صحافت میں آمد
میں ایک سیاسی کارکن تھا اور جماعت اسلامی سے متعلق تھا
میں ان خوش نصیب کارکن صحافیوں میں سے ہوں جنھیں اپنے دور کے نابغہ روز گار ایڈیٹروں کے تحت کام کرنے کا موقع ملا اور ان بدنصیب کارکن صحافیوں میں سے ہوں جو اتنا بڑا تاریخی موقع ملنے کے باوجود بڑے صحافی نہ بن سکے، بس قلم ماری ہی کرتے رہے لیکن صحافت سے چپکے اور چمٹے رہے۔ یہ اپنی اپنی قسمت اور نصیب کا معاملہ ہے۔ میں ان چند ایک عظیم المرتبت صحافیوں کے نام لوں گا تو آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے اور جب اپنی بس گزارے کی صحافت کا ذکر کروں گا تو آپ کو میری قسمت پر دکھ ہو گا اور مجھے ملامت کریں گے۔
میں ایک سیاسی کارکن تھا اور جماعت اسلامی سے متعلق تھا۔ بطور ایک سیاسی کارکن کے میں لاہور کے کافی ہائوس کا ایک مستقل مقیم تھا جو صبح نہا دھو کر ناشتے کے بعد مال روڈ پر واقع کافی ہائوس میں پہنچ جاتا تھا اور پھر دن کا زیادہ تر وقت اسی ریستوران میں سیاسی بحث و تمحیص میں گزر جاتا۔ جماعت کے ایک سرگرم کارکن عبدالمجید قریشی صاحب جو کافی ہائوس کی اونچی عمارت کی ایک منزل میں مقیم تھے میرے سرپرست تھے یاد نہیں ان کا کاروبار کیا تھا مگر کچھ ایسے خوش حال نہ تھے تاہم کبھی میرا بل ادا کر دیتے تھے ویسے مجھے گائوں سے مالی مدد ملتی رہتی تھی۔
بہرکیف اس طرح کافی ہائوس میں میری نشست چلتی رہتی تھی اور سیاسی کارکن بھی شمار کیا جاتا تھا۔ اسی کافی ہائوس میں شام کے وقت لاہور کے بعض دانشوروں کی مجلس جمتی تھی۔ جناب حمید نظامی، شیخ خورشید، شورش کاشمیری اور کئی دوسرے دانشور۔ نظامی صاحب کے ساتھ اگرچہ میری ملاقات صرف دور سے دیکھنے تک محدود تھی لیکن میری کافی ہائوس میں باقاعدہ نشست کی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ میں کیا کرتا ہوں اور یہاں کیوں آیا جایا کرتا ہوں۔ انھی دنوں مجھے گائوں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سے میں نے گائوں کی آزاد فضا سے جانے کیوں جناب نظامی صاحب کو خط لکھا کہ میں صحافت میں آنا چاہتا ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کا طلب گار ہوں۔
کوئی دو تین دن بعد ہی ان کا خط ملا کہ صحافت ایک مشکل پیشہ ہے صرف باہر سے اچھا دکھائی دیتا ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ میں اس خط کا جواب دیے بغیر خود لاہور میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ وہ ٹمپل روڈ پر رہتے تھے اور شام کے وقت باہر لان میں بیٹھتے تھے میں نے سلام کیا تو بولے آپ اتنی جلدی آ گئے۔ ان کے بچے پاس ہی کھیل رہے تھے انھوں نے عارف کو آواز دی کہ چائے لائو اور پھر عام سی غیر صحافی قسم کی باتیں ہوتی رہیں چائے پی اور نظامی صاحب نے کہا کہ آپ کل صبح دفتر میں شیخ صاحب سے مل لیں۔ یہ تھے شیخ حامد محمود جو ادارے کے نگران تھے اور نظامی صاحب کے پرانے دوست بلکہ حصہ دار بھی چنانچہ میں شیخ صاحب سے ملا۔ یہ ہر صبح دفتر آنے سے پہلے نظامی صاحب سے گھر پر ملکر آتے تھے۔
میرے بارے میں فیصلہ ان کو معلوم تھا اور پھرایک غیر معمولی عجیب بات ہوئی۔ شیخ صاحب نے میری تنخواہ وغیرہ کی جگہ مجھ سے میرے اخراجات معلوم کرنے شروع کر دیے کہ میں یہاں کہاں رہتا ہوں اس کا کرایہ کیا ہے کھانا پینا کہاں سے ہوتا ہے حتی کہ دھوبی اور حجام تک کا خرچہ بھی معلوم کیا اور تمام اخراجات کی پوری میزان کوئی ایک سو روپے بنی جس پر انھوں نے بیس روپے میرا جیب خرچ کہہ کر میری ایک سو بیس روپے تنخواہ مقرر کر دی اور اس طرح میں صحافت میں داخل ہو گیا۔ ایک ایسی دنیا جو بلاشبہ باہر سے دلچسپ مگر اندر سے شدید مشکل لیکن یہ آزادانہ انتخاب تھا اور میری خوش قسمتی کہ مجھے صحافت ایک بڑے اخبار سے شروع کرنے کا موقع مل گیا۔ نوائے وقت۔ یہ ایک پارٹی باز نظریاتی اخبار تھا جو میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپر یعنی پاکستان ٹائمز، امروز کے مدمقابل تھا۔یہ اخبار ترقی پسند کہلاتے تھے اور عالمی روسی صحافت یعنی مارکسزم کے علمبردار تھے۔
ایک طرف یہ مضبوط صحافتی ادارہ تھا دوسری طرف اکیلا نوائے وقت لیکن دونوں میں صحافتی جنگ بہت زور سے جاری رہتی تھی اور اس کی وجہ تھی نوائے وقت کی ادارت جس پر جناب حمید نظامی فائز تھے اور انھی کی سرپرستی میں یہ نیا صحافی اس پیشے میں داخل ہو گیا۔ جناب حمید نظامی وفات پا گئے ان کی جگہ لندن میں مقیم ان کے بھائی مجید نظامی آ گئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ میں اس کمرے میں موجود تھا جس میں مرحوم حمید نظامی زندگی کے آخری سانس لے رہے تھے۔ مجید صاحب جب لندن سے سیدھے ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو مرحوم نے کہا تم آ گئے میں تمہارا انتظار کر رہا تھا اور یوں نوائے وقت کا نیا دور اور میری کچی پکی صحافت کا ایک نیا زمانہ شروع ہوا جس پر سے حمید نظامی جیسی شخصیت کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ پاکستانی صحافت کا یہ زمانہ ان سب لوگوں کو یاد ہے جو ان دنوں سیاسی دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور صحافت کے بغیر ان کی سیاست نہیں چل سکتی تھی۔
میں ایک سیاسی کارکن تھا اور جماعت اسلامی سے متعلق تھا۔ بطور ایک سیاسی کارکن کے میں لاہور کے کافی ہائوس کا ایک مستقل مقیم تھا جو صبح نہا دھو کر ناشتے کے بعد مال روڈ پر واقع کافی ہائوس میں پہنچ جاتا تھا اور پھر دن کا زیادہ تر وقت اسی ریستوران میں سیاسی بحث و تمحیص میں گزر جاتا۔ جماعت کے ایک سرگرم کارکن عبدالمجید قریشی صاحب جو کافی ہائوس کی اونچی عمارت کی ایک منزل میں مقیم تھے میرے سرپرست تھے یاد نہیں ان کا کاروبار کیا تھا مگر کچھ ایسے خوش حال نہ تھے تاہم کبھی میرا بل ادا کر دیتے تھے ویسے مجھے گائوں سے مالی مدد ملتی رہتی تھی۔
بہرکیف اس طرح کافی ہائوس میں میری نشست چلتی رہتی تھی اور سیاسی کارکن بھی شمار کیا جاتا تھا۔ اسی کافی ہائوس میں شام کے وقت لاہور کے بعض دانشوروں کی مجلس جمتی تھی۔ جناب حمید نظامی، شیخ خورشید، شورش کاشمیری اور کئی دوسرے دانشور۔ نظامی صاحب کے ساتھ اگرچہ میری ملاقات صرف دور سے دیکھنے تک محدود تھی لیکن میری کافی ہائوس میں باقاعدہ نشست کی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ میں کیا کرتا ہوں اور یہاں کیوں آیا جایا کرتا ہوں۔ انھی دنوں مجھے گائوں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سے میں نے گائوں کی آزاد فضا سے جانے کیوں جناب نظامی صاحب کو خط لکھا کہ میں صحافت میں آنا چاہتا ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کا طلب گار ہوں۔
کوئی دو تین دن بعد ہی ان کا خط ملا کہ صحافت ایک مشکل پیشہ ہے صرف باہر سے اچھا دکھائی دیتا ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ میں اس خط کا جواب دیے بغیر خود لاہور میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ وہ ٹمپل روڈ پر رہتے تھے اور شام کے وقت باہر لان میں بیٹھتے تھے میں نے سلام کیا تو بولے آپ اتنی جلدی آ گئے۔ ان کے بچے پاس ہی کھیل رہے تھے انھوں نے عارف کو آواز دی کہ چائے لائو اور پھر عام سی غیر صحافی قسم کی باتیں ہوتی رہیں چائے پی اور نظامی صاحب نے کہا کہ آپ کل صبح دفتر میں شیخ صاحب سے مل لیں۔ یہ تھے شیخ حامد محمود جو ادارے کے نگران تھے اور نظامی صاحب کے پرانے دوست بلکہ حصہ دار بھی چنانچہ میں شیخ صاحب سے ملا۔ یہ ہر صبح دفتر آنے سے پہلے نظامی صاحب سے گھر پر ملکر آتے تھے۔
میرے بارے میں فیصلہ ان کو معلوم تھا اور پھرایک غیر معمولی عجیب بات ہوئی۔ شیخ صاحب نے میری تنخواہ وغیرہ کی جگہ مجھ سے میرے اخراجات معلوم کرنے شروع کر دیے کہ میں یہاں کہاں رہتا ہوں اس کا کرایہ کیا ہے کھانا پینا کہاں سے ہوتا ہے حتی کہ دھوبی اور حجام تک کا خرچہ بھی معلوم کیا اور تمام اخراجات کی پوری میزان کوئی ایک سو روپے بنی جس پر انھوں نے بیس روپے میرا جیب خرچ کہہ کر میری ایک سو بیس روپے تنخواہ مقرر کر دی اور اس طرح میں صحافت میں داخل ہو گیا۔ ایک ایسی دنیا جو بلاشبہ باہر سے دلچسپ مگر اندر سے شدید مشکل لیکن یہ آزادانہ انتخاب تھا اور میری خوش قسمتی کہ مجھے صحافت ایک بڑے اخبار سے شروع کرنے کا موقع مل گیا۔ نوائے وقت۔ یہ ایک پارٹی باز نظریاتی اخبار تھا جو میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپر یعنی پاکستان ٹائمز، امروز کے مدمقابل تھا۔یہ اخبار ترقی پسند کہلاتے تھے اور عالمی روسی صحافت یعنی مارکسزم کے علمبردار تھے۔
ایک طرف یہ مضبوط صحافتی ادارہ تھا دوسری طرف اکیلا نوائے وقت لیکن دونوں میں صحافتی جنگ بہت زور سے جاری رہتی تھی اور اس کی وجہ تھی نوائے وقت کی ادارت جس پر جناب حمید نظامی فائز تھے اور انھی کی سرپرستی میں یہ نیا صحافی اس پیشے میں داخل ہو گیا۔ جناب حمید نظامی وفات پا گئے ان کی جگہ لندن میں مقیم ان کے بھائی مجید نظامی آ گئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ میں اس کمرے میں موجود تھا جس میں مرحوم حمید نظامی زندگی کے آخری سانس لے رہے تھے۔ مجید صاحب جب لندن سے سیدھے ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو مرحوم نے کہا تم آ گئے میں تمہارا انتظار کر رہا تھا اور یوں نوائے وقت کا نیا دور اور میری کچی پکی صحافت کا ایک نیا زمانہ شروع ہوا جس پر سے حمید نظامی جیسی شخصیت کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ پاکستانی صحافت کا یہ زمانہ ان سب لوگوں کو یاد ہے جو ان دنوں سیاسی دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور صحافت کے بغیر ان کی سیاست نہیں چل سکتی تھی۔