کشمکش
تحریک انصاف کی مقبولیت نے جماعت کی صفوں میں اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے
جماعت اسلامی تنظیمی طور پر پاکستان کی سب سے بہتر جماعت ہے، لیکن انتخابی میدان میں جماعت ہمیشہ جد وجہد کا شکار رہی ہے۔ قابلیت اور ایمانداری کے باوجود ابھی تک پاکستانیوں کی اکثریت نے جماعت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کبھی بھی نہیں کیا، شاید ہی کسی حلقہ انتخاب کو جماعت کا اسٹرانگ ہولڈر کہا جاسکے، شاید ہی کوئی ایسی نشست ہو جس پر جماعت فتح کا دعویٰ کرسکے، ایسے ماحول میں اب جماعت میں ایک نئی کشمکش نے جنم لیا ہے، یہ پارٹی دوراہے پر آگئی ہے کہ کس سمت میں بڑھا جائے، قیادت و کارکنان بھی دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ یہ دوراہا کیا ہے؟ جماعت کا کسی ایک راستے کا چناؤ ہی اگلے انتخابات میں فیصلہ کن عنصر ہوگا، جماعت کے لیے بھی اور ملکی سیاست کے لیے بھی۔
جماعت کے اندر کس کشمکش نے جنم لیا ہے؟ ستر کے بعد پیپلزپارٹی نے سوشلزم کا نعرہ بلند کیا، یوں سرخ و سبز کے علمبرداروں کی جنگ ملکی سیاست سے ہوتے ہوئے پاکستان کے کالجز اور جامعات میں جا پہنچی، برسر اقتدار بھٹو سے جماعت کی ہمیشہ محاذ آرائی رہی، ''بنگلہ دیش نامنظور مہم'' سے قومی اتحاد کی تحریک تک دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے مقابل رہیں۔ جب ضیا دور کے بعد بے نظیر اور نواز شریف ابھرکر سامنے آئے تو جماعت کے لیے مسلم لیگ سے اتحاد کرنا قدرے آسان تھا، بھٹو کی پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی میں اتنی دوریاں ہیں کہ دونوں پارٹیاں کبھی ایک اتحاد میں شامل نہیں رہیں۔ پیپلزپارٹی کو مولانا فضل الرحمن سے مل بیٹھنے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا، جماعت کو ولی خان جیسے کمیونسٹ اور اصغر خان جیسے سیکولر سے اتحاد میں کبھی کوئی دشواری نہیں رہی۔ نہ جانے کیوں جماعت اور پی پی پی میں بعد المشرقین ہے۔
یوں اب تک جماعت کے پاس انتخابی سیاست میں تنہا پرواز یا بائیکاٹ کے علاوہ تیسرا آپشن مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کا رہا ہے۔ جماعت کی کیمسٹری پیپلزپارٹی سے نہیں ملتی، یوں عادتاً اس کے کارکنان اکثر پرو نواز اور ہمیشہ اینٹی بھٹو رہے ہیں۔ یوں لے دے کر پچھلے پچیس تیس برسوں میں جماعت کے پاس اتحاد کا آپشن مجلس عمل کے علاوہ صرف مسلم لیگ ہی رہی ہے۔ اس یکسوئی کے سبب جماعت میں کبھی کسی کشمکش نے جنم نہیں لیا۔ وہ کشمکش جو نئی صدی کے ابتدائی برسوں میں جماعت کی قیادت و کارکنان میں پیدا ہوچکی ہے۔
تحریک انصاف کی مقبولیت نے جماعت کی صفوں میں اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے، یہ الفاظ سخت ہیں تو کہا جاسکتا کہ جماعت دوراہے پر آگئی ہے، نواز شریف یا عمران خان؟ اس سوال پر جماعت کے ہر کارکن کی اپنی رائے ہے، قیادت کے ذہن میں ابھی دونوں مقبول شخصیات اور اپنے حلقۂ انتخاب کو لے کر ایک خیال ذہنوں میں جنم لے چکا ہے۔
اگلے الیکشنز میں تحریک انصاف یا مسلم لیگ کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا جاسکا، شاید کہ اس سے جماعت کی قوت معاہدہ متاثر ہو، اپنی بارگیننگ پاور کو قائم رکھنے کی خاطر جماعت کی قیادت تو خاموش ہے لیکن کارکنان دونوں طاقتور پارٹیوں اور دونوں مقبول شخصیات سے پسندیدگی یا ناپسندیدگی کے حوالے سے کھل کر بات کررہے ہیں، زبانی بھی اور تحریری طور پر بھی اور سوشل میڈیا پر بھی کسی کے لیے جماعت کے بعد نمبر ٹو نواز شریف کی مسلم لیگ ہے تو کسی کے لیے عمران کی تحریک انصاف۔ جماعت کی حمایت کے ساتھ دوسری پارٹی کی حمایت و مخالفت پر مبنی رائے واضح کرتی ہے کہ جماعت اس حوالے سے منقسم ہے۔ اپنی اچھائی کے ساتھ دوسرے کی برائی کی تصویر جماعت کی تصویر دکھا جاتی ہے کہ دراڑ کہاں ہے۔
نواز شریف اور عمران خان ضرور چاہیںگے کہ اگلے انتخابات میں اتحاد کے لیے سراج الحق کے قدم ان کی جانب بڑھیں، ''بلا'' اور ''شیر'' ضرور چاہیںگے کہ کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے جماعت کی قیادت اپنی عمدہ تنظیم اور مخلص کارکنوں کی صلاحیتوں سے ضرور واقف ہے، وہ دونوں مقبول پارٹیوں کی ٹکٹ کے کوٹے کے حوالے سے مجبوریوں سے بھی آگاہ ہے۔ جماعت جانتی ہے کہ لیگ اور تحریک جیسی پارٹیوں سے ٹکٹ حاصل کرنے والوں کاہجوم ہوتا ہے، ہر حلقے میں درجن بھر سے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر حلقہ انتخاب میں پانچ دس ہزار ووٹ رکھنے والی جماعت کئی حلقوں میں نتائج بدل دینے کی طاقت رکھتی ہے۔ نواز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ 93 کے انتخابات میں جماعت کے فیصلہ کن ووٹ نہ ملنے کی بدولت وہ قائد ایوان کے بجائے قائد حزب اختلاف کی نشست پر بیٹھے تھے۔پاکستان اسلامک فرنٹ نے چالیس پچاس حلقوں میں چار چھ ہزارووٹ لے کر پیپلزپارٹی کی کامیابی کی بنیاد رکھ دی تھی۔
بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم بن گئیں تو مسلم لیگ نے شکایت کی کہ جماعت کے چند ہزار ووٹوں نے توازن دوسری طرف کردیا، سید منور حسن نے جواب دیا کہ جب ہم اتنے اہم ہیں کہ تخت و تختے کا فیصلہ کرتے ہیں توہمیں اہمیت بھی اسی قدرملنی چاہیے۔
کالم میں اب تک ہم نے جماعت کی عمدہ تنظیم، مخلص کارکنان کی موجودگی، کم تر ہر دلعزیزی، پیپلزپارٹی سے دوری، ہر حلقہ انتخاب میں بکھرے ووٹ عمران خان و نواز شریف کی کانٹے دار مقبولیت پر گفتگو کرچکے ہیں۔ یہ طے ہے کہ گھمسان کے اس عالم میں پنجاب کے میدانوں، خیبر کے پہاڑوں اور کراچی کی سڑکوں پر معرکہ آرائی کے لیے جماعت کا فیصلہ ایک اہم فیصلہ ہوگا۔
اس کی بدولت ایک نئی کشمکش نے جماعت کے کارکنان میں جنم لیا ہے۔ فضل الرحمن، فاروق ستار، ولی خان، چوہدری شجاعت کی پارٹیوں کے اپنے اپنے حلقہ انتخابات ہیں۔ بلاول بھٹو اور سراج الحق کی پارٹیوں میں دوری کی نصف صدی کی تاریخ ہے، اسی لیے جماعت اگلے انتخابات کے حوالے سے دوراہے پر آگئی ہے، نواز شریف یا عمران خان؟ ایسی کشمکش جماعت کی قیادت اور کارکنوں میں کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ تحریک انصاف یا مسلم لیگ؟ ایسا نازک سوال جماعت کے سامنے کبھی نہیں آیا تھا مسلم لیگ کے علاوہ دائیں بازو کی کسی مقبول پارٹی کی عدم موجودگی نے اتحاد کے لیے ایک ہی راستہ یعنی لیگ سے اتحاد رکھا ہوا تھا۔ عمران خان کی مقبولیت کے علاوہ اور کیا ہے جس نے جماعت کو کشمکش میں مبتلا کردیا ہے؟
جماعت میں کشمکش کا سبب عمران کی باتیں ہیں،مدینے جیسی اسلامی ریاست، ''ایاک نعبد و ایاک نستعین'' اقبال کو پانچ سو سالہ اسلامی تاریخ کا ذہین ترین آدمی قرار دینا کرپشن سے پاک یعنی صالح معاشرہ پارٹی کے کارکن خواتین کو قرآن پاک ترجمے سے پڑھنے کی نصیحت کرنا سیرت پاکؐ اور خلفائے راشدینؓ کے واقعات اپنی تقریروں میں بیان کرنا،جماعت کے کارکنان جانتے ہیں کہ یہی باتیں تو مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کا حصہ ہیں، دوسری جانب اقبال ڈے کی تعطیل کا خاتمہ، شرمین عبید چنائے کی حوصلہ افزائی، بھارت سے دوستی کی شدید خواہش بھی جماعت میں عمران کے حامیوں کے پلے کو بھاری کرتی ہے، خیبر پختونخوا میں تین موثر وزارتیں اور سراج الحق کو سینیٹر بنانے کے لیے عمران کی سنجیدہ کوششیں بھی جماعت میں نواز شریف کے حامیوں کو بیک فٹ پرلے آتی ہیں تحریک انصاف کے جلسوں میں میوزک اور خواتین کی آمد اور عمران کا سیاسی لیڈروں کوللکارنے کا انداز جماعت میں لیگ کے حامیوں کے دلائل ہیں، عمران کی جانب سے قاضی حسین احمد،منور حسن اور سراج الحق کے لیے اچھے الفاظ کااستعمال اور نیک خیالات للکارنے والے دلائل کاتوڑ کہاجاتا ہے یوں جواب اور جواب الجواب ذہنوں اور زبانوں پر ہیں۔
شیر یا بلا؟ ہر دن گزرنے کے ساتھ جماعت میں کشمکش کو تیز کردے گا۔ اس حوالے سے کیا جماعت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی قیادتیں ایک صفحے پر ہیں؟ عمران خان اور نواز شریف کو لے کر یہ کشمکش آیندہ انتخابی نتائج میں فیصلہ کن ہوگی۔اتنی زیادہ فیصلہ کن کہ اس کے اثرات قومی اسمبلی میں پارٹیاں کے نمبرز پر بھی مرتب ہوںگے۔ گو مگو کی کیفیت ہے کہ لیگ یا تحریک۔ یہ ہے جماعت میں اضطرابی کیفیت، ایسی کیفیت پہلے نہیں تھی لیکن ضرور بالضرور ہے آج کی جماعت اسلامی میں کشمکش۔
جماعت کے اندر کس کشمکش نے جنم لیا ہے؟ ستر کے بعد پیپلزپارٹی نے سوشلزم کا نعرہ بلند کیا، یوں سرخ و سبز کے علمبرداروں کی جنگ ملکی سیاست سے ہوتے ہوئے پاکستان کے کالجز اور جامعات میں جا پہنچی، برسر اقتدار بھٹو سے جماعت کی ہمیشہ محاذ آرائی رہی، ''بنگلہ دیش نامنظور مہم'' سے قومی اتحاد کی تحریک تک دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے مقابل رہیں۔ جب ضیا دور کے بعد بے نظیر اور نواز شریف ابھرکر سامنے آئے تو جماعت کے لیے مسلم لیگ سے اتحاد کرنا قدرے آسان تھا، بھٹو کی پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی میں اتنی دوریاں ہیں کہ دونوں پارٹیاں کبھی ایک اتحاد میں شامل نہیں رہیں۔ پیپلزپارٹی کو مولانا فضل الرحمن سے مل بیٹھنے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا، جماعت کو ولی خان جیسے کمیونسٹ اور اصغر خان جیسے سیکولر سے اتحاد میں کبھی کوئی دشواری نہیں رہی۔ نہ جانے کیوں جماعت اور پی پی پی میں بعد المشرقین ہے۔
یوں اب تک جماعت کے پاس انتخابی سیاست میں تنہا پرواز یا بائیکاٹ کے علاوہ تیسرا آپشن مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کا رہا ہے۔ جماعت کی کیمسٹری پیپلزپارٹی سے نہیں ملتی، یوں عادتاً اس کے کارکنان اکثر پرو نواز اور ہمیشہ اینٹی بھٹو رہے ہیں۔ یوں لے دے کر پچھلے پچیس تیس برسوں میں جماعت کے پاس اتحاد کا آپشن مجلس عمل کے علاوہ صرف مسلم لیگ ہی رہی ہے۔ اس یکسوئی کے سبب جماعت میں کبھی کسی کشمکش نے جنم نہیں لیا۔ وہ کشمکش جو نئی صدی کے ابتدائی برسوں میں جماعت کی قیادت و کارکنان میں پیدا ہوچکی ہے۔
تحریک انصاف کی مقبولیت نے جماعت کی صفوں میں اضطرابی کیفیت پیدا کردی ہے، یہ الفاظ سخت ہیں تو کہا جاسکتا کہ جماعت دوراہے پر آگئی ہے، نواز شریف یا عمران خان؟ اس سوال پر جماعت کے ہر کارکن کی اپنی رائے ہے، قیادت کے ذہن میں ابھی دونوں مقبول شخصیات اور اپنے حلقۂ انتخاب کو لے کر ایک خیال ذہنوں میں جنم لے چکا ہے۔
اگلے الیکشنز میں تحریک انصاف یا مسلم لیگ کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا جاسکا، شاید کہ اس سے جماعت کی قوت معاہدہ متاثر ہو، اپنی بارگیننگ پاور کو قائم رکھنے کی خاطر جماعت کی قیادت تو خاموش ہے لیکن کارکنان دونوں طاقتور پارٹیوں اور دونوں مقبول شخصیات سے پسندیدگی یا ناپسندیدگی کے حوالے سے کھل کر بات کررہے ہیں، زبانی بھی اور تحریری طور پر بھی اور سوشل میڈیا پر بھی کسی کے لیے جماعت کے بعد نمبر ٹو نواز شریف کی مسلم لیگ ہے تو کسی کے لیے عمران کی تحریک انصاف۔ جماعت کی حمایت کے ساتھ دوسری پارٹی کی حمایت و مخالفت پر مبنی رائے واضح کرتی ہے کہ جماعت اس حوالے سے منقسم ہے۔ اپنی اچھائی کے ساتھ دوسرے کی برائی کی تصویر جماعت کی تصویر دکھا جاتی ہے کہ دراڑ کہاں ہے۔
نواز شریف اور عمران خان ضرور چاہیںگے کہ اگلے انتخابات میں اتحاد کے لیے سراج الحق کے قدم ان کی جانب بڑھیں، ''بلا'' اور ''شیر'' ضرور چاہیںگے کہ کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے جماعت کی قیادت اپنی عمدہ تنظیم اور مخلص کارکنوں کی صلاحیتوں سے ضرور واقف ہے، وہ دونوں مقبول پارٹیوں کی ٹکٹ کے کوٹے کے حوالے سے مجبوریوں سے بھی آگاہ ہے۔ جماعت جانتی ہے کہ لیگ اور تحریک جیسی پارٹیوں سے ٹکٹ حاصل کرنے والوں کاہجوم ہوتا ہے، ہر حلقے میں درجن بھر سے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر حلقہ انتخاب میں پانچ دس ہزار ووٹ رکھنے والی جماعت کئی حلقوں میں نتائج بدل دینے کی طاقت رکھتی ہے۔ نواز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ 93 کے انتخابات میں جماعت کے فیصلہ کن ووٹ نہ ملنے کی بدولت وہ قائد ایوان کے بجائے قائد حزب اختلاف کی نشست پر بیٹھے تھے۔پاکستان اسلامک فرنٹ نے چالیس پچاس حلقوں میں چار چھ ہزارووٹ لے کر پیپلزپارٹی کی کامیابی کی بنیاد رکھ دی تھی۔
بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم بن گئیں تو مسلم لیگ نے شکایت کی کہ جماعت کے چند ہزار ووٹوں نے توازن دوسری طرف کردیا، سید منور حسن نے جواب دیا کہ جب ہم اتنے اہم ہیں کہ تخت و تختے کا فیصلہ کرتے ہیں توہمیں اہمیت بھی اسی قدرملنی چاہیے۔
کالم میں اب تک ہم نے جماعت کی عمدہ تنظیم، مخلص کارکنان کی موجودگی، کم تر ہر دلعزیزی، پیپلزپارٹی سے دوری، ہر حلقہ انتخاب میں بکھرے ووٹ عمران خان و نواز شریف کی کانٹے دار مقبولیت پر گفتگو کرچکے ہیں۔ یہ طے ہے کہ گھمسان کے اس عالم میں پنجاب کے میدانوں، خیبر کے پہاڑوں اور کراچی کی سڑکوں پر معرکہ آرائی کے لیے جماعت کا فیصلہ ایک اہم فیصلہ ہوگا۔
اس کی بدولت ایک نئی کشمکش نے جماعت کے کارکنان میں جنم لیا ہے۔ فضل الرحمن، فاروق ستار، ولی خان، چوہدری شجاعت کی پارٹیوں کے اپنے اپنے حلقہ انتخابات ہیں۔ بلاول بھٹو اور سراج الحق کی پارٹیوں میں دوری کی نصف صدی کی تاریخ ہے، اسی لیے جماعت اگلے انتخابات کے حوالے سے دوراہے پر آگئی ہے، نواز شریف یا عمران خان؟ ایسی کشمکش جماعت کی قیادت اور کارکنوں میں کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ تحریک انصاف یا مسلم لیگ؟ ایسا نازک سوال جماعت کے سامنے کبھی نہیں آیا تھا مسلم لیگ کے علاوہ دائیں بازو کی کسی مقبول پارٹی کی عدم موجودگی نے اتحاد کے لیے ایک ہی راستہ یعنی لیگ سے اتحاد رکھا ہوا تھا۔ عمران خان کی مقبولیت کے علاوہ اور کیا ہے جس نے جماعت کو کشمکش میں مبتلا کردیا ہے؟
جماعت میں کشمکش کا سبب عمران کی باتیں ہیں،مدینے جیسی اسلامی ریاست، ''ایاک نعبد و ایاک نستعین'' اقبال کو پانچ سو سالہ اسلامی تاریخ کا ذہین ترین آدمی قرار دینا کرپشن سے پاک یعنی صالح معاشرہ پارٹی کے کارکن خواتین کو قرآن پاک ترجمے سے پڑھنے کی نصیحت کرنا سیرت پاکؐ اور خلفائے راشدینؓ کے واقعات اپنی تقریروں میں بیان کرنا،جماعت کے کارکنان جانتے ہیں کہ یہی باتیں تو مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کا حصہ ہیں، دوسری جانب اقبال ڈے کی تعطیل کا خاتمہ، شرمین عبید چنائے کی حوصلہ افزائی، بھارت سے دوستی کی شدید خواہش بھی جماعت میں عمران کے حامیوں کے پلے کو بھاری کرتی ہے، خیبر پختونخوا میں تین موثر وزارتیں اور سراج الحق کو سینیٹر بنانے کے لیے عمران کی سنجیدہ کوششیں بھی جماعت میں نواز شریف کے حامیوں کو بیک فٹ پرلے آتی ہیں تحریک انصاف کے جلسوں میں میوزک اور خواتین کی آمد اور عمران کا سیاسی لیڈروں کوللکارنے کا انداز جماعت میں لیگ کے حامیوں کے دلائل ہیں، عمران کی جانب سے قاضی حسین احمد،منور حسن اور سراج الحق کے لیے اچھے الفاظ کااستعمال اور نیک خیالات للکارنے والے دلائل کاتوڑ کہاجاتا ہے یوں جواب اور جواب الجواب ذہنوں اور زبانوں پر ہیں۔
شیر یا بلا؟ ہر دن گزرنے کے ساتھ جماعت میں کشمکش کو تیز کردے گا۔ اس حوالے سے کیا جماعت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی قیادتیں ایک صفحے پر ہیں؟ عمران خان اور نواز شریف کو لے کر یہ کشمکش آیندہ انتخابی نتائج میں فیصلہ کن ہوگی۔اتنی زیادہ فیصلہ کن کہ اس کے اثرات قومی اسمبلی میں پارٹیاں کے نمبرز پر بھی مرتب ہوںگے۔ گو مگو کی کیفیت ہے کہ لیگ یا تحریک۔ یہ ہے جماعت میں اضطرابی کیفیت، ایسی کیفیت پہلے نہیں تھی لیکن ضرور بالضرور ہے آج کی جماعت اسلامی میں کشمکش۔