عمران قادری مفاہمت منظر پس منظر

طاہرالقادری خودبھی اسلام آباددھرنامیں شرکت کاپروگرام بنارہے ہیں

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

لاہور:
چوہدری پرویزالٰہی کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی عمران خان کے 2نومبر کے اسلام آباد دھرناکی غیرمشروط حمایت کااعلان کردیا ہے۔ یقیناًاس کاکریڈٹ شیخ رشیداحمدکوبھی جاتاہے، مگریہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ طاہرالقادری نے اسلام آباددھرناکے بارے میں جوعجیب وغریب پوزیشن لے رکھی تھی وہ خودان کے کارکنوں کومطمئن نہیں کرپارہی تھی۔

عوامی تحریک کے اندریہ اندرونی اضطراب روزبروز بڑھتاجارہاتھا کہ عین حکومت کے خلاف فیصلہ کن راونڈ میں ہم اس صف میں ہیں، نہ اس صف میں ہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں۔ عوامی تحریک کے کارکنوں کے اندریہ اضطراب فطری تھا، کیونکہ نوازشریف حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں جو قربانیاں انھوں نے دی ہیں، وہ تحریک انصاف نے بھی دی ہیں۔

شیخ رشید احمد خود بھی سیاسی کارکن ہیں۔ ان کو عوامی تحریک کے کارکنوں کے جذبات کاادراک تھا۔ انھوں نے طاہرالقادری سے رابطہ منقطع نہیں کیا تھا اور جیسے ہی ان کویہ یقین دہانی ہوگئی کہ اسلام آباد دھرنا کے لیے عمران خان کی طرف سے شرکت کی براہ راست دعوت ملنے پروہ اس کوقبول کرلیں گے، انھوں نے عمران خان کوبھی اس کے لیے راضی کرلیا۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پرویزالٰہی اور طاہر القادری کی جانب سے اسلام آبادمارچ کی حمایت کے بعدحکومت کی مشکلات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہیں؛ کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں عمران خان کی خالی حمایت کرنے پرہی اکتفا نہیں کریں گی بلکہ افرادی قوت سمیت ان کوہرطرح کی مددبھی مہیاکرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔

ڈاکٹرطاہرالقادری نے رائیونڈجلسہ میں شرکت نہیں کی تھی، تاہم ان کے اس فیصلہ کوخودان کے اندرکوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ان کے ذاتی ادب واحترام کی وجہ سے ان کے اس فیصلے کے خلاف کسی نے احتجاج تونہیں کیا، مگر طاہر القادری کوبہرحال اپنے کارکنوں کے جذبات کے بارے میں کماحقہ آگاہی تھی۔ لگتایہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرح طاہرالقادری کوبھی اس امرمیں شک تھاکہ رائیونڈ جلسہ کامیاب ہوگا۔

رائیونڈجلسہ سے ان کی بے اعتنائی اس قدربڑھ گئی تھی کہ وہ یہ کہہ کے اچانک لندن تشریف لے گئے کہ سانحہ ماڈل ٹاون کامقدمہ عالمی اداروں میں لڑنے جارہے ہیں۔ ان کی یہ منطق مگرعالمی قانون کے ماہرین کی سمجھ سے باہرتھی۔ سانحہ ماڈل ٹاون پروہ کسی عالمی ادارے سے کیسے رجوع کرسکتے ہیں، جب کہ اپنی تمام ترسنگینی اورحشرسامانی کے باوجود یہ مقدمہ پاکستان کاداخلی مقدمہ ہے۔ یہ ان کی اس طرح کی بڑتھی، جس طرح کی بڑانھوں نے2014ء میں دھرناختم کرتے وقت ماری تھی کہ وہ دھرناختم نہیں کررہے، بلکہ اس کو پورے ملک میں پھیلارہے ہیں۔

بہرحال رائیونڈ مارچ کام یاب رہا تو انھوں نے ٹی وی چینلزپرآکے یہ کہنا شروع کردیاکہ ان کے اورعمران خان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اوریہ کہ جب ان کورائیونڈجلسہ میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ یہ بھی ایک بات تھی، جو انھوںنے بنائی تھی، کیونکہ اگرواقعی وہ اس بناپرہی رائیونڈمارچ میں شرکت نہیں کررہے تھے، توان کو باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ وہ یاان کاکوئی کارکن رائیونڈ مارچ میں شرکت کرے گا۔

اس پرمیں نے انھی سطور میں ان کی خدمت میں عرض کی تھی کہ وہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ ان کی 'تحریک قصاص' کوجس پولیٹیکل کورکی ضرورت ہے، وہ پرویزالٰہی یاعمران خان ہی مہیاکرسکتے ہیں پیپلزپارٹی اوراپوزیشن کی باقی پارٹیاں توان کوسیاسی طورپرتسلیم ہی نہیں کرتی ہیں۔ لہٰذااب جب کہ عمران خان حکومت کے خلاف فیصلہ کن راونڈ لڑنے جارہے ہیں، اگراس سے پہلے ان کے اورعمران خان کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہوتی توظاہراً دونوں ہی کانقصان ہوگا، مگران کوزیادہ نقصان ہوگا، کیونکہ پرویزالٰہی کے بعد عمران خان اورشیخ رشید احمد بھی، جوسانحہ ماڈل ٹاون پران سے واقعی مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں، ان سے دورہوجائیں گے۔


یوں اپنی تمام ترقربانیوں کے باوجودعوامی تحریک سیاسی طور پر تنہا ہوجائے گی۔ شیخ رشیداحمدنے عمران قادری ازسر نو ملاپ کی جوتفصیلات بیان کی ہیں، وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ طاہرالقادری کواپنی غلطی کااحساس ہوچکاتھا، چنانچہ جیسے ہی شیخ رشیداحمد نے خرم نواز گنڈاپورکے کہنے پران سے رابطہ کیا، انھوں نے آیندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات نہیں کی اورعمران خان کی طرف سے براہ راست دعوت ملنے پراسلام آباد دھرنامیں شرکت پرآمادگی ظاہر کردی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ طاہرالقادری خودبھی اسلام آباددھرنامیں شرکت کاپروگرام بنارہے ہیں۔

اسلام آباد مارچ سے پہلے عمران قادری مفاہمت اورچوہدری پرویزالٰہی کی جانب سے ان کی بھرپور اور غیرمشروط حمایت نے نوازشریف حکومت کے اس دعویٰ کو غلط ثابت کردیاہے کہ جوپارٹیاں2014ء کے دھرنامیں عمران خان کے ساتھ تھیں، اس بار وہ بھی ان کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ نہ صرف یہ کہ وہ تمام پارٹیاں اکٹھی ہوچکی ہیں، بلکہ اس باران کے درمیان 2014 ء سے کہیں زیادہ ہم آہنگی نظرآرہی ہے۔

چوہدری پرویزالٰہی نے اپنی اتحادی پارٹیوں سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین سے بھی رابطہ کرلیا ہے؛ لہٰذا ان پارٹیوں کی بھی اسلام آباد دھرنا میں شرکت خارج ازامکان نہیں ہے۔ شیخ رشید احمد دفاع پاکستان کونسل کی پارٹیوں کوبھی راضی کرکے لانے کی پوزیشن میں تھے، مگرمناسب یہی سمجھا گیا ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کواس دھرنا سے دورہی رکھاجائے،کیونکہ ان کے شرکت کرنے سے دھرنا کوحکومت جو رنگ دے گی، وہ دھرنا کے مقاصد کے لیے بہت ضرر رساں ثابت ہوسکتاہے۔

شیخ رشید احمد کو شاید معلوم نہیں کہ دفاع پاکستان کونسل جواب اسلام آباددھرنا میں شرکت کے لیے بے تاب ہورہی ہے، اپنے جلسوں میں پانامہ لیکس کو یہود و ہنود کی سازش قراردے چکی ہے۔ پرویزالٰہی اورطاہرالقادری کی جانب سے اسلام آباد دھرناکی حمایت کے بعدسراج الحق پربھی اپنے کارکنوں کادباوبہت بڑھ گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب بھی اگرجماعت اسلامی کوئی واضح پوزیشن نہیں لے گی، توعملی طورپراس کوحکومت اورفضل الرحمان کے کیمپ میں ہی شامل سمجھاجائے گا۔

یہ اس اندرونی دباو ہی کا نتیجہ ہے کہ کے پی کے کے اندر اپنے حالیہ جلسہ میں، جو بہت بڑاجلسہ تھا، انھوں نے پہلی باراپنافوکس مکمل طور پر حکومت پر رکھا، بلکہ پانامہ کرپشن لیکس پراب تک تحقیقات نہ ہونے کاذمے داربھی حکومت کو قراردیا۔30 اکتوبر کو لاہورمیں ہونے والے اجتماع ارکان وکارکنان کو آخری روز پانامہ کرپشن پرباقاعدہ احتجاجی مارچ میں بھی تبدیل کردیاگیا ہے۔

میری اطلاع یہ ہے کہ سراج الحق کوبھی عمران خان سے وہی شکوہ ہے، جوطاہرالقادری کوتھا کہ ان سے براہ راست رابطہ کرکے ان کوشرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اگرعمران خان طاہرالقادری کاشکوہ دورکرسکتے ہیں توسراج الحق کاشکوہ دورکرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔

قصہ کوتاہ یہ کہ 2016ء کے اسلام آبادد ھرناسے پہلے2014ء کے اسلام آباددھرنا سے پہلے عمران قادری مفاہمت حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ طاہر القادری کے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے اوردھرنادینے کا جو ملکہ حاصل ہے، وہ دو مرتبہ اس کاکامیاب مظاہرہ کرچکے ہیں۔ دیکھا گیاہے کہ پولیس اہلکار بھی ان کے قریب جانے سے خائف رہتے ہیں۔

اب بھی یہ اطلاعات ہیں کہ طاہرالقادری کے اسلام آباد مارچ میں شرکت کے فیصلہ کے بعدپنجاب اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے حکومت کے سامنے اپنی پریشانی ظاہرکردی ہے اوردھرنا کے دوران کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اسے جوکچھ بھی کرناہے، اس کے لیے باقاعدہ تحریری احکامات کامطالبہ کیا ہے تاکہ بعد میں اس کو موردالزام ٹھیرایانہ جاسکے۔ اس پس منظر میں ظاہراًحکومت اوراس کے مخالف دونوں ہی اس وقت بندگلی میں داخل ہوچکے ہیں۔ شاعر نے کہاتھا،

اپنی گلی میں اپناہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ
امجدؔ یہ کون شہر کانقشہ بدل گیا؟
Load Next Story