سیاستدان اس شاخ کو نہ کاٹیں
نواز شریف حکومت نے برطانوی ہند حکومت کی روایت کی یاد تازہ کرتے ہوئے دفعہ 144 کا استعمال شروع کردیا ہے
الیکٹرانک میڈیا سیاستدانوں کے بیانات زورو شور سے چلا رہا ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ آمریت کے پروردہ سیاستدان گرج رہے ہیں، پولیس روایتی طریقے استعمال کررہی ہے، آنسو گیس سے نوزائیدہ بچے کے پھیپھڑے سانس لینا بھول گئے۔ تجزیہ نگار سیاسی نظام کے گرنے کی نوید سنا رہے ہیں۔ اسلام آباد کے قلب میں ایک کالعدم تنظیم کے کارکن آزادی سے مارچ کررہے ہیں، عام آدمی کی الجھن اور نظام پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے۔
سیاسی تنظیم سازی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جلوس، نعرے بازی اور بیانات سیاسی کلچر کا حصہ ہیں اور برصغیر کی قدیم روایات میں شامل ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ہندوستان کو ریل سے منسلک کیا، بجلی اور ٹیلی گراف کا نظام نصب کیا اور جدید انتظامی اور عدالتی نظام کا نفاذ بھی ان کی پالیسی میں شامل تھا۔
ان اصلاحات کا سلسلہ 18 ویں صدی کے وسط سے شروع ہوا۔ ان اصلاحات کی بنا پر کمپنی نے 1857 کی جنگ آزادی کو کچلا اور کمپنی کی جگہ برطانوی ہند حکومت قائم ہوئی۔ مگر ان اصلاحات کے نتیجے میں درمیانہ طبقہ وجود میں آیا۔ اس طرح جدید سیاسی جماعتوں کے قیام کا مرحلہ آیا۔ ایک انگریز نے برصغیر کی پہلی سیاسی جماعت کانگریس قائم کی۔ پھر مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی، کسان، مزدور، دانشوروں، صحافیوں اور دیگر طبقات کی انجمنیں قائم ہوئیں۔
سیاسی جماعتوں کے قیام سے پہلی دفعہ یہ شعور پیدا ہوا کہ اب طاقت کے بجائے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے سیاسی حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ محمد علی جناح، گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام نے یہ تصور پیش کیا کہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کرایا جاسکتا ہے۔
برطانیہ کی خوشحالی اور دنیا بھر میں اس کے اقتدار کی توسیع میں ہندوستان کا اہم کردار تھا۔ ہندوستان سے لے جانے والے خام مال سے برطانیہ میں خوشحالی آئی تھی اور ہندوستان کی فوج نے برطانوی اقتدار کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ برطانوی رہنما ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی پرامن جدوجہد سے خوفزدہ تھے۔ انھوں نے ہندوستانیوں کی ہند حکومت میں محدود شرکت کے نظریہ پر عمل کیا۔ پھر تعزیراتِ ہند میں ایسی دفعات شامل کی گئیں جن سے شہریوں کے بنیادی حقوق پر قدغن لگ گئی۔
خصوصی قوانین بھی اس میں شامل کیے گئے، جس نے سیاسی جدوجہد کے راستوں کو تقریباً محدود کردیا۔ ان میں ایک دفعہ 144 بھی شامل تھی۔ اس دفعہ کے تحت متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ہر قسم کے اختیارات حاصل ہوگئے۔ جلسہ و جلوس پر پابندی، کسی فرد کو گرفتار کرنے، کسی عمارت کو سیل کرنے، اخبارات پر پابندی لگانے سے لے کر گلے سڑے پھل فروخت کرنے، مہنگا دودھ، گوشت اور دیگر اشیاء مہنگی بیچنے والے دکانداروں کے خلاف کارروائی کے اختیارات شامل ہوگئے۔
1900 سے 1947 تک حقیقی سیاسی کارکن مشکلات کا شکار رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے بنیادی اصلاحات سے انحراف کیا۔ پاکستان کو امریکا کا اتحادی بنادیا گیا اور پاکستان فرنٹ اسٹیٹ بن گیا اور پھر ملک کو نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ اب ملک میں سول و عسکری مقتدرہ کی بالادستی ہوگئی۔ نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں پر قدغن عائد کی گئیں۔ 50 کی دہائی میں سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی گئی۔
کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی۔ دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں، مزدوروں اور کسانوں تنظیمیں اس پابندی کی زد میں آئیں۔ ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کا پورا دور تمام بڑے شہروں میں دفعہ 144 کے نفاذ اور ڈیفنس پاکستان رولز (D.P.R) کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے میں گزرا۔ مگر پھر بھی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، ڈیموکریٹک پارٹی، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور تحریکِ استقلال وغیرہ نے ایوب خان کے خلاف مختلف تحریکیں چلائیں۔
بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F) کے کارکنوں کی کراچی میں شروع کی گئی جدوجہد کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 70 کے انتخابات بغیر امتناعی قوانین کے منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں سیاست دانوں نے غیر معیاری بیانات کے ذریعے اپنے حامیوں کو رام کرنے کی کوشش کی۔ جب تمام سیاسی جماعتوں نے 1973 کا آئین تیار کیا تو اس آئین میں انسانی حقوق کا باب شامل ہوا، جس کے تحت شہری کو آزادئ اظہار کے لیے جلسے جلوس کرنے، بیانات دینے اور پمفلٹ بانٹنے کا حق ملا۔ مگر پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے باب کو معطل کیا اور 5 سال دفعہ 144 اور ڈی پی آر کے ذریعے گزارے۔ مختلف جماعتوں کے سیکڑوں سیاسی کارکن اس دور میں پابندِ سلاسل رہے۔
عوام آئین کے تحت دی گئی آزادی سے لطف اندوز نہ ہوسکے۔ مقتدرہ نے 1977 کے انتخابات کے موقع پر پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) قائم کیا۔ انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلی، بھٹو حکومت کی قائم کردہ فیڈرل سیکیورٹی فورس (F.S.F) اور پولیس نے کراچی اور لاہور میں مظاہرین پر فائرنگ کی، جس کا دنیا بھر میں خوب پروپیگنڈہ ہوا اور پھر پی این اے کی تحریک کے پیچھے چھپے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ملک مارشل لاء کی زد میں آگیا۔
مگر جب غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو انھوں نے مارشل لاء ختم کرکے 1973 کا آئین بحال کیا۔ ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری شروع ہوئی۔ پہلی دفعہ جلسے و جلوس اور بھوک ہڑتال کی سرکاری طور پر اجازت ملی۔ شہریوں نے اس خطے کی تاریخ میں پہلی دفعہ آزاد ی کا مزا چکھا۔ پھر سوویت یونین بکھر گیا۔ سرد جنگ ختم ہوگئی۔ اب انسانی حقوق کی پاسداری امریکا اور یورپی ممالک کی ترجیحات میں اولین حیثیت اختیار کرگئی۔ ڈپٹی کمشنر جلسے و جلوسوں کی حفاظت کے کام پر لگ گئے۔
1988 سے قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے آزادئ اظہار کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور نواز شریف نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کی قیادت کی۔ نواز شریف نے عمران خان اور طاہر القادری کے پہلے دھرنے میں یہی پالیسی اختیار کی۔
عمران خان کے موجودہ دھرنے کے مقاصد سے جمہوریت پر یقین رکھنے والے صاحبان علم متفق نہیں ہیں۔ عمران خان امپائر کی انگلی اٹھانے اور وزیراعظم نواز شریف کی تلاشی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ آئین سے ہٹ کر کسی اور اقدام کا پرچار کررہے ہیں۔ 1973 کے آئین کے تحت امپائر پارلیمنٹ ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں جانے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ قوانین پر عملدرآمد کرنے اور خلاف ورزی پر سزائیں دینے والے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے ایک دوسرے پر رکیک الزامات لگانے کے علاوہ گھٹیا زبان استعمال کرنا شروع کی۔
جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور خورشید شاہ نے مل کر نیب کے سربراہ کا تقرر کیا جو ان کے خلاف کیوں کارروائی کرے گا تو اس طرح وہ آئین پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ اگر ان کے خیال میں قائد ایوان یعنی وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو نیب کے سربراہ کے تقرر کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور کوئی اور طریقہ کار طے ہونا چاہیے تو یہ مسئلہ بھی پارلیمنٹ میں ترمیم کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔ پھر یہ افواہیں ہیں کہ طالع آزما قوتیں اس دھرنے کے پیچھے اپنے مقاصد کو پورا کرنا چاہتی ہیں۔
نواز شریف حکومت نے برطانوی ہند حکومت کی روایت کی یاد تازہ کرتے ہوئے دفعہ 144 کا استعمال شروع کردیا ہے، اس طرح پولیس راج کی یاد تازہ ہورہی ہے۔ راولپنڈی پولیس کا آنسو گیس کا استعمال، سڑکوں پر رکاوٹیں اور اسلام آباد میٹرو بس سروس بند ہونے سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہوئی۔ اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے مخصوص جگہ جا کر احتجاج کے لیے تجاویز مانگی ہیں، مگر شاید تحریکِ انصاف کو یہ قبول نہیں ہے۔
چند سال قبل بھارت کے سماجی کارکن انا ہزارے نے دہلی میں کرپش کے خلاف مہم منظم کی تھی اور تاریخی بھوک ہڑتال کی تھی ۔ انھوں نے جس میدان میں کئی دنوں تک دھرنا دیا تھا اس کا کرایہ ادا کیا تھا۔ اس احتجاج کی بناء پر دہلی میں عام زندگی متاثر نہیں ہوئی۔ عمران خان اپنی مہم میں کئی بار برطانیہ کا ذکر کرچکے ہیں۔ انھیں وہاں احتجاجی مہم کے طریقہ کار کا ذکر بھی کرنا چاہیے۔ جس دن یہ آرٹیکل شایع ہوگا اس سے ایک دن قبل شو ڈاؤن ہوچکا ہوگا۔ مگر اس ساری صورتحال میں کچھ سیاستدانوں کو یاد رہے کہ ان کے بیانات کا معیار گھٹیا نہیں ہونا چاہیے اور احتجاج سے عام آدمی کی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔
حکومت کو انگریزوں اور فوجی آمروں کے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہر صورت میں انسانی حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ یہ جمہوری نظام قائم رہنا چاہیے۔ انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی یہ بات سب کو راستہ دکھاتی ہے کہ سیاستدان اس شاخ کو نہ کاٹیں جس پر وہ بیٹھے ہیں، دوسری صورت میں سب گھروں کو بھیج دیے جائیں گے اور ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوجائے گا۔
سیاسی تنظیم سازی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جلوس، نعرے بازی اور بیانات سیاسی کلچر کا حصہ ہیں اور برصغیر کی قدیم روایات میں شامل ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ہندوستان کو ریل سے منسلک کیا، بجلی اور ٹیلی گراف کا نظام نصب کیا اور جدید انتظامی اور عدالتی نظام کا نفاذ بھی ان کی پالیسی میں شامل تھا۔
ان اصلاحات کا سلسلہ 18 ویں صدی کے وسط سے شروع ہوا۔ ان اصلاحات کی بنا پر کمپنی نے 1857 کی جنگ آزادی کو کچلا اور کمپنی کی جگہ برطانوی ہند حکومت قائم ہوئی۔ مگر ان اصلاحات کے نتیجے میں درمیانہ طبقہ وجود میں آیا۔ اس طرح جدید سیاسی جماعتوں کے قیام کا مرحلہ آیا۔ ایک انگریز نے برصغیر کی پہلی سیاسی جماعت کانگریس قائم کی۔ پھر مسلم لیگ، کمیونسٹ پارٹی، کسان، مزدور، دانشوروں، صحافیوں اور دیگر طبقات کی انجمنیں قائم ہوئیں۔
سیاسی جماعتوں کے قیام سے پہلی دفعہ یہ شعور پیدا ہوا کہ اب طاقت کے بجائے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے سیاسی حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ محمد علی جناح، گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور مولانا ابوالکلام نے یہ تصور پیش کیا کہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کرایا جاسکتا ہے۔
برطانیہ کی خوشحالی اور دنیا بھر میں اس کے اقتدار کی توسیع میں ہندوستان کا اہم کردار تھا۔ ہندوستان سے لے جانے والے خام مال سے برطانیہ میں خوشحالی آئی تھی اور ہندوستان کی فوج نے برطانوی اقتدار کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ برطانوی رہنما ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کی پرامن جدوجہد سے خوفزدہ تھے۔ انھوں نے ہندوستانیوں کی ہند حکومت میں محدود شرکت کے نظریہ پر عمل کیا۔ پھر تعزیراتِ ہند میں ایسی دفعات شامل کی گئیں جن سے شہریوں کے بنیادی حقوق پر قدغن لگ گئی۔
خصوصی قوانین بھی اس میں شامل کیے گئے، جس نے سیاسی جدوجہد کے راستوں کو تقریباً محدود کردیا۔ ان میں ایک دفعہ 144 بھی شامل تھی۔ اس دفعہ کے تحت متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ہر قسم کے اختیارات حاصل ہوگئے۔ جلسہ و جلوس پر پابندی، کسی فرد کو گرفتار کرنے، کسی عمارت کو سیل کرنے، اخبارات پر پابندی لگانے سے لے کر گلے سڑے پھل فروخت کرنے، مہنگا دودھ، گوشت اور دیگر اشیاء مہنگی بیچنے والے دکانداروں کے خلاف کارروائی کے اختیارات شامل ہوگئے۔
1900 سے 1947 تک حقیقی سیاسی کارکن مشکلات کا شکار رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد مسلم لیگ کی حکومت نے بنیادی اصلاحات سے انحراف کیا۔ پاکستان کو امریکا کا اتحادی بنادیا گیا اور پاکستان فرنٹ اسٹیٹ بن گیا اور پھر ملک کو نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ اب ملک میں سول و عسکری مقتدرہ کی بالادستی ہوگئی۔ نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں پر قدغن عائد کی گئیں۔ 50 کی دہائی میں سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی گئی۔
کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی۔ دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں، مزدوروں اور کسانوں تنظیمیں اس پابندی کی زد میں آئیں۔ ملک کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کا پورا دور تمام بڑے شہروں میں دفعہ 144 کے نفاذ اور ڈیفنس پاکستان رولز (D.P.R) کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے میں گزرا۔ مگر پھر بھی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، ڈیموکریٹک پارٹی، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور تحریکِ استقلال وغیرہ نے ایوب خان کے خلاف مختلف تحریکیں چلائیں۔
بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F) کے کارکنوں کی کراچی میں شروع کی گئی جدوجہد کے نتیجے میں ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 70 کے انتخابات بغیر امتناعی قوانین کے منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں سیاست دانوں نے غیر معیاری بیانات کے ذریعے اپنے حامیوں کو رام کرنے کی کوشش کی۔ جب تمام سیاسی جماعتوں نے 1973 کا آئین تیار کیا تو اس آئین میں انسانی حقوق کا باب شامل ہوا، جس کے تحت شہری کو آزادئ اظہار کے لیے جلسے جلوس کرنے، بیانات دینے اور پمفلٹ بانٹنے کا حق ملا۔ مگر پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے باب کو معطل کیا اور 5 سال دفعہ 144 اور ڈی پی آر کے ذریعے گزارے۔ مختلف جماعتوں کے سیکڑوں سیاسی کارکن اس دور میں پابندِ سلاسل رہے۔
عوام آئین کے تحت دی گئی آزادی سے لطف اندوز نہ ہوسکے۔ مقتدرہ نے 1977 کے انتخابات کے موقع پر پاکستان قومی اتحاد (P.N.A) قائم کیا۔ انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلی، بھٹو حکومت کی قائم کردہ فیڈرل سیکیورٹی فورس (F.S.F) اور پولیس نے کراچی اور لاہور میں مظاہرین پر فائرنگ کی، جس کا دنیا بھر میں خوب پروپیگنڈہ ہوا اور پھر پی این اے کی تحریک کے پیچھے چھپے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ملک مارشل لاء کی زد میں آگیا۔
مگر جب غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو انھوں نے مارشل لاء ختم کرکے 1973 کا آئین بحال کیا۔ ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری شروع ہوئی۔ پہلی دفعہ جلسے و جلوس اور بھوک ہڑتال کی سرکاری طور پر اجازت ملی۔ شہریوں نے اس خطے کی تاریخ میں پہلی دفعہ آزاد ی کا مزا چکھا۔ پھر سوویت یونین بکھر گیا۔ سرد جنگ ختم ہوگئی۔ اب انسانی حقوق کی پاسداری امریکا اور یورپی ممالک کی ترجیحات میں اولین حیثیت اختیار کرگئی۔ ڈپٹی کمشنر جلسے و جلوسوں کی حفاظت کے کام پر لگ گئے۔
1988 سے قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے آزادئ اظہار کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور نواز شریف نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کی قیادت کی۔ نواز شریف نے عمران خان اور طاہر القادری کے پہلے دھرنے میں یہی پالیسی اختیار کی۔
عمران خان کے موجودہ دھرنے کے مقاصد سے جمہوریت پر یقین رکھنے والے صاحبان علم متفق نہیں ہیں۔ عمران خان امپائر کی انگلی اٹھانے اور وزیراعظم نواز شریف کی تلاشی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ آئین سے ہٹ کر کسی اور اقدام کا پرچار کررہے ہیں۔ 1973 کے آئین کے تحت امپائر پارلیمنٹ ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں جانے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ قوانین پر عملدرآمد کرنے اور خلاف ورزی پر سزائیں دینے والے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کے رہنماؤں نے ایک دوسرے پر رکیک الزامات لگانے کے علاوہ گھٹیا زبان استعمال کرنا شروع کی۔
جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور خورشید شاہ نے مل کر نیب کے سربراہ کا تقرر کیا جو ان کے خلاف کیوں کارروائی کرے گا تو اس طرح وہ آئین پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔ اگر ان کے خیال میں قائد ایوان یعنی وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو نیب کے سربراہ کے تقرر کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور کوئی اور طریقہ کار طے ہونا چاہیے تو یہ مسئلہ بھی پارلیمنٹ میں ترمیم کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔ پھر یہ افواہیں ہیں کہ طالع آزما قوتیں اس دھرنے کے پیچھے اپنے مقاصد کو پورا کرنا چاہتی ہیں۔
نواز شریف حکومت نے برطانوی ہند حکومت کی روایت کی یاد تازہ کرتے ہوئے دفعہ 144 کا استعمال شروع کردیا ہے، اس طرح پولیس راج کی یاد تازہ ہورہی ہے۔ راولپنڈی پولیس کا آنسو گیس کا استعمال، سڑکوں پر رکاوٹیں اور اسلام آباد میٹرو بس سروس بند ہونے سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہوئی۔ اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے مخصوص جگہ جا کر احتجاج کے لیے تجاویز مانگی ہیں، مگر شاید تحریکِ انصاف کو یہ قبول نہیں ہے۔
چند سال قبل بھارت کے سماجی کارکن انا ہزارے نے دہلی میں کرپش کے خلاف مہم منظم کی تھی اور تاریخی بھوک ہڑتال کی تھی ۔ انھوں نے جس میدان میں کئی دنوں تک دھرنا دیا تھا اس کا کرایہ ادا کیا تھا۔ اس احتجاج کی بناء پر دہلی میں عام زندگی متاثر نہیں ہوئی۔ عمران خان اپنی مہم میں کئی بار برطانیہ کا ذکر کرچکے ہیں۔ انھیں وہاں احتجاجی مہم کے طریقہ کار کا ذکر بھی کرنا چاہیے۔ جس دن یہ آرٹیکل شایع ہوگا اس سے ایک دن قبل شو ڈاؤن ہوچکا ہوگا۔ مگر اس ساری صورتحال میں کچھ سیاستدانوں کو یاد رہے کہ ان کے بیانات کا معیار گھٹیا نہیں ہونا چاہیے اور احتجاج سے عام آدمی کی زندگی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔
حکومت کو انگریزوں اور فوجی آمروں کے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ہر صورت میں انسانی حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ یہ جمہوری نظام قائم رہنا چاہیے۔ انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کی یہ بات سب کو راستہ دکھاتی ہے کہ سیاستدان اس شاخ کو نہ کاٹیں جس پر وہ بیٹھے ہیں، دوسری صورت میں سب گھروں کو بھیج دیے جائیں گے اور ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوجائے گا۔