کراچی چیمبر نے شرح سود 6 فیصد پر لانے کا مطالبہ کردیا

سخت مانیٹری پالیسی ترقی میں رکاوٹ ہے،50 بیسس پوائنٹس کی کمی ناکافی قرار

معیشت پر زیادہ اچھا اثر نہیں پڑے گا، اسٹیٹ بینک کے فیصلے سے مایوسی بڑھی، ہارون اگر فوٹو: فائل

کراچی چیمبر آ ف کامرس اینڈ انڈسری کے صدر محمد ہارون اگر نے نئی مانیٹری پالیسی کے تحت بنیادی شرح سود میں 50 بیسس پوائنٹس کی کمی کو توقعات کے برعکس قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے نتیجے میں تجارتی وصنعتی شعبے کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ پاکستان کے تجارتی وصنعتی شعبے پہلے ہی ان گنت مسائل اور بحرانوں سے دوچار ہوکر ملک میں اپنے توسیعی منصوبوں کی تکمیل بند کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کو توقع تھی کہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ساز زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی شرح سود میں کم ازکم 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کریں گے جس کے نتیجے میںمعاشی سرگرمیوں کوفروغ حاصل ہوگا لیکن پالیسی سازوں نے اس کے برعکس بنیادی شرح سودمیںصرف 50 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے تاجربرادری کی مایوسی میں اضافہ کردیا ہے، اسٹیٹ بینک کی جانب سے صرف 50 بیسس پوائنٹس کم کرنے کا فیصلہ ملکی معیشت کیلیے زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوگا۔


ہارون اگر نے شرح سود6 تا 7 فیصد کی سطح پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جاری توانائی بحران، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور امن وامان کی خراب صورتحال نے پہلے ہی معاشی ترقی کا پہیہ جام کر دیا ہے اور اب رہی سہی کسر زائد شرح سود نے پوری کردی ہے۔



اسٹیٹ بینک کی سخت مانیٹری پالیسی نجی شعبے کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،سخت مانیٹری پالسی سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے نجی شعبے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، زائد شرح سود کی وجہ سے بینکوں کے غیرفعال قرضوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے، حکومت کو معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا چاہیے۔ ہارون اگر نے کہا کہ شرح سود مزیدکمی سے 6 تا 7 فیصد پر لانے سے یقینی طور پر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور جو صنعتیں بیرون ملک منتقل ہو گئی ہیں ان کی واپس پاکستان منتقلی کے امکانات بھی روشن ہوجائیں گے جس سے صنعتی ترقی کے ساتھ نئی سرمایہ کاری کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔

Recommended Stories

Load Next Story