ووٹ پاکستان
ملک میں بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں
ملک میں بھانت بھانت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، سیاسی طور پر کہنا چاہیے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ایک طرف چار پانچ MQM اور ایک طرفPSP کا شور و غلغلہ ہے تو دوسری طرف نوکری پکی کرنے والے سرکاری وزیروں کی چیخ و پکار اور ان دنوں تو جو کبھی معتبر تھے وہ بھی عوامی ہوگئے ہیں۔
بلاول زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کو فعال کرنے کے لیے خاصا زور لگارہے ہیں مگر فادر لائک سن والا معاملہ ہے۔ نانا تک ہاتھ نہیں پہنچ رہا اور سیاسی طور پر MQM کے زوال کی وجہ سے کراچی میں اس وقت پیپلزپارٹی کا طوطی بول رہا ہے کیوںکہ انھوں نیہیرو برانڈ وزیراعلیٰ مقرر کردیا ہے تو خاصا تفریح کا سامان ان دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کررہی ہے۔
مگر پیپلزپارٹی کی ایک عادت ہے کہ شادی کے بعد ''برأت سوجاتی ہے'' اور حسب معمول ایسا ہی ہوگا۔ نیند میں رخنہ PTI نے ڈال رکھا ہے۔ عمران خان کو ''جلدی'' ہے عمر نکل رہی ہے سیاسی بھی اور ویسے تو نکل چکی ہے اب اور آگے کیا کہنا۔وزیراعلیٰ سندھ کے لیے مشکل ٹائم شروع ہونے والا ہے۔ وہ سندھ کے ''جیالے'' وزیراعلیٰ ہیں یہ تو وہ اعلان کرچکے اور اس طرح انھوں نے رجحان کا بھی ذکر کردیا کہ جو کچھ ہوگا جیالوں کے لیے ہوگا۔ عام لوگوں کے لیے نہیں نوکریوں سے پابندی ہٹانے کے بعد دیکھ لیجیے گا تمام نوکریاں پاکستان پیپلزپارٹی کے عہدیداروں کو ملیںگی۔
پاکستان پیپلزپارٹی میرٹ پر نہیں سیاست پر یقین رکھتی ہے اور سیاسی فائدے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ سندھ میں جو بھی ادارے ہیں صوبائی وہ تباہی کے دہانوں سے نیچے جاچکے ہیں وجہ ان میں بے تحاشا بھرتیاں ہیں، دس کی جگہ سو آدمی بھرتی کردیے گئے پہلے بھی نتیجہ یہ کہ تالاب خالی ہی رہا۔
تالاب کا قصہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ فیصلہ ہوا کہ رات کو ہر شخص ایک بالٹی دودھ تالاب میں ڈالے گا تو صبح تالاب دودھ سے بھرا ہوگا، لوگ تھے آصف زرداری ماڈل، ہر ایک نے سوچا کہ اگر ایک میں پانی ڈال دوںگا تو کیا پتہ چلے گا لہٰذا صبح تالاب پانی سے بھرا ہوا تھا، دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا۔
اب پھر نوکریوں کا چکر، نوکریاں ہیں کہاں؟ کس جگہ لوگوں کو نوکریاں دی جارہی ہیں، ہر ڈپارٹمنٹ کا کمپارٹمنٹ فل ہے پہلے جو نوکریاں بیچی گئی تھیں اور لوگوں کو نکال دیاگیا تھا بعد میں اس کا ہی ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا ہے تو یہ نوکریاں کہاں سے آگئیں۔
سیاست ایک مکمل جھوٹ ہے پاکستان میں اور جو بڑی پارٹی ہے وہ بڑے جھوٹ بولتی ہے کاغذوں میں سڑک بن کر بعد میں مفاد عامہ میں بند کردی جاتی ہے دونوں صورتوں میں وزیروں، ٹھیکیداروں کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک قصہ ہے کہ اعلان ہوا کہ فلاں علاقے میں نہر کھودی جائے گی جیسے کہ اب سپر ہائی وے پر ہورہا ہے۔ اعلان ہوا ٹھیکا ہوا، رقم خزانے سے نکلی اور تقسیم ہوگئی، نہر کا نام و نشان نہ تھا۔ کافی عرصے بعد سرکار کے کسی ایماندار کو خیال ہوا کہ فلاں سن میں نہر تعمیر ہوئی تھی اس کا وزٹ کرنا چاہیے۔ یہ خبر باہر چلی گئی۔
آپ کو تو پتا ہے کہ پاکستان میں خبر نہ صرف باہر چلی جاتی ہے بلکہ ملک سے باہر چلی جاتی ہے اکثر ! تو علم ہوا ان کو جنھوں نے مال ہڑپ لیا تھا بہت پریشان ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری رشوت خور سے مشورہ کیا اور بندوبست بھی! جب اہل کار جائے واردات پر پہنچے تو دیکھا کہ تازہ مٹی کھدی پڑی ہے، تحقیقات کی تو ایک فائل سامنے آئی جس کے مطابق نہر کناروں سے پانی کے لیکیج کی وجہ سے کھیتوں کو نقصان پہنچا رہی تھی لہٰذا اسے بند کر دیا گیا اور اس کے بند کرنے کا ٹھیکا اور کام کے مکمل ہونے اور ادائیگی کے دستاویزات فائل میں موجود تھے یہ ہے پاکستان اور اس کی سیاسی پارٹیاں۔ یہ پارٹیاں واقعی ''پارٹیاں'' ہیں پاکستان کو لوٹنے کھسوٹنے کی شراکت دار۔
پاکستان کے عوام کو جو نہیں ملا وہ ہے چین اور آرام، نیند واپڈا لے گیا، آمدنی کو مہنگائی کھا گئی، نوکریوں کو رشوت نے نگل لیا، امر امیر ترین اور غریب غریب ترین وجہ عدم مساوات اور عدل و انصاف کی عدم فراہمی اور یہ کبھی نہ ہوسکے گا۔
لاکھوں روپے فیس ہے وکلا کی، سائل کو کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے، کہاں سے لائے، کورٹ کا خرچہ الگ اور دادا دعویٰ دائر کرے تو پوتے تک بھی انصاف نہیں ملتا کبھی کبھار کورٹ کو خیال آجاتا ہے تو وہ اعلان کردیتی ہے سستے انصاف کا حصول یقینی بنایا جائے گا۔ انصاف بھی اب دو قسم کا ہوتا ہے سستا اور مہنگا، شاید سستا چائنا کی بیڑی کی طرح ہوتا ہوگا کہ جلد ختم ہوجائے گا اور مہنگا انصاف Life Long کہ امیر غریب کی جائیداد ہڑپ لے تو امیر کو جو انصاف ملے گا اس کے مطابق غریب کو اس کی جائیداد کبھی واپس نہیں مل سکے گی۔
ہماری عادت ہے کہ پڑوسن کی طرح یعنی اس کی زبان کی طرح ہمارا قلم بھی رکتا نہیں ہر ایک کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتا ہے تو جہاں جانا ہو وہاں سے چار گلی اور آگے نکل جاتے ہیں۔ بات ہورہی تھی سندھ کے انیل کپور وزیراعلیٰ کی راتوں کو گھومتے ہیں اور جگہ جگہ چاٹ کھاتے، کوڑے کے ڈمپر دیکھتے ہیں اور دوسرے دن پھر دیکھتے ہیں۔ کوڑا وہیں ہے۔ وزیراعلیٰ بھی وہیں ہیں۔
ہوتا کچھ نہیں وزیراعلیٰ کی تفریح ہوجاتی ہے اور سرکاری شعبوں کی آمدنی، کام کریں گے یعنی وزیراعلیٰ کے ساتھ راتوں کو گھومیں گے تو خرچا تو ہوگا نا! تو ان دنوں دن کا خرچا الگ، رات کا خرچا الگ شاید ایسا ہورہا ہوگا توقع تو یہی ہے اگر اس کے برعکس ہورہا ہو تو تعجب کی بات ہے بہر حال لوگ خوش ہیں ان کو دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وزیراعلیٰ ایسا ہوتا ہے چھو کر دیکھ سکتے ہیں۔ مگر کام کوئی نہیں ہورہا۔ کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو تو ویسے بھی رات کو نیند نہیں آتی تھی کراچی کے رہنے والے ہیں، کام دام تو کچھ ہے نہیں بس وزیراعلیٰ ہیں تو سوتے ہی دن کے دو بجے ہیں، آٹھ بجے پھر تیار (دروغ بر گردن راوی) تو یوں رات کا دن اور دن کا رات وہ کام کی وجہ سے نہیں کررہے عادت ہی یہی ہے۔
ہمارا ایک مشورہ ہے وزیراعلیٰ کو جو کام ہوجائے اس کی تفصیل فیس بک پر ڈال دیں اور جو کام دکھائیں وہ بھی اگر ڈال سکیں تو تاکہ ریکارڈ بھی رہے گا اور عوام خود چیک بھی کرکے سوشل میڈیا پر بتاسکیں گے کہ کام ہو رہاہے۔ نہیں مگر نہر والا کام نہ کیجیے گا عوام کو چیک کرنے کی عادت پڑ جائے تو کرتی ہی رہتی ہے پھر!تو اچھا ہے کہ سندھ کی حد تک اگر سندھ کی سیاسی جماعتیں ایمانداری کا مظاہرہ کردیں تو سندھ خوشحال ہوسکتا ہے۔
اگر سندھ کی سیاسی جماعتیں بندر بانٹ میں لگی رہیں گی تو پھر ہم نام نہیں لکھ رہے آپ سب جانتے ہیں کہ فائدہ کس کو ہونے والا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ مرکز سندھ میں Divide & Rule کا کھیل کھیل رہا ہے کیوں کہ سندھ کے علاوہ مرکز کو کسی صوبے سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہے اور یہی دو صوبے ملک کے اقتدار میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔عمران خان کے کھیل تماشے کچھ دینے والے نہیں ہیں، ان کو چوتھی شادی کرلینی چاہیے نیا پاکستان نہیں بن رہا پرانا بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ مودی اور موذی مل گئے ہیں آپس میں موذی سے مراد وہ سب لوگ جو پاکستان کے دشمن ہیں چاہے وہ کوئی ہوں۔یہ سارے موذی رہتے پاکستان میں ہیں، کھاتے پاکستان کا ہیں، گاتے مودی کا ہیں۔ کہاں کہاں ہیں آپ جانتے ہیں ملک سے باہر بھی ہیں اندر بھی۔
پاکستان ایک انقلابی ملک ہے اس میں ہر وقت انقلاب آتا رہتا ہے بس ذرا جعلی انقلاب ہوتا ہے کیوں کہ وہ پاکستان کے لیے نہیں ہوتا اپنے لیے ہوتا ہے، سارے سیاسی مرغے اپنی اپنی بانگ دے رہے ہیں، انڈوں کا ٹائم آرہا ہے 2018 آیا کہ آیا، اب تو جاگ جاؤ اے پیارے پاکستانیو! پلیٹ فارم پر کب تک رہو گے، گاڑی پر تو امیروں، سیاست دانوں، غیر ملکیوں، پاکستان دشمنوں کا قبضہ ہے، اٹھو گے ڈبے میں چڑھو گے تو نکال باہر کروگے نا ان کو، اور یہ تم ہی کروگے اپنے ووٹ کے ذریعے اب نہ بیچنا ووٹ بھوکے رہ لینا بے گھر رہ لینا ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر پرچی ان کو نہ دے دینا ، یہ پرچی نہیں ہے، ملک ہے، وطن ہے، پاکستان ہے۔
بلاول زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کو فعال کرنے کے لیے خاصا زور لگارہے ہیں مگر فادر لائک سن والا معاملہ ہے۔ نانا تک ہاتھ نہیں پہنچ رہا اور سیاسی طور پر MQM کے زوال کی وجہ سے کراچی میں اس وقت پیپلزپارٹی کا طوطی بول رہا ہے کیوںکہ انھوں نیہیرو برانڈ وزیراعلیٰ مقرر کردیا ہے تو خاصا تفریح کا سامان ان دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کررہی ہے۔
مگر پیپلزپارٹی کی ایک عادت ہے کہ شادی کے بعد ''برأت سوجاتی ہے'' اور حسب معمول ایسا ہی ہوگا۔ نیند میں رخنہ PTI نے ڈال رکھا ہے۔ عمران خان کو ''جلدی'' ہے عمر نکل رہی ہے سیاسی بھی اور ویسے تو نکل چکی ہے اب اور آگے کیا کہنا۔وزیراعلیٰ سندھ کے لیے مشکل ٹائم شروع ہونے والا ہے۔ وہ سندھ کے ''جیالے'' وزیراعلیٰ ہیں یہ تو وہ اعلان کرچکے اور اس طرح انھوں نے رجحان کا بھی ذکر کردیا کہ جو کچھ ہوگا جیالوں کے لیے ہوگا۔ عام لوگوں کے لیے نہیں نوکریوں سے پابندی ہٹانے کے بعد دیکھ لیجیے گا تمام نوکریاں پاکستان پیپلزپارٹی کے عہدیداروں کو ملیںگی۔
پاکستان پیپلزپارٹی میرٹ پر نہیں سیاست پر یقین رکھتی ہے اور سیاسی فائدے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ سندھ میں جو بھی ادارے ہیں صوبائی وہ تباہی کے دہانوں سے نیچے جاچکے ہیں وجہ ان میں بے تحاشا بھرتیاں ہیں، دس کی جگہ سو آدمی بھرتی کردیے گئے پہلے بھی نتیجہ یہ کہ تالاب خالی ہی رہا۔
تالاب کا قصہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ فیصلہ ہوا کہ رات کو ہر شخص ایک بالٹی دودھ تالاب میں ڈالے گا تو صبح تالاب دودھ سے بھرا ہوگا، لوگ تھے آصف زرداری ماڈل، ہر ایک نے سوچا کہ اگر ایک میں پانی ڈال دوںگا تو کیا پتہ چلے گا لہٰذا صبح تالاب پانی سے بھرا ہوا تھا، دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا۔
اب پھر نوکریوں کا چکر، نوکریاں ہیں کہاں؟ کس جگہ لوگوں کو نوکریاں دی جارہی ہیں، ہر ڈپارٹمنٹ کا کمپارٹمنٹ فل ہے پہلے جو نوکریاں بیچی گئی تھیں اور لوگوں کو نکال دیاگیا تھا بعد میں اس کا ہی ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا ہے تو یہ نوکریاں کہاں سے آگئیں۔
سیاست ایک مکمل جھوٹ ہے پاکستان میں اور جو بڑی پارٹی ہے وہ بڑے جھوٹ بولتی ہے کاغذوں میں سڑک بن کر بعد میں مفاد عامہ میں بند کردی جاتی ہے دونوں صورتوں میں وزیروں، ٹھیکیداروں کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایک قصہ ہے کہ اعلان ہوا کہ فلاں علاقے میں نہر کھودی جائے گی جیسے کہ اب سپر ہائی وے پر ہورہا ہے۔ اعلان ہوا ٹھیکا ہوا، رقم خزانے سے نکلی اور تقسیم ہوگئی، نہر کا نام و نشان نہ تھا۔ کافی عرصے بعد سرکار کے کسی ایماندار کو خیال ہوا کہ فلاں سن میں نہر تعمیر ہوئی تھی اس کا وزٹ کرنا چاہیے۔ یہ خبر باہر چلی گئی۔
آپ کو تو پتا ہے کہ پاکستان میں خبر نہ صرف باہر چلی جاتی ہے بلکہ ملک سے باہر چلی جاتی ہے اکثر ! تو علم ہوا ان کو جنھوں نے مال ہڑپ لیا تھا بہت پریشان ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری رشوت خور سے مشورہ کیا اور بندوبست بھی! جب اہل کار جائے واردات پر پہنچے تو دیکھا کہ تازہ مٹی کھدی پڑی ہے، تحقیقات کی تو ایک فائل سامنے آئی جس کے مطابق نہر کناروں سے پانی کے لیکیج کی وجہ سے کھیتوں کو نقصان پہنچا رہی تھی لہٰذا اسے بند کر دیا گیا اور اس کے بند کرنے کا ٹھیکا اور کام کے مکمل ہونے اور ادائیگی کے دستاویزات فائل میں موجود تھے یہ ہے پاکستان اور اس کی سیاسی پارٹیاں۔ یہ پارٹیاں واقعی ''پارٹیاں'' ہیں پاکستان کو لوٹنے کھسوٹنے کی شراکت دار۔
پاکستان کے عوام کو جو نہیں ملا وہ ہے چین اور آرام، نیند واپڈا لے گیا، آمدنی کو مہنگائی کھا گئی، نوکریوں کو رشوت نے نگل لیا، امر امیر ترین اور غریب غریب ترین وجہ عدم مساوات اور عدل و انصاف کی عدم فراہمی اور یہ کبھی نہ ہوسکے گا۔
لاکھوں روپے فیس ہے وکلا کی، سائل کو کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے، کہاں سے لائے، کورٹ کا خرچہ الگ اور دادا دعویٰ دائر کرے تو پوتے تک بھی انصاف نہیں ملتا کبھی کبھار کورٹ کو خیال آجاتا ہے تو وہ اعلان کردیتی ہے سستے انصاف کا حصول یقینی بنایا جائے گا۔ انصاف بھی اب دو قسم کا ہوتا ہے سستا اور مہنگا، شاید سستا چائنا کی بیڑی کی طرح ہوتا ہوگا کہ جلد ختم ہوجائے گا اور مہنگا انصاف Life Long کہ امیر غریب کی جائیداد ہڑپ لے تو امیر کو جو انصاف ملے گا اس کے مطابق غریب کو اس کی جائیداد کبھی واپس نہیں مل سکے گی۔
ہماری عادت ہے کہ پڑوسن کی طرح یعنی اس کی زبان کی طرح ہمارا قلم بھی رکتا نہیں ہر ایک کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتا ہے تو جہاں جانا ہو وہاں سے چار گلی اور آگے نکل جاتے ہیں۔ بات ہورہی تھی سندھ کے انیل کپور وزیراعلیٰ کی راتوں کو گھومتے ہیں اور جگہ جگہ چاٹ کھاتے، کوڑے کے ڈمپر دیکھتے ہیں اور دوسرے دن پھر دیکھتے ہیں۔ کوڑا وہیں ہے۔ وزیراعلیٰ بھی وہیں ہیں۔
ہوتا کچھ نہیں وزیراعلیٰ کی تفریح ہوجاتی ہے اور سرکاری شعبوں کی آمدنی، کام کریں گے یعنی وزیراعلیٰ کے ساتھ راتوں کو گھومیں گے تو خرچا تو ہوگا نا! تو ان دنوں دن کا خرچا الگ، رات کا خرچا الگ شاید ایسا ہورہا ہوگا توقع تو یہی ہے اگر اس کے برعکس ہورہا ہو تو تعجب کی بات ہے بہر حال لوگ خوش ہیں ان کو دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وزیراعلیٰ ایسا ہوتا ہے چھو کر دیکھ سکتے ہیں۔ مگر کام کوئی نہیں ہورہا۔ کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو تو ویسے بھی رات کو نیند نہیں آتی تھی کراچی کے رہنے والے ہیں، کام دام تو کچھ ہے نہیں بس وزیراعلیٰ ہیں تو سوتے ہی دن کے دو بجے ہیں، آٹھ بجے پھر تیار (دروغ بر گردن راوی) تو یوں رات کا دن اور دن کا رات وہ کام کی وجہ سے نہیں کررہے عادت ہی یہی ہے۔
ہمارا ایک مشورہ ہے وزیراعلیٰ کو جو کام ہوجائے اس کی تفصیل فیس بک پر ڈال دیں اور جو کام دکھائیں وہ بھی اگر ڈال سکیں تو تاکہ ریکارڈ بھی رہے گا اور عوام خود چیک بھی کرکے سوشل میڈیا پر بتاسکیں گے کہ کام ہو رہاہے۔ نہیں مگر نہر والا کام نہ کیجیے گا عوام کو چیک کرنے کی عادت پڑ جائے تو کرتی ہی رہتی ہے پھر!تو اچھا ہے کہ سندھ کی حد تک اگر سندھ کی سیاسی جماعتیں ایمانداری کا مظاہرہ کردیں تو سندھ خوشحال ہوسکتا ہے۔
اگر سندھ کی سیاسی جماعتیں بندر بانٹ میں لگی رہیں گی تو پھر ہم نام نہیں لکھ رہے آپ سب جانتے ہیں کہ فائدہ کس کو ہونے والا ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ مرکز سندھ میں Divide & Rule کا کھیل کھیل رہا ہے کیوں کہ سندھ کے علاوہ مرکز کو کسی صوبے سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہے اور یہی دو صوبے ملک کے اقتدار میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔عمران خان کے کھیل تماشے کچھ دینے والے نہیں ہیں، ان کو چوتھی شادی کرلینی چاہیے نیا پاکستان نہیں بن رہا پرانا بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ مودی اور موذی مل گئے ہیں آپس میں موذی سے مراد وہ سب لوگ جو پاکستان کے دشمن ہیں چاہے وہ کوئی ہوں۔یہ سارے موذی رہتے پاکستان میں ہیں، کھاتے پاکستان کا ہیں، گاتے مودی کا ہیں۔ کہاں کہاں ہیں آپ جانتے ہیں ملک سے باہر بھی ہیں اندر بھی۔
پاکستان ایک انقلابی ملک ہے اس میں ہر وقت انقلاب آتا رہتا ہے بس ذرا جعلی انقلاب ہوتا ہے کیوں کہ وہ پاکستان کے لیے نہیں ہوتا اپنے لیے ہوتا ہے، سارے سیاسی مرغے اپنی اپنی بانگ دے رہے ہیں، انڈوں کا ٹائم آرہا ہے 2018 آیا کہ آیا، اب تو جاگ جاؤ اے پیارے پاکستانیو! پلیٹ فارم پر کب تک رہو گے، گاڑی پر تو امیروں، سیاست دانوں، غیر ملکیوں، پاکستان دشمنوں کا قبضہ ہے، اٹھو گے ڈبے میں چڑھو گے تو نکال باہر کروگے نا ان کو، اور یہ تم ہی کروگے اپنے ووٹ کے ذریعے اب نہ بیچنا ووٹ بھوکے رہ لینا بے گھر رہ لینا ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر پرچی ان کو نہ دے دینا ، یہ پرچی نہیں ہے، ملک ہے، وطن ہے، پاکستان ہے۔