عبدالرحیم باغدروی نقشبندی ؒ
درج بالا شعر کو جن معنی میں، میں لے رہا ہوں وہ مفہوم پیش ہے۔ ’’میں اور تُو کا فرق فریب نظر ہے.
مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
پِلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ہو
درج بالا شعر کو جن معنی میں، میں لے رہا ہوں وہ مفہوم پیش ہے۔ ''میں اور تُو کا فرق فریب نظر ہے، جب سے میرے ساقی نے مجھے لا الہ الااللہ کا جام پلایا ہے۔ زندگی اور موت کا فرق مٹ گیا ہے، کیوں کہ لا الہ الا اللہ کے بعد ''میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا'' اللہ اور صرف اللہ کے لیے ہوجاتا ہے۔ یہی امر ہونا یا حیات جاوداں ہے۔ کئی زندہ بھی مردہ ہیں اور کئی مر کر بھی زندہ ہیں۔ 10 محرم الحرام ہے شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دن ہے۔
اسی تناظر میں یہ شعر یاد آیا۔ یہ لازوال زندگانی اور بے مثال قربانی کا دن ہے۔ یہ ان سروں کے لیے مشعل راہ ہے جو کسی طاغوتی طاقت کے سامنے جھکنا نہیں جانتے۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ادارے کا نام ہے جس سے قیامت تک آنے والے انسان عزم و ہمت، جرأت و عظمت کا درس لیتے رہیں گے۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شمع کا نام ہے، جس کی روشنی میں قیامت تک بہادروں کے قافلے عظمتوں کی منزل کی طرف چلا کریں گے، یہ حق کی فتح کا کتنا بڑا ثبوت ہے کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کٹوا کر بھی امر ہیں اور فتح پاکر بھی یزیدیت کا نام و نشان مٹ گیا۔ جس نے لاالہ الا اللہ کے ذریعے یہ سمجھ لیا کہ زندگی موت میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرا مسئلہ حصول مقصد حیات ہے۔
یہ نشہ، یہ سرور انہیں حاصل ہوتا ہے جو زندگی اور موت کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ کام مشکل ہے، میں پوچھتا ہوں کیا اس میں کوئی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ تو بوجھ سے نجات دلاتا ہے۔ زندگی اور موت کا مسئلہ کیا ہے، شاید اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ ''میں اپنی مرضی سے زندہ ہوں نہ اپنی مرضی سے مروں گا، اس لیے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔'' صحت کا خیال رکھنا میری ذمے داری ہے، علاج کے نتیجے میں، میں زندہ رہتا ہوں یا نہیں، نہ یہ میرے بس میں ہے اور نہ میرے علم میں۔ اس لیے یہ میرا مسئلہ نہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے جو حکم دیا گیا ہے۔ اس پر عمل کروں، زندگی اور موت کے مسئلے کو اگر پھر بھی میں اپنا مسئلہ سمجھتا ہوں تو پھر مال و دولت جمع کرنا بھی میرا مسئلہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر سے میرا ایمان اٹھ جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کے چکر میں حلال حرام کی تمیز کھو دوں گا۔
موت کو بھلا دوں گا۔ سب سے بڑی ناکامی کو سب سے بڑی کام یابی سمجھوں گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈال دوں گا، جوکہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔ ایک سے ایک مسئلہ جڑ کر مسائل کا انبار لگ جائے گا۔ زندگی فضول مسائل کے بوجھ تلے دب جائے گی اور پتا ہی نہیں چلے گا کہ زندگی ختم ہوگئی اور موت آگئی۔ حالاںکہ مسائل کے جال میں، میں خود پھنسا ہوں۔ اس میں کسی کا کوئی قصور ہی نہیں ہے۔ نہ زندگی کا مقصد یاد رہا نہ اس کے حصول کی کوئی کوشش کی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ دنیا میں بڑا آدمی کہلالوں گا، مگر قیامت کے دن میرے پاس میرے اعمال کا کیا جواب اور کیا جواز ہوگا؟
حضرت علامہ محمد اقبالؒؒ اپنی نظم ''پیرومرید'' میں خود مریدِ ہندی ہیں اور حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ پیر ہیں۔ مرید ہندی سوال کرتا ہے اور پیر رومیؒ جواب دیتا ہے۔ مرید ہندی کا سوال اور پیر رومی کا جواب ملاحظہ ہو۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ قوموں کا درد رکھنے والے کیسی سو چ رکھتے ہیں۔
سوال:
علم و حکمت کا ملے کیوںکر سراغ
کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ؟
جواب:
علم و حکمت زائد ازنانِ حلال
عشق و رقّت آید از نان حلال
فقر و درویشی میں سالک کے لیے پہلا سبق رزق حلال ہے۔ رزق حلال سے مراد ہر آلائش سے پاک روزی ہے، پہلا یہ کہ جس سے غذا خریدی ہے، اس کے ذرائع حلال ہوں، یعنی اس کے حصول میں کوئی بد دیانتی شامل نہ ہو، پھر اگر صاحب نصاب ہے تو اس میں سے زکوٰۃ دی گئی ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ کھائے پیے، جس کے کھانے پینے کی ممانعت ہو۔ حرام کی ان دونوں صورتوں سے بچا جائے تو اس کا نتیجہ پیر رومی حسب ذیل بتاتے ہیں۔
ترجمہ: ''حلال روٹی سے علم و حکمت میں اضافہ ہوتا ہے، مزید برآں حلال روٹی سے عشق و رقّت پیدا ہوتی ہے۔''
ہمارا قومی المیہ علم و حکمت کا فقدان ہے، اس لیے کہ رزق حلال کا ہمارے ہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ حرام ہمارے رگ و پے میں رچ بس گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لیے حرام کی نہیں حلال کی ممانعت ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ مٹی بالکل ہی بانجھ ہوگئی ہے۔ حلال کی خواہش رکھنے والے بھی بے شمار لوگ اسی معاشرے میں موجود ہیں، مگر حلال کے دروازوں کو بند کرنے کا ہمارے معقول انتظام موجود ہے۔ ملتا ضرور ہے مگر مشکل سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے اوپر علم و حکمت کے دروازے پکے بند کرلیے ہیں کہ کسی طرح بھی ہمارے معاشرے میں در نہ آئے۔ اصلاح احوال کے لیے علم و حکمت کی ضرورت ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی معاشرتی اصلاح کی توقع عبث ہے۔ ہماری یہ مجبوری کہ ہم دوسروں بلکہ دشمنوں کی علم و حکمت پر گزارہ کریں۔ دشمن ہماری اصلاح چاہے یا نہ چاہے یہ اس کی مرضی ہے۔ ہم نے اپنا اخلاص پیش کردیا ہے۔
بات پھر وہیں گھوم پھر کر پہنچتی ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل تو پیر رومیؒ نے بتادیا۔ مگر حلال کی روٹی کہاں سے آئے؟ ہر طرف ناجائز منافع خوری، رشوت، کم ناپ تول، چوری، ملاوٹ، راہزنی، ڈاکا زنی، حرام کاری کا راج ہے، جس سے پوچھیں وہ مجبور ہے۔ گزارہ نہیں ہوتا، جو لوٹنے والے ہیں، ان کا گزارہ نہیں ہوتا تو جو لٹنے والے ہیں ان کا گزارہ کیسے ہوتا ہے۔ کیا وہ بھی لوٹنا شروع کردیں۔ پھر لٹنے والا کون رہے گا؟ قبل اس کے کہ کوئی لٹنے والا نہ رہے اصلاح احوال ضروری ہے۔ ورنہ جو ہوگا اس کی دھندلی سی تصویر تو ہر کسی کو نظر آرہی ہے۔ جو صاحبان نظر ہیں وہ ذرا آگے تک دیکھ رہے ہیں۔
ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہیں کہ وہ ارحم الراحمین ہمارے گناہ معاف فرمادے، دوسری طرف ہم گناہ گاروں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ توبہ کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ توبہ کا وقت گزر جائے، جو اس شعبے کے دکان دار ہیں انہوں نے بھی اسی آڑ میں اپنی فیس بڑھا دی ہے۔ کسی کو سایہ، کسی کو جن اور کسی کو رزق، رشتوں کی بندش بتاتے ہیں، ان کے ہاں کسی کی فیس معاف نہیں۔ رزق، رشتے اللہ جل جلالہ کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی نے کہہ دیا ہے کہ فلاں کا رزق رشتہ بند کردو۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں، یہ کلمۂ کفر ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ سایہ ہونا، جن وغیرہ کا لپٹنا محض اوہام ہیں۔ جن ایسے نہیں لپٹتا جیسے عام لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔
ہم بعض بیماریوں کو بھی جن کا لپٹنا یا سایہ سمجھ لیتے ہیں، جن معاشروں میں بچوں کو یہ کہہ کر ڈرا جاتا ہے ''جن آگیا'' ان بچوں کے دل و دماغ میں جن کا خوف بیٹھ جاتا ہے۔ اندھیرے میں جانا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے، وہ اپنے سائے سے بھی بدکنے لگتے ہیں، جو بچے بستر میں پیشاب کرتے ہیں اس کا سبب بھی ایسا ہی خوف ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوف پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب خوف پختہ ہوجائے تو وہ مجسّم ہوجاتا ہے، پھر اسے وہ چیز نظر آنے لگتی ہے، جس سے وہ خوف زدہ ہوتا ہے۔
کبھی اسے معدے میں گرانی کی شکایت ہو تو اس پر دورے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے، اسے ہم جن کا لپٹنا سمجھتے ہیں، عاملوں کے پاس جاتے اور برباد ہوجاتے ہیں، اللہ جل شانہ کا سورۃ النحل کی آیات 96 سے 100 تک ارشاد پاک ہے کہ ایمان والوں پر شیطان کا زور نہیں چلتا۔ شیطان جن ہے اور قیامت تک اسے انسانوں کو بہکانے کی مہلت حاصل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ انسان کو ہاتھ سے پکڑ کر گم راہی میں لے جائے بلکہ وہ وساوس اور اوہام کے ذریعے بہکاتا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کو ڈرانا نہیں چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ایک دفعہ بچے کے ذہن میں خوف بیٹھ جائے تو وہ پھر جان نہیں چھوڑتا۔ جس سے مختلف ذہنی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
حضرت خواجہ عبدالرحیم حضرت خواجہ قادر بخش المعروف اجی صاحب کے ہاں 1876ء بمطابق 1296ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ یکے بعد دیگرے مقام ولایت پر فائز رہے، جن میں آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ عبدالقادر، دادا حضرت خواجہ محمد عبداللہ اور پردادا حضرت خواجہ حافظ محمد نجیب اللہ اپنے اپنے دور کے ولی اللہ اور جید عالم دین ہو گزرے ہیں، جن کے مزارات آج بھی مری کے گرد و نواح میں مرجع خلائق ہیں۔ تبلیغ دین کی خاطر حضرت خواجہ قادر بخش نے اپنے آبائی مسکن مسیاڑی کو چھوڑ کر موضع جلالیہ کو اپنا مسکن بنایا، یہ جگہ حضرو کے نزدیک ضلع اٹک میں واقع ہے۔ کچھ عرصے دین متین کی خدمت کرنے کے بعد جلالیہ کو چھوڑ کر ''باغدرہ'' میں چلے گئے اور جوگنگر کے پہاڑوں میں بے آباد جنگل کو اپنا مسکن بنالیا۔
یہاں پہلے مسجد اور پھر مدرسہ تعمیر کیا اور درس و تدریس کا کام شروع کردیا۔ یہاں ان سے سینکڑوں تشنگان علوم دین نے استفادہ کیا، یہیں حضرت خواجہ عبدالرحیم باغدروی نقشبندی کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ قادر بخش پیر اجی صاحب کی زیرنگرانی ہوئی۔ بعدازاں درس نظام کی تعلیم اپنے زمانے کے مشہور علمی مراکز بھوئی گاڑ اور موضع جلالیہ تحصیل حضرو ضلع اٹک کے مدارس میں کی۔ پھر دورہ حدیث اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ہندوستان کے مشہور علمی مدارس میں گئے۔ اس طرح جید علمائے کرام و محدثین سے استفادہ کرکے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ظاہری علوم کی تحصیل و تکمیل کے بعد باطنی علوم کی طرف متوجہ ہوئے۔
اس شوق کی تکمیل کے لیے اپنے والد گرامی سے اجازت لے کر مرشد کامل کے بارے راہ نمائی حاصل کرنے اور روحانی پیاس بجھانے کے لیے سرہند چلے گئے۔ چھے ماہ کا مجاہدہ اور چلّہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار پُرانوار پر کیا۔ حضرت مجددؒ نے خصوصی توجہ فرماتے ہوئے فیاضان معرفرت سے مالا مال فرمایا۔ چھے ماہ کی سخت ریاضت کے بعد وطن کی طرف لوٹے۔ حضرت مجددؒ نے دوران قیام سرہند بیت اویسی سے سرفراز فرمایا اور ظاہری مرشد کی طرف بھی راہ نمائی کردی تھی۔ چناںچہ آپ سیدھے موہڑہ پہنچے اور حضرت خواجہ محمد قاسم صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خود بیان فرمایا کہ جب میں حضرت موہڑویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور سینے سے لگایا، علم و عرفان کی دولت عطا فرمائی۔
بیعت فرماکر اسی وقت سارے سلاسل کی خلافت سے سرفراز فرمایا اور فرمایا ''آپ کے آنے سے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا'' اس وقت آپ کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ حضرت خواجہ محمد قاسم صادقؒ نے فرمایا: ''آپ کو جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ تو حضرت مجددؒ کی بارگاہ سے حاصل کرلیا تھا، آپ میرے مرید نہیں بلکہ میری مراد ہیں۔'' آپ اپنے مرشد کامل کا خصوصی ادب و احترام کرتے تھے اور بابا جی موہڑوی بھی آپ کا بہت احترام کرتے اور شفقت و محبت سے پیش آتے تھے، جس کا اندازہ حضرت موہڑوی کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ باقی سب میرے مرید ہیں مگر باغدرہ والے قاضی صاحب میری مراد ہیں۔ کبھی کبھی فرماتے کہ مکھن تو باغدرہ والے لے گئے۔ باقی لسّی ہے۔ پانی ڈال کر پیتے رہو۔
بعض خلفاء کی حالت دیکھ کر حضرت خواجہ موہڑوی فرمایا کرتے تھے کہ تم باغدرہ والوں کی برابری نہ کیا کرو، تم سب میرے قدموں پر کھڑے ہو اور باغدرہ والے اپنے قدموں پر کھڑے ہیں۔ اکثر جب حضرت موہڑوی آپ کے ساتھ اسرار و رموز پر گفتگو فرماتے تو کسی تیسرے کی شمولیت کو پسند نہ فرماتے تھے۔ محبت و شفقت کا یہ عالم تھا کہ کسی محفل میں جب تک آپ اسٹیج پر نہ بیٹھتے محفل شروع نہ ہوتی تھی۔ باقاعدہ اعلان ہوتا کہ باغدرہ والے آگے تشریف لے آئیں۔ آپ انتہائی سادگی اور خاموشی کے ساتھ اسٹیج پر پہنچ جاتے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت پیر خواجہ محمد اعظم صاحبؒ حضرت خواجہ موہڑوی اور حضرت پیر خواجہ عبدالرحیم کے درمیان محبت و الفت کا ایک خوبصورت واقعہ بیان کرتے ہیں،''میں جب کبھی حضرت والد صاحب قبلہ کے ساتھ موہڑہ گیا، تو میں نے دیکھا کہ جب ہم حضرت خواجہ موہڑوی سے اجازت لے کر واپسی کی تیاری کرتے تو حضرت موہڑوی والیٔ باغدرہ کو بغل گیر ہوکر ملتے۔
پھر تھوڑا سا پیچھے ہٹتے اور کہتے پھر آئیں۔ تین چار مرتبہ ایسا کرنے کے بعد رخصت فرماتے۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ یہ ایک واقعہ نقل کردیا، تاکہ پتا چلے کہ والیٔ باغدرہ کا اپنے کامل مرشد کے حضور کیا مقام تھا۔ آپ کو بھی اپنے پیر و مرشد سے بہت عقیدت و محبت تھی۔ جب آپ موہڑہ جاتے تو حضرت خواجہ محمد قاسم صادق آپ کے لیے گھوڑا بھیجتے۔ مرشد کے گھوڑے پر نظر پڑتی تو آپ اس کا بھی احترام کرتے اور اس پر سواری نہ کرتے بلکہ اپنے مریدین سے یہ فرماتے کہ یہ میرے مرشد کامل کا گھوڑا ہے۔ اسے لے جاؤ اور اس کے پیچھے ذکر کرتے ہوئے جاؤ۔ آپ موہڑہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی تمام مریدین کو ایک خطبہ ارشاد فرماتے کہ میرے مرشد کا دربار آگیا ہے لہٰذا اب تم میں سے کوئی بھی میرے قریب نہ آئے اور نہ ہی میری خدمت کی فکر کرے بلکہ سارے میرے مرشد کی خدمت میں مصروف ہوجاؤ۔
آپ انتہا درجے کے نیک، متقی اور پرہیز گار تھے، نماز پنجگانہ کے علاوہ اوابین، اشراق، چاشت، تہجد اور دیگر نوافل آپ کے معمولات میں شامل تھے۔ کثرت سے تلاوت قرآن حکیم کرتے تھے۔ حضرت خواجہ طارق اعظم اپنے والد گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ سالانہ عرس شریف کے موقع پر جب سب ختمات جمع ہوجاتے تو آپ فرماتے کہ ایک بندے کی طرف سے اتنے قرآن پاک لکھ لو، جن کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی۔ ہم سمجھ جاتے کہ یہ آپ نے خود پڑھے ہیں۔ فرماتے ہیں،''ایک مرتبہ دل میں خیال پیدا ہوا کہ سال بھر کسی پہاڑی غار میں بیٹھ کر کاٹنا چاہیے، اس خواہش کی تکمیل کے لیے دریائے سندھ کے ایک غار کی طرف سامان سفر لے کر نکلے، دریا کے کنارے پہنچ کر غار کی طرف جانے کے لیے پانی میں اترا، جوں جوں آگے بڑھتا گیا پانی گہرا ہوتا گیا، حالت یہ ہوگئی کہ پانی میری گردن کے اوپر تک آگیا، میں واپسی پلٹا ور دو رکعت نفل کی نیت کرکے رب کریم کے حضور کھڑا ہوگیا۔
بعد میں دعا کے لیے ہاتھ کہ اے مالک! گھر سے ایک سال کے چلّے کے لیے نکلا ہوں اور تیری عبادت کے لیے ہی دریا میں اترنا چاہتا ہوں، اگر دریا کے پار غار میں چلا گیا تو میں اپنے آپ کو اپنے مقصد میں کام یاب سمجھوں گا۔ اگر دریا کا پانی مجھ پر غالب آگیا تو تیری مرضی کہ میں مچھلیوں کی خوراک بن جاؤں۔ یہ دعا مانگ کر دریا میں اترا تو پتا ہی نہ چلا کہ دریا کس طرح عبور کیا، جب غار کے کنارے پہنچا تو وہاں ایک سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا، مجھے دیکھ کر پھنکارا، مگر اللہ کا شکر ہے کہ حملہ آور نہ ہوا۔ میں نے سانپ کی کیفیت دیکھ کر دو رکعت نفل کی نیت کرلی۔
جوں ہی نماز کے دورانِ تلاوت شروع کی تو سانپ کا غصہ ختم ہونا شروع ہوگیا اور اس نے گردن جھکا کر اپنا پھن زمین پر ڈال دیا۔ جب میں سجدے میں گیا تو میر سر سانپ کے جسم کے ساتھ لگ گیا۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد سانپ اپنی خوراک کی تلاش میں دریا پر چلاگیا اور میں رات بھر پُرسکون طریقے سے عبادت میں مصروف رہا۔ اگلے روز سانپ دن ڈھلے آکر غار میں بیٹھ گیا، پورا سال اسی طرح گزر گیا، میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہا اور سانپ اپنے معمولات کے مطابق زندگی گزارتا رہا۔ سال کے اختتام پر میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سانپ کے لیے دعا کی۔''
ولایت بغیر شریعت ممکن نہیں۔ اس لیے دیگر اولیاء اللہ کی طرح آپ بھی حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مطہرہ پر سختی سے کاربند تھے۔ جسم لباس سے ڈھکا ہوا ہونے کے باوجود سفید چادر اس طرح اوڑھتے تھے کہ آپ کا جسم اور چہرہ آدھا ڈھکا رہتا تھا۔ جب آپ حجرہ مبارک میں لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھتے تو ملاقاتی عورتوں کے لیے ایک کھڑکی اس انداز سے بنائی گئی تھی کہ دونوں کی نظر ایک دوسرے پر نہ پڑے۔ اسی کھڑکی سے عورتوں کے مسائل سن کر انہیں پند و نصائح کے بعد رخصت کردیتے۔ حسن اخلاق میں بھی آقائے کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے۔ آنے والے مہمان سے اس قدر اخلاق سے پیش آتے کہ وہ پہلی ہی ملاقات میں گرویدہ ہوجاتا۔ آپ کے ہاں سے کبھی کوئی شخص ناراض نہیں گیا۔
سالک آباد کے خلیفہ اعظم حضرت مولانا فضل غفور سوکنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت خواجہ عبدالرحیم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے باوجود روحانیت میں رکاوٹ تھی، جس کی وجہ سے میں پریشان تھا۔ میں گھر سے چل کر باغدرہ آیا، اور چند دن مرشد کی صحبت میں گزارے، مگر شرح صدر نہ ہوا تو میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا کہ جب تک مقصود حقیقی نہیں ملتا کھانا ہرگز نہیں کھاؤں گا، چند دن اسی طرح گزرے تو میری کیفیت دیکھ کر میرے پیر بھائیوں نے مرشد کریم کو سارا واقعہ بتایا۔ حضور نے مجھے بلایا اور لنگر کھانے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر کھانا نہ کھانے سے تمہاری موت واقع ہوگئی تو ہم ایک شہید سمجھ کر تمہاری قبر یہاں بنوالیں گے۔ آپ کے یہ الفاظ سن کر میرا دل کچھ نرم تو ہوا، مگر کھانا پھر بھی نہ کھایا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حرمین شریفین کی حاضری میں تین دعائیں مانگیں۔ اللہ نے تینوں کو شرف قبولیت بخشا۔ ان دعاؤں میں پہلی یہ تھی کہ طواف کعبہ کے دوران اللہ تعالیٰ کوئی ایسا موقع عطا کرے کہ بنی آدم میں سے کوئی دوسرا شخص موجود نہ ہو۔ دوسری یہ کہ میں مدینہ پاک میں باوضو رہوں۔ تیسری یہ کہ مجھے حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں تنہائی میں سلام پیش کرنے کا موقع مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے میری یہ تینوں دعائیں قبول فرمائیں۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے' یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
حضرت مفتی ولی داد صاحب خادم دربار سالک آباد شریف خلیفہ زاہد اقبال صاحب جو حضرت حاجی گل صاحب لنڈی کوتل والوں کے خلیفہ ہیں، انہوں نے بتایا کہ مجھ سے میرے مرشد حضرت حاجی گل صاحب نے فرمایا،''میں ایک رات تہجد کے لیے اٹھا تو میں نے ایک سفید ریش بزرگ کو اپنے سرہانے کھڑے دیکھا۔'' میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ فرمایا:''مولانا روم ہوں اور آپ کو اطلاع دینے آیا ہوں کہ باغدرہ والے حضرت صاحب کا وصال ہوگیا ہے، لہٰذا آپ جنازے میں شرکت کی تیاری کریں''۔ یہ کہہ کر وہ تو غائب ہوگئے، چوںکہ مجھے کوئی تعارف نہیں تھا، چند دوستوں سے مشورے کے بعد طے پایا کہ راولپنڈی جانا چاہیے۔ پھر معلوم ہوسکے گا کہ یہ حضرت باغدرہ والے کون ہیں؟ جب میں راولپنڈی اڈے پر اترا تو ایک ویگن کھڑی دیکھ کر میں نے پوچھا کہ باغدرہ کہاں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت صاحب باغدرہ والوں کا وصال ہوگیا ہے۔ ہم ان کے جنازے میں شرکت کے لیے جارہے ہیں، اگر آپ نے جانا ہوتو ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا، جب ہم وہاں پہنچے تو جنازے کے لیے صفیں بنی ہوئی تھیں۔
آپ کا وصال 31 جنوری 1947ء بہ مطابق 8 جمادی الاول 1366ھ بروز پیر تہجد کے وقت ہوا۔ مزار سالک آباد تحصیل حسن ابدال ضلع اٹک میں مرجع خلائق ہے۔
حضرت خواجہ عبدالرحیم حضرت خواجہ قادر بخش المعروف اجی صاحب کے ہاں 1876ء بمطابق 1296ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ یکے بعد دیگرے مقام ولایت پر فائز رہے، جن میں آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ عبدالقادر، دادا حضرت خواجہ محمد عبداللہ اور پردادا حضرت خواجہ حافظ محمد نجیب اللہ اپنے اپنے دور کے ولی اللہ اور جید عالم دین ہو گزرے ہیں، جن کے مزارات آج بھی مری کے گرد و نواح میں مرجع خلائق ہیں۔ تبلیغ دین کی خاطر حضرت خواجہ قادر بخش نے اپنے آبائی مسکن مسیاڑی کو چھوڑ کر موضع جلالیہ کو اپنا مسکن بنایا، یہ جگہ حضرو کے نزدیک ضلع اٹک میں واقع ہے۔ کچھ عرصے دین متین کی خدمت کرنے کے بعد جلالیہ کو چھوڑ کر ''باغدرہ'' میں چلے گئے اور جوگنگر کے پہاڑوں میں بے آباد جنگل کو اپنا مسکن بنالیا۔
پِلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ہو
درج بالا شعر کو جن معنی میں، میں لے رہا ہوں وہ مفہوم پیش ہے۔ ''میں اور تُو کا فرق فریب نظر ہے، جب سے میرے ساقی نے مجھے لا الہ الااللہ کا جام پلایا ہے۔ زندگی اور موت کا فرق مٹ گیا ہے، کیوں کہ لا الہ الا اللہ کے بعد ''میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا'' اللہ اور صرف اللہ کے لیے ہوجاتا ہے۔ یہی امر ہونا یا حیات جاوداں ہے۔ کئی زندہ بھی مردہ ہیں اور کئی مر کر بھی زندہ ہیں۔ 10 محرم الحرام ہے شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دن ہے۔
اسی تناظر میں یہ شعر یاد آیا۔ یہ لازوال زندگانی اور بے مثال قربانی کا دن ہے۔ یہ ان سروں کے لیے مشعل راہ ہے جو کسی طاغوتی طاقت کے سامنے جھکنا نہیں جانتے۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ادارے کا نام ہے جس سے قیامت تک آنے والے انسان عزم و ہمت، جرأت و عظمت کا درس لیتے رہیں گے۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شمع کا نام ہے، جس کی روشنی میں قیامت تک بہادروں کے قافلے عظمتوں کی منزل کی طرف چلا کریں گے، یہ حق کی فتح کا کتنا بڑا ثبوت ہے کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کٹوا کر بھی امر ہیں اور فتح پاکر بھی یزیدیت کا نام و نشان مٹ گیا۔ جس نے لاالہ الا اللہ کے ذریعے یہ سمجھ لیا کہ زندگی موت میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرا مسئلہ حصول مقصد حیات ہے۔
یہ نشہ، یہ سرور انہیں حاصل ہوتا ہے جو زندگی اور موت کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ کام مشکل ہے، میں پوچھتا ہوں کیا اس میں کوئی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ تو بوجھ سے نجات دلاتا ہے۔ زندگی اور موت کا مسئلہ کیا ہے، شاید اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ ''میں اپنی مرضی سے زندہ ہوں نہ اپنی مرضی سے مروں گا، اس لیے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔'' صحت کا خیال رکھنا میری ذمے داری ہے، علاج کے نتیجے میں، میں زندہ رہتا ہوں یا نہیں، نہ یہ میرے بس میں ہے اور نہ میرے علم میں۔ اس لیے یہ میرا مسئلہ نہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے جو حکم دیا گیا ہے۔ اس پر عمل کروں، زندگی اور موت کے مسئلے کو اگر پھر بھی میں اپنا مسئلہ سمجھتا ہوں تو پھر مال و دولت جمع کرنا بھی میرا مسئلہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر سے میرا ایمان اٹھ جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کے چکر میں حلال حرام کی تمیز کھو دوں گا۔
موت کو بھلا دوں گا۔ سب سے بڑی ناکامی کو سب سے بڑی کام یابی سمجھوں گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈال دوں گا، جوکہ سراسر خسارے کا سودا ہے۔ ایک سے ایک مسئلہ جڑ کر مسائل کا انبار لگ جائے گا۔ زندگی فضول مسائل کے بوجھ تلے دب جائے گی اور پتا ہی نہیں چلے گا کہ زندگی ختم ہوگئی اور موت آگئی۔ حالاںکہ مسائل کے جال میں، میں خود پھنسا ہوں۔ اس میں کسی کا کوئی قصور ہی نہیں ہے۔ نہ زندگی کا مقصد یاد رہا نہ اس کے حصول کی کوئی کوشش کی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ دنیا میں بڑا آدمی کہلالوں گا، مگر قیامت کے دن میرے پاس میرے اعمال کا کیا جواب اور کیا جواز ہوگا؟
حضرت علامہ محمد اقبالؒؒ اپنی نظم ''پیرومرید'' میں خود مریدِ ہندی ہیں اور حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ پیر ہیں۔ مرید ہندی سوال کرتا ہے اور پیر رومیؒ جواب دیتا ہے۔ مرید ہندی کا سوال اور پیر رومی کا جواب ملاحظہ ہو۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ قوموں کا درد رکھنے والے کیسی سو چ رکھتے ہیں۔
سوال:
علم و حکمت کا ملے کیوںکر سراغ
کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ؟
جواب:
علم و حکمت زائد ازنانِ حلال
عشق و رقّت آید از نان حلال
فقر و درویشی میں سالک کے لیے پہلا سبق رزق حلال ہے۔ رزق حلال سے مراد ہر آلائش سے پاک روزی ہے، پہلا یہ کہ جس سے غذا خریدی ہے، اس کے ذرائع حلال ہوں، یعنی اس کے حصول میں کوئی بد دیانتی شامل نہ ہو، پھر اگر صاحب نصاب ہے تو اس میں سے زکوٰۃ دی گئی ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ کھائے پیے، جس کے کھانے پینے کی ممانعت ہو۔ حرام کی ان دونوں صورتوں سے بچا جائے تو اس کا نتیجہ پیر رومی حسب ذیل بتاتے ہیں۔
ترجمہ: ''حلال روٹی سے علم و حکمت میں اضافہ ہوتا ہے، مزید برآں حلال روٹی سے عشق و رقّت پیدا ہوتی ہے۔''
ہمارا قومی المیہ علم و حکمت کا فقدان ہے، اس لیے کہ رزق حلال کا ہمارے ہاں کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ حرام ہمارے رگ و پے میں رچ بس گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لیے حرام کی نہیں حلال کی ممانعت ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ مٹی بالکل ہی بانجھ ہوگئی ہے۔ حلال کی خواہش رکھنے والے بھی بے شمار لوگ اسی معاشرے میں موجود ہیں، مگر حلال کے دروازوں کو بند کرنے کا ہمارے معقول انتظام موجود ہے۔ ملتا ضرور ہے مگر مشکل سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے اوپر علم و حکمت کے دروازے پکے بند کرلیے ہیں کہ کسی طرح بھی ہمارے معاشرے میں در نہ آئے۔ اصلاح احوال کے لیے علم و حکمت کی ضرورت ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا کسی قسم کی معاشرتی اصلاح کی توقع عبث ہے۔ ہماری یہ مجبوری کہ ہم دوسروں بلکہ دشمنوں کی علم و حکمت پر گزارہ کریں۔ دشمن ہماری اصلاح چاہے یا نہ چاہے یہ اس کی مرضی ہے۔ ہم نے اپنا اخلاص پیش کردیا ہے۔
بات پھر وہیں گھوم پھر کر پہنچتی ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ ایک حل تو پیر رومیؒ نے بتادیا۔ مگر حلال کی روٹی کہاں سے آئے؟ ہر طرف ناجائز منافع خوری، رشوت، کم ناپ تول، چوری، ملاوٹ، راہزنی، ڈاکا زنی، حرام کاری کا راج ہے، جس سے پوچھیں وہ مجبور ہے۔ گزارہ نہیں ہوتا، جو لوٹنے والے ہیں، ان کا گزارہ نہیں ہوتا تو جو لٹنے والے ہیں ان کا گزارہ کیسے ہوتا ہے۔ کیا وہ بھی لوٹنا شروع کردیں۔ پھر لٹنے والا کون رہے گا؟ قبل اس کے کہ کوئی لٹنے والا نہ رہے اصلاح احوال ضروری ہے۔ ورنہ جو ہوگا اس کی دھندلی سی تصویر تو ہر کسی کو نظر آرہی ہے۔ جو صاحبان نظر ہیں وہ ذرا آگے تک دیکھ رہے ہیں۔
ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہیں کہ وہ ارحم الراحمین ہمارے گناہ معاف فرمادے، دوسری طرف ہم گناہ گاروں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ توبہ کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ توبہ کا وقت گزر جائے، جو اس شعبے کے دکان دار ہیں انہوں نے بھی اسی آڑ میں اپنی فیس بڑھا دی ہے۔ کسی کو سایہ، کسی کو جن اور کسی کو رزق، رشتوں کی بندش بتاتے ہیں، ان کے ہاں کسی کی فیس معاف نہیں۔ رزق، رشتے اللہ جل جلالہ کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی نے کہہ دیا ہے کہ فلاں کا رزق رشتہ بند کردو۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں، یہ کلمۂ کفر ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ سایہ ہونا، جن وغیرہ کا لپٹنا محض اوہام ہیں۔ جن ایسے نہیں لپٹتا جیسے عام لوگوں کے ذہنوں میں ہے۔
ہم بعض بیماریوں کو بھی جن کا لپٹنا یا سایہ سمجھ لیتے ہیں، جن معاشروں میں بچوں کو یہ کہہ کر ڈرا جاتا ہے ''جن آگیا'' ان بچوں کے دل و دماغ میں جن کا خوف بیٹھ جاتا ہے۔ اندھیرے میں جانا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے، وہ اپنے سائے سے بھی بدکنے لگتے ہیں، جو بچے بستر میں پیشاب کرتے ہیں اس کا سبب بھی ایسا ہی خوف ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوف پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب خوف پختہ ہوجائے تو وہ مجسّم ہوجاتا ہے، پھر اسے وہ چیز نظر آنے لگتی ہے، جس سے وہ خوف زدہ ہوتا ہے۔
کبھی اسے معدے میں گرانی کی شکایت ہو تو اس پر دورے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے، اسے ہم جن کا لپٹنا سمجھتے ہیں، عاملوں کے پاس جاتے اور برباد ہوجاتے ہیں، اللہ جل شانہ کا سورۃ النحل کی آیات 96 سے 100 تک ارشاد پاک ہے کہ ایمان والوں پر شیطان کا زور نہیں چلتا۔ شیطان جن ہے اور قیامت تک اسے انسانوں کو بہکانے کی مہلت حاصل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ انسان کو ہاتھ سے پکڑ کر گم راہی میں لے جائے بلکہ وہ وساوس اور اوہام کے ذریعے بہکاتا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کو ڈرانا نہیں چاہیے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ایک دفعہ بچے کے ذہن میں خوف بیٹھ جائے تو وہ پھر جان نہیں چھوڑتا۔ جس سے مختلف ذہنی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
حضرت خواجہ عبدالرحیم حضرت خواجہ قادر بخش المعروف اجی صاحب کے ہاں 1876ء بمطابق 1296ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ یکے بعد دیگرے مقام ولایت پر فائز رہے، جن میں آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ عبدالقادر، دادا حضرت خواجہ محمد عبداللہ اور پردادا حضرت خواجہ حافظ محمد نجیب اللہ اپنے اپنے دور کے ولی اللہ اور جید عالم دین ہو گزرے ہیں، جن کے مزارات آج بھی مری کے گرد و نواح میں مرجع خلائق ہیں۔ تبلیغ دین کی خاطر حضرت خواجہ قادر بخش نے اپنے آبائی مسکن مسیاڑی کو چھوڑ کر موضع جلالیہ کو اپنا مسکن بنایا، یہ جگہ حضرو کے نزدیک ضلع اٹک میں واقع ہے۔ کچھ عرصے دین متین کی خدمت کرنے کے بعد جلالیہ کو چھوڑ کر ''باغدرہ'' میں چلے گئے اور جوگنگر کے پہاڑوں میں بے آباد جنگل کو اپنا مسکن بنالیا۔
یہاں پہلے مسجد اور پھر مدرسہ تعمیر کیا اور درس و تدریس کا کام شروع کردیا۔ یہاں ان سے سینکڑوں تشنگان علوم دین نے استفادہ کیا، یہیں حضرت خواجہ عبدالرحیم باغدروی نقشبندی کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ قادر بخش پیر اجی صاحب کی زیرنگرانی ہوئی۔ بعدازاں درس نظام کی تعلیم اپنے زمانے کے مشہور علمی مراکز بھوئی گاڑ اور موضع جلالیہ تحصیل حضرو ضلع اٹک کے مدارس میں کی۔ پھر دورہ حدیث اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ہندوستان کے مشہور علمی مدارس میں گئے۔ اس طرح جید علمائے کرام و محدثین سے استفادہ کرکے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ظاہری علوم کی تحصیل و تکمیل کے بعد باطنی علوم کی طرف متوجہ ہوئے۔
اس شوق کی تکمیل کے لیے اپنے والد گرامی سے اجازت لے کر مرشد کامل کے بارے راہ نمائی حاصل کرنے اور روحانی پیاس بجھانے کے لیے سرہند چلے گئے۔ چھے ماہ کا مجاہدہ اور چلّہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار پُرانوار پر کیا۔ حضرت مجددؒ نے خصوصی توجہ فرماتے ہوئے فیاضان معرفرت سے مالا مال فرمایا۔ چھے ماہ کی سخت ریاضت کے بعد وطن کی طرف لوٹے۔ حضرت مجددؒ نے دوران قیام سرہند بیت اویسی سے سرفراز فرمایا اور ظاہری مرشد کی طرف بھی راہ نمائی کردی تھی۔ چناںچہ آپ سیدھے موہڑہ پہنچے اور حضرت خواجہ محمد قاسم صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خود بیان فرمایا کہ جب میں حضرت موہڑویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور سینے سے لگایا، علم و عرفان کی دولت عطا فرمائی۔
بیعت فرماکر اسی وقت سارے سلاسل کی خلافت سے سرفراز فرمایا اور فرمایا ''آپ کے آنے سے میرا سر فخر سے بلند ہوگیا'' اس وقت آپ کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ حضرت خواجہ محمد قاسم صادقؒ نے فرمایا: ''آپ کو جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ تو حضرت مجددؒ کی بارگاہ سے حاصل کرلیا تھا، آپ میرے مرید نہیں بلکہ میری مراد ہیں۔'' آپ اپنے مرشد کامل کا خصوصی ادب و احترام کرتے تھے اور بابا جی موہڑوی بھی آپ کا بہت احترام کرتے اور شفقت و محبت سے پیش آتے تھے، جس کا اندازہ حضرت موہڑوی کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ باقی سب میرے مرید ہیں مگر باغدرہ والے قاضی صاحب میری مراد ہیں۔ کبھی کبھی فرماتے کہ مکھن تو باغدرہ والے لے گئے۔ باقی لسّی ہے۔ پانی ڈال کر پیتے رہو۔
بعض خلفاء کی حالت دیکھ کر حضرت خواجہ موہڑوی فرمایا کرتے تھے کہ تم باغدرہ والوں کی برابری نہ کیا کرو، تم سب میرے قدموں پر کھڑے ہو اور باغدرہ والے اپنے قدموں پر کھڑے ہیں۔ اکثر جب حضرت موہڑوی آپ کے ساتھ اسرار و رموز پر گفتگو فرماتے تو کسی تیسرے کی شمولیت کو پسند نہ فرماتے تھے۔ محبت و شفقت کا یہ عالم تھا کہ کسی محفل میں جب تک آپ اسٹیج پر نہ بیٹھتے محفل شروع نہ ہوتی تھی۔ باقاعدہ اعلان ہوتا کہ باغدرہ والے آگے تشریف لے آئیں۔ آپ انتہائی سادگی اور خاموشی کے ساتھ اسٹیج پر پہنچ جاتے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت پیر خواجہ محمد اعظم صاحبؒ حضرت خواجہ موہڑوی اور حضرت پیر خواجہ عبدالرحیم کے درمیان محبت و الفت کا ایک خوبصورت واقعہ بیان کرتے ہیں،''میں جب کبھی حضرت والد صاحب قبلہ کے ساتھ موہڑہ گیا، تو میں نے دیکھا کہ جب ہم حضرت خواجہ موہڑوی سے اجازت لے کر واپسی کی تیاری کرتے تو حضرت موہڑوی والیٔ باغدرہ کو بغل گیر ہوکر ملتے۔
پھر تھوڑا سا پیچھے ہٹتے اور کہتے پھر آئیں۔ تین چار مرتبہ ایسا کرنے کے بعد رخصت فرماتے۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ یہ ایک واقعہ نقل کردیا، تاکہ پتا چلے کہ والیٔ باغدرہ کا اپنے کامل مرشد کے حضور کیا مقام تھا۔ آپ کو بھی اپنے پیر و مرشد سے بہت عقیدت و محبت تھی۔ جب آپ موہڑہ جاتے تو حضرت خواجہ محمد قاسم صادق آپ کے لیے گھوڑا بھیجتے۔ مرشد کے گھوڑے پر نظر پڑتی تو آپ اس کا بھی احترام کرتے اور اس پر سواری نہ کرتے بلکہ اپنے مریدین سے یہ فرماتے کہ یہ میرے مرشد کامل کا گھوڑا ہے۔ اسے لے جاؤ اور اس کے پیچھے ذکر کرتے ہوئے جاؤ۔ آپ موہڑہ کی حدود میں داخل ہوتے ہی تمام مریدین کو ایک خطبہ ارشاد فرماتے کہ میرے مرشد کا دربار آگیا ہے لہٰذا اب تم میں سے کوئی بھی میرے قریب نہ آئے اور نہ ہی میری خدمت کی فکر کرے بلکہ سارے میرے مرشد کی خدمت میں مصروف ہوجاؤ۔
آپ انتہا درجے کے نیک، متقی اور پرہیز گار تھے، نماز پنجگانہ کے علاوہ اوابین، اشراق، چاشت، تہجد اور دیگر نوافل آپ کے معمولات میں شامل تھے۔ کثرت سے تلاوت قرآن حکیم کرتے تھے۔ حضرت خواجہ طارق اعظم اپنے والد گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ سالانہ عرس شریف کے موقع پر جب سب ختمات جمع ہوجاتے تو آپ فرماتے کہ ایک بندے کی طرف سے اتنے قرآن پاک لکھ لو، جن کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی۔ ہم سمجھ جاتے کہ یہ آپ نے خود پڑھے ہیں۔ فرماتے ہیں،''ایک مرتبہ دل میں خیال پیدا ہوا کہ سال بھر کسی پہاڑی غار میں بیٹھ کر کاٹنا چاہیے، اس خواہش کی تکمیل کے لیے دریائے سندھ کے ایک غار کی طرف سامان سفر لے کر نکلے، دریا کے کنارے پہنچ کر غار کی طرف جانے کے لیے پانی میں اترا، جوں جوں آگے بڑھتا گیا پانی گہرا ہوتا گیا، حالت یہ ہوگئی کہ پانی میری گردن کے اوپر تک آگیا، میں واپسی پلٹا ور دو رکعت نفل کی نیت کرکے رب کریم کے حضور کھڑا ہوگیا۔
بعد میں دعا کے لیے ہاتھ کہ اے مالک! گھر سے ایک سال کے چلّے کے لیے نکلا ہوں اور تیری عبادت کے لیے ہی دریا میں اترنا چاہتا ہوں، اگر دریا کے پار غار میں چلا گیا تو میں اپنے آپ کو اپنے مقصد میں کام یاب سمجھوں گا۔ اگر دریا کا پانی مجھ پر غالب آگیا تو تیری مرضی کہ میں مچھلیوں کی خوراک بن جاؤں۔ یہ دعا مانگ کر دریا میں اترا تو پتا ہی نہ چلا کہ دریا کس طرح عبور کیا، جب غار کے کنارے پہنچا تو وہاں ایک سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا، مجھے دیکھ کر پھنکارا، مگر اللہ کا شکر ہے کہ حملہ آور نہ ہوا۔ میں نے سانپ کی کیفیت دیکھ کر دو رکعت نفل کی نیت کرلی۔
جوں ہی نماز کے دورانِ تلاوت شروع کی تو سانپ کا غصہ ختم ہونا شروع ہوگیا اور اس نے گردن جھکا کر اپنا پھن زمین پر ڈال دیا۔ جب میں سجدے میں گیا تو میر سر سانپ کے جسم کے ساتھ لگ گیا۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد سانپ اپنی خوراک کی تلاش میں دریا پر چلاگیا اور میں رات بھر پُرسکون طریقے سے عبادت میں مصروف رہا۔ اگلے روز سانپ دن ڈھلے آکر غار میں بیٹھ گیا، پورا سال اسی طرح گزر گیا، میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہا اور سانپ اپنے معمولات کے مطابق زندگی گزارتا رہا۔ سال کے اختتام پر میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سانپ کے لیے دعا کی۔''
ولایت بغیر شریعت ممکن نہیں۔ اس لیے دیگر اولیاء اللہ کی طرح آپ بھی حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مطہرہ پر سختی سے کاربند تھے۔ جسم لباس سے ڈھکا ہوا ہونے کے باوجود سفید چادر اس طرح اوڑھتے تھے کہ آپ کا جسم اور چہرہ آدھا ڈھکا رہتا تھا۔ جب آپ حجرہ مبارک میں لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھتے تو ملاقاتی عورتوں کے لیے ایک کھڑکی اس انداز سے بنائی گئی تھی کہ دونوں کی نظر ایک دوسرے پر نہ پڑے۔ اسی کھڑکی سے عورتوں کے مسائل سن کر انہیں پند و نصائح کے بعد رخصت کردیتے۔ حسن اخلاق میں بھی آقائے کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے۔ آنے والے مہمان سے اس قدر اخلاق سے پیش آتے کہ وہ پہلی ہی ملاقات میں گرویدہ ہوجاتا۔ آپ کے ہاں سے کبھی کوئی شخص ناراض نہیں گیا۔
سالک آباد کے خلیفہ اعظم حضرت مولانا فضل غفور سوکنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت خواجہ عبدالرحیم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے باوجود روحانیت میں رکاوٹ تھی، جس کی وجہ سے میں پریشان تھا۔ میں گھر سے چل کر باغدرہ آیا، اور چند دن مرشد کی صحبت میں گزارے، مگر شرح صدر نہ ہوا تو میں نے کھانا پینا چھوڑ دیا کہ جب تک مقصود حقیقی نہیں ملتا کھانا ہرگز نہیں کھاؤں گا، چند دن اسی طرح گزرے تو میری کیفیت دیکھ کر میرے پیر بھائیوں نے مرشد کریم کو سارا واقعہ بتایا۔ حضور نے مجھے بلایا اور لنگر کھانے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ اگر کھانا نہ کھانے سے تمہاری موت واقع ہوگئی تو ہم ایک شہید سمجھ کر تمہاری قبر یہاں بنوالیں گے۔ آپ کے یہ الفاظ سن کر میرا دل کچھ نرم تو ہوا، مگر کھانا پھر بھی نہ کھایا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حرمین شریفین کی حاضری میں تین دعائیں مانگیں۔ اللہ نے تینوں کو شرف قبولیت بخشا۔ ان دعاؤں میں پہلی یہ تھی کہ طواف کعبہ کے دوران اللہ تعالیٰ کوئی ایسا موقع عطا کرے کہ بنی آدم میں سے کوئی دوسرا شخص موجود نہ ہو۔ دوسری یہ کہ میں مدینہ پاک میں باوضو رہوں۔ تیسری یہ کہ مجھے حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں تنہائی میں سلام پیش کرنے کا موقع مل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے میری یہ تینوں دعائیں قبول فرمائیں۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے' یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
حضرت مفتی ولی داد صاحب خادم دربار سالک آباد شریف خلیفہ زاہد اقبال صاحب جو حضرت حاجی گل صاحب لنڈی کوتل والوں کے خلیفہ ہیں، انہوں نے بتایا کہ مجھ سے میرے مرشد حضرت حاجی گل صاحب نے فرمایا،''میں ایک رات تہجد کے لیے اٹھا تو میں نے ایک سفید ریش بزرگ کو اپنے سرہانے کھڑے دیکھا۔'' میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ فرمایا:''مولانا روم ہوں اور آپ کو اطلاع دینے آیا ہوں کہ باغدرہ والے حضرت صاحب کا وصال ہوگیا ہے، لہٰذا آپ جنازے میں شرکت کی تیاری کریں''۔ یہ کہہ کر وہ تو غائب ہوگئے، چوںکہ مجھے کوئی تعارف نہیں تھا، چند دوستوں سے مشورے کے بعد طے پایا کہ راولپنڈی جانا چاہیے۔ پھر معلوم ہوسکے گا کہ یہ حضرت باغدرہ والے کون ہیں؟ جب میں راولپنڈی اڈے پر اترا تو ایک ویگن کھڑی دیکھ کر میں نے پوچھا کہ باغدرہ کہاں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت صاحب باغدرہ والوں کا وصال ہوگیا ہے۔ ہم ان کے جنازے میں شرکت کے لیے جارہے ہیں، اگر آپ نے جانا ہوتو ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا، جب ہم وہاں پہنچے تو جنازے کے لیے صفیں بنی ہوئی تھیں۔
آپ کا وصال 31 جنوری 1947ء بہ مطابق 8 جمادی الاول 1366ھ بروز پیر تہجد کے وقت ہوا۔ مزار سالک آباد تحصیل حسن ابدال ضلع اٹک میں مرجع خلائق ہے۔
حضرت خواجہ عبدالرحیم حضرت خواجہ قادر بخش المعروف اجی صاحب کے ہاں 1876ء بمطابق 1296ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ مغل خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ یکے بعد دیگرے مقام ولایت پر فائز رہے، جن میں آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ عبدالقادر، دادا حضرت خواجہ محمد عبداللہ اور پردادا حضرت خواجہ حافظ محمد نجیب اللہ اپنے اپنے دور کے ولی اللہ اور جید عالم دین ہو گزرے ہیں، جن کے مزارات آج بھی مری کے گرد و نواح میں مرجع خلائق ہیں۔ تبلیغ دین کی خاطر حضرت خواجہ قادر بخش نے اپنے آبائی مسکن مسیاڑی کو چھوڑ کر موضع جلالیہ کو اپنا مسکن بنایا، یہ جگہ حضرو کے نزدیک ضلع اٹک میں واقع ہے۔ کچھ عرصے دین متین کی خدمت کرنے کے بعد جلالیہ کو چھوڑ کر ''باغدرہ'' میں چلے گئے اور جوگنگر کے پہاڑوں میں بے آباد جنگل کو اپنا مسکن بنالیا۔