اتفاق ِرائے اور قومی یکجہتی۔ احسن اقبال کے خیالات
پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور آزادی صحافت کے لیے صحافیوں، ایڈیٹرز اور مالکان اخبارات نے ایک طویل جدوجہد کی ہے
پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور آزادی صحافت کے لیے صحافیوں، ایڈیٹرز اور مالکان اخبارات نے ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ عوام کو اطلاعات کی فراہمی اور قارئین کی فکری رہنمائی کے لیے اخبارات و رسائل کا کردار بہت اہم ہے۔ قومی معاملات ہوں یا سماجی مسائل، معیشت ہو یا دفاع، امن عامہ کی خرابی ہو یا انصاف میں تاخیر، تعلیم کا موضوع ہو یا خواتین کی حق تلفی کا، غرض ملک و قوم سے متعلق کوئی بھی موضوع ہو پرنٹ میڈیا ہر میدان، ہر شعبے میں سرگرم عمل رہا ہے۔
پاکستان کو درپیش دفاعی، معاشی ، سیاسی ، سماجی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے قومی یکجہتی اور قومی اتفاقِ رائے کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستانی اخبارات اپنے خبری اور ادارتی صفحات پر مختلف معاملات پر قومی اتفاقی رائے اور یکجہتی کی ضرورت کا احساس مسلسل دلا رہے ہیں۔ اس اہم موضوع پر پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں کے نقطۂ نظر سے مزید اور قریبی آگہی کے لیے پاکستان کے اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز کی تنظیم ، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (CPNE) نے اسلام آباد میں ایک قومی یکجہتی کانفرنس منعقد کی۔ سی پی این ای کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کاوش ہے۔ اس اہم پیش رفت کا سہرا سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد اور سیکریٹری جنرل اعجاز الحق کے سر ہے۔
سی پی این ای کے ان دونوں عہدیداران نے اس کانفرنس کے ذریعے اخبارات کے قومی کردار کی اجتماعی ادائیگی کا اہتمام احسن طریقے پر کیا۔ سی پی این ای کی اس کاوش کو صرف اراکین سی پی این ای ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی، سماجی اور دیگر کئی حلقوں میں بھی تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں ایڈیٹرز کے نقطہ ہائے نظر کی نمایندگی سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد اور سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، پاکستان کے سینئر ایڈیٹرز مجیب الرحمن شامی ، جمیل اطہر قاضی، امتیاز عالم، مہتاب علی عباسی، اکرام سہگل، ڈاکٹر جبار خٹک اور عامر محمود نے کی۔
حکومتی جماعت کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر احسن اقبال ، اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی محترمہ شیری رحمٰن، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ فاروق ستار، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل فضل الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک اور بلوچستان اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر سردار وزیر احمد خان جوگیزئی نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ سی پی این ای نے پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن اس جماعت کی نمایندگی وہاں نظر نہیں آئی۔
ایڈیٹرز کے اس منفرد اجتماع کے بالغ فکر ماحول کا اثر تھا یا کچھ اور وجہ تھی، میں نے محسوس کیا کہ سیاسی لیڈر عام ڈگر سے ہٹ کر کھلے ذہن اور کھلے دل سے بات کررہے ہیں۔ گو کہ سب ہی اپنے اپنے دیرینہ موقف پر قائم رہتے ہوئے بات کررہے تھے لیکن ان کی باتوں سے دوسروں کے لیے گنجائش اور حقیقت پسندی کا احساس بھی ہورہا تھا۔ سیاسی لیڈروں کی جانب سے مینڈیٹ کے احترام اور قوم کے حقوق کی پاسداری کی باتیں بھی ہورہی تھیں۔ وفاقی وزیر احسن اقبال تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایک اچھے منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ مدلل گفتگو کرنے والے ایک پرجوش مقرر بھی ہیں۔ اپنے خطاب میں انھوں نے ملک میں کئی دہائیوں سے موجود دائیں اور بائیں بازو کے نظریات اور اس بنیاد پر پولرائزیشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب رائٹ اور لیفٹ کے بجائے رائٹ اور رانگ (صحیح اور غلط) کی سیاست کرنی چاہیے۔
احسن اقبال کا شمار ہمارے ملک کے سینئر اور کمیٹڈ سیاست دانوں میں ہوتا ہے ۔ اپنے طویل سیاسی کیریئر میں انھوں نے کئی مشکل اور دشوار حالات کا سامنا کیا ہے۔ ایک سیاسی گھرانے کے فرزند احسن اقبال نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں زمانہ طالب علمی کے دوران ہی اجتماعی معاملات میں دلچسپی اور سیاسی امور میں شمولیت کا آغاز کردیا تھا۔ 1970ء کے دوسرے نصف حصے میں اس مقصد کے لیے انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے فورم سے اپنا عملی کردار ادا کرنا شروع کیا تھا۔ عملی سیاست کے لیے انھوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا انتخاب کیا اور اسی جماعت میں استقامت کے ساتھ تیسری دہائی گزار رہے ہیں۔ احسن اقبال انجینئر ہیں، استاد بھی رہ چکے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں نواز شریف کی جلا وطنی کے دوران انتہائی مشکل اور مخالفانہ حالات میں جن لوگوں نے مسلم لیگ (ن) کو متحد رکھنے اور جماعت کے امور چلاتے رہنے کے لیے بہت کوششیں کیں ان میں احسن اقبال بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے ایک اہم سیاست دان کے لیے ان تعارفی جملوں کا مقصد اپنا یہ احساس قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ہے کہ دانش و معلمی کے امتزاج، مستحکم سیاسی وابستگی اور کئی اہم ذمے داریوں کی ادائیگی کا تجربہ رکھنے والی شخصیت کے خیالات توجہ سے سماعت کا حق رکھتے ہیں۔ البتہ کسی بھی مقتدر، معلم یا مبلغ کے الفاظ کو اس کے یا اس کے ادارے کے عمل کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔
سینیئر سیاست دان احسن اقبال نے شاید اپنے تجربات کی بنیاد پر بالکل درست کہا کہ اب رائٹ اور لیفٹ کی سیاست کے بجائے رائٹ اور رانگ کی بنیاد پر سیاست ہونی چاہیے۔ پاکستان کی سیاست میں زیادہ تر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فارمولے پر ہی عمل ہوتا رہا ہے۔ ایسا صرف فوجی حکومتوں میں ہی نہیں ہوابلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب جمہوری حکومتوں میں بھی قانونی موشگافیوں کے ذریعے لاٹھی کے استعمال کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
جمہوری نظام کے مثبت اثرات کے حصول کے لیے پاکستان کے پولیٹیکل کلچر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کو خود عوام کے سامنے حقیقی معنوں میں جواب دہ ہونا لازم ہے۔ ریاست کے ہر ستون کے ذمے دار اور وابستگان اپنے حقوق، اختیارات اور مراعات کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان میں اپنی ذمے داریوں کا ادراک اور جواب دہی کا احساس کتنا ہے اس بارے میں عوامی حلقوں میں ابہام پایا جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں اب رائٹ یا رانگ کا خیال رکھنا چاہیے، یہ خیال بہت اچھا ہے۔ امید ہے کہ ملک میں جمہوریت سے توقعات وابستہ رکھنے والا ہر فرد اس کی تائید کرے گا۔ تاہم اس خیال کو روبہ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست میں اچھائی اور برائی کی تعریف (Definition) بیان کردی جائے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہاں اصولوں کی تعریف اور ان کے اطلاق کا محل تبدیل ہوتا رہا ہے۔
ایک جماعت اپوزیشن میں جس عمل کو آزادی اظہار یا جمہوری حق سمجھتی ہے وہی جماعت اقتدار میں آکر اسی عمل کو قانون کے خلاف اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دینے لگتی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی، دفاع کی مضبوطی، سماجی بہتری کے لیے صحیح پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔ پالیسیوں کے تسلسل کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام کے لیے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں کھیل کے قواعد (Rules Of Game) کی پابندی ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کھیل کے قواعد آئین کے احترام اور قانون کی بالادستی اور پاکستانی قوم کی فلاح کے جذبے سے تشکیل دیے گئے ہوں۔
ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اتفاق رائے کے ساتھ دور رس مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔ رائٹ اور رانگ سیاست کی تعریف بھی حکومت اور اپوزیشن کے سیاست دانوں، قومی معاملوں میں دلچسپی رکھنے والے دانشوروں، ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں، اساتذہ اور دیگر معتبر افراد کے مشوروں کے ساتھ طے کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو درپیش دفاعی، معاشی ، سیاسی ، سماجی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے قومی یکجہتی اور قومی اتفاقِ رائے کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستانی اخبارات اپنے خبری اور ادارتی صفحات پر مختلف معاملات پر قومی اتفاقی رائے اور یکجہتی کی ضرورت کا احساس مسلسل دلا رہے ہیں۔ اس اہم موضوع پر پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں کے نقطۂ نظر سے مزید اور قریبی آگہی کے لیے پاکستان کے اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز کی تنظیم ، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (CPNE) نے اسلام آباد میں ایک قومی یکجہتی کانفرنس منعقد کی۔ سی پی این ای کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی کاوش ہے۔ اس اہم پیش رفت کا سہرا سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد اور سیکریٹری جنرل اعجاز الحق کے سر ہے۔
سی پی این ای کے ان دونوں عہدیداران نے اس کانفرنس کے ذریعے اخبارات کے قومی کردار کی اجتماعی ادائیگی کا اہتمام احسن طریقے پر کیا۔ سی پی این ای کی اس کاوش کو صرف اراکین سی پی این ای ہی نہیں بلکہ ملک کے سیاسی، سماجی اور دیگر کئی حلقوں میں بھی تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں ایڈیٹرز کے نقطہ ہائے نظر کی نمایندگی سی پی این ای کے صدر ضیاء شاہد اور سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، پاکستان کے سینئر ایڈیٹرز مجیب الرحمن شامی ، جمیل اطہر قاضی، امتیاز عالم، مہتاب علی عباسی، اکرام سہگل، ڈاکٹر جبار خٹک اور عامر محمود نے کی۔
حکومتی جماعت کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر احسن اقبال ، اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کی محترمہ شیری رحمٰن، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ فاروق ستار، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل فضل الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک اور بلوچستان اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر سردار وزیر احمد خان جوگیزئی نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ سی پی این ای نے پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی لیکن اس جماعت کی نمایندگی وہاں نظر نہیں آئی۔
ایڈیٹرز کے اس منفرد اجتماع کے بالغ فکر ماحول کا اثر تھا یا کچھ اور وجہ تھی، میں نے محسوس کیا کہ سیاسی لیڈر عام ڈگر سے ہٹ کر کھلے ذہن اور کھلے دل سے بات کررہے ہیں۔ گو کہ سب ہی اپنے اپنے دیرینہ موقف پر قائم رہتے ہوئے بات کررہے تھے لیکن ان کی باتوں سے دوسروں کے لیے گنجائش اور حقیقت پسندی کا احساس بھی ہورہا تھا۔ سیاسی لیڈروں کی جانب سے مینڈیٹ کے احترام اور قوم کے حقوق کی پاسداری کی باتیں بھی ہورہی تھیں۔ وفاقی وزیر احسن اقبال تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایک اچھے منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ مدلل گفتگو کرنے والے ایک پرجوش مقرر بھی ہیں۔ اپنے خطاب میں انھوں نے ملک میں کئی دہائیوں سے موجود دائیں اور بائیں بازو کے نظریات اور اس بنیاد پر پولرائزیشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب رائٹ اور لیفٹ کے بجائے رائٹ اور رانگ (صحیح اور غلط) کی سیاست کرنی چاہیے۔
احسن اقبال کا شمار ہمارے ملک کے سینئر اور کمیٹڈ سیاست دانوں میں ہوتا ہے ۔ اپنے طویل سیاسی کیریئر میں انھوں نے کئی مشکل اور دشوار حالات کا سامنا کیا ہے۔ ایک سیاسی گھرانے کے فرزند احسن اقبال نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں زمانہ طالب علمی کے دوران ہی اجتماعی معاملات میں دلچسپی اور سیاسی امور میں شمولیت کا آغاز کردیا تھا۔ 1970ء کے دوسرے نصف حصے میں اس مقصد کے لیے انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے فورم سے اپنا عملی کردار ادا کرنا شروع کیا تھا۔ عملی سیاست کے لیے انھوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا انتخاب کیا اور اسی جماعت میں استقامت کے ساتھ تیسری دہائی گزار رہے ہیں۔ احسن اقبال انجینئر ہیں، استاد بھی رہ چکے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور صدارت میں نواز شریف کی جلا وطنی کے دوران انتہائی مشکل اور مخالفانہ حالات میں جن لوگوں نے مسلم لیگ (ن) کو متحد رکھنے اور جماعت کے امور چلاتے رہنے کے لیے بہت کوششیں کیں ان میں احسن اقبال بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے ایک اہم سیاست دان کے لیے ان تعارفی جملوں کا مقصد اپنا یہ احساس قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ہے کہ دانش و معلمی کے امتزاج، مستحکم سیاسی وابستگی اور کئی اہم ذمے داریوں کی ادائیگی کا تجربہ رکھنے والی شخصیت کے خیالات توجہ سے سماعت کا حق رکھتے ہیں۔ البتہ کسی بھی مقتدر، معلم یا مبلغ کے الفاظ کو اس کے یا اس کے ادارے کے عمل کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔
سینیئر سیاست دان احسن اقبال نے شاید اپنے تجربات کی بنیاد پر بالکل درست کہا کہ اب رائٹ اور لیفٹ کی سیاست کے بجائے رائٹ اور رانگ کی بنیاد پر سیاست ہونی چاہیے۔ پاکستان کی سیاست میں زیادہ تر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فارمولے پر ہی عمل ہوتا رہا ہے۔ ایسا صرف فوجی حکومتوں میں ہی نہیں ہوابلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب جمہوری حکومتوں میں بھی قانونی موشگافیوں کے ذریعے لاٹھی کے استعمال کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
جمہوری نظام کے مثبت اثرات کے حصول کے لیے پاکستان کے پولیٹیکل کلچر میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کو خود عوام کے سامنے حقیقی معنوں میں جواب دہ ہونا لازم ہے۔ ریاست کے ہر ستون کے ذمے دار اور وابستگان اپنے حقوق، اختیارات اور مراعات کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان میں اپنی ذمے داریوں کا ادراک اور جواب دہی کا احساس کتنا ہے اس بارے میں عوامی حلقوں میں ابہام پایا جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں اب رائٹ یا رانگ کا خیال رکھنا چاہیے، یہ خیال بہت اچھا ہے۔ امید ہے کہ ملک میں جمہوریت سے توقعات وابستہ رکھنے والا ہر فرد اس کی تائید کرے گا۔ تاہم اس خیال کو روبہ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست میں اچھائی اور برائی کی تعریف (Definition) بیان کردی جائے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ہاں اصولوں کی تعریف اور ان کے اطلاق کا محل تبدیل ہوتا رہا ہے۔
ایک جماعت اپوزیشن میں جس عمل کو آزادی اظہار یا جمہوری حق سمجھتی ہے وہی جماعت اقتدار میں آکر اسی عمل کو قانون کے خلاف اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دینے لگتی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی، دفاع کی مضبوطی، سماجی بہتری کے لیے صحیح پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔ پالیسیوں کے تسلسل کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام کے لیے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں کھیل کے قواعد (Rules Of Game) کی پابندی ضروری ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کھیل کے قواعد آئین کے احترام اور قانون کی بالادستی اور پاکستانی قوم کی فلاح کے جذبے سے تشکیل دیے گئے ہوں۔
ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اتفاق رائے کے ساتھ دور رس مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔ رائٹ اور رانگ سیاست کی تعریف بھی حکومت اور اپوزیشن کے سیاست دانوں، قومی معاملوں میں دلچسپی رکھنے والے دانشوروں، ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں، اساتذہ اور دیگر معتبر افراد کے مشوروں کے ساتھ طے کرنے کی ضرورت ہے۔