خبردار ہوشیار

وطن عزیز کے سیاستدانوں نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

وطن عزیز کے سیاستدانوں نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔ ایک ایسا طوفان جس نے اہالیان پاکستان کو ان کے سیاستدانوں سمیت اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور لگتا ہے کہ اس طوفان کی یہ لپیٹ ڈھیلی پڑنے والی نہیں ہر دن یہ عفریت ایک نئی لپیٹ لے لیتا ہے اور اس کے کنڈل میں مزید پاکستانی زندگی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔

پاکستان کی بے بسی کا تماشا دیکھنے والے بہت لیکن اس کو اس چنگل سے چھڑانے والا شاید کوئی نہیں۔ جس سیاستدان کو دیکھیں وہ اس وطن کے کسی نہ کسی حصے کو نچوڑ لینا چاہتا ہے وہ تو اس ملک پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہے جو اسے بیرونی اور اندرونی دونوں قسم کی آفتوں سے بچا رکھتا ہے۔ جن پاکستانیوں نے اس ملک کی روحانی زندگی کو محسوس کیا ہے اور جنہوں نے اس پر قدرت کے رحم و کرم کا سایہ دیکھا ہے وہ اپنی بداعمالیوں اور بے اعمالیوں کے باوجود اس ملک کو محفوظ دیکھتے ہیں۔

ہم نے اس ملک کو لوٹنے گھسوٹنے کی ہر کوشش کی ہے اور اس میں کامیاب رہے ہیں کہ اس ملک کی مٹی کسی ایسے سخی داتا نے اس کی سرزمین پر بچھائی ہے جو گرم و سرد موسموں اور بے رحم انسانوں کی سخت دلی کے باوجود زندہ و سلامت ہی نہیں بڑی ہی مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہے۔ اگر حوصلہ پڑے تو اس ملک کی تاریخ کو یاد کیجیے جو شروع ہی دشمنوں کی بے رحم کارروائیوں سے ہوئی۔

اس کے سب سے بڑے اور وسائل سے بھرپور دشمن ہندو تھے اور ہیں جن کا ایمان تھا کہ یہ سرزمین ان کی ملکیت ہے اور کوئی دوسری قوم اور دوسرے مذہب والے اس پر قدم رکھنے کے مجاز بھی نہیں ہیں اور اگر کوئی اس گستاخی میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اس کا دشمن ہے اور باہر کا ہے جس سے نجات حاصل کرنی اس کا قومی فرض ہی نہیں اس کے عقیدے کا حصہ ہے چنانچہ جب بھی مقامی ہندوؤں کو موقع ملا انھوں نے ہند میں مقیم مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ ان کے آثار کو بھی ختم کرنا اپنا فرض سمجھا۔


ہندوستان کی پوری تاریخ ہی اس حقیقت کا عکس ہے کہ جب بھی ہندوؤں کو موقع ملا وہ مسلمان آبادی کو ختم کرنے کے لیے اس پر پل پڑے۔ ہندو مسلم فسادات ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جن پر ہمارے دشمن زندہ ہیں اور جن کی کامیابی ان کی قومی زندگی کا مقصد ہے۔ وہ تو ہمارے قومی رہنماؤں کی ہمت کہ بڑے ہی ناموافق حالات میں بھی انھوں نے امید قائم رکھی اور مقامی دشمنوں سے بچ کر نکلتے رہے۔

آج جب ہم اپنے ہندو ساتھیوں کی دشمنی دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے اپنے ان بزرگوں پر جو ایک نظریاتی دشمن قوم میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے اور جب کبھی ان کو معمولی سی کامیابی بھی حاصل ہوئی تو خوشی کے مارے چیخ اٹھے کہ انھوں نے کسی معرکے میں مسلمان گھس بیٹھیوں کو شکست دے دی جب کبھی ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے حالات سے شکست کھا گئے اور ہندو اکثریت کو کچھ کامیابی ملی تو وہ خوشی مارے جھوم اٹھے مشرقی پاکستان میں ہماری سیاسی بداعمالیوں کی وجہ سے ہمیں کچھ ناکامیاں ہوئیں تو اس کی خوشی اس قدر والہانہ تھی کہ بھارت کی وزیراعظم یہ تک کہہ اٹھی کہ آج ہم نے مسلمانوں سے ان کی غلامی اور ہمارے اوپر برتری کا بدلہ لے لیا۔

اندرا گاندھی نے جس جذبے اور جوش کے ساتھ یہ الفاظ کہے تھے ہمیں تو چاہیے تھا کہ ان الفاظ کے کتبے بنا کر اپنے گھروں اور مدرسوں میں لٹکا دیتے کہ ہمارا دشمن کیا کہتا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ مسلمان قوم کو دشمن کے ارادوں سے باخبر رہنا لازم ہے۔ اگر آپ دشمن سے غافل ہو جائیں گے تو پھر آپ اپنا ہوش کر لیں کہ آپ کا انتہائی چالاک اور ہر دم ہوشیار دشمن آپ کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔

اس کا ایمان ہے کہ آپ اس کے گھر میں گھس آئے ہیں اور اس قدر کامیابی کے ساتھ یہاں رہے ہیں کہ آپ کی اس خطے پر حکمرانی ایک اتنی بڑی تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کا وزیراعظم چیخ اٹھتا ہے ہے کہ ہم نے مسلمانوں سے ان کی حکومت کے ایک ہزار برسوں کا بدلہ لے لیا۔ یہ الفاظ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے سانحہ پر کہے تھے جو ہماری بداعمالیوں اور بری حکمرانی سے ہوا تھا۔

بہرکیف ہمیں اپنے اس دشمن سے باخبر اور ہوشیار رہنا چاہیے جو کسی بھی وقت ہم سے کوئی بھی بدلہ لینے اور چکانے میں سرگرم رہتا ہے۔ یہ ہمارا زندہ دشمن ہے جس کی دشمنی زندہ ہے اور اس زمین پر زندہ رہے گی۔
Load Next Story