یومِ سیاہ اور کپتانی دھرنا
ایک ہی ہفتے میں ہمیں دو یومِ سیاہ منانا پڑے ہیں
ایک ہی ہفتے میں ہمیں دو یومِ سیاہ منانا پڑے ہیں۔ ایک یومِ سیاہِ کشمیر کے حوالے سے تھا اور دوسرا سانحہ کوئٹہ کے پس منظر میں۔ کوئی ستر سال قبل بھارت نے اکثریتی کشمیری مسلمانوں کی خواہشوں اور آدرشوں کے بر عکس خطہ کشمیر، جنت نظیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ عالمی برادری نے بھی اس زیادتی کے خلاف ہی فیصلہ سنایا تھا لیکن سات عشرے گزرنے کے باوجود قابض قوت نے کشمیر اور کشمیریوں پر اپنی آہنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دی۔ اہلِ کشمیر اور اہلِ پاکستان پچھلی سات دہائیوں سے مل کر، ہر سال، اس ظالمانہ اور غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
چند دن قبل، ستائیس اکتوبر کو، ایک بار پھر پاکستانیوں اور آر پار کے کشمیریوں نے مل کر بھارت کے خلاف ''یومِ سیاہ'' منایا ہے، اس امید پر کہ کبھی تو مجبورومظلوم کشمیریوں پر بھی آزادی اور خوشحالی کا آفتاب طلوع ہوگا۔ مجھے یہ دیکھ اور جان کر بے حد دکھ اور افسوس ہوا کہ جب پاکستان بھر اور آزاد کشمیر میں یومِ سیاہ منایا جا رہا تھا، بھارتی اخبار اور انڈین الیکٹرانک میڈیا پاکستان کے خلاف جعلی خبریں چلا رہے تھے۔ کیا مخالفانہ جذبات سے مغلوب ہو کر بھارتی میڈیا بنیادی صحافتی اخلاقیات بھی فراموش کر بیٹھا ہے؟ اسی لیے معروف برطانوی جریدے ''اکانومسٹ'' (شمارہ 29 اکتوبر 2016ء) کو بھی یہ لکھنا پڑا ہے کہ بھارتی میڈیا بہت ہی نچلی سطح پر چلا گیا ہے۔ اس معتبر گواہی کے بعد تو بھارتی صحافیوں اور بھارتی میڈیا کے لیے ہر روز، روزِ سیاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
روشنی اور اعتبار کی دنیا میں نکلنے کے لیے پاکستان نے گذشتہ چند برسوں کے دوران نہائیت سنجیدگی کے ساتھ بڑی کوششیں کی ہیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ رواں ماہ کے دوران لاہور میں PACES Competition ہوئے ہیں۔ ان کا اہتمام پاکستان آرمی نے کیا تھا۔ ان مقابلوں میں چین، نیپال، سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش، قطر اور برطانیہ کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا ہے اور دنیا پر یہ ثابت کیاہے کہ پاکستان میں کامل امن بھی ہے، کھلاڑیوں کو مطلوبہ تحفظ بھی حاصل ہے اور یہاں متنوع کھیلوں کا فروغ بھی ہو رہا ہے۔ یہ شاندار اور قابلِ تحسین مظاہر عین اُسوقت سامنے آئے ہیں جب عالمی سطح پر بھارت یہ منفی پروپیگنڈہ کر رہا تھا کہ پاکستان دنیا میں شدید تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ پاکستان آرمی کی نگرانی میں ہونے والے ان جسمانی مقابلوں نے بھارت کے مذکورہ پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے؛ چنانچہ متعلقہ ادارے کے منتظمین ہماری شاباشی اور مبارکباد کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ پھر اس تازہ تازہ کامیابی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ عین اُن لمحات میں جب ہم ان کامیابیوں پر جشن منارہے تھے، کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردوں نے (25 اکتوبرکو) حملہ کر دیا۔ ظالموں نے رات کی تاریکی میںنہتے پولیس جوانوں پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ دو خود کش حملے بھی کیے۔ پانچ درجن سے زائد نوجوان، جنہوں نے ابھی حال ہی میں پولیس ٹریننگ لی تھی اور جنہوں نے خوابوں کی دہلیز پر ابھی اپنا پہلا قدم ہی رکھا تھا، پلک جھپکتے میں خاک وخون میں لٹا دیے گئے۔
ان شہدا کو ہم سب کا عقیدتوں بھرا اجتماعی سیلوٹ کہ اُن کا پاک خون اس پاک سرزمین کی خدمت اور حفاظت کے لیے بہا ہے۔ ساری قوم اس لرزہ خیز سانحہ پر ابھی تک سوگ میں ہے۔ ایک ہی ہفتے میں قوم کو یہ دوسرا یومِ سیاہ منانا پڑا ہے۔ دشمن کی آنکھوں میں کانٹوں کی مانند کھٹکنے والے پاکستان کے خلاف بہت سے دشمن یکجا ہو گئے ہیں۔ بھارت ان سب کا سرغنہ اور سرخیل ہے۔ وہ مظلوم، مجبور، مقہور، محصور کشمیریوں کا ساتھ نبھانے پر پاکستان کو سزا دینا چاہتا ہے۔ کامیابی مگر اُسے نہیں ملے گی۔ انشاء اللہ!
پاکستان اور اہلِ پاکستان جی جان سے چاہتے ہیں کہ الجھا ہوا مسئلہ کشمیر جلد از جلد سُلجھ جائے تاکہ بے پناہ قربانیاں دینے والے کشمیریوں کو آزاد فضاؤں میں سانس لینے کے مواقع ملیں لیکن مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے جس مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اصل سوال یہی ہے کہ اس سے نجات کیونکر حاصل کی جاسکتی ہے؟ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو اس ڈھب پر آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ان کے تعصب اور تکبر کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ برس دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے جونہی مقبوضہ کشمیر کے بعض حریت پسند لیڈروں سے ملاقاتیں کیں تو بھارتی وزیراعظم نے غصے میں آکر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سیکریٹری خارجہ مذاکرات ہی منسوخ کر دیے۔
مودی جی تو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی تہس نہس کرنے کے درپے ہیں۔ جب حالات اس درجہ سنگین ہوں تو مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کا مایوس ہونا بعید از قیاس نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پنجۂ استبداد سے نجات دلانے کا ایک ''راستہ'' امریکا میں مقیم پاکستان کے ایک معروف دانشور اور صحافی، جو پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں، نے بھی دکھایا ہے۔ ان کا ایک آرٹیکل بھارتی انگریزی اخبار ''دی ہندو'' میں شایع ہوا ہے۔ یہ صاحب لکھتے ہیں: ''(کشمیر کے مسئلے پر) پاکستان' بھارت سے چار جنگیں لڑ چکا ہے۔ 1971ء کی جنگ میں وہ اپنے وطن کا نصف حصہ ضایع کرچکا ہے۔ اسلام آباد اگر مسئلہ کشمیر کو عالمی شکل دینے کا متمنی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ حقائق کو پیشِ نگاہ رکھے۔
کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے آخری مؤثر قرارداد 1957ء میں اس وقت منظور کی جب اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 82 تھی۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ کر 193 ہوگئی تھی لیکن جب وزیراعظم پاکستان (جناب نواز شریف) اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر مسئلہ کشمیر کا ذکر کر رہے تھے تو اس وقت وہ اس معاملے میں تنہا ہی تھے۔'' اِن صاحب نے اپنے آرٹیکل میں بدقسمتی سے پاکستان کی حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان کے معروف ماہرِ اقتصادیات نے بھی اپنے آرٹیکل (Competing With India) میں تجویز پیش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو اب ایک نیا بیانیہ پیش کرنا ہوگا کہ پرانے بیانئے کو سننے والے اب صرف پاکستان ہی میں رہ گئے ہیں۔
گویا پاکستان کو تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اب نئے انداز اور نئے سرے سے توانائیاں صَرف کرنا ہوں گی بصورتِ دیگر نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی فوج کے ایک سابق سینئر افسر، جنرل (ر) اشوک کے مہتہ، جو امریکا میں رہتے ہیں، نے اپنے ایک حالیہ تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ مسئلہ (مقبوضہ) کشمیر اس قدر گنجلک اور سنگین ہوچکا ہے کہ اب پاکستان اور بھارت میں کسی کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ کوئی ایسا حل پیش کرے جو سرحد کے آر پار ہر شخص کے لیے قابلِ قبول ہو۔ دراصل بھارتی ریٹائرڈ جرنیل نے بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ فی الحال پاکستان اور بھارت کے حکمران مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنے سے گریز کریں۔ یہ اسلوب بھارتی حکمرانوں کے لیے تو بہت مفید ثابت ہو گا لیکن جناب محمد نواز شریف کی حکومت اسے افورڈ نہیں کرسکتی۔
اب جب کہ پاکستان کے دشمن مملکتِ خداداد کے خلاف ایکا کر چکے ہیں، جناب عمران خان ان نازک اور حساس ایام میں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پر یلغار کیا چاہتے ہیں۔ اُن کے موقف اورعزم نے سب کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اہلِ خیر انگشت بدنداں ہیں کہ بھارت سازشوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرحدوں پر توپ وتفنگ کے ساتھ بھی حملے کر رہا ہے، لیکن کپتان صاحب ان سب قومی معاملات سے لاتعلق ہو کر اپنے سیاسی حریف کو نیچا دکھانے پر تُلے ہیں۔ سیانے اس کپتانی دھرنے اورفیصلے کو کم سے کم الفاظ میں ''غیر حکیمانہ اقدام'' قرار دے رہے ہیں۔ شنید ہے کہ اس اقدام میں ایک نامور عالمِ دین کے مریدین، وابستگان اور پیروکار بھی ''جوق در جوق '' شامل ہوناچاہتے ہیں۔ اللہ ہمیں کسی بڑی آزمائش اور بلا سے محفوظ رکھے۔
چند دن قبل، ستائیس اکتوبر کو، ایک بار پھر پاکستانیوں اور آر پار کے کشمیریوں نے مل کر بھارت کے خلاف ''یومِ سیاہ'' منایا ہے، اس امید پر کہ کبھی تو مجبورومظلوم کشمیریوں پر بھی آزادی اور خوشحالی کا آفتاب طلوع ہوگا۔ مجھے یہ دیکھ اور جان کر بے حد دکھ اور افسوس ہوا کہ جب پاکستان بھر اور آزاد کشمیر میں یومِ سیاہ منایا جا رہا تھا، بھارتی اخبار اور انڈین الیکٹرانک میڈیا پاکستان کے خلاف جعلی خبریں چلا رہے تھے۔ کیا مخالفانہ جذبات سے مغلوب ہو کر بھارتی میڈیا بنیادی صحافتی اخلاقیات بھی فراموش کر بیٹھا ہے؟ اسی لیے معروف برطانوی جریدے ''اکانومسٹ'' (شمارہ 29 اکتوبر 2016ء) کو بھی یہ لکھنا پڑا ہے کہ بھارتی میڈیا بہت ہی نچلی سطح پر چلا گیا ہے۔ اس معتبر گواہی کے بعد تو بھارتی صحافیوں اور بھارتی میڈیا کے لیے ہر روز، روزِ سیاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
روشنی اور اعتبار کی دنیا میں نکلنے کے لیے پاکستان نے گذشتہ چند برسوں کے دوران نہائیت سنجیدگی کے ساتھ بڑی کوششیں کی ہیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ رواں ماہ کے دوران لاہور میں PACES Competition ہوئے ہیں۔ ان کا اہتمام پاکستان آرمی نے کیا تھا۔ ان مقابلوں میں چین، نیپال، سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش، قطر اور برطانیہ کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا ہے اور دنیا پر یہ ثابت کیاہے کہ پاکستان میں کامل امن بھی ہے، کھلاڑیوں کو مطلوبہ تحفظ بھی حاصل ہے اور یہاں متنوع کھیلوں کا فروغ بھی ہو رہا ہے۔ یہ شاندار اور قابلِ تحسین مظاہر عین اُسوقت سامنے آئے ہیں جب عالمی سطح پر بھارت یہ منفی پروپیگنڈہ کر رہا تھا کہ پاکستان دنیا میں شدید تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ پاکستان آرمی کی نگرانی میں ہونے والے ان جسمانی مقابلوں نے بھارت کے مذکورہ پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے؛ چنانچہ متعلقہ ادارے کے منتظمین ہماری شاباشی اور مبارکباد کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ پھر اس تازہ تازہ کامیابی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ عین اُن لمحات میں جب ہم ان کامیابیوں پر جشن منارہے تھے، کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردوں نے (25 اکتوبرکو) حملہ کر دیا۔ ظالموں نے رات کی تاریکی میںنہتے پولیس جوانوں پر گولیاں برسانے کے ساتھ ساتھ دو خود کش حملے بھی کیے۔ پانچ درجن سے زائد نوجوان، جنہوں نے ابھی حال ہی میں پولیس ٹریننگ لی تھی اور جنہوں نے خوابوں کی دہلیز پر ابھی اپنا پہلا قدم ہی رکھا تھا، پلک جھپکتے میں خاک وخون میں لٹا دیے گئے۔
ان شہدا کو ہم سب کا عقیدتوں بھرا اجتماعی سیلوٹ کہ اُن کا پاک خون اس پاک سرزمین کی خدمت اور حفاظت کے لیے بہا ہے۔ ساری قوم اس لرزہ خیز سانحہ پر ابھی تک سوگ میں ہے۔ ایک ہی ہفتے میں قوم کو یہ دوسرا یومِ سیاہ منانا پڑا ہے۔ دشمن کی آنکھوں میں کانٹوں کی مانند کھٹکنے والے پاکستان کے خلاف بہت سے دشمن یکجا ہو گئے ہیں۔ بھارت ان سب کا سرغنہ اور سرخیل ہے۔ وہ مظلوم، مجبور، مقہور، محصور کشمیریوں کا ساتھ نبھانے پر پاکستان کو سزا دینا چاہتا ہے۔ کامیابی مگر اُسے نہیں ملے گی۔ انشاء اللہ!
پاکستان اور اہلِ پاکستان جی جان سے چاہتے ہیں کہ الجھا ہوا مسئلہ کشمیر جلد از جلد سُلجھ جائے تاکہ بے پناہ قربانیاں دینے والے کشمیریوں کو آزاد فضاؤں میں سانس لینے کے مواقع ملیں لیکن مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے جس مضبوطی سے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اصل سوال یہی ہے کہ اس سے نجات کیونکر حاصل کی جاسکتی ہے؟ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو اس ڈھب پر آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ان کے تعصب اور تکبر کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ برس دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر نے جونہی مقبوضہ کشمیر کے بعض حریت پسند لیڈروں سے ملاقاتیں کیں تو بھارتی وزیراعظم نے غصے میں آکر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سیکریٹری خارجہ مذاکرات ہی منسوخ کر دیے۔
مودی جی تو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی تہس نہس کرنے کے درپے ہیں۔ جب حالات اس درجہ سنگین ہوں تو مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کا مایوس ہونا بعید از قیاس نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پنجۂ استبداد سے نجات دلانے کا ایک ''راستہ'' امریکا میں مقیم پاکستان کے ایک معروف دانشور اور صحافی، جو پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں، نے بھی دکھایا ہے۔ ان کا ایک آرٹیکل بھارتی انگریزی اخبار ''دی ہندو'' میں شایع ہوا ہے۔ یہ صاحب لکھتے ہیں: ''(کشمیر کے مسئلے پر) پاکستان' بھارت سے چار جنگیں لڑ چکا ہے۔ 1971ء کی جنگ میں وہ اپنے وطن کا نصف حصہ ضایع کرچکا ہے۔ اسلام آباد اگر مسئلہ کشمیر کو عالمی شکل دینے کا متمنی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ حقائق کو پیشِ نگاہ رکھے۔
کشمیر کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے آخری مؤثر قرارداد 1957ء میں اس وقت منظور کی جب اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 82 تھی۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد بڑھ کر 193 ہوگئی تھی لیکن جب وزیراعظم پاکستان (جناب نواز شریف) اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر مسئلہ کشمیر کا ذکر کر رہے تھے تو اس وقت وہ اس معاملے میں تنہا ہی تھے۔'' اِن صاحب نے اپنے آرٹیکل میں بدقسمتی سے پاکستان کی حوصلہ شکنی ہی کی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ پاکستان کے معروف ماہرِ اقتصادیات نے بھی اپنے آرٹیکل (Competing With India) میں تجویز پیش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو اب ایک نیا بیانیہ پیش کرنا ہوگا کہ پرانے بیانئے کو سننے والے اب صرف پاکستان ہی میں رہ گئے ہیں۔
گویا پاکستان کو تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اب نئے انداز اور نئے سرے سے توانائیاں صَرف کرنا ہوں گی بصورتِ دیگر نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی فوج کے ایک سابق سینئر افسر، جنرل (ر) اشوک کے مہتہ، جو امریکا میں رہتے ہیں، نے اپنے ایک حالیہ تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے کہ مسئلہ (مقبوضہ) کشمیر اس قدر گنجلک اور سنگین ہوچکا ہے کہ اب پاکستان اور بھارت میں کسی کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ کوئی ایسا حل پیش کرے جو سرحد کے آر پار ہر شخص کے لیے قابلِ قبول ہو۔ دراصل بھارتی ریٹائرڈ جرنیل نے بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ فی الحال پاکستان اور بھارت کے حکمران مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنے سے گریز کریں۔ یہ اسلوب بھارتی حکمرانوں کے لیے تو بہت مفید ثابت ہو گا لیکن جناب محمد نواز شریف کی حکومت اسے افورڈ نہیں کرسکتی۔
اب جب کہ پاکستان کے دشمن مملکتِ خداداد کے خلاف ایکا کر چکے ہیں، جناب عمران خان ان نازک اور حساس ایام میں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پر یلغار کیا چاہتے ہیں۔ اُن کے موقف اورعزم نے سب کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اہلِ خیر انگشت بدنداں ہیں کہ بھارت سازشوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرحدوں پر توپ وتفنگ کے ساتھ بھی حملے کر رہا ہے، لیکن کپتان صاحب ان سب قومی معاملات سے لاتعلق ہو کر اپنے سیاسی حریف کو نیچا دکھانے پر تُلے ہیں۔ سیانے اس کپتانی دھرنے اورفیصلے کو کم سے کم الفاظ میں ''غیر حکیمانہ اقدام'' قرار دے رہے ہیں۔ شنید ہے کہ اس اقدام میں ایک نامور عالمِ دین کے مریدین، وابستگان اور پیروکار بھی ''جوق در جوق '' شامل ہوناچاہتے ہیں۔ اللہ ہمیں کسی بڑی آزمائش اور بلا سے محفوظ رکھے۔