ملک کے دشمن توہم خود ہیں

مغربی دنیا کے اہل علم اوردرسگاہوں میں پچیس برس سے ایک بحث جاری ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یابننے جارہی ہے

raomanzarhayat@gmail.com

SHANGLA:
مغربی دنیا کے اہل علم اوردرسگاہوں میں پچیس برس سے ایک بحث جاری ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یابننے جارہی ہے۔ہارورڈسے لے کرکورنیل یونیورسٹی تک ایک عرصے سے پاکستان کے متعلق منفی تاثر بھرپور طریقے سے پھیلایاجارہاہے۔

یہ سب کچھ کیاایک سازش ہے یاریاستی اورعوامی سطح پرہم سے غلطیاں سرزدہوئی ہیں، جنھیں ہم غلطیاں تسلیم کرنے سے انکارکرتے رہتے ہیں۔ کسی قسم کے منفی یامثبت تاثرکے بغیرپوری صورتحال کاجائزہ لینااوربین الاقوامی تناظرمیں پرکھناموجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اس درجہ کی قدآورشخصیات بہت ہی کم ہیں جنھیں مغرب میں سنجیدہ نظر سے دیکھاجاتاہے۔

حیرت یہ ہے کہ پاکستان کے متعلق مستندکتابیں یا قدآور دانشور بہت ہی کم ہیں۔ آٹے میں نمک سے بھی کم۔اناتول لیون(Anatol Lieven) برطانوی محقق ہیں۔انھوں نے پاکستان کے متعلق ایک منفردکتاب لکھی ہے۔عنوان ہے پاکستان ایک سخت ملک (Pakistan a hard country) انگریزی میں لکھی جانے والی وہ مستندتحریرہے جس میں ہمارے ملک کے متعلق تعصب نہ ہونے کے برابر ہے۔ ناکام یاکامیاب ریاست کے زاویہ سے نکل کرایک بہت جاندارنئی بات کہنے کی جرات کی گئی ہے۔

ہمارے وطن کو (Soft State)یعنی ایک"نرم ریاست" بتایا گیا ہے۔ ہمارے عوامی رویوں، جغرافیائی خوبصورتی،لوگوں کی کمال مہمان نوازی اورقوت برداشت کی بھرپورتعریف کی گئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی تغیرکوبھی موضوع بنایا گیا ہے۔ برصغیرکی تاریخ پربھی نظرڈالی گئی ہے۔2011-12ء میں چھپنے والی کتاب ہمارے ہر شہر میں موجودہے۔اسے ضرور پڑھناچاہیے۔سوال یہ ہے کہ بذات خودہم اپنے ہی حالات کے بہترین تجزیہ کارکیوں نہیں بن پائے۔

شائدپوری دنیامیں ہماری حرکتوں کی بدولت کوئی قوم بھی ہمیں وہ اہمیت دینے کے لیے تیارنہیں جوہمارے جیسے ملکوں کوحاصل ہے۔ مگراس ناانصافی کاگلہ کرنے کے بجائے معاملہ کی تہہ تک پہنچنااَشدضروری ہے۔انفرادی منفی یامثبت حرکتیں جب مسلسل ہوتی جائیں تو اسے قومی وتیرہ کانام دیا جاتا ہے۔یہ اصول ہر ملک اورقوم کے بالکل یکساں ہیں۔معاملات انتہائی سنجیدہ نظر آتے ہیں مگر جوہری طورپرانتہائی سادہ ہیں۔لوگوں کے عمومی رویوں کو دیکھنابھی اہم ہے۔

چند مثالیں دیکرعرض کرناچاہتاہوں کہ ہم میں سے اکثرلوگ کس درجہ غلیظ انحطاط کاشکارہوچکے ہیں۔مچھلی کوتلنے کے لیے دکانوں پربڑے بڑے کڑاھے رکھے جاتے ہیں۔اس میں کھولتا ہوا تیل مچھلی کوذائقہ بھی دیتاہے اورلوگ شوق سے استعمال کرتے ہیں۔ایک صاحب نے بتایاکہ انجن بلکہ فرنس آئل کی ایک خاص قسم ہے جوآئل کمپنیاں تلف کردیتی ہیں۔ مگرکھانے سے منسلک خصوصاًوہ کاروبار جس میں اشیاء کوفرائی کیاجاتاہے۔تلف شدہ تیل خریدلیتے ہیں۔

بغیرکسی روک ٹوک کے سرِعام اس تلف شدہ تیل کو مچھلی اوردیگراشیاء تلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔تیل کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ بخارات میں انتہائی آہستہ آہستہ تبدیل ہوتاہے۔یعنی اگرکسی نے دس لیٹرزہریلاتیل خریدڈالاہے تواسے ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں استعمال کریگا۔ یہ اس عظیم ملک کے کونے کونے میں ہورہاہے۔ہم پیسے صَرف کرکے زہرخریدتے ہیں اورمزے سے کھاتے ہیں۔

کیایہ انڈیاکی سازش ہے یاہمارے اپنے لوگ ہمیں آہستہ آہستہ قتل کررہے ہیں۔چھوٹے تاجر یا دکاندارسے لے کر بڑے سرمایہ دارتک ، اپنی اپنی سطح پر خاموشی سے ملاوٹ، غیرمعیاری اشیاء کی تیاری اورتباہ کن حرکات میں مصروف ہیں۔کیایہ اسی عظیم ملک کے باسی نہیں۔کیاکسی ترقی یافتہ ملک میں ایسا ادنیٰ کام سوچابھی جاسکتا ہے۔ دودھ، دہی، گوشت،مصالحہ،غرض کہ ہرکھانے پینے کی استعمال کی چیز غیرمعیاری ہے۔دوایاں،سرجری کے آلات،آپریشن تھیٹر، تشخیصی سینٹرہرجگہ اپنی اپنی جگہ عذاب ہیں۔


سرکاری اسپتالوں کی حالت زار چھوڑئیے نجی اسپتالوں کاجائزہ لیجیے جو گلی محلوںسے لے کربڑے بڑے قطعات پرکام کررہے ہیں۔کسی بھی پرائیویٹ اسپتال میں بین الاقوامی معیارکی ایک بھی چیز،طبی معالجہ اورسہولتیں موجود نہیں۔ لندن، امریکا، سنگاپور یا جنوبی کوریاجیساایک بھی کمرہ نہیں۔لاہورکے ایک بہت نجی اسپتال میں ایک امریکی ڈاکٹرنے آپریشن تھیٹردیکھاتو ششدررہ گیا۔

دل کے آپریشن کے وہ آلات یامشینیں جومغربی اسپتالوں میں متروک ہوچکی تھیں۔اسکریپ کے بھاؤوہاں سے خرید کر لاہور شہر میں بے دریغ استعمال ہورہی تھیں۔ امریکی ڈاکٹر اس نجی اسپتال کودیکھ کرکانوں کوہاتھ لگارہاتھا۔اسکافقرہ تھا کہ اس اسپتال کے ڈاکٹرمجرم ہیں۔انھیں گرفتارکرکے سزا دینی چاہیے۔پر نہیں، غیرمعیاری اورگھٹیاعلاج کے باوجود وہ اسپتال پھل پھول رہاہے۔دل کاایک آپریشن کرنے کے تیس سے چالیس لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔

ظلم کی انتہایہ ہے کانوں کان بتایا نہیں جاتاکہ یہ آپریشن تھیٹرموت کی آماج گاہیں ہیں۔زندہ رہ گئے توآپکی ہمت۔ اور اگر مرگئے توبھی ڈاکٹرکی کوئی غلطی نہیں۔ صحت کے نظام میں تمام نجی شعبہ بھی اسی انحطاط کاشکارہے جس تنزلی کا ہمارا معاشرتی رجحان ہے۔جہاں تک غریب کاعلاج ہے تواسکے لیے سرکاری موت گاہیں یعنی سرکاری اسپتال موجود ہیں۔ غریب یہاں صرف اورصرف شناختی کارڈہیں۔سوال ہے کہ کیایہودونصاریٰ ہمیں اپنے تمام اسپتال ٹھیک کرنے سے روک رہے ہیں؟

پاکستان میں طبقاتی نظام اس درجہ طاقتور ہوچکا ہے کہ اب کسی صورت میں اس سے چھٹکاراحاصل نہیں کیا جاسکتا۔سیاست سے لے کرمذہب تک اور دانشوروں سے لے کر جاہلوں تک ایک ایسی نظرنہ آنے والی تفریق ہوچکی ہے جسکے سامنے سب بے بس ہیں۔غریب کے بچوں کے لیے وہی دقیانوسی سا سرکاری اسکول یا کالج۔ امیروںکے لیے قدرے بہتر اسکول۔معذرت کے ساتھ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی مکمل طورپرعلم دشمنی پرچل رہے ہیں۔

یہاں تک بتایا گیا ہے کہ ایک نجی تعلیمی گروپ باقاعدہ تعلیمی بورڈکے عملہ کورشوت دیکر اپنے طلباء طالبات کوبہترین پوزیشن دلواتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک بھی بین الاقوامی سطح کاتعلیمی ادارہ ہمارے ملک میں موجود نہیں ہے۔غریب کے بچے کے لیے کیونکہ جائز سہولتوں کافقدان ہے،لہذاڈینی مدرسے اس خلاکو پورا کر رہے ہیں۔مدارس غریب کے لیے ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔جہاں کم ازکم کھانا اوررہائش مفت ہے۔

مدارس وہ واحد درسگاہیں ہیں جہاں ان بچوں کو تعلیم کے نام پربنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔طبقاتی نظام کی موجودگی میں مدارس صرف دہشتگردہی پیداکرسکتے ہیں۔ وہاں سے سائنسدان اور محقق پیداہونے مشکل ہیں۔ سائنسدان اور مفکر تو پرائیویٹ اورسرکاری اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں بھی پیدا نہیں کررہیں۔کیایہ بھی غیرملکی سازش ہے کہ ہم اپنا مکمل تعلیمی نظام بربادکرچکے ہیں اور ٹھیک کرنے سے قاصرہیں۔ اب آپ ان سیاسی جماعتوں کی طرف آئیے جو دین کو بطور ہتھیار یا پروپیگنڈااستعمال کررہی ہیں۔

پاکستان میں غالب اکثریت مسلمان ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ دین کی ظاہری شکل پربہت زورہے مگراسکی روح پر کوئی عمل نہیں کررہا۔اس مسلمان ملک میں سیکولراورمذہبی ہونے کی ایک ایسی خلیج ڈال دی گئی ہے کہ معاشرہ مکمل طور پر تقسیم ہوچکاہے۔مسلمان بذات خود سیکولرہیں یا نہیں۔ اسلامی شعائرپرعمل کرنے والاہرشخص مسلمان ہے۔میرے آقاؐکایہی حکم ہے۔مگرنہیں،ہم نے منتشر قوم کو مزید منتشر کر ڈالاہے۔دینی سیاسی جماعتوں نے ایک اوررخ سے معاشرے کوتقسیم کر ڈالا ہے۔ اپنے انتخابی نشان اس طرح کے چنتے ہیں کہ اس میں دین کا نمائشی پہلو آتا ہے۔

الیکشن کمیشن سے انتخابی نشان تو کتاب لیاجاتاہے لوگوں میں تقاریرکے دوران اسکو ہماری عظیم الہامی کتاب بتایا جاتا ہے۔انتہائی ادب سے عرض کرونگاکہ مسلمانوں کے ملک میں کیادینی سیاسی جماعتوں کی گنجائش ہونی چاہیے جودین کو ایک مخصوص زاویہ سے پیش کرکے اقتدارحاصل کرناچاہتے ہوں۔ کیا یہ بھی انگریزکی عیاری ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے ہمارے پورے معاشرہ کوتقسیم کر ڈالا ہے؟

جس ملک میں ہر شخص بربادی میں اپناحصہ ڈال رہاہو۔جہاں پھل فروش سے لے کرمقتدرطبقہ مکمل طورپرریاست کو چونا لگا رہا ہو، وہاں کیابات کی جائے اورکیسے کی جائے۔مضبوط ادارے تو دور کی بات،میری نظر میں ہمارے پاس تو کمزور ادارے بھی نہیں ہیں۔پیہم خودکشی اورزوال ہی وہ راستہ ہے جس پربیس کروڑلوگ خوشی سے ایک دوسرے کی جیب کاٹ رہے ہیں۔ہمارے دشمن بھی ہیں،اس میں کوئی دورائے نہیں۔ پرملک کے اصل دشمن توہم خودہیں،ہم سارے لوگ!
Load Next Story