دودھ میں پانی ملانے والے کتنے اچھے تھے

barq@email.com

ماہنامہ ''کسان ورلڈ'' میں ایک نہایت چونکا دینے والی بلکہ لرزا دینے والی رپورٹ آئی ہے، جس میں اس ''دودھ'' پر ایک تفصیلی نظر ڈالی گئی جو اس وقت اہل پاکستان اور خصوصاً بچے پی رہے ہیں۔ ماہنامہ کسان ورلڈ جسے چوہدری افتخار احمد سندھو لاہور سے نکال رہے ہیں، اس پر ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی بات کی تھی۔ ایک ایسا مجلہ ہے جسے اگر پاکستان کی مظلوم و مقہور زراعت اور کسان کا واحد ترجمان کہا جائے تو صحیح ہو گا۔

اس مجلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یونہی بھرتی کے مضامین نہیں ہوتے بلکہ اپنے اپنے فیلڈ کے ماہرین اپنی نگارشات کسانوں تک پہنچاتے ہیں، چونکہ دودھ بھی زراعت کا ایک حصہ ہے اور ساتھ ہی ہماری خوراک کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے اس لیے مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ جو یونس عزیز ملک نے مرتب کی ہوئی ہے موضوع انتہائی اہم اور عوام کے ایک بڑے طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے ہم نے آج اسی مضمون کو اپنا موضوع بنانے کے لیے چنا ہے۔

مضمون پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم اس وقت کس وسیع پیمانے پر زہر خورانی کا شکار ہو رہے ہیں، بلکہ مضمون پڑھنے کے بعد وہ کفن چور اور اس کے بیٹے کا قصہ یاد آ جاتا ہے اور انسان ان لوگوں کو دعائیں دینے لگتا ہے جو دودھ میں پانی ملاتے تھے یا پانی میں دودھ ملا کر بیچتے تھے، کیونکہ کم از کم پانی زہر تو نہیں ہوتا۔

ایک صاف اور خالص قدرتی چیز اور انسانی ضرورت تو ہے، چلیے گوالے نے اس میں پانی ملا کر ہمیں مالی طور پر لوٹ لیا لیکن ہماری صحت اور ہماری بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو ''زہر'' پلا کر برباد تو نہیں کرتا تھا، اس مضمون اور دودھ میں شامل زہریلے کیمیکلز کے بارے میں جان کر آپ کے منہ سے بے اختیار پرانے پانی ملانے والے گوالے کے لیے دعائیں نکلیں گی۔

انسانی اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں ''کل یوم بتر'' کا سلسلہ اتنی تیزی اور وسعت سے چل رہا ہے کہ ہر دوسرا دن پہلے والے دن سے بدتر بلکہ بدترین ہوتا ہے، یونانی فلسفی غالباً امیپڈو کلینر نے کہا ہے کہ آپ کسی دریا میں دو دفعہ ہاتھ نہیں دھو سکتے کیونکہ دوسرے لمحے وہ دوسرا دریا اور دوسرا پانی ہوتا ہے، پاکستانی معاشرے اور معیار تجارت و دیانت بھی ایک تیز دریا کے مماثل ہے۔ ہر دوسرے دن ایک نیا عذاب ایک نیا زہر اور ایک نئی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انورؔ مسعود نے کیا زبردست بات کی ہے کہ

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا

اور وہ کل آج ہی ہے اس مضمون کے مطابق یہ جو جدید دودھ اس وقت عوام کو پلایا جا رہا ہے اس کی سپلائی جن گاڑیوں سے ہوتی ہے ان میں بھی موٹر لگی ہوتی ہے جو دودھ کو مسلسل بلوتے اور گھولتے رہتے ہیں کہ اس میں ڈالا جانے والا مضر صحت مواد بیٹھ نہ جائے، پھر دکانداروں نے بھی یہی انتظام بڑے بڑے ٹبوں میں کر رکھے ہوتے ہیں کہ دودھ گھلتا رہے ہلتا رہے اور جھاگ اور بلبلے اس میں اٹھتے رہیں جو خالص دودھ کی نشانی ہوتی ہے، مضمون میں تو یہ بات نہیں لکھی ہے لیکن ہم نے ایک معتبر ذریعے سے سنی ہے کہ اکثر دودھ میں وہ کیمیکل بھی ملایا جاتا ہے جو واشنگ پاوڈر اور صابنوں میں جھاگ پیدا کرتا ہے۔


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب دودھ سے سب کچھ نکال لیا جاتا ہے اور صرف سفید پانی رہ جاتا ہے اور اس کے خشک کرنے پر جو پاوڈر بنتا ہے پہلے اسے بچھڑوں کو کھلایا جاتا تھا لیکن اب اس پاؤڈر میں یوریا، بناسپتی آئل، کاسٹک سوڈا صابن، ٹائری سنگھاڑوں اور چاولوں کا آٹا شامل کر کے دودھ بنایا جاتا ہے جو ڈبوں میں یا کھلے طور پر بازار میں بے تحاشا بیچا جا رہا ہے علاوہ دیگر خرافات کے اس میں یوریا کھاد سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے کیونکہ اس سے دودھ کے رنگ اور ذائقے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس کے علاوہ فارملین نامی ایک کیمیکل جو دودھ کو لمبے عرصے تک خراب ہونے سے بچاتا ہے جو قطعی مضر صحت ہے۔

یہ اجزا صرف یہ ہی نہیں کہ بچوں کی نشوونما پر برا اثر ڈالتے ہیں بلکہ کینسر اور معدے کے اور بھی امراض کا باعث بنتے ہیں، ہڈیاں بھربھری اور کمزور رہ جاتی ہیں اور ان کی بڑھوتری ختم ہو جاتی ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں اس پر کہیں کوئی چیک نہیں ہے۔ پہلے تو ہمیں توقع ہے کہ حکومت نے میڈیا کو آزاد اس لیے تو نہیں کیا ہے کہ لوگوں کی سنتی پھرے، اتنی آزادی اور نقار خانے جیسی صورت حال اس لیے تو پیدا کی گئی ہے کہ اگر کہیں کوئی طوطا کچھ کہنا بھی چاہے تو اس کی آواز اپنی چونچ سے آگے نہ بڑھے

نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب
لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

مضمون سے ایک اور بات کا ہمیں پتہ چلا جس کے لیے خدائے ذوالجلال کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، فرماتے ہیں کہ پہلے محکمہ لائیو اسٹاک کی طرف سے ''میٹ اینڈ ملک سیفٹی'' ایجنسی بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قیام پر وہ منصوبہ ترک کر دیا گیا اور ہمارے خیال میں یہ بہت ہی اچھا ہوا ورنہ ایک اور دودھ شریک کا اضافہ ہو جاتا، ہم نے ابتداء میں پہلی نسل سے دوسری نسل کی ترقی کا ذکر کیا تھا کہ لوگ اب پرانے سادہ دل گوالے کو دعائیں دینے لگے ہیں کہ وہ دودھ میں سادہ پانی ملا کر عوام کے ساتھ بھلائی کرتا تھا۔

ایک حکایت ہے کہ دو جڑواں بھائی تھے جن کی پیٹھ آپس میں جڑی ہوئی تھی ان میں ایک اکثر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا تھا کہ یااللہ اس سے برا حال نہ ہو، دوسرا اسے کہتا کہ تم بھی کیا احمق ہو اب اس سے زیادہ برا دن اور کیا ہو گا کہ ہم پیٹھ کی طرف سے جڑے ہوئے ہیں اور اگر ایک اگے چلتا ہے تو دوسرا کو الٹے پاؤں اس کے ساتھ گھسیٹنا پڑتا ہے اس سے برا حال اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

اب اس دوسرے کو اس کی لاش بھی ڈھونا پڑ رہی تھی کچھ روز بعد لاش سڑنے لگی تو اور بھی برا حال ہو گیا تب اس نے مان لیا کہ میرا بھائی ٹھیک کہتا تھا برے سے برا حال بھی ہو سکتا ہے اور ہم بھی ''برے حال'' کی اس تیز رفتاری سے ڈر رہے ہیں کہ کسی دن ہمیں آج کے ان تاجروں کو دعائیں دینا پڑیں گی جس طرح آج ہم پرانے گوالوں کو یاد کر کر کے روتے ہیں

پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
Load Next Story