جب کوئی خودکش دھماکہ ہوتا تو اپنے بچھڑے بچے کا سوچ کر دہل جاتے ہیں والدین

ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔

2005ء کے زلزلے میں خاندان سے بچھڑے جانے والے نزاکت کی گیارہ برس بعد والدین سے ملاقات کی روداد۔ فوٹو: فائل

یہ 2005ء کے قیامت خیز زلزلے سے جنم لینے والی المیہ کہانیوں میں سے ایک ہے ۔اس زلزلے نے ملک کے بالائی علاقوں اور آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآبادکا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا ۔ وہاں کی ہنستی بستی زندگی نے آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کی صبح اچانک سوگ کی چادر تان لی تھی اور وہاں مکانات کے ملبے تلے آہوں اور سسکیوں کی گونج کے سوا کچھ نہ تھا ۔اس حادثے میں ان گنت لوگ جان سے گئے اور بہت سے ایسے تھے جن کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی علم نہیں تھا۔

انہی لاپتہ افراد میں ایک 12سالہ بچہ نزاکت بھی تھا ۔ مظفرآباد کے وارڈ نمبر 11تھالہ ماکڑی کا رہائشی نزاکت شہر کے ایک سرکاری اسکول میں چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا۔ جب زلزلہ آیا تو وہ اسی اسکول میں تھا ۔ وہ شدید زخمی ہو گیا تھا ۔پیچھے اس کے خاندان کے 22افراد اس سانحے کی نذر ہو چکے تھے جن میں اس کی دادی اور چچی بھی شامل تھیں۔گھر والے تباہ شدہ مکانات کے ملبے سے لاشیں نکالنے اور ان کی تدفین میں مصروف تھے اور جب انہیں اسکول گئے ہوئے نزاکت کا خیال آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

تشویش ناک بات یہ تھی کہ نزاکت کے زندہ یا مردہ ہونے کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔والدین اِدھر اُدھر مارے مارے پھر رہے تھے مگر ہر طرف سے مایوسی ہی کا سامنا تھا۔ان کا بیٹا لاپتہ ہو گیا تھا لیکن قدرت کے کھیل بھی عجیب ہیں ۔ ایک طرف زخمی ہو کر اپنی یادداشت کھو جانے والے نزاکت کی ناہموار راہوں پر دوڑتی زندگی تھی تو دوسری طرف والدین کا مستقل غم ۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ امید کی ایک ٹمٹماتی سی شمع بھی تھی جسے کسی بزرگ کی دی ہوئی تسلی کا سہارا تھا۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ٹھیک گیارہ برس بعد معروف اعوان کا بچھڑ جانے والا بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔جب ہم بچھڑ جانے کے گیارہ برسوں بعد ملن کی یہ کہانی جاننے گئے توہمارے سامنے نزاکت اور اپنے والدین کے ساتھ خاموش بیٹھا ہوا تھا۔نزاکت اب 24 برس کا ہوچکا ہے اور زور دے کر اس کے لاشعور میں موجود بچپن کے مناظر ابھرتے ہیں۔ یہ 11برس بعد کا کافی بدلا ہوا نزاکت ہے ۔ یہ اب پنجابی زبان میں بات کرتا ہے اور اس کی رنگت بھی قدرے سانولی ہو چکی ہے ۔

ہم نے نزاکت سے زلزلے کے دن کے حالات کے بارے میں پوچھا تو اس نے اختصار کے ساتھ جواب دیا ''مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ مجھے بہت سارے زخمیوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں اسلام آباد لے جایا گیا تھا''



پاس بیٹھی نزاکت کی والدہ نے اس دن کے دِل دوزمناظر بیان کرتے ہوئے کہا ''ہم نے اسے ہر جگہ تلاش کیا ۔ اسکول ملبے کا ڈھیر تھا اور میرے بیٹے کی کوئی اطلاع نہیں تھی ۔میں نے وہاں ہر لاش کے چہرے سے کاغذ کی فائلیں اٹھا کر اپنے بیٹے کو تلاش کیا۔پھر ہسپتالوں میں داخل زخمیوں میں جا کر دیکھا مگر کوئی امید نظر نہ آئی ۔ چار دن بعد ہمیں کسی درجہ تسلی اس وقت ملی جب اسلام آباد کے ایک اردواخبار میں زلزلے میں زخمی ہونے والے بچوں کی تصاویر شائع ہوئیں ۔ ان زخمیوں میں سے ایک ہمیں نزاکت جیسا لگا۔ اب ہمیں کسی حد تک اطمینان ہو گیا کہ ہمارا بیٹا زندہ ہے۔ ''

نزاکت کے برابر میں بیٹھے اس کے والد معروف اعوان کے بقول ''ہم نے لاپتہ بچوں کو تلاش کرنے والی بہت سے تنظیموں سے رابطہ کیا ۔ انہیں بہت سی تصاویر بھی ارسال کیں مگر اٹھارہ ماہ کی مسلسل تلاش کے بعد ان فلاحی تنظیموں نے بھی ہمیں کوراجواب دیتے ہوئے تصاویر واپس کر دیں۔اس کے بعد ہم نے پیروں اور عاملوں کا سہارا لیا ۔ منتیں مانیں ۔ یہاں قریبی درگاہ کے پیر صاحب کے پاس بھی اپنے دکھ کی داستان لے کر گئے تو انہوں نے تسلی دی اور کہا کہ آپ کا بیٹا زندہ ہے اور آپ کو اس کی خبر مل ہی جائے گی۔ ''

اس کے بعد نزاکت کے خاندان کی زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر رواں ہو گئی ،مگر ایک مستقل الم کے بوجھ کے ساتھ ۔ نزاکت کے والد نے ان دنوں کے احساسات بیان کرتے ہوئے کہا ''جب ملک میں کہیں کوئی خود کش بم دھماکہ ہوتا اور بمبار کی عمر ہمارے بچے کے برابر بتائی جاتی تو ہم دہل کر رہ جاتے۔ طرح طرح کے خیالات ذہن میں گردش کرنے لگتے ۔کبھی خیال آتا کہ کسی نے ہمارے بیٹے کو اپنے انسان دشمن مقاصد کے لیے استعمال نہ کر لیا ہو ، غرض دل ودماغ میں ایک عجیب قسم کا طوفان برپا رہتا تھا۔''

ادھر نزاکت کی زندگی بھی پر پیچ پگڈنڈیوں سے ہوتی ہوئی کسی اجنبی راستے پر رواں دواں تھی۔ وہ دبئی میں علاج کے بعد پاکستان میں واپس آیا اور کچھ وقت متاثرین کے کیمپ رہا۔ جب اس کا وہاں کسی اپنے سے رابطہ نہ ہو سکاتو ایک دن کیمپ سے نکل کر بس کے ذریعے گجرات پہنچ گیا۔گجرات میں کسی نے اس کے حالات سن کر اسے ایک مقامی سیاست دان چوہدری نصیر کے پاس پہنچا دیا ۔ نزاکت کا اگلا ٹھکانہ چوہدری نصیر کے ایک کزن چوہدری اکبر ابراہیم کا گھر تھا۔اکبر ابراہیم مہاجرین کشمیر مقیم پاکستان کی خصوصی نشست پر آزادکشمیر اسمبلی کے رکن تھے۔اس کے بعد انہوں نے ہی اس کی پرورش کی اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اسے اپنا بھائی بنا کر کچھ زمین بھی اس کے نام کر دی تھی اور اس (نزاکت)کا نام ''رضوان'' رکھ دیا تھا۔



اس دوران نزاکت کے ورثاء کی تلاش بھی کسی نہ کسی حد تک جاری رہی اور نزاکت کو ایک دوبار ایسے کشمیری خاندانوں میں بھی جانا پڑا جن کے بچے اس زلزلے میں لاپتہ ہوگئے تھے لیکن نزاکت انہیں اپنے والدین کے طور پر پہچان نہ سکا اور اسے مایوس لوٹنا پڑا۔نزاکت کو زلزلے میں سرپر گہری چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی یادداشت کھو چکا تھا۔ ایک دو خاندانوں میں جانے اور پھر مایوس لوٹنے کے اس تلخ تجربے نے اسے مزید حساس بنا دیا تھا ۔وہ گجرات کے دور دراز گاؤں میں زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے زندگی گزار رہا تھا ۔وہاں اس کے کچھ دوست بھی ہیں ۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا وہ دوست کبھی خاندان کے بارے بھی پوچھتے تھے تو سرد سی آہ بھر کرکہنے لگا ''ہاں! کبھی کبھار ۔۔۔ لیکن میں کچھ دیر دکھ سکھ بیان کر کے خاموش ہو جاتا تھا۔''

نزاکت نے بتایا ''اسی کشمکش میں میرے گیارہ برس بیت گئے۔ اسی سال ایک دوست کو کہا کہ وہ میری تصاویر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دے '' نزاکت کا وہ دوست اسلام آباد میں کام کرتا ہے۔ اس نے فیس بک پر ایک پوسٹ اپ لوڈ کی جس میں درج تھاکہ زلزلے میں کھو جانے والے ایک بچے کو اپنے خاندان کی تلاش ہے ۔اگر اس کے خاندان کے لوگ یہ اعلان دیکھیں تو اس نمبر پر رابطہ کریں۔ ادھر گھر والے بھی اس کی تلاش میں تھے ۔ انہیں جہاں کہیں ایسی اطلاع ملتی تو فوراً رابطہ کرتے۔

نزاکت کے چھوٹے بھائی احمد کا کہنا ہے کہ'' کسی طرح یہ پوسٹ مجھ تک پہنچ گئی اور اس پر گمشدہ بچے کا پتہ کہوڑی (مظفرآباد کے نواحی گاؤں)کا درج تھا ۔ میں نے یہ پوسٹ کئی دن اپنے پاس محفوظ رکھی اور کہوڑی سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ وہاںکوئی بھی اس بچے کا رشتہ دار ہونے کا دعویٰ نہیں کر رہا ۔پھر میں نے فیس بک پر اس خیر خواہ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ آپ اس سلسلے میں ہماری کیا مدد کر سکتے ہیں؟ انہوں نے واٹس ایپ کے ذریعے اس کی کچھ تصاویر بھیجیں۔ ''


نزاکت کے والد نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ''ہم نے تصاویر دیکھیں تو رنگت سانولی تھی لیکن نقش تو نہیں بدلتے۔ اس کی بہنیں اور خاندان کے دیگر لوگ تصویریں دیکھ کر اس کے نین نقش کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے ۔ کسی نے کہا اس کی ناک ہم سے ملتی ہے تو کسی نے کہا کہ اس کا ماتھا ہمارے جیسا ہے لیکن مکمل اطمینان ابھی نہیں ہوا تھا۔ ''



معروف اعوان نے بتایا کہ ہم نے یونس نامی اس شخص سے دوسرے دن رابطہ کیا اور درخواست کی کہ آپ ہماری مزید کیا مدد کر سکتے ہیںتو اس نے فون پر نزاکت سے بات کرانے کی ہامی بھری ۔پھراسی دن نزاکت کی چھوٹے بھائی احمد کے ساتھ آدھ گھنٹے تک بات چیت ہوئی ۔ احمد نے نزاکت کے بچپن کی یادوں کو کھنگالنے کی کوشش کی تو نزاکت نے بتایا کہ ''مجھے اتنا یاد ہے کہ ہمارے گھرکی چھت جستی چادروں کی بنی ہوئی تھی اوراس گھر میں پہلے اسکول ہوا کرتا تھا'' یہ سن کر احمد کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی کیونکہ یہ بڑی واضح نشانی تھی۔زلزلے سے پہلے اس کی پھوپھو یہاں اسکول چلاتی تھیں۔

والد معروف اعوان کے بقول ''دوسری بات جس نے ہمارے شک کو کسی حد تک یقین میں بدلا وہ اس کا یہ کہنا تھا کہ زلزلے سے پہلے میرے ایک چچا کی شادی ہوئی تھی ۔ اگر آج بھی میں انہیں دیکھوں تو پہچان لوں گا'' یہ سب باتیں چھوٹے احمد کے ساتھ ہوئی تھیں۔

شام کو احمد نے فون پر ہونے والی اس گفتگو کی روداد اپنے والد کو سنائی تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم اسے اپنے خاندان کی تصویریں بھیجیں ، ممکن ہے وہ کسی کو پہچان جائے۔ ''ہم نے فیصلہ کیا کہ اسے اس کے بچپن کے زمانے میں لی گئی تصاویر ہی بھیجی جائیں کیونکہ اس کے ذہن میں وہی نقوش ہوں گے۔ ''

''ہم نے پرانی تصاویر اسکین کروا کے بھیج دیں لیکن چونکہ ہم بھی تسلی چاہتے تھے اس لیے یہ نہیں بتایا کہ تصاویر میں موجود لوگ کون کون ہیں۔ نزاکت نے چند ایک تصاویر پہچان لیں جن میں اس کے والد ، والدہ ،چاچو اور چاچی شامل تھے۔ یہ سب قابل اعتبار تھا۔ ''

جب اس حد تک تسلی ہو گئی تو نزاکت کے والدین، دو چچا اور چھوٹا بھائی احمد 12اکتوبر کا اخبار،چچا کی شادی کی ویڈیو فلم اورنزاکت کے بچپن کی تصاویر لے کر گجرات روانہ ہوگئے ۔

معروف اعوان بتاتے ہیں ''جب ہم گجرات پہنچے تو ہمیں چوہدری صاحب نے بتایا کہ یہ ان کے پاس 2006ء میں آیا تھااور اس وقت اس نے بتایا کہ 'ہم چھ بہن بھائی ہیں ،مجھ سے بڑی دو بہنیں ہیں اورمیں بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں' ظاہر ہے یہ ہر جگہ یکساں نہیں ہو سکتا ۔وہاں چوہدری صاحب کے ایک عمر رسیدہ منشی صاحب کی بات سُن کرمزید اطمینان ہوا ۔ منشی صاحب نے ساری تصویریں دیکھنے کے بعد کہا کہ میں 99 فی صد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جب آیا تھا تو ویسا ہی تھا جیسا کہ ان تصویروں میں ہے ۔اس کے بعد نزاکت کو چچا کی شادی کی فلم دکھائی گئی تو اس نے اپنے چچا، چچی اور دادی کو وہاں پہچان لیا تھا۔پھرچوہدری صاحب کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ آپ ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیں تاکہ مزید تسلی ہوجائے۔ ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ ''



ہمارے سامنے بیٹھی نزاکت کی والدہ نے بتایا '' مجھے دو اور نشانیاں بھی یاد تھیں ۔میرے بیٹے کے گلے پر اور ناف کے قریب تل تھے ۔معلوم کرنے پر اس کی بھی تصدیق ہو گئی ۔''

اس کے بعد یہ سب لوگ گجرات سے واپس کشمیر آگئے لیکن نزاکت ابھی گجرات ہی میں تھا۔معروف اعوان کے بقول ''ابھی ہم اپنے گھر پہنچے ہی تھے کہ اطلاع ملی نزاکت بھی چل نکلا ہے ۔ اس وقت ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔ جب وہ پہنچا تو یہاں خاندان اور علاقے کے سینکڑوں لوگ جمع ہو گئے اور ایک جشن کاسا سماں تھا ۔ نزاکت کو اس کی بہنوں نے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔''

یہ ساری کہانی ہم نے نزاکت کے والدین سے سنی اور پھر نزاکت سے بات چیت شروع کی ۔اس کا کہنا تھا کہ وہ گجرات میں زمینوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور بہت خوش وخرم زندگی گزار رہا ہے ۔اس کے بقول یہ اس کی اپنی زمین ہے ۔ ہمارے سوال پر اس نے کہا کہ مجھے کشمیر اور پنجاب دونوں سے لگاؤ ہے ۔کسی کو بھی چھوڑنے کا ارادہ نہیں ہے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ان گیارہ سالوں میںچوہدری اکبر ابراہیم صاحب کے ساتھ بارہا مظفرآباد آ چکا ہے۔گجرات کے جس گاؤں میں نزاکت کے یہ 11برس گزرے اس کانام کوٹلی مدن بتاتا ہے ۔بولتا ہے تو لہجے میں چوہدرانہ کھنک بھی کہیں کہیں محسوس ہوتی ہے۔

والدہ کی خواہش ہے کہ اب وہ یہیں کشمیر میں رہے تاکہ اس کے سر پر شادی کا سہرا سجایا جائے۔ اسی ملاقات میں نزاکت کے چچا کے چھوٹے سے بچے سے بھی ملاقات ہوئی جو اس کا ہمنام تھا۔ اس بچے کانام لاپتہ ہو جانے و الے نزاکت کی یاد میں رکھا گیا تھا۔

ہماری گفتگو اختتامی مرحلے میں داخل ہوئی تو نزاکت کے والد کہنے لگے ''ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔نزاکت ہمارے پاس رہے گا تو ہمیں یقین آ جائیگا کہ یہ خواب نہیں حقیقت ہے ۔ اللہ کرے سب کے بچھڑے مل جائیں۔''
Load Next Story