ماں بولی
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب کے لکھاریوں نے گزشتہ ایک صدی میں اردو کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے
KARACHI:
ساری دنیا کے ماہرین تعلیم اور ارباب نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ تقریباً آٹھ سال کی عمر تک انسانی بچے کا ذہن اشیا، ان کی مالیت، خواص اور بنیادی حسی تجربات کو جس بہتر اور بھر پور انداز میں اپنی ماں بولی میں سیکھتا اور سمجھتا ہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ ماں بولی کی ایک شگفتہ وضاحت یوں بھی کی جاتی ہے کہ آدمی چاہے کہیں بھی رہے، ہفت زبان یا عالم فاضل ہو جائے وہ گالی اور خواب ہمیشہ ماں بولی ہی میں دیتا اور دیکھتا ہے۔
اگرچہ فی زمانہ تہذیبوں کے میل جول اور نظام ہائے تعلیم کی غلط اندیشیوں سے اب یہ بات بھی ''اصول'' کے درجے سے کچھ نیچے آ گئی ہے مگر امر واقعہ یہی ہے کہ افہام و تفہیم میں جو سہولت ماں بولی کے استعمال سے ہوتی ہے اس کا مقابلہ کوئی دوسری زبان نہیں کر سکتی۔
وطن عزیز میں گزشتہ تقریباً 40 برس سے بیک وقت ایک سے زیادہ نظام رائج ہونے اور ذریعہ تدریس میں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے ایسا ہمارے بچے اپنی ماں بولی تو کیا قومی اور رابطے کی زبان یعنی اردو سے بھی نابلد ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری نسل چھٹی ساتویں جماعت تک شفیق الرحمٰن، ابن صفی اور نسیم مجازی کی تحریروں سمیت اردو اخبارات آسانی اور روانی سے پڑھ لیتی تھی مگر آج اس عمر کے (بالخصوص انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے بیشتر بچے) اردو کا ایک جملہ بھی کم کم ہی ٹھیک سے پڑھ پاتے۔
اس طرح ہماری دیگر پاکستانی زبانیں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندکو وغیرہ تو سین سے ہی آؤٹ ہو گئیں۔ لوگوں نے بچوں سے تو کیا آپس میں بھی اپنی مادری زبان میں بولنا بے حد کم کر دیا۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں صورتحال نسبتاً کم خراب ہوئی کہ وہاں کے زیادہ تر لوگ اب بھی گھروں میں بچوں سے اپنی زبان میں بات کرتے ہیں مگر بلوچستان اور بالخصوص پنجاب میں ماں بولی کا استعمال کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کی طرف سنجیدگی اور ہوش مندی سے توجہ نہیں دی۔
پہلے اردو سے خوامخواہ کے تنازعے کھڑے کیے گئے کہ زبان کے اسٹرکچر، حروف تہجی، نظام اصوات اور گرامر کے قواعد کے اعتبار سے پاکستان کی ساری زبانیں اردو سے بے حد قریب ہیں۔ عربی اور فارسی رسم الخط اور ذخیرہ الفاظ کا اشتراک اس پر مستزاد ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہمارے کچھ اردو بولنے والے بھائیوں نے زبان اور کلچر کو آپس میں خلط ملط کر دیا۔
پاکستان کے تمام علاقوں کے رہنے والوں نے بہت خوشی اور کشادہ دلی سے اردو کو باہمی رابطے کا ذریعہ اور قومی زبان تسلیم کر لیا اور بعض صورتوں میں اپنی ماں بولی کے بجائے اردو کو ہی بول چال کی زبان بھی بنا لیا مگر ان کا کلچر، لباس، آداب محفل، خوشی غمی کے اظہار کے طریقے اور مقامی تہذیبی روایات اپنی ایک انفرادیت رکھتی تھیں اور انھیں اتنی ہی عزیز تھیں جتنی اردو بولنے والے بھائیوں کو ان کی مخصوص روایات اور وہ بجا طور پر زبان کی وجہ سے انھیں بدلنے پر تیار نہیں تھے۔پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یوں پنجابی ماں بولی کے حوالے سے پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب کے لکھاریوں نے گزشتہ ایک صدی میں اردو کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے بلکہ علامہ اقبال (شاعری) اور منٹو، بیدی، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی وغیرہ (نثر) غیر اہل زبان نے اردو ادب کو وہ رفعت اور وسعت عطا کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے اردو تو مستفیض اور مالا مال ہوئی مگر ان کی اپنی ماں بولی ان کی چشم توجہ سے محروم رہ گئی اور یہ روایت اب تک اسی طرح سے چلی آ رہی ہے۔
سو ایسے میں جب کمشنر فیصل آباد برادرم مومن آغا کا فون آیا کہ وہ وہاں کے ڈویژنل پبلک اسکول میں ''ماں بولی'' کے عنوان سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں جس میں میرے علاوہ منوبھائی اور ڈاکٹر صغریٰ صدف کو مدعو کیا جا رہا ہے تا کہ والدین اور بچوں میں اپنی ماں بولی سے محبت اور انسیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بے معنی احساس کمتری کو ختم کیا جائے جس کی وجہ سے ہم اپنی مادری زبانوں کو کمتر یا کمزور سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اس خبر کی خوشگواری میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اسکول ہذا کے پرنسپل برادرم شاہد سے غیر متوقع طور پر تجدید ملاقات ہوئی کہ چند برس قبل میں کوئٹہ میں ان کے اسکول کی ایک تقریب میں شمولیت کے لیے خاص طور پر نہ صرف وہاں گیا تھا بلکہ بہت خوشگوار یادیں لے کر لوٹا تھا۔
اس تقریب کے پیغام کا خلاصہ یہی تھا کہ ہمیں اپنی ماں بولی سے پیار کے ساتھ ساتھ اس کی عزت بھی کرنی چاہیے اور اسے اردو کی متوازی زبان کے بجائے اردو کی بزرگ نسل کے طور پر دیکھنا چاہیے کہ یوں یہ رشتہ خاندانی تعلق اور محبت کے رشتے کی شکل میں ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے محترم بھی ہو گا اور عزیز بھی اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مادری زبانوں کو خطرہ اردو سے نہیں بلکہ انگریزی زبان کے اس ناجائز طور پر بڑھتے ہوئے رسوخ اور دباؤ سے ہے جو ہم سے ہمارا اپناپن چھیننے کے درپے ہے۔
انگریزی کو بطور ایک زبان کے ضرور سیکھنا اور سکھانا چاہیے کہ تمام تر جدید علوم اس زبان میں یوں ہمارے لیے زیادہ آسان ہو جاتے ہیں کہ انگریزی کی سو سالہ حکومت کی وجہ سے یہی وہ بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے جس سے ہم دوسری غیر ملکی زبانوں کی نسبت زیادہ آشنا اور قریب ہیں لیکن یہ تعلق بس یہیں تک رہنا چاہیے اور ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بولی جانے والی تمام ماں بولیوں کو ان کا جائز حق دینا اور دلوانا چاہیے کہ آج تک دنیا کی کسی بھی قوم نے اپنی زبان کے علاوہ نہ تو کسی دوسری زبان میں ترقی کی ہے اور نہ کر سکے گی اور اس کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ اپنی ماں بولی میں بات کرنے کو ایک اصول کے طور پر اپنا لیں۔
اس کے بعد انھیں اردو سکھائیں اور فی الوقت کم از کم میٹرک تک انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے صرف ایک زبان کے طور پر پڑھایا جائے۔ اعلیٰ اور پروفیشنل تعلیم کے لیے بے شک اس وقت تک انگریزی کو ذریعۂ تعلیم رہنے دیں جب تک ہماری زبانیں خود اس کے قابل نہیں ہو جاتیں۔ البتہ سائنسز، آئی ٹی اور کامرس کی تعلیم کے دوران اگر اصطلاحات کو اسکول کی سطح پر بھی اپنی اصلی شکل میں رکھا جائے تو بہتر ہو گا کہ برا، غلط یا متنازع ترجمہ کرنے سے نہ صرف ان کی تفہیم میں مشکل ہوتی ہے بلکہ ان کی اصل صورت سے عدم واقفیت بھی ایک خلیج کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ ماں بولی سے محبت اور اس کی طاقت پر اعتماد کل بھی سچ تھا اور آج بھی سچ ہے اور آیندہ بھی اس سانچ کو آنچ نہیں آئے گی۔
ساری دنیا کے ماہرین تعلیم اور ارباب نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ تقریباً آٹھ سال کی عمر تک انسانی بچے کا ذہن اشیا، ان کی مالیت، خواص اور بنیادی حسی تجربات کو جس بہتر اور بھر پور انداز میں اپنی ماں بولی میں سیکھتا اور سمجھتا ہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہیں۔ ماں بولی کی ایک شگفتہ وضاحت یوں بھی کی جاتی ہے کہ آدمی چاہے کہیں بھی رہے، ہفت زبان یا عالم فاضل ہو جائے وہ گالی اور خواب ہمیشہ ماں بولی ہی میں دیتا اور دیکھتا ہے۔
اگرچہ فی زمانہ تہذیبوں کے میل جول اور نظام ہائے تعلیم کی غلط اندیشیوں سے اب یہ بات بھی ''اصول'' کے درجے سے کچھ نیچے آ گئی ہے مگر امر واقعہ یہی ہے کہ افہام و تفہیم میں جو سہولت ماں بولی کے استعمال سے ہوتی ہے اس کا مقابلہ کوئی دوسری زبان نہیں کر سکتی۔
وطن عزیز میں گزشتہ تقریباً 40 برس سے بیک وقت ایک سے زیادہ نظام رائج ہونے اور ذریعہ تدریس میں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے ایسا ہمارے بچے اپنی ماں بولی تو کیا قومی اور رابطے کی زبان یعنی اردو سے بھی نابلد ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری نسل چھٹی ساتویں جماعت تک شفیق الرحمٰن، ابن صفی اور نسیم مجازی کی تحریروں سمیت اردو اخبارات آسانی اور روانی سے پڑھ لیتی تھی مگر آج اس عمر کے (بالخصوص انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے بیشتر بچے) اردو کا ایک جملہ بھی کم کم ہی ٹھیک سے پڑھ پاتے۔
اس طرح ہماری دیگر پاکستانی زبانیں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندکو وغیرہ تو سین سے ہی آؤٹ ہو گئیں۔ لوگوں نے بچوں سے تو کیا آپس میں بھی اپنی مادری زبان میں بولنا بے حد کم کر دیا۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں صورتحال نسبتاً کم خراب ہوئی کہ وہاں کے زیادہ تر لوگ اب بھی گھروں میں بچوں سے اپنی زبان میں بات کرتے ہیں مگر بلوچستان اور بالخصوص پنجاب میں ماں بولی کا استعمال کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کی طرف سنجیدگی اور ہوش مندی سے توجہ نہیں دی۔
پہلے اردو سے خوامخواہ کے تنازعے کھڑے کیے گئے کہ زبان کے اسٹرکچر، حروف تہجی، نظام اصوات اور گرامر کے قواعد کے اعتبار سے پاکستان کی ساری زبانیں اردو سے بے حد قریب ہیں۔ عربی اور فارسی رسم الخط اور ذخیرہ الفاظ کا اشتراک اس پر مستزاد ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہمارے کچھ اردو بولنے والے بھائیوں نے زبان اور کلچر کو آپس میں خلط ملط کر دیا۔
پاکستان کے تمام علاقوں کے رہنے والوں نے بہت خوشی اور کشادہ دلی سے اردو کو باہمی رابطے کا ذریعہ اور قومی زبان تسلیم کر لیا اور بعض صورتوں میں اپنی ماں بولی کے بجائے اردو کو ہی بول چال کی زبان بھی بنا لیا مگر ان کا کلچر، لباس، آداب محفل، خوشی غمی کے اظہار کے طریقے اور مقامی تہذیبی روایات اپنی ایک انفرادیت رکھتی تھیں اور انھیں اتنی ہی عزیز تھیں جتنی اردو بولنے والے بھائیوں کو ان کی مخصوص روایات اور وہ بجا طور پر زبان کی وجہ سے انھیں بدلنے پر تیار نہیں تھے۔پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یوں پنجابی ماں بولی کے حوالے سے پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پنجاب کے لکھاریوں نے گزشتہ ایک صدی میں اردو کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے بلکہ علامہ اقبال (شاعری) اور منٹو، بیدی، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی وغیرہ (نثر) غیر اہل زبان نے اردو ادب کو وہ رفعت اور وسعت عطا کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے اردو تو مستفیض اور مالا مال ہوئی مگر ان کی اپنی ماں بولی ان کی چشم توجہ سے محروم رہ گئی اور یہ روایت اب تک اسی طرح سے چلی آ رہی ہے۔
سو ایسے میں جب کمشنر فیصل آباد برادرم مومن آغا کا فون آیا کہ وہ وہاں کے ڈویژنل پبلک اسکول میں ''ماں بولی'' کے عنوان سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں جس میں میرے علاوہ منوبھائی اور ڈاکٹر صغریٰ صدف کو مدعو کیا جا رہا ہے تا کہ والدین اور بچوں میں اپنی ماں بولی سے محبت اور انسیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بے معنی احساس کمتری کو ختم کیا جائے جس کی وجہ سے ہم اپنی مادری زبانوں کو کمتر یا کمزور سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اس خبر کی خوشگواری میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اسکول ہذا کے پرنسپل برادرم شاہد سے غیر متوقع طور پر تجدید ملاقات ہوئی کہ چند برس قبل میں کوئٹہ میں ان کے اسکول کی ایک تقریب میں شمولیت کے لیے خاص طور پر نہ صرف وہاں گیا تھا بلکہ بہت خوشگوار یادیں لے کر لوٹا تھا۔
اس تقریب کے پیغام کا خلاصہ یہی تھا کہ ہمیں اپنی ماں بولی سے پیار کے ساتھ ساتھ اس کی عزت بھی کرنی چاہیے اور اسے اردو کی متوازی زبان کے بجائے اردو کی بزرگ نسل کے طور پر دیکھنا چاہیے کہ یوں یہ رشتہ خاندانی تعلق اور محبت کے رشتے کی شکل میں ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے محترم بھی ہو گا اور عزیز بھی اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مادری زبانوں کو خطرہ اردو سے نہیں بلکہ انگریزی زبان کے اس ناجائز طور پر بڑھتے ہوئے رسوخ اور دباؤ سے ہے جو ہم سے ہمارا اپناپن چھیننے کے درپے ہے۔
انگریزی کو بطور ایک زبان کے ضرور سیکھنا اور سکھانا چاہیے کہ تمام تر جدید علوم اس زبان میں یوں ہمارے لیے زیادہ آسان ہو جاتے ہیں کہ انگریزی کی سو سالہ حکومت کی وجہ سے یہی وہ بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے جس سے ہم دوسری غیر ملکی زبانوں کی نسبت زیادہ آشنا اور قریب ہیں لیکن یہ تعلق بس یہیں تک رہنا چاہیے اور ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بولی جانے والی تمام ماں بولیوں کو ان کا جائز حق دینا اور دلوانا چاہیے کہ آج تک دنیا کی کسی بھی قوم نے اپنی زبان کے علاوہ نہ تو کسی دوسری زبان میں ترقی کی ہے اور نہ کر سکے گی اور اس کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ اپنی ماں بولی میں بات کرنے کو ایک اصول کے طور پر اپنا لیں۔
اس کے بعد انھیں اردو سکھائیں اور فی الوقت کم از کم میٹرک تک انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے صرف ایک زبان کے طور پر پڑھایا جائے۔ اعلیٰ اور پروفیشنل تعلیم کے لیے بے شک اس وقت تک انگریزی کو ذریعۂ تعلیم رہنے دیں جب تک ہماری زبانیں خود اس کے قابل نہیں ہو جاتیں۔ البتہ سائنسز، آئی ٹی اور کامرس کی تعلیم کے دوران اگر اصطلاحات کو اسکول کی سطح پر بھی اپنی اصلی شکل میں رکھا جائے تو بہتر ہو گا کہ برا، غلط یا متنازع ترجمہ کرنے سے نہ صرف ان کی تفہیم میں مشکل ہوتی ہے بلکہ ان کی اصل صورت سے عدم واقفیت بھی ایک خلیج کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ ماں بولی سے محبت اور اس کی طاقت پر اعتماد کل بھی سچ تھا اور آج بھی سچ ہے اور آیندہ بھی اس سانچ کو آنچ نہیں آئے گی۔