2سال میں پرچیوں پرکتنی بھرتیاں ہوئیں؟عدالت کوآگاہ کیا جائے دیگر ایئرلائنزکے ٹکٹ کے ریٹ کم ہیں اوروہ پھر بھی منافع میں ہیں۔وکیل پی آئی اے راجا بشیر نے کہا کہ پرانی انتظامیہ کی خرابیوںکی ذمے دارموجودہ انتظامیہ نہیں،جسٹس انور ظہیرجمالی نے استفسار کیا کہ سابق انتظامیہ کے غلط فیصلوںکیخلاف کیااقدامات اٹھائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اتنے منافع بخش ادارے اورواحد قومی ایئرلائن کواس طرح خسارے میں نہیں جاناچاہیے۔عدالت نے مزیدسماعت 2 ہفتے کیلیے ملتوی کردی۔
جبکہ بھرتیوںکی تمام تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں اورحکم دیا ہے کہ ملازمین کی بھرتیوںکاطریقہ کار،اندرون اوربیرون ملک ٹکٹوںکی فروخت کیلیے ایجنٹس کی تعداداورانہیں رکھنے کے طریقہ کار سے بھی آگاہ کیاجائے،عدالت نے ڈی جی سول ایوی ایشن اور چیرمین پی آئی اے کوہدایت کی کہ آئندہ پروازیں تاخیرکاشکا ر نہ ہوں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے پی آئی اے میں بدانتظامی اورکرپشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میںکہاکہ پی آئی اے میں مالی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔پی آئی اے نے اپنابزنس دوسروںکے ہاتھوں میں دے رکھاہے۔ چیئرمین نیب کی تعریف کرتے ہیں انھوں نے کرپشن کی نشاندہی کی ،ان کاروزانہ اربوں روپے کرپشن کے بارے میں بیان قابل غور ہے،ہرکوئی اپنے آپ کو ایماندارکہتاہے لیکن اندر سے کچھ اور ہوتاہے۔
پی آئی اے میں پیسہ عوام الناس کاہے،کیا فورنزک آڈٹ کرایاگیا؟پی آئی اے کے وکیل راجابشیر نے بتایا کہ فورنزک آڈٹ نہیں کرایاگیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ پی آئی اے کے ایک جہازکیلیے450ملازم ہیں، ایسے میں ایئرلائن کیامنافع کمائے گی،جہاز میں اتنے مسافرنہیں ہوتے جتنے ملازمین دیکھ بھال کیلیے رکھے گئے ہیں۔جسٹس انورظہیر جمالی نے کہا کہ پی آئی اے میں بھرتیوںکا عمل اب بھی جاری ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ2سال میں پرچیوں پرکتنی بھرتیاں ہوئیں؟عدالت کوآگاہ کیا جائے دیگر ایئرلائنزکے ٹکٹ کے ریٹ کم ہیں اوروہ پھر بھی منافع میں ہیں۔وکیل پی آئی اے راجا بشیر نے کہا کہ پرانی انتظامیہ کی خرابیوںکی ذمے دارموجودہ انتظامیہ نہیں،جسٹس انور ظہیرجمالی نے استفسار کیا کہ سابق انتظامیہ کے غلط فیصلوںکیخلاف کیااقدامات اٹھائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اتنے منافع بخش ادارے اورواحد قومی ایئرلائن کواس طرح خسارے میں نہیں جاناچاہیے۔عدالت نے مزیدسماعت 2 ہفتے کیلیے ملتوی کردی۔