قلعہ کہنہ ملتان کی قدامت اور تاریخی شکوہ کی علامت

سکندر اعظم کے حملہ کے وقت بھی دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط قلعہ موجود تھا

اس تاریخی قلعہ پر ہزاروں جنگیں لڑی گئیں، دنیا کے بڑے بڑے سالاروں کے لشکر یہاں اترے۔ فوٹو: فائل

قدیم عہد میں کوئی بھی بڑا شہر کوٹ یا قلعہ کے بغیر مستحکم تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ سنسکرت زبان میں ''پُور'' کا لفظ ان شہروں کیلئے استعمال کیا گیا ہے جہاں کوئی بڑا کوٹ' قلعہ یا گڑھی ہوا کرتی تھی۔ یوں تو قدیم عہد میں ملتان شہر کے مختلف نام رہے ہیں لیکن مؤرخین کا جن دو ناموں پر اتفاق رہا ہے وہ مول استھان پورہ اور کیسپ پورہ یا کشپ پورہ ہی ہیں۔ اس لئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ کے نامعلوم عہد میں بھی ملتان میں قلعہ موجود تھا۔

اس حوالے سے مرزا ابن حنیف اپنی کتاب ''سات دریاؤں کی سرزمین'' میں لکھتے ہیں ''ملتان کے موجودہ مقام پر پہلی بستی کم از کم ساڑھے 5 ہزار سال قبل کے لگ بھگ ان دنوں بسائی گئی جب وادی سندھ کے مختلف علاقوں جلیل پور' لیہ' وہنی وال' رحمان ڈھیری' ہٹھالہ' گوملا' کوٹ ڈیجی' موہنجوداڑو' ہڑپہ اور کلی گل محمد میں بھی ایسی ہی چھوٹی چھوٹی ان گنت بستیاں آباد ہوئیں، یہ سب بستیاں زراعت کاروں کی تھیں۔

میں سمجھتا ہوں ناصرف پاکستان بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی اتنا بڑا اور اہم شہر کوئی اور نہیں جو ملتان کی طرح 5 ہزار سال سے آباد چلا آ رہا ہو۔ پاکستان کے دو معروف ترین قدیم شہر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کوئی ساڑھے 3 ہزار برس پہلے آخری تباہی سے دوچار ہوئے تو پھر آباد ہی نہ ہو سکے، البتہ ملتان وہ منفرد شہر ہے جو مستقل طور پر زوال آشنا تو کیا ہزاروں برس سے برابر ترقی اور سربلندی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔

ملتان کی قدامت اور اہمیت کے سلسلہ میں ایک بات اور ذہن میں رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ ناصرف سکندر اعظم بلکہ عروج یافتہ ہڑپائی دور (2500 ق م تا 2000 ق م) میں بھی ملتان میں قلعہ اور فصیل موجود تھی چنانچہ سوا دو ہزار سال قبل ملتان میں قلعہ کی موجودگی سے بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے اتنا بڑا مرکزی اور اہم شہر بننے میں کتنا عرصہ صرف ہوا ہو گا کہ جہاں قلعہ بھی بن سکے۔ ظاہر ہے کہ شہر کا یہ تدریجی ارتقاء چند برسوں میں تو ہونے سے رہا، ہزاروں سال ہی لگے ہوں گے۔''

ملتان شہر کے سنگ بنیاد رکھے جانے اور پہلے پہل آباد ہونے کی تاریخ نامعلوم ہے، تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ملتان کا قلعہ عروج یافتہ ہڑپائی دور سے بھی پہلے موجود تھا۔ بعض تاریخ دانوں کے نزدیک ملتان کا قدیم شہر جدید شہر کے مشرقی پہلو میں واقع تھا، لوگوں کا خیال اس طرف اس لئے بھی جاتا ہے کہ موجودہ شہر کے مشرق اور شمال میں پہلے دور دور تک کھنڈرات اور ٹیلے موجود تھے، تاہم جنرل کنگھم اور مرزا ابن حنیف جیسے ماہرین آثاریات اس بات پر متفق ہیں کہ سکندر اعظم کے حملہ کے وقت ملتان شہر اسی جگہ پر موجود تھا جہاں اب ہے۔

ملتان شہر کی قدامت کی بڑی نشانی قلعہ کہنہ ملتان ہی ہے' ملتان کا یہ منہدم قلعہ شہر کے تاریخی، مذہبی، روحانی اور ثقافتی شکوہ کی بھی علامت ہے۔ ملتان کا مرکزی شہر اور قلعہ ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے جس کے نیچے صدیوں نہیں بلکہ قرنوں کی راکھ اور خاک ہے۔ یہ شہر اور اس کا محافظ قلعہ صدیوں تک وقت کے ہاتھوں اُجڑتا اور بنتا رہا لیکن تاریخ کے کسی بھی عہد میں لوح زمانہ سے اس کا وجود نہ مٹ سکا اور نہ ہی یہ شہر کسی صورت اپنی انفرادیت کھو سکا' آج بھی قلعہ کہنہ کی بلندی سے نظارگی کی جائے تو تاریخ اس شہر کے قدموں سے لپٹی دکھائی دیتی ہے۔

قدیم عہد میں ملتان کا یہ قلعہ فوجی نقطہ نظر سے خطے کے دفاع کی علامت اور طرز تعمیر کا شاہکار تھا، پہلے پہل اس کی تعمیر دریائے راوی کی چھوڑی ہوئی جگہ پر ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ملتان کا یہ قلعہ ایک اونچے ٹیلے پر کچی مٹی سے بنا ہوا تھا، جب سکندر اعظم ملتان آیا تو اس وقت قلعہ کچی مٹی سے ہی بنا ہوا تھا لیکن دفاعی لحاظ سے یہ اُس وقت بھی ایک مضبوط قلعہ تھا اور سکندر اعظم کی فاتح عالم سپاہ بھی اسے آسانی سے فتح نہیں کر سکی تھی۔

ملتان کا نیا قلعہ پرانے قلعہ کی جگہ پر مغل دور حکومت میں شہزادہ مراد بخش نے 1640ء میں تعمیر کرایا تھا، بعض تاریخی روایات یہ بھی ہیں کہ شہزادہ مراد بخش نے بھی قلعہ کی ضروری مرمت ہی کرائی تھی، قلعہ پہلے سے ہی تعمیر شدہ تھا۔ ملتان کا دورہ کرنے والے بہت سے عرب اور انگریز سیاحوں نے قلعہ کہنہ ملتان کے متعلق تفصیلات اپنی ڈائریوں اور سفرناموں میں تحریر کی ہیں۔

انگریز مؤرخین کی رائے میں ایسا زبردست اور مستحکم قلعہ پورے برصغیر میں نہیں تھا، سب سے بڑی بات یہ تھی کہ یہ قلعہ بہت اونچے پُشتے پر تعمیر کیا گیا تھا جہاں سے اردگرد میلوں دور کا علاقہ نظر آتا تھا۔ یہ قلعہ جو سطح زمین سے 150 فٹ بلند ہے کا کل رقبہ سوا میل ہے، جس دور میں قلعہ کے گرد دریائے راوی بہتا تھا، اس دور میں قلعہ سے لوہاری دروازہ کی طرف ایک عارضی پل بھی بنایا گیا جسے ڈرا برج کہتے تھے، یہ پل ضرورت کے وقت لگا لیا جاتا اور پھر اٹھا لیا جاتا تھا کہ دشمن اندر داخل نہ ہو سکے، یہ عارضی پل بھی قلعہ کی تعمیر نو کے وقت شہزادہ مراد بخش نے بنوایا تھا۔ کسی دور میں اس قلعہ کے دو حصار تھے جبکہ عام طور پر ایک ہی حصار کافی سمجھا جاتا تھا۔



اس قلعہ کا اندرونی حصار پختہ اینٹوں کا بنا ہوا تھا اور بیرونی حصار سے 35 سے 40 فٹ اونچا تھا' بیرونی حصار مٹی کا ایک زبردست پشتہ تھا جسے ''دھورکوٹ'' کہتے تھے۔ یہ پشتہ ڈیڑھ سو فٹ چوڑا تھا جو اندرونی پشتہ کو گولہ باری سے محفوظ رکھنے کے کام آتا تھا۔ قلعہ کی حفاظت کیلئے دھورکوٹ پشتے کے گرد ایک گہری خندق بھی تھی جو قلعہ کو چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی' اس خندق میں ہر وقت پانی بھرا رہتا تھا' یہ پانی دریائے راوی سے ایک نہر کے ذریعے لایا جاتا تھا' اس قلعہ کا اندرونی محیط چھ ہزار چھ سو فٹ تھا' قلعہ کی اندرونی فصیل پر چھیالیس برج تھے جہاں ہر وقت چاک و چوبند فوجی کھڑے پہرہ دیتے تھے۔

قلعہ سے دشمن پر گولہ باری اور تیر اندازی کے لئے 3 دمدمے بنے ہوئے تھے جن میں ایک چند سال پہلے تک بھی کچھ تبدیل شدہ صورت میں موجود تھا۔ دوسرا دمدمہ حسین آگاہی کی جانب تھا جبکہ تیسرا دمدمہ پرہلاد مندر اور مزار حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے مشرقی سمت تھا' کسی زمانے میں اس قلعہ کے چار دروازے تھے جو چار مختلف سمتوں میں کُھلتے تھے' ہر دروازے کے ساتھ ایک برج تھا جب کہ ارد گرد کے علاقے پر نگاہ رکھنے کے لئے مزید اڑتیس برج بنے ہوئے تھے۔

دیہہ دروازہ جو قلعہ کی مغربی جانب تھا کی وجہ تسمیہ دیول مندر تھا' جب دیول مندر قلعہ کہنہ پر تھا تو لوگ اسی راستے سے دیول مندر کی طرف جایا کرتے تھے۔ قلعہ کا دوسرا دروازہ خضری کے نام سے موسوم تھا اور قلعہ کے شمالی مشرقی جانب کھلتا تھا' اس دروازہ سے باہر نکلتے ہی کبھی دریائے راوی بہا کرتا تھا اس لئے اس کا نام خضری دروازہ پڑ گیا' سکی دروازے جو قلعہ کے جنوب مشرق میں تھا کی وجہ تسمیہ قلعہ سکہ کی طرف جانے والا راستہ تھا' اس دروازہ کے کواڑوں پر لوہے کی بڑی بڑی میخیں لگی ہوئی تھی تاکہ حملہ کے وقت ہاتھی بھی انہیں نہ توڑ سکے۔

قلعہ کہنہ کا چوتھا دروازہ ریڑھی دروازہ کے نام سے موسوم تھا کیونکہ یہ ڈھلان کی طرف کھلتا تھا، بعض مؤرخین کی رائے میں ریڑھی دروازہ سے اندرون شہر بھی ایک مسقف راستہ جاتا تھا۔ قلعہ ملتان پر 1818ء میں سکھوں کے حملے تک محلات و عمارات کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ حضرت بہاء الدین زکریاؒ اور حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مقابر کے درمیان محلہ شیخانہ آباد تھا جس میں قریشی خاندان کے مکانات تھے' اس کے علاوہ حضرت بہاء الدین زکریا کا قائم کردہ مدرسہ بہائیہ' مسجد' علامہ قطب الدین کاشانی اور حضرت منہاج الدین سراج کے مزارات اور دیگر عمارات تھیں، ان تمام عمارات کے اذکار کتب تواریخ میں مل جاتے ہیں' قلعہ کہنہ ملتان پر موجود یہ دلکش عمارات خاص فن و ثقافت کی آئینہ دار تھیں۔

قدیم عہد میں قلعہ ملتان پر بیرونی حملہ آوری کی تاریخ کو اس انداز سے دیکھا جائے کہ ملتان برصغیر کا صدر دروازہ تھا جس سے گزرے بغیر کوئی بھی حملہ آور آگے نہیں جاسکتا تھا' ملتان پر بیرونی حملہ آوری کی تاریخ کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے آریا قوم کا نام آتا ہے' اٹھارہویں صدی قبل مسیح میں مصر کے بادشاہ آسیرس OSIRIS نے ہند پر حملہ کیا تو ملتان میں بھی دوسرے شہروں کی طرح اپنی فتح کا مینار تعمیر کرایا' اسی طرح پہلا شاہ فارس جس نے اس علاقہ پر حملہ کیا وہ شاہ جمشید کا بیٹا فریدوں تھا۔ قلعہ ملتان پر قدیم عہد میں ہونے والا حملہ جو تاریخ کے اوراق میں سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ سکندر اعظم کا حملہ ہے۔

سکندر اعظم جب ملتان پر حملہ آور ہوا تو دریائے راوی دو شاخوں میں تقسیم ہوکر شہر کے ارد گرد بہتا تھا اور شہر کا قدرتی محافظ بھی تھا۔ یونانی فوج کی آمد کے ساتھ ہی ملتان کی مقامی سپاہ قلعہ بند ہوکر بیٹھ گئی تھی' سکندر نے قلعہ کا محاصرہ کیا تو ملتانی سپاہ نے تیروں کی بارش کردی جس سے یونانی لشکر کو پیچھے ہٹنا پڑ گیا' اسی دوران سکندر ایک سیڑھی کے ذریعے قلعہ میں داخل ہوگیا، ابھی اس نے قلعہ میں موجود چند لوگوں کو ہی نشانہ بنایا تھا کہ سکندر کو ایک برج سے داغا ہوا ایسا تیر لگا جو اس کی ڈھال کو چیرتا ہوا سینے میں پیوست ہوگیا' اپنے بادشاہ کو زخمی دیکھ کر مقدونی سپاہیوں کا جذبہ جنون میں بدل گیا اور ملتا ن کی سرزمین پر وہ کشت و خون ہوا کہ خدا کی پناہ' سکندر کی فوج نے قلعہ میں موجود تمام سپاہیوں کو قتل کرکے قلعہ کو آگ لگا دی تھی۔

سکندراعظم نے فتح ملتان کے بعد دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی اپنا گورنر مقرر کیا لیکن 304 قبل مسیح میں چندر گپت موریہ نے ملتان کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا تو یہاں یونانی اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ سکندر اعظم سے لے کر 1848ء میں ملتان پر برطانوی حملے تک قلعہ ملتان پر مختلف ادوار میں ہزاروں جنگیں ہوئیں' بڑے بڑے بادشاہوں کے لشکر یہاں اُترے کشتگان کی دلدوز چیخیں' حملہ آوروں کی خون آلود تلواریں اور سرخ آنکھیں آج بھی قلعہ کہنہ کے اطراف گھومتی نظر آتی ہیں۔

اس تاریخی قلعہ پر ہزاروں جنگیں ہوئیں سو یہ پورا قلعہ انسانی ڈھانچوں کا مدفن ہے' ہر جنگ کے بعد مقتولین کی لاشوں کو گڑھوں میں اجتماعی طور پر دفن کیا گیا' یہاں قیام پاکستان سے پہلے غاروں اور کھنڈروں سے انسانی ڈھا نچے برآمد ہوا کرتے تھے۔ ملتان کے معروف شاعر خلیق ملتانی کی طویل نظم ''تصویر ملتان'' جو 1947ء میں شائع ہوئی تھی کا دیباچہ مولانا ظفر علی خان نے تحریر کیا تھا، اس نظم میں ملتان کے تاریخی واقعات کو ایک خاص تاریخی شعور کے ساتھ نظم کیا گیا تھا، ایک بند ملاحظہ ہو:

تو سُنا اے آسماں تجھ کو فسانہ یاد ہے
کھینچ کر کس کس کو لایا آب و دانہ یاد ہے

یاد ہے' تاتاریوں کا بھی زمانہ یاد ہے
یاد ہے اسکندر اعظم کا آنا یاد ہے

آج تک چرچا ہے جس کی تیغ عالمگیر کا
ایک پہلو یہ بھی ہے ملتان کی تصویر کا

ملتان کا یہ تاریخی قلعہ جو صدیوں سے ملتان کے تاریخی شکوہ کی علامت تھا، شہر پر حملہ کرنے والے آخری دو حملہ آوروں سکھوں اور انگریزوں کی یلغار میں مکمل تباہی سے دوچار ہوا، رنجیت سنگھ کے دور سے بھی پہلے 1771ء میں سکھوں کے ملتان پر حملے شروع ہوگئے تھے، پہلے پہل بھنگی مثل کے جھنڈا سنگھ اور گنڈا سنگھ نے ملتان پر حملے شروع کئے، کچھ عرصہ ملتان سکھوں کے قبضے میں رہا بعد ازاں ملتان پھر افغانوں کے زیر حکومت آ گیا تھا۔

رنجیت سنگھ نے 1806ء میں ملتان پر پہلا حملہ کیا، 1808 سے 1818ء کے سقوط ملتان تک رنجیت سنگھ نے ملتان پر 12 بڑے حملے کئے۔ ان بارہ حملوں میں رنجیت سنگھ کی فوج نے ہر بار ملتان شہر کو فتح کیا' لوٹ مار کی لیکن سکھ فوج ایک بار بھی قلعہ ملتان کو فتح نہ کرسکی۔ سکھوں کے ہر حملے میں شہر تو آسانی سے فتح ہو جاتا تھا لیکن فوج قلعہ بند ہو کر مقابلہ کرتی تھی۔ جس آخری حملہ میں سکھوں نے ملتان کے قلعہ کو فتح کیا، اس حملہ میں کچھ اندر کے لوگ بھی رنجیت سنگھ کے ساتھ ملے ہوئے تھے، ان غداروں میں سرفہرست عبدالصمد خان بادوزئی بھی تھا جس نے مختلف حیثیتوں میں احمد شاہ ابدالی کی بہت خدمت کی اور اس کے عوض وہ ملتان کی گورنری کا خواہاں تھا۔



عبدالصمد خان بادوزئی نے ملتان کے نواح میں ایک قلعہ بنا کر اپنی فوج بھی تیار کی تھی لیکن ملتان کے آخری مسلمان حکمران نواب مظفرخان نے اس کی طاقت کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ عبدالصمد خان بادوزئی نے ہی رنجیت سنگھ کو ملتان پر بھرپور حملہ کے لئے راغب کیا وہ چونکہ قلعہ کے ایک ایک انچ سے واقف تھا، اس لئے آخری معرکہ میں اسے توپ خانہ کا انچارج بنایا گیا تو اس نے ٹھیک نشانوں پر گولہ باری کرائی اور سکھوں کو فتح یاب ہونے میں مدد دی۔ سکھ ملتان کے قلعہ کو فتح کرنے کے لئے بھنگیوں کی مشہور توپ ''زمزمہ'' بھی ساتھ لے کر آئے تھے' ملتان کی تاریخ میں عبدالصمد خان بادوزئی کو ''صمدو سنگھ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سکھوں کے آخری حملے میں قلعہ ملتان کو شدید نقصان پہنچا' ملتان کو فتح کرنے کے بعد سکھوں نے قلعہ اور شہر میں لوٹ مار کی، شہریوں پر مظالم کی انتہاء کر دی اور قلعہ کہنہ پر موجود پانچ سو مکانات کو ملیامیٹ کر کے زمین ہموار کر دی گئی۔ بعدازاں یہاں سکھوں کی حکومت قائم ہوئی لیکن سکھ حکمرانوں نے قلعہ ملتان کی تزئین و آرائش پر ذرا بھی دھیان نہ دیا، یہاں تک کہ پنجاب میں انگریز ریذیڈنٹ نے حکومتی امور سنبھال لئے۔ ملتان میں ان دنوں دیوان مولراج گورنر تھا' اس دوران دو انگریز آفیسر ملتان میں انتقال اقتدار کے لئے آئے تو مولراج کے سپاہیوں نے ان دونوں کو بے دردی سے قلعہ کہنہ پر قتل کر دیا۔

ان دو انگریز آفیسرز کے ملتان میں قتل کے بعد مختلف شہروں میں موجود برطانوی فوج ملتان پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوئی تو انہوں نے قسم اٹھائی تھی کہ ہم اس خونیں قلعہ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دم لیں گے۔ سو وہی ہوا کہ 6جون 1848ء میں برطانوی فوج ملتان میں داخل ہو گئی اور قلعہ ملتان پر اطراف سے اتنی بمباری کی گئی کہ قلعہ ملتان کے ساتھ ساتھ قلعہ پر موجود دیگر عمارات کو بھی شدید نقصان پہنچا' کئی مہینے تک ملتان کے محاصرہ کے بعد جب جنرل وش کی فوجیں قلعہ پر بمباری کر رہی تھیں تو 30دسمبر 1848ء کو توپ کا ایک گولہ لگنے سے قلعہ کا وہ میگزین پھٹ گیا جس میں 40 ہزار پاؤنڈ بارود ذخیرہ کیا گیا تھا' اس میگزین کے پھٹنے سے اردگرد کی عمارات اُڑ گئیں، 500 افراد موقع پر جاں بحق ہوئے۔

فتح ملتان کے بعد انگریزوں نے 1848ء میں لاہور سے انتقال اقتدار کے لیے آنے والے دو انگریز افسران پیٹرک الیگزینڈر وان ایگنیؤ اور لیفٹیننٹ ولیم اینڈرسن کی نعشیں نکال کر انہیں قلعہ کہنہ کے بلند ترین مقام پر دفن کیا اور ان کی قبروں پر سرخ پتھر سے ایک بلند مینارہ یادگار تعمیر کیا، انگریزوں کے ہاتھوں قلعہ ملتان کی فتح کی یہ نشانی آج بھی قلعہ کہنہ پر موجود ہے اور بعض تاریخ دانوں کے نزدیک ملتانیوں کے جذبہ غیرت کو للکارتی ہے۔ قلعہ فتح کرنے کے بعد انگریزوں نے کچھ عرصہ بعد یہاں فوجیوں کی بیرکیں بنائیں اور قلعہ کے اونچے نیچے راستوں پر کچی سڑکیں بنا کر یہاں فوجیوں کو ڈرائیونگ کی تربیت دی جانے لگی۔

قلعہ ملتان کی بلند بالا عمارات اور محلات انگریزوں کے حملہ میں مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے، قیام پاکستان کے وقت قلعہ ملتان کی فصیل کے کچھ آثار موجود تھے بعدازاں وہ بھی ختم کر دیئے گئے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد قلعہ ملتان پر ہرسو ویرانہ ہی ویرانہ تھا، یہاں بڑے بڑے غار اور کھنڈر تھے، جن کی وجہ سے لوگ یہاں دن میں بھی جانے سے کتراتے تھے۔ قلعہ ملتان کی تزئین وآرائش کا کام نومبر1949ء میں شروع ہوا' یہاں متعدد گراسی پلاٹ بنائے گئے، بعدازاں ابن قاسم پارک بنا' کچھ سرکاری اداروں کے دفاتر بھی قلعہ پر قیام پاکستان کے بعد قائم کئے گئے۔ قلعہ ملتان کی باقیات میں سے دو عمارات دمدمہ اور نگارخانہ آج اس قلعہ کی تاریخی شکوہ کی یاد دلاتے ہیں۔

ملتان کا یہ تاریخی قلعہ جو 1848ء میں اپنا وجود کھو چکا ہے' آج بھی قلعہ ہی کہلاتا ہے' اس قلعہ کو قلعہ کہنہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ 1870ء کے قریب ملتان کے برطانوی حکمرانوں نے چھاؤنی میں نیا قلعہ تعمیر کرلیا تھا' نئے قلعہ کی تعمیر کے ساتھ ہی قلعہ کہنہ کی دفاعی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ گو آج ملتان کی سرزمین پر قلعہ کے آثار تک موجود نہیں لیکن ملتان کے شہری آج بھی اسے قلعہ ہی کہتے ہیں۔ ملتان کا یہ قلعہ جہاں ملتان کے تاریخی شکوہ کی علامت ہے وہیں یہ شہر کی سیاسی' سماجی' ثقافتی اور روحانی زندگی کا بھی اہم ترین مرکز ہے۔

قلعہ کہنہ پر موجود حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ اور حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزارات ملتان کے روحانی ترفع کے ساتھ ساتھ خطے کے قدیم فن تعمیر کے بھی شاہکار ہیں، آج بھی انہی مزارات سے ملتان شہر کے تاریخی شکوہ کی تصویر بنتی ہے دنیا بھر سے لوگ ان مزارات پر حاضری دینے کے لیے آتے ہیں۔ قلعہ ملتان اب مکمل طور پر ایک تفریح گاہ بن چکا ہے، قلعہ کے اردگرد تعمیر ہونے والی کچھ نئی عمارات نے اس کی شکل و صورت بھی کسی حد تک بدل دی ہے لیکن قلعہ ملتان کی بلندی آج بھی اسی طرح قائم ہے۔


آج بھی قلعہ سے شہر کی نظارگی ایک خاص سرشاری سے ہمکنار کرتی ہے لیکن محض سیروتفریح کے لئے قلعہ کہنے پر آنے والے لوگ اس کی تاریخی عظمت سے ناآشنا ہیں۔ یہ قلعہ جس کی مٹی کے نیچے ہزاروں سال کی تہذیب وثقافت کے راز دفن ہیں آج بھی لوگوں کو ایک حیرت میں مبتلا کرتا ہے، اس قلعہ پر موجود کچھ کھنڈرات آج بھی داستان عبرت سناتے ہیں، قلعہ ملتان کے حوالے سے حسن رضا گردیزی کے یہ اشعار دیکھیں:

رات پُرانے قلعے تے ہک عارف مست قلندر
میلے کپڑے' حال پریشاں' کاسہ گل دے اندر

نچے' ٹپے وجد دے وچ' عرفان دے گیت سُناوے
ہک مٹی دا بُھرکا چاوے' پُھوکیاں نال اڈاوے

آکھے ایں مٹی دے اندر ڈیکھو کئی سلطان سکندر
بادشاہواں دیاں ہڈیاں رُل گیاں ڈیکھو خاک دے اندر

قلعہ کہنہ پر قدیم مساجد مقابر اور اکابر صوفیاء کی آمد

قلعہ کہنہ ملتان پر پہلی اذان تو محمد بن قاسم کی فوج کے محاصرہ کے دوران ہی گونج چکی تھی لیکن اسلامی لشکر کے ہاتھوں فتح ملتان کے بعد قلعہ اور شہر میں ایک بڑی تہذیبی تبدیلی بھی رونما ہوئی۔ قلعہ ملتان پر پہلی مسجد کی بنیاد محمد بن قاسم نے خود رکھی تھی جسے بعدازاں اس کے نامزد کردہ گورنر نے مکمل کرایا، اس مسجد کا ایک حصہ مدرسہ فاطمیہ پر بھی مشتمل تھا۔ قلعہ کہنہ پر تعمیر کردہ محمد بن قاسم کی اس مسجد کو جو برصغیر کی ابتدائی مساجد میں سے ایک تھی' بعد کے حکمرانوں نے شہید کرا دیا تھا مگر اس کے آثار تادیر قائم رہے۔

1010ء میں جب محمود غزنوی ہندوستان کے مختلف شہروں کو فتح کرتا ہوا ملتان آیا تو اس نے بھی فتح ملتان کے بعد عین اسی جگہ پر مسجد تعمیر کرائی، جہاں محمد بن قاسم کی تعمیر کردہ مسجد کے آثار تھے۔ بارہویں صدی عیسوی کے قریب ملتان میں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کی آمد کے بعد یہ خطہ بڑی تہذیبی تبدیلی سے ہمکنار ہوا، آپؒ کی آمد کے بعد اس خطے میں آباد مسلمانوں کو ایک بڑی رہنمائی اور بصیرت ملی' آپؒ نے اپنے عہد میں قلعہ کہنہ پر اپنا معروف مدرسہ بہائیہ قائم کیا۔ آپؒ کے مدرسہ بہائیہ میں درسگاہوں کے علاوہ دارالاقامہ' مہمان خانہ اور ایک عالیشان مسجد بھی تھی۔

حضرت بہاء الدین زکریاؒ جنہوں نے 1266ء میں وفات پائی' اپنی زندگی میں ہی قلعہ کہنہ پر اپنا مقبرہ بنوا لیا تھا بعدازاں آپؒ کے صاحبزادے حضرت صدرالدین عارف بھی اسی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ حضرت بہاء الدین زکریاؒ کا مقبرہ جو ملتان کی روحانی تہذیب کی بڑی علامت ہے' 1848ء میں برطانوی حملہ کے دوران شہید ہو گیا تھا، بعدازاں اُس وقت کے سجادہ نشین شاہ محمود قریشی نے اسے پرانے مقبرہ کی طرز پر دوبارہ تعمیر کرایا۔



حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے دور میں ملتان کے حاکم ناصر الدین قباچہ نے بھی قلعہ ملتان پر ''مدرسہ ناصریہ'' قائم کیا جس کیلئے مولانا قطب الدین کاشانی کو بطور خاص ملتان بلایا گیا، مدرسہ ناصریہ کی مسجد میں ہی حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ مولانا قطب الدین کاشانی کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ 1264ء سے 1286ء کے درمیان غیاث الدین تغلق کے دور میں حضرت شاہ رکن عالمؒ کا مقبرہ تعمیر ہوا جو غیاث الدین تغلق نے اپنے لئے تعمیر کرایا تھا لیکن بعد میں یہ مقبرہ مدرسہ بہائیہ کو سونپ دیا گیا۔

1541ء میں ملتان شہر شیرشاہ سوری کے اقتدار میں شامل ہوا تو اس نے قلعہ ملتان پر دو مساجد تعمیر کرائیں جن میں ایک حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے مقبرہ اور دوسری حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مقبرہ کے اندر تھی' قلعہ کہنہ ملتان کے ان معروف مقابر کے علاوہ حضرت پیر دربر شاہ بخاری دہلوی، مولانا حامد علی خان کے مقابر بھی مرجع خلائق ہیں۔ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے اپنے عہد میں قلعہ کہنہ ملتان پر اپنی مسند ارشاد قائم کی تو یہاں مختلف سلاسل کے اکابر صوفیاء کی آمد بھی شروع ہوئی۔

آپؒ کی زندگی میں ہی قلعہ کہنہ ملتان خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ' مولانا وجیہہ الدین عراقیؒ' حضرت شاہ شمس سبزواریؒ' حضرت جلال الدین تبریزیؒ' قاضی قطب الدین کاشانیؒ' بابا فرید الدین گنج شکرؒ' مخدوم جلال الدین بخاریؒ' خواجہ حسن افغانؒ' میر حسینیؒ جیسے بزرگ قیام پذیر رہے۔ بعدازاں آپؒ کے صاحبزادے حضرت صدر الدین عارفؒ کے زمانے میں حضرت شیخ جمال خنداں رواچوی' شیخ صلاح الدین سیستانی' شیخ احمد معشوق اور مولانا علاؤالدین محبوب تشریف لائے۔ اسی طرح حضرت شاہ رکن الدین عالم کے زمانے میں امیر خسروؒ اور میر حسن سنجریؒ جیسے لوگ قلعہ ملتان پر قیام پذیر رہے۔

قلعہ کہنہ پر 1853ء میں ہونے والی آثاریاتی کھدائی

قلعہ کہنہ ملتان جو ایک اندازے کے مطابق 2500 ق م میں بھی موجود تھا' اپنے دامن میں صدیوں پرانی داستانیں لئے ہوئے ہے' دنیا کے بڑے بڑے جنگجو' مہم جُو اور بادشاہ اس قلعہ کی تسخیر کے لئے بڑے بڑے لشکر لے کر آئے' یہاں حملہ آور ہوئے' خون کے دریا بہائے' اپنی فتوحات کے جشن منائے اور کچھ دیر تاریخ کی لوح پر نمایاں ہوئے پھر زمانے کی گرد میں گم ہوگئے' آج یہ سب داستانیں مٹی کا ڈھیر ہیں' قلعہ ملتان جو مٹی کے ایک اونچے ٹیلے پر قائم ہے ماضی کے بہت سے سربستہ رازوں کا امین ہے' لیکن المیہ یہ ہے کہ قلعہ ملتان پر قابض ہونے والے حکمران پہلے سے تعمیر کردہ حکمرانوں کے محلات' دربار' بیرکیں اور دیگر نشانیاں مٹاتے چلے گئے، محمد بن قاسم کے بعد یہاں اسلامی حکومت قائم ہوئی تو قلعہ ملتان سے اصنام پرستی اور ہندو دھرم کے ہر نشان کو ملیا میٹ کردیا گیا۔

ملتان میں برطانوی دور کے آغاز میں سر الیگزینڈر کنگھم نے 1853ء میں آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے سلسلہ میں آثاریاتی کھدائیاں کیں' جنرل کنگھم کی اس تلاش کا مقصد مٹی کے بہت بڑے ڈھیر کے سینے میں مدفون ماضی کے سربستہ رازوں کو کھوجنا اور اس کی قدامت کا درست اندازہ لگانا تھا' اس سلسلہ میں جنرل کنگھم نے 1853ء سے 1864ء کے دوران قلعہ کہنہ ملتان پر دو جگہ کنویں کھدوائے اور 40 فٹ کی گہرائی تک مختلف اشیاء برآمد کیں، ان کی فہرست کنویں کی گہرائی کو مدنظر رکھ کر مرتب کی گئی۔ جنرل کنگھم کی مرتب کردہ رپورٹ ہی دراصل ملتان کی قدامت کے بارے میں حتمی ماہرانہ رائے ہے۔

جنرل کنگھم کی رائے کے مطابق ملتان کا قلعہ کہنہ آج بھی اسی جگہ قائم ہے جہاں سکندر اعظم کے حملہ کے وقت قائم تھا۔ جنرل کنگھم کی کھدائی کے نتیجے میں دو فٹ کی گہرائی سے انگلستان کی بنی ہوئی شیشے کی ٹوٹی پھوٹی بوتلیں' لوہے کے گولوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے اور سیسے کی گولیاں برآمد ہوئیں' چار سے پانچ فٹ کی گہرائی سے سولہویں صدی کے روغنی برتن اور ٹائلیں جبکہ چھ فٹ کی گہرائی سے پندرھویں صدی سے تعلق رکھنے والی چھ انچ لمبی چار انچ چوڑی اور ایک انچ موٹی اینٹیں دستیاب ہوئیں۔

دس سے گیارہ فٹ کی گہرائی سے ملتان کے حاکم معزالدین کیقباد کے دور کے سکے اور نیلے رنگ کا ایک دیا ملا جبکہ بارہ فٹ کی گہرائی سے بارہویں صدی عیسوی کے کچھ سکے ملے' تیرہ سے چودہ فٹ گہرائی سے دسویں صدی عیسوی کی بنی ہوئی گیارہ انچ لمبی' ساڑھے چھ انچ چوڑی اور دو انچ موٹی اینٹیں' روغنی ٹائلیں اور برتنوں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے برآمد ہوئے' سولہ فٹ کی گہرائی سے سرخ راکھ کی دو فٹ کی موٹی تہہ نکلی، اٹھارہ فٹ کی گہرائی سے سیاہ راکھ کی چھ انچ موٹی تہہ برآمد ہوئی' اکیس فٹ کی گہرائی سے پانچویں صدی عیسوی کی بنی ہوئی چودہ انچ لمبی گیارہ انچ چوڑی اور اڑھائی انچ موٹی اینٹوں کے ٹکڑے ملے' تیس سے بتیس فٹ کی گہرائی سے راکھ اور جلی ہوئی مٹی کی دو فٹ تہہ کے علاوہ تانبے کا ایک برتن جس کے اندر دو سو سکے تھے جو تمام گل چکے تھے ساتھ ہی موچی کا اوزار تیز کرنے کا پتھر ملا' چھتیس سے انتالیس فٹ کی گہرائی پر خالص مصفیٰ مٹی موجود تھی جس کی بزرگی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔

جنرل کنگھم کی قلعہ کہنہ ملتان پر اس آثاریاتی کھدائی سے ماضی کے دو اہم رازوں کے پردے بھی چاک ہوئے' کھدائی کے دوران پندرہ سے بیس فٹ کی گہرائی پر راکھ کے جو ڈھیر پائے گئے جن پر کالی راکھ کی تہہ چڑھی ہوئی تھی' یہ خاکستر کنویں کے احاطہ تک محدود نہیں تھی بلکہ قلعہ میں ہر طرف پھیلی ہوئی تھی' راکھ کی اس گہرائی پر موجودگی محمد بن قاسم کے ملتان پر حملہ کے دور کی ہے جس کی فوج نے ایک پوری چھاؤنی کو تہہ تیغ کردیا تھا' راکھ اور جلی ہوئی مٹی کا دوسرا ذخیرہ سکندر اعظم کی فوج کی سیاہ کاریوں کی نشانی ہے' تاریخ کے مطابق ملتان کے اسی قلعہ پر سکندر اعظم کو وہ کاری تیر لگا تھا جس سے بعد ازاں اس کی موت واقع ہوئی تھی' سکندر کے زخمی ہونے پر یونانی فوج نے قلعہ میں موجود تمام لوگوں کو قتل کردیا تھا' جنرل کنگھم کے مطابق سکندر اعظم کی فوج نے قتل و غارت کے بعد قلعہ کو آگ لگا دی تھی۔

ملتان کے قلعہ کہنہ پر کھدائی کے دوران جنرل کنگھم کو بڑے بڑے منکے بھی ملے تھے ایسے ہی منکے ہڑپہ کی کھدائی کے دوران بھی برآمد ہوئے تھے۔ اس آثاریاتی کھدائی میں جنرل کنگھم کو کچھ ایسے چاندی کے سکے بھی ملے جو ملتان میں مہر پرستی کے عروج کے دور سے تعلق رکھتے تھے۔ کنگھم کے مطابق یہ سکے چچ دور سے قبل کے ہیں جب ملتان میں دواہج حکمران تھا۔

قلعہ ملتان پر جنرل کنگھم کی اس آثاریاتی کھدائی سے ملتان کی قدامت اور عظیم تاریخ کے کئی مخفی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے' ان تمام دریافتوں کے بعد کنگھم نے تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ میری تحقیق کے مطابق چار ہزار سال پہلے بھی ملتان ایک متمدن شہر تھا۔ جنرل کنگھم کے بعد قلعہ ملتان پر دوبارہ ایسی کوئی کھدائی نہ ہوسکی جو قدیم تاریخ کے مزید پہلو سامنے لاتی' البتہ انفرادی طور پر ملتان کے محققین اپنے تئیں قلعہ ملتان کی صدیوں پرانی مٹی کو کھوجتے رہے۔

ڈاکٹر عذرا شوذب اپنی کتاب ''ملتان میں اردو نثر کا ارتقاء'' میں رقم طراز ہیں کہ ''کنگھم کی ان تحقیقات کے بہت عرصہ بعد ملتان کے ایک محقق علامہ عتیق فکری نے 1938ء میں قلعہ کہنہ ملتان کی تہہ میں موجود غاروں میں قدیم آثار کی تلاش کا کام کیا' 1954ء میں ماہر آثاریات مرزا ابن حنیف بھی اس مہم میں شامل ہوگئے، یہ دونوں محقق ان غاروں سے جو انسانی ڈھانچوں اور قدیم راکھ سے بھری تھیں میں مٹی کی ایسی ٹھیکریاں تلاش کرنے میں کامیاب رہے جن پر حروف کندہ تھے۔

دنیا کے قدیم ترین حروف سے ان حروف کے تقابلی مطالعہ کے بعد دونوں محققین اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان ٹھیکریوں پر موجود رسم الخط موہنجوداڑو سے دستیاب شدہ رسم الخط سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ ان محققین کے مطابق ملتان سے برآمد شدہ اس رسم الخط سے یہ بھی واضح ہے کہ اس زمانے میں ملتان کے لوگ علم ہندسہ اور علم نجوم کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ قلعہ ملتان پر 1987ء میں انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم کی تعمیر کیلئے 212 بور کئے گئے یہ بور 84سے 94 فٹ کی گہرائی تک کئے گئے۔

روشنی کے کھمبوں کیلئے جب یہ بور کئے جارہے تھے تو ملتان کے معروف ماہر آثار یات مرزا ابن حنیف بھی اپنی تحقیق کے سلسلہ میں یہاں موجود تھے، اس کھدائی کے بعد مرزا ابن حنیف نے دھات کے سکے، منکے، ہڈی کی چوڑیاں، پتھروں کی مختلف اشیاء، مٹی کے کھلونے، پکی مٹی کے ظروف، مٹی کے چراغ، تمباکو کی چلم اور جلی ہوئی لکڑی برآمد کی چند بور 104فٹ کی گہرائی پر کئے گئے تو 4کلو وزنی جلی ہوئی لکڑی برآمد ہوئی جس کے ساتھ مٹی لتھڑی ہوئی تھی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ سطح زمین سے 50 فٹ گہرائی میں پانی، ریت، مٹی وغیرہ کے بجائے جلی ہوئی لکڑی نکلنے کا مطلب ہے کہ یہاں کبھی جنگل ہوں گے جو سطح زمین پر تھے، آفات ارضی وسماوی سے اس میں آگ لگ گئی، بعدازاں سیلابوں سے مٹی کی تہیں جمتی رہیں اور وہ بلندی وجود میں آئی جس پر آج بھی یہ قلعہ واقع ہے۔

قلعہ پر ہندوؤں کے قدیم مندر اور ہولی کا آغاز

قلعہ کہنہ ملتان برصغیر کے تمام قلعوں میں سب سے قدیم ہے' ہندومت کی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو ملتان کے اس قلعہ کو ایک خاص مذہبی حیثیت حاصل ہے' قلعہ کہنہ ملتان ہی وہ جگہ ہے جہاں کبھی راجہ جے بادین کا تعمیر کردہ سورج مندر ہوا کرتا تھا' ملتان کا یہ سورج مندر صدیوں تک ہند'سندھ کے یاتریوں کا مرکز رہا' ملتان کے اس مندر کا تذکرہ یونانی' چینی اور عرب سیاحوں نے بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ سکندر اعظم کے نام اس کے استاد ارسطو کے فاضلانہ خطوط میں بھی ملتان کے سورج مندر کا ذکر ملتا ہے۔

علامہ عتیق فکری اپنی کتاب ''نقش ملتان'' میں رقم طراز ہیں ''لوگ سال بھر یا اس سے بھی زیادہ مسافت طے کرکے اس بت کی زیارت کے لئے آتے تھے اور یہاں اپنا سرمنڈواتے اور بائیں جانب سات بار طواف کرتے تھے۔'' ملتان کے سورج مندر کی ایک رقاصہ پدماوتی بھی ھندو تاریخ میں بہت شہرت کی حامل ہے جس پر بہت سی نظمیں اور کہانیاں بھی لکھی گئیں' کہا جاتا ہے کہ جب پدماوتی رقص کرتی تھی تو سورج مندرکے تمام بت اس کے ساتھ ہم رقص ہو جاتے تھے' اسی پدماوتی کا رقص دیکھنے کے لئے اُجین کی رانی پُنگلہ ننگے پاؤں ملتان کی یاترا کو آئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ملتان کا سورج مندر ہی برصغیر میں مہرپرستی کا قدیم ترین مرکز تھا' اس حوالے سے دوسری روایت یہ ہے کہ برصغیر میں ختم ہوتی ہوئی مہر پرستی کی روایت کو اسی مندر سے دوبارہ رائج کیا گیا۔ قلعہ ملتان پر موجود مندر پرہلاد بھگت بھی ھندوؤں کی مذہبی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

ہندو تاریخ کے مطابق اسی قلعہ پر کبھی ملتان کے راجہ ہرنیا کیسپو کا محل ہوا کرتا تھا جو اپنی خدائی کا دعوے دار تھا' پرہلاد بھگت جو راجہ ہرنیاکیسپو کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا نے اپنے باپ کی خدائی کا انکار کر دیا' ہرنیا کیسپو نے پرہلاد بھگت جو وشنو بھگوان کا ماننے والا تھا کو مارنے کے بہتیرے جتن کئے آخر کار ہرنیا کیسپو کی بہن رانی ہولکا نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا کہ میں پتھر کا جسم رکھتی ہوں آگ مجھ پر اثر انداز نہ ہوگی پرہلاد سے کہو کہ میرے ساتھ آگ میں بیٹھے، اگر اس کا کوئی ایشور ہے تو اسے بچا لے گا۔ پرہلاد کو مارنے کے لئے جلائی گئی آگ میں رانی ہولکا جل مری لیکن پرہلاد بھگت بچ گیا۔ اسی واقعہ کی یاد میں ھندوؤں کے اہم ترین تہوار ہولی کا آغاز ہوا۔

''لالہ بال کشن بترا ابرملتانی اپنی کتاب ''ھندوؤں کے تہوار'' میں لکھتے ہیں ''پھاگن شدی پُور نماشی کو کئی خاص اور مشہور واقعات ہو چکے ہیں لیکن ہولی کا تہوار پرہلاد بھگت اور ملتان سے خاص تعلق رکھتا ہے''۔ جب پرہلاد پر ہرنیا کیسپو کے مظالم بڑھے تو بھگوان وشنونرسنگھ اوتار کے روپ میں ظاہر ہوئے اور ہرنیا کیسپو کا اپنے ناخنوں سے پیٹ چاک کر ڈالا۔

دراصل اس واقعہ سے ھندوؤں کے دو تہواروں کاآغاز ہوا جن میں ایک ہولی جو پھاگن میں منائی جاتی ہے جبکہ دوسرا تہوار ''نرسنگھ چودش'' کا تہوار ہے جو بیساکھی کے مہینہ میں منایا جاتا ہے' اپنی مذہبی اہمیت کے پیش نظر مندر پرہلاد بھگت صدیوں تک ایک بڑی یاترا کا مرکز رہا' اس مندر کے اندر ایک مورتی نرسنگھ بھگوان، دوسری مورتی پرہلاد بھگت کی جبکہ تیسری لکشمی دیوی کی مورتی ہوا کرتی تھی۔ اس مندر میں بھی ہندو مورتیوں کا طواف کیا کرتے تھے، اس مقصد کے لئے اس مندر میں خاص انداز سے سیڑھیاں بھی بنائی گئی تھیں۔

پرہلاد بھگت کا مندر ملتان میں ھندومت کی اہم ترین علامت تصور کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پرہلاد مندر قدیم عہد میں پرہلاد بھگت نے اپنی زندگی میں ہی وشنو بھگوان کے اعزاز میں تعمیر کرایا تھا۔ ملتان کے قلعہ کہنہ پر کسی دور میں دیول مندر بھی ہوا کرتا تھا، اسی مندر کی وجہ سے قلعہ کہنہ کے ایک دروازے کا نام بھی دیہہ دروازہ تھا' روایت ہے کہ سکندر اعظم بھی دیول دروازہ سے ہی قلعہ کے اندر داخل ہوا تھا' اسی دروازے سے مہمان قلعہ میں داخل ہوا کرتے تھے، کسی دور میں قلعہ کہنہ ملتان پر بدھ مت کی عبادت گاہیں بھی تھی، بعض محققین کے خیال میں قلعہ کا وہ قدیم زمین دوز باردو خانہ جو اب نگار خانہ کہلاتا ہے دراصل ایک بدھ عبادت گاہ ہی ہے۔ معروف چینی سیاح ہیون سانگ جب ملتان سے گزرا تو اس نے بھی قلعہ ملتان پر موجود بدھ عبادت گاہوں کو دیکھا تھا۔
Load Next Story