بادشاہ ہمیشہ تنہاہوتاہے

سات دہائیوں سے ترقی کے منتظرلوگ آج بھی اس شاہراہ سے بہت دورہیں

raomanzarhayat@gmail.com

سات دہائیوں سے ترقی کے منتظرلوگ آج بھی اس شاہراہ سے بہت دورہیں جہاں عام آدمی کے لیے ترقی کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔درست یہ بھی ہے کہ چند افراد نے بے پناہ مالی آسودگی حاصل کرلی ہے۔مگرعام آدمی کی زندگی تقریباً وہی ہے جوسیکڑوں سالوں سے اس کا مقدر ہے ۔ مقتدرطبقہ اگرامیرہے تواس سے قومیں بنتی ہیں اورنہ ملک۔ سلاطین دہلی، مغل اورانگریزکے دورسے اقتدار اور پیسے کے مابین ایک بھرپورتعلق رہا ہے۔

یہ تعلق آج بھی ہماری قسمت اوربدقسمتی کامالک ہے۔بات صرف اورصرف ادراک کی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ ہمیں جذباتیت کی قربان گاہ پرلے جاکرنعروں کے بھالوں سے مارا جا چکا ہے۔ ہمارے ملک میں چندانتہائی ایمانداراورذہین سیاستدان بھی ہیں مگرسیاست کے ریگستان میں بارش اس پربرستی ہے جو رموزدربارجانتاہو۔درباری بن سکتاہو۔اس ملک میں کلیہ صرف ایک ہے۔آپ جتنے ایمانداراوراہل ہوں گے، اتنی ہی ناکامی کے نزدیک رہیںگے۔جس دن آپ نے نااہلی اور کرپشن کالبادہ اوڑھ لیا،دن دگنی اوررات چوگنی ترقی کرنے لگیں گے۔اصل نظام کتاب میں نہیں لکھاہوابلکہ یہ نظرنہ آنے والاوہ شکنجہ ہے جس پرآج تک کوئی کتاب ہی نہیں لکھی گئی۔

یہ صرف مغربی فکری ترقی تھی جس نے عام آدمی کے لیے پہلی بارآوازاُٹھائی۔ویسٹ منسٹرجمہوریت اس وقت دنیا کا بہترین نظام حکومت تسلیم کیاجاتاہے۔جمہوریت وہ واحد نظام ہے جس میں غلطی کوٹھیک کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ شخصی سلطنتوں اورریاستوں میں غلطی ٹھیک کرنا تقریباً ناممکن ہے۔مگرسوال یہ بھی ہے کہ جمہوریت ہے کیا۔کیایہ ایک نظام ہے۔ یا ایک ریاستی اورشخصی رویہ ہے۔کیادونوں کا ملا جلا ملغوبہ ہے۔انتہائی پیچیدہ نظرآنے والاسوال دراصل انتہائی سادہ ہے۔جواب کسی اوروقت کے لیے اُٹھا لیجیے۔ مگر اسی اہمیت کاسوال یہ بھی ہے کہ ایک دقیانوسی،ناکارہ اورگلے سڑے نظام پرقائم ریاست میں عام لوگوں کی فلاح وبہبودکیسے ہوسکتی ہے۔ ناکامیوں کی اصل وجہ یہی نظام ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے بھی موجودتھااورآج بھی ہے۔ ہر آواز، وعدہ، تقریریانعرہ بے معنی ہے۔وجہ صرف یہی ہے کہ موجودہ ریاستی نظام میں صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ قومی ترقی کا ضامن بن سکے۔غورفرمائیے،کہ اس نظام سے پیدا کیا ہو رہا ہے۔ سازش، کشمکش،عدم استحکام اورہرطرح کی نا انصافی۔ سازش کیے بغیرنہ کوئی حکومت میں آسکتاہے،نہ ہی جاسکتا ہے۔تمام ترقی پذیرملکوں کی ایک جیسی کہانی ہے۔ نائجیریا سے لے کربنگلہ دیش تک اورگوئٹے مالاسے لے کر برما تک۔ملکوں کے نام مختلف ہیں، قومیتیں مختلف ہیں مگر مقدرتقریباًایک جیسا ہے۔برصغیرمیں حالات مزید دگرگوں ہیں کیونکہ یہاں بادشاہوں اورشخصی حکومتوں کی طویل تاریخ ہے۔صرف ہم صحیح ہیں اورباقی سارے غلط۔ اسی رویہ کی بدولت ہم گزشتہ سات دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار ہیں۔

برصغیرمیں کبھی قانون کی حکمرانی،عدل اورلوگوں کے یکساں حقوق کاعہدنہیں گزرا۔یہ تمام اصول ہمارے لیے اجنبی ہیں۔ان کالبادہ تواوڑھاجاسکتاہے مگران اصولوں پر عمل نہیں کیاجاسکتا۔ہماراملک اسی اجنبیت کاشکار ہے۔ ذکر سازش کاہورہاتھا۔اس خطہ میں تخت حاصل کرنے کے لیے بھائی نے بھائی کوقتل کیاہے۔بیٹے نے باپ کوسولی چڑھایا ہے۔ بیوی نے شوہرکوزہردیاہے۔یعنی ہر حربہ استعمال میں لایا گیا ہے۔تخت پرقائم رہنابذات خودایک اصول ہے۔ تمام اصولوں سے بڑااصول۔لہذااس میں کوئی ترمیم کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔پوری دنیامیں یہی اصول طاقت کی بنیاد بنارہاہے۔صرف وہ قومیں جوانسانی شعور اور رویوں میں ترقی کرگئیں، انھیںیہ اندازہ ہواکہ اصل کام تو عام لوگوں کی فلاح وبہبودہے۔

اس کے علاوہ کوئی بھی حکومتی رویہ نہیں اپنایا جاسکتا۔ سویڈن، یوکے، فرانس، آسٹریلیا، کینیڈااورامریکا اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ان تمام ملکوں کے پاس موثرفوجی طاقت موجودہے۔مگراس کے ساتھ ساتھ دنیاکے مثالی صحت اورتعلیمی نظام بھی موجود ہیں۔ ہمارا معاملہ کیاہے۔یہ سب کے علم میں ہے۔موجودہ صورتحال کودہراناصرف اورصرف وقت کاضیاع ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ مقتدرطبقہ کسی بھی صورت میں اپنے سوا کسی پر اعتمادنہیں کرتا۔اس لیے جو شخص بھی حکومت کی باگ ڈورکا مالک ہوتا ہے، تنہا ہوتا ہے۔لوگ اس کی رائے جاننے کے بعداپنی رائے اس کے مطابق کرلیتے ہیں۔تخت پربیٹھے ہوئے شخص کی تنہائی سازش کوجنم لیتی ہے۔جس کا نہ کوئی علاج ہے اورنہ کوئی توڑ۔ یہ بداعتمادی ہردورمیں ایک جیسی رہی ہے۔بلکہ تمام شخصی ریاستوں میں بالکل ایک نوعیت کی ہی رہی ہے۔


ترکی کی مثال لیجیے۔عثمانی حکومت کاسب سے سنہرا دور سلطان سلیمان اول کاتھا۔سلطنت عثمانیہ میں بے مثال ترقی ہوئی مگردربارکے حالات بالکل وہی تھے،جیسے روائتی بادشاہوں کے ہوتے ہیں۔ سب سے بااختیاروزیرابراہیم پاشاتھا۔اس کی تعلیم وتربیت"ٹوپ کاپی محل"میں مکمل ہوئی۔ اسکول صرف اورصرف شہزادوں اورمقتدرطبقہ کے بچوں کے لیے تھا۔ جدیدنظام پرقائم اسکول دراصل آداب شاہی اورتعلیم کا وہ زینہ تھاجس پرچڑھ کرشہزادے رموز سلطنت سیکھتے تھے۔ ابراہیم پاشا پرقسمت کی دیوی مہربان تھی۔ذاتی طورپرایک انتہائی ذہین تھا۔سلطان اورابراہیم بچپن کے دوست تھے۔ مگراوائل عمری میں دونوں کو معلوم نہیں تھاکہ بادشاہ صرف اورصرف ایک ہوتاہے۔

باقی تمام بھیڑبکریاں یامتمول غلام کادرجہ رکھتے ہیں۔یہ تفریق آج بھی موجود ہے۔سلیمان نے ابراہیم پاشا پرنوازشات کے دروازے کھول دیے۔ شروع شروع میں سلطان کے ذاتی امور کا انچارج بنایا گیا۔ مگرتھوڑے ہی عرصے میں اسے وزیر بنادیا گیا۔ابراہیم پاشا طاقت اوراقتدارکے سرچشمہ کے مزید نزدیک ہوتا گیا۔ 1523میں سلطان نے وزیراعظم کاعہدہ دیدیا۔ساتھ ساتھ تمام افواج کاسپہ سالار بھی مقرر کردیا گیا۔ ابراہیم پاشا نے ایک موقعہ پرسلطان سے درخواست کی کہ اسے اتنی ترقی نہ دی جائے کیونکہ دربار میں لوگ حاسد ہوجائینگے اور نقصان پہنچائینگے۔سلطان نے تمام دربارمیں اعلان کیاکہ اس کے دور حکومت میں ابراہیم پاشاہرعقوبت اورسزاسے محفوظ رہیگا۔ اعلان ابراہیم پاشاکے لیے سکون کا باعث بن گیا۔اس نے دل جمعی سے کام کرنا شروع کردیا۔اس کے زیراثرفتوحات بڑھنے لگیں۔ یورپ، افریقہ اور دیگرعلاقوں کی سلطنتیں سلطان کے سامنے گھٹنے ٹیک گئیں۔

پاشا کی ترقی اب دیگردرباریوں کو کھٹکنے لگی۔سلطان نے تیرہ برس تک اسے وزیراعظم رکھا۔ اس دورمیں پاشاکی ذاتی دولت میں بے انتہااضافہ ہوا۔ سلطان کے بعدسلطنت کے امیرترین لوگوں میں شمار کیا جانے لگا۔یہ رسم توخیرآج بھی جاری ہے۔جو حکومت میں جتنااہم ہوگا،وہ مالی طورپرانتہائی امیر ہوتا جائیگا۔ دربارکے اصول اورقانون کبھی نہیں بدلتے۔ حسدکی گرداُڑنے لگی۔ درباریوں نے سلطان کے کان بھرنے شروع کردیے۔ ایرانی کی صفوی دشاہت کے خلاف جنگ کرتے ہوئے ابراہیم پاشانے فتح حاصل کی تو اپنالقب "سرعسکر سلطان" رکھ ڈالا۔سلطان کے لیے یہ صورتحال تشویش ناک تھی کہ ایک طفیلی اس کی برابری کرنے کی سوچے۔اسی عرصے میں ابراہیم پاشااورمالیاتی امورکے وزیرسکندرسلیبی کے درمیان بہت زیادہ اختلافات ہوگئے۔

ابراہیم پاشانے سلطان کو یقین دلادیاکہ سلیبی غدار ہے اور حکومت کے خلاف سازش کررہاہے۔سلیبی کوسزائے موت دے دی گئی۔مالیاتی امور کے وزیرکے آخری فقرے تھے کہ وہ نہیں بلکہ ابراہیم پاشا غدراہے اورسلطان کوقتل کرکے حکومت حاصل کرنا چاہتا ہے۔" سرعسکر سلطان" کا لقب اورسلیبی کے آخری فقرے سلطان کے ذہن نشیں ہوگئے۔ درباریوں نے یقین دلادیا کہ اصل غدارتوابراہیم پاشا ہے۔ سلیبی کاتوکوئی قصورنہیں تھا۔بادشاہ کوجب یہ احساس ہواکہ اس کے تخت کوایک بہت مضبوط اورطاقتور دوست سے خطرہ ہے تو زندگی کاسب سے بڑافیصلہ کیا۔حکم دیاگیاکہ ابراہیم پاشاکوقتل کردیاجائے۔یہی ہوا،سب سے موثر اور وفادار درباری سازش کے تحت بربادکردیاگیا۔

نکتہ صرف یہ ہے کہ سوائے مغربی سنجیدہ جمہوریتوں کے ہمارے جیسے ممالک میں یہ لفظ کسی اہمیت یامعنی کامالک نہیں۔بلکہ یہ ایک عجیب سالفظ ہے۔عملی طورپردیکھاجائے تواس سے بہت کم فائدہ برآمدہواہے۔ہاں اگرواقعی ہمارے شخصی اورقومی رویہ اتنے سنجیدہ ہوجائیں کہ ہم اختلاف رائے کوبرداشت کرسکیں توجمہوریت سے بہترکوئی نظام نہیں۔ہم کس درجہ پرہیں۔اسکاجواب ہرادارے، سیاسی جماعت ،شخص کااپنا ذاتی ہے۔ہرایک کی اپنی رائے ہے جسکاہرصورت احترام ہوناچاہیے۔ہمارے پیارے دیس میں توایک ایساحکمران بھی رہاہے جوفالج کاشکار تھا۔ بول نہیں سکتاتھا۔کھاناخودنہیں کھا سکتا تھا۔ مگر بطور گورنر جنرل مضبوطی سے حکومت کرتارہا۔

پھراس کے ایک ابراہیم پاشانے بغاوت کی اور حکومت کوختم کردیاگیا۔اشارہ گورنر جنرل غلام محمداورجنرل ایوب کی طرف ہے۔اس دن سے لے کر آج تک ہم عدم استحکام درعدم استحکام کا شکار ہیں۔ ایک مسئلہ ختم ہوتاہے تومسئلوں کی ایک اوربلاپورے ملک کو لپیٹ میں لینے کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔دربارکی سازشیں ازل سے وہی ہیں اورابد تک رہینگی۔ملک بے یقینی اوربدقسمتی کی اس سڑک پرگامزن ہے جس میں صرف مصائب اور سازشیں ہیں۔انسانی تاریخ اورترقی کی کسوٹی پرپرکھاجائے توحکومت کے لیے اب تک تمام قباحتوں کے باوجودصرف اور صرف جمہوریت ہی اعلیٰ ترین نظام ہے۔کم ازکم مغربی ممالک کی بھرپورعوامی فلاح تواسی جمہوری نظام کی مرہون منت ہے۔ مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ بادشاہ ہمیشہ اکیلا اور تنہا ہوتا ہے!
Load Next Story