سانحات

ایک دفعہ پھر سانحہ۔ لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کی قسمت میں سانحات لکھ دیے گئے ہیں

www.facebook.com/shah Naqvi

ایک دفعہ پھر سانحہ۔ لگتا ہے کہ پاکستانی قوم کی قسمت میں سانحات لکھ دیے گئے ہیں۔کئی دہائیاں گزر گئیں پاکستانی قوم کو آہ و بکا کرتے ہوئے۔ حکمران طبقات ہاتھ باندھے کھلی آنکھوں سے سب کچھ جانتے ہوئے بے بسی سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک اسکرپٹ ہے جس پر بے چوں و چراں عمل ہو رہا ہے۔ اس پورے المیہ ڈرامے کا خالق اور ہدایت کار کہیں دور دھندلکوں میں چھپا ہوا ہے۔کچھ پتا نہیں یہ سلسلہ کہاں تک دراز ہے۔ پورا خطہ خاک و خون میں لتھڑا ہوا ہے۔ پاکستان، افغانستان، شام، عراق، لیبیا، یمن ہر جگہ تباہی عروج پر ہے۔

اگرچہ پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کی وجہ دہشت گردی میں کمی آئی ہے لیکن اس کا مکمل خاتمہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ ابھی حال ہی میں ہمارے وزیراعظم نواز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے، اب صرف ان کی دم باقی رہ گئی ہے۔ اس کا جواب گزشتہ روز دہشت گردوں نے مردان ضلع کچہری پر خود کش حملہ کر کے دیا جس میں درجنوں وکیل اور شہری جاں بحق اور بہت سے زخمی ہوئے۔کوئٹہ میں حالیہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملے سے پہلے بھی اگست میں اسپتال میں وکلا پر حملہ ہوا جو اپنے صدر کے قتل پر اکٹھے ہوئے تھے۔

اس میں بھی ہلاکتوں کی تعداد ستر سے زیادہ تھی جس میں زیادہ تر وکلا تھے۔کہا جاتا ہے اس کالج پر یہ پہلا حملہ نہیں دوسرا حملہ تھا اس کے باوجود پہلے سے اطلاع تھی کہ حملہ ہو سکتا ہے۔ اس پورے کالج کی سیکیورٹی کے لیے صرف ایک گارڈ تھا جو اکیلا دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ اس کالج پر حملے کے حوالے سے دو سوال بار بار پوچھے جا رہے ہیں کہ پہلا اس کی چار دیواری جو مٹی کی بنی ہوئی تھی اور اس کی اونچائی بھی کم تھی۔ سیکیورٹی نقطہ نظر سے پختہ دیوار کیوں تعمیر نہیں کی گئی۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ وہ تمام جوان جن کی ٹریننگ مکمل ہو چکی تھی۔

انھیں بغیر کسی جواز کے واپس کیوں بلایا گیا۔ بلوچستان دہشت گردی کے حوالے سے بڑے سانحات سے گزرا ہے۔ اس میں سب سے بڑا سانحہ ہزارہ قبیلے کا ہے جس کے سو سے زیادہافراد ایک وقت میں دہشت گردی کی نذر ہوئے جو اب بھی مسلسل حملوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے اپنے رہائشی علاقے سے باہر نہیں جا سکتے۔

کوئٹہ پولیس کالج پر حملے کی ذمے داری بھی قبول کی گئی ہے ۔ جن سانحات سے ہم گزر رہے ہیں تو ان سانحات کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب ہم افغانستان میں امریکی جنگ میں شریک ہوئے۔ سمجھدار لوگوں نے بہت سمجھایا کہ یہ امریکا اور روس کی جنگ ہے۔ اس سے ہمارا کیا لینا دینا۔ اگر ہم اس جنگ میں شامل ہوئے تو ہمارا حشر دو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا ہو گا اور ایسا ہی ہوا۔

پھر پوری دنیا کے دہشت گردوں نے اپنا ٹھکانہ ہماری سرزمین کو بنا لیا۔ دہشت گردی کا آغاز پاکستان میں ہتھوڑا گروپ سے ہوا جس نے رات کی تاریکی میں سیکڑوں لوگوں کو سوتے ہوئے سر پر ہتھوڑوں کے وار کر کے موت کی نیند سلا دیا۔ ان لوگوں کا آج تک پتہ نہیں چلا کہ یہ کون پر اسرار لوگ تھے پھر پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی سیلاب بن کر داخل ہو گئی۔ 35سال گزرنے کے باوجود اس کا خاتمہ کسی طور نہیں ہو پا رہا۔

امریکی اعلیٰ عہدیدار کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اگلے چالیس سے پچاس سال تک جاری رہے گی۔ہو سکتا ہے کہ آخری مرحلے میں مزید توسیع ہو جائے اس طرح تو مجموعی طور پر یہ جنگ اسی نوے سال طوالت پکڑ جائے گی اور ہم اس وقت تک جنازے ہی اٹھاتے رہیں گے۔ دہشت گردی کی جنگ کو طوالت دینا سامراج کی مجبوری ہے۔


ابھی تو صرف مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کا علاقہ ہے جہاں کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں، ابھی تو مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ہی حل نہیں ہوا، عرب بہار سے سامراج کے تعاون سے ایسی دہشت گردی برآمد ہوئی جس کا نام داعش ہے۔ اس نے عورتوں بچوں بوڑھوں پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے کہ لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔ اس میں زندہ انسانوں کو آگ پر بھوننا اور شہر کے چوکوں میں لونڈی اور غلام کے نظام کی بحالی شامل ہے۔

عرب بہار سے لوگوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد عرب اقوام بادشاہت اور آمریت سے نجاتت حاصل کر لیں گے لیکن یہاں تو امریکی تھنک ٹینکوں نے سجی دکھا کر کھبی مار دی یعنی عرب بہار کی لطافتوں سے اگر کوئی مستفید ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف اسرائیل ہے اور باقی عرب دنیا ہولناک تباہی و بربادی کا شکار ہو کر مکمل طور پر خسارے میں ہے۔

اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا، پہلے عراق سے ایران پر حملہ کرایا گیا، پھر صدام کا خاتمہ کیا گیا ، اس کے بعد قذافی اور اب شام۔ وہ شام جس سے اسرائیل کو سب سے بڑا خطرہ تھا جو کسی صورت امریکا اوراسرائیل کے دباؤ میں آ کر فلسطینیوں کی حمایت سے باز نہیں آ رہا تھا اور اس پر لطیفہ یہ ہے کہ عرب بادشاہتیں انسانی حقوق کی پامالی کا نعرہ لگا کر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے در پے ہیں تاکہ شام کی فتح کی صورت میں اسرائیل کو ایران تک پہنچنے میں کوئی روکاوٹ نہ رہے اور وہ مقصد جو اسرائیل کے لبنان پر حملے کی صورت میں حاصل نہ ہوا جب امریکی خاتون وزیر خارجہ (کنڈو لیزا رائس) نے اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم میں کہا تھا کہ ہم ری برتھ آف مڈل ایسٹ کرنے جا رہے ہیں۔

اس مقصد کو اب مذہبی جنونیت شدت پسندی دہشت گردی کو اپنے عروج پر پہنچا کر حاصل کیا جا رہا ہے۔دیکھا عرب بہار کا تیر بہدف نسخہ جس کے ذریعے مذہبی جنونیت اگلی کئی نسلوں تک عرب دنیا کا مقدر ہے۔ یہ وہ نسخہ ہے جس کے ذریعے اب اسرائیل مکمل طور پر محفوظ و مامون ہے اور فلسطینی ایک بھولی بسری ہوئی داستان۔

آخری بات یہ کہ ہمارے حکمران طبقوں کو چاہیے کہ وہ اس سامراجی جنگ سے نکلیں جس کا مقصد مزید لاکھوں انسانوں کی قیمت پر صرف اور صرف سامراجی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

پانامہ پیپرز کا حل نومبر اور دسمبر کے شروع میں نکل آئے گا ۔ فوری اہم تاریخیں۔ 6,5,3,2 نومبر ہیں۔

 
Load Next Story