خنک موسم اور دیدہ زیب چادروں کا استعمال
خنک ہوائیں چلتے ہی آٹھ، نو ماہ سے صندوقوں میں بند گرم اور اونی ملبوسات نکال لیے جاتے ہیں۔
موسموں کی تبدیلی کے ساتھ ہی ہمارا لباس بھی اپنے رنگ بدلتا ہے۔
موسم سرما خوش لباس لوگوں کو بہت زیادہ بھاتا ہے کیوں کہ اس میں اچھے پہناؤں کے شوق بہ طریق احسن پورے کیے جا سکتے ہیں، خنک ہوائیں چلتے ہی آٹھ، نو ماہ سے صندوقوں میں بند گرم اور اونی ملبوسات نکال لیے جاتے ہیں۔ یوں توبزرگ، مرد، نوجوان لڑکے ہائی نیک، مفلر، جیکٹس اور جرسیوں کا استعمال کرتے ہیں یا پھر سوئیٹرز زیب تن کرتے ہیں، مگر خواتین کی ایک بڑی تعداد سوئیٹرز کے بجائے گرم اونی، سوتی، لین فلالین کی چادر، اسکارف اور شالیں زیادہ رغبت سے استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔
چادروں کا استعمال گوکہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور کسی موسم کا محتاج نہیں لیکن جوں ہی موسم انگڑائی لے کر سرد ہوتا ہے، تو عام چادروں کی جگہ بھی گرم چادریں استعمال میں آ جاتی ہیں تاکہ ثقافتی روایت نبھانے کے ساتھ موسمی اثرات سے بھی بچائو ممکن ہوسکے۔
موسم سرما کے حوالے سے بازار میں خاص طور پر اونی، سوتی اور دیگر گرم فائبرز سے چادریں اور شالیں دست یاب ہوتی ہیں۔ کچھ ممالک میں گلہری، لومڑی، بھیڑ اور خرگوش کی کھال سے بھی تیار کی جاتی ہیں جو اگرچہ بہت مہنگی مگر انتہائی دیدہ زیب ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف مہنگے اور سستے میٹریل سے اونی، سوتی چادریں تیار کی جاتی ہیں۔ تاہم کشمیری شالوں کی مانگ زیادہ ہے چاروں صوبوں کی مقامی کڑھائی کے نمونوں سے تیار شالیں بھی کافی مقبول ہیں اور شہری خواتین انہیں ہاتھوں ہاتھ خرید لیتی ہیں۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی موسم کی شدت سے بچنے کے لیے سندھی اجرک کا استعمال بڑے شوق سے کرتی ہیں۔ لڑکیاں بالیاں اسے بطور فیشن بھی استعمال کرتی ہیں اور موسم سے نبٹنے کے ساتھ ساتھ یہ ان کے حجاب کا کام بھی دیتی ہے۔ یہ بطور تحفہ بھی لی اور دی جاتی ہے۔ اجرک کی چھپائی اور اس کے گہرے رنگ کے باعث خواتین اس کے ملبوسات بھی سلوا کر زیب تن کرتی ہیں۔
سندھی اجرک کے علاوہ شیشوں والی بلوچی چادر اور کناروں پر کڑھائی والی سوتی چادریں بھی بڑے شوق سے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ چادریں جتنا مقامی خواتین میں مقبول ہیں اتنی ملک کی دیگر خواتین میں بھی پسند کی جاتی ہیں۔ بلوچی کڑھائی والی چادروں کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی اسی طرح کی لمبی سوتی چادروں کا استعمال ہوتا ہے۔ خواتین ان چادروں کو روز مرہ کے استعمال میں بھی رکھتی ہیں۔ کشمیری شالیں بھی پہناوئوں میں اپنا جداگانہ مقام رکھتی ہیں، یہ شالیں اپنی ایک الگ منفرد حیثیت رکھتی ہیں اور خواتین کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ زیادہ تر کشمیری اونی چادروں کی نفیس کڑھائی کے ساتھ سفید، آف وائٹ، گرے، کریمی یا صوفیانہ سادہ رنگوں کا استعمال ہوتا ہے، تاہم اب سنہری روپہلی، فیروزی، سرخ، کامدانی کے کام میں بھی مقبول ہو رہی ہیں۔ لڑکیاں قدرے چھوٹی اور بزرگ یا درمیانی عمر کی خواتین لمبی چوڑی شالوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ شادی بیاہ میں شرکت کے لیے اور عام دنوں کے لیے یا اہم تقریبات کے موقع پر گوٹے کناری، تِلّے، ستارے، نگینوں اور ریشمی دھاگوں سے مزیّن خوب صورت گرم شالوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
شالوں اور چادروں کا استعمال ہماری قدیم روایت کا حصہ ہے جس کے جدید انداز آج رائج ہیں۔ یہ صرف موسم کی شدت سے ہی نجات نہیں دلاتیں بلکہ مشرقیت اور تحفظ کا احساس بھی ہوتا ہے۔
پاکستان کے اکثر علاقوں بالخصوص ساحلی پٹی میں چوں کہ موسم سرما اتنا شدید نہیں ہوتا جتنا کہ مغربی ممالک میں، لیکن جتنا عرصہ بھی رہتا ہے اپنے منفرد مزاج اور پہناوئوں کے باعث خوش گوار رہتا ہے۔ سرد موسم میں اکثر دن کے اوقات میں درجہ حرارت معتدل رہتا ہے، اس لیے دن میں چادریں سردی کے مقابلے کے لیے کافی ہوتی ہیں، البتہ راتوں میں خنکی بڑھ جانے کے باعث شالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
چادریں چوںکہ ہر موسم کا مقابلہ کرتی ہیں، اس لیے انہیں بنانے والے بھی انہیں موسموں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ہلکے، گہرے مختلف دھاگوں، رنگوں اور ڈیزائنوں سے تیار کرتے ہیں۔ موسم گرما میں ہلکی پھلکی اور سرما میں موٹی چادروں والے ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں جو لباس کا ایک جزو ہی معلوم ہوتی ہیں۔ ان چادروں پر مبنی ملبوسات کی خاص بات یہ ہے کہ اپنے رنگوں اور تیاری کی بدولت تقریباً ہر عمر اور ہر مزاج کی خواتین استعمال کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ سستے اور مہنگے دونوں طرح کے تیار کیے جاتے ہیں جنہیں ہر طبقے کی خواتین بہ آسانی استعمال کر سکتی ہیں۔ گرمیوں میں لان، جارجٹ جب کہ سردیوں میں کاٹن یا فلالین و دیگر مٹیریل کی چادریں خواتین کے لباس کا حصہ بن جاتی ہیں، گرم چادریں صبح و شام کی سردی سے بچاتی ہیں، موسم سرما شروع ہوتے ہی ہلکی پھلکی، موٹی دبیز رنگ برنگی کڑھائی والی چادریں اوڑھنیوں کی صورت میں استعمال کی جاتی ہیں۔
حجاب کے لیے بھی برقعے کے ساتھ چادر اوڑھنے کا رجحان بھی عام ہے جو انہیں سر سے پاؤں تک ڈھانپنے کے مقصد کو اچھی طرح پورا کرتی ہے۔ کچھ لڑکیاں گھر سے باہر جاتے ہوئے دوپٹے کی جگہ چادریں استعمال کرتی ہیں، جب کہ لباس سے ہم رنگ موزوں چادروں کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔
بدلتے ہوئے رواج میں شالوں اور چادروں کے استعمال کو بھی تغیر ہے۔ کبھی چھوٹی چھوٹی شالوں، اونی تکون اسکارف کا فیشن ہوتا ہے تو کبھی بڑی۔ آج کل بڑی کڑھائی اور سادی، پھول دار چادروں کا رواج زیادہ ہے۔
بعض شالیں اور چادریں اپنی خوب صورتی، دیدہ زیبی اور عمدہ کڑھائی و کشیدہ کاری کے نمونوں کے باعث جہیز اور شادی بیاہ کے موقع پر تحفے میں بھی دی جاتی ہیں۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو شادی پر خاص شالیں اور چادریں بنوا کر دیتی ہیں۔ دلہنوں کے تحفے میں زیادہ تر کشمیری، نرم مخملی سرخ، سبز، فیروزی، نیلی، تلّے، کامدانی، ستاروں، کلابتو سے مزیّن چادریں دی جاتی ہیں۔ سیر وسیاحت یا بیرون ملک سے آنے والے بھی عزیز واقارب کے لیے بھی مختلف چادروں اور شالوں کے تحائف لاتے ہیں۔
چادروں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث تیار کنندگان اور دست کار ان کو ہمہ وقت منفرد اور جدید بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ موسم چاہے کچھ بھی ہو لیکن خواتین کے لباس میں چادر کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے اور حجاب سے لے کر احساس تحفظ اور فیشن تک میں چادریں اپناایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
موسم سرما خوش لباس لوگوں کو بہت زیادہ بھاتا ہے کیوں کہ اس میں اچھے پہناؤں کے شوق بہ طریق احسن پورے کیے جا سکتے ہیں، خنک ہوائیں چلتے ہی آٹھ، نو ماہ سے صندوقوں میں بند گرم اور اونی ملبوسات نکال لیے جاتے ہیں۔ یوں توبزرگ، مرد، نوجوان لڑکے ہائی نیک، مفلر، جیکٹس اور جرسیوں کا استعمال کرتے ہیں یا پھر سوئیٹرز زیب تن کرتے ہیں، مگر خواتین کی ایک بڑی تعداد سوئیٹرز کے بجائے گرم اونی، سوتی، لین فلالین کی چادر، اسکارف اور شالیں زیادہ رغبت سے استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔
چادروں کا استعمال گوکہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور کسی موسم کا محتاج نہیں لیکن جوں ہی موسم انگڑائی لے کر سرد ہوتا ہے، تو عام چادروں کی جگہ بھی گرم چادریں استعمال میں آ جاتی ہیں تاکہ ثقافتی روایت نبھانے کے ساتھ موسمی اثرات سے بھی بچائو ممکن ہوسکے۔
موسم سرما کے حوالے سے بازار میں خاص طور پر اونی، سوتی اور دیگر گرم فائبرز سے چادریں اور شالیں دست یاب ہوتی ہیں۔ کچھ ممالک میں گلہری، لومڑی، بھیڑ اور خرگوش کی کھال سے بھی تیار کی جاتی ہیں جو اگرچہ بہت مہنگی مگر انتہائی دیدہ زیب ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف مہنگے اور سستے میٹریل سے اونی، سوتی چادریں تیار کی جاتی ہیں۔ تاہم کشمیری شالوں کی مانگ زیادہ ہے چاروں صوبوں کی مقامی کڑھائی کے نمونوں سے تیار شالیں بھی کافی مقبول ہیں اور شہری خواتین انہیں ہاتھوں ہاتھ خرید لیتی ہیں۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی موسم کی شدت سے بچنے کے لیے سندھی اجرک کا استعمال بڑے شوق سے کرتی ہیں۔ لڑکیاں بالیاں اسے بطور فیشن بھی استعمال کرتی ہیں اور موسم سے نبٹنے کے ساتھ ساتھ یہ ان کے حجاب کا کام بھی دیتی ہے۔ یہ بطور تحفہ بھی لی اور دی جاتی ہے۔ اجرک کی چھپائی اور اس کے گہرے رنگ کے باعث خواتین اس کے ملبوسات بھی سلوا کر زیب تن کرتی ہیں۔
سندھی اجرک کے علاوہ شیشوں والی بلوچی چادر اور کناروں پر کڑھائی والی سوتی چادریں بھی بڑے شوق سے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ چادریں جتنا مقامی خواتین میں مقبول ہیں اتنی ملک کی دیگر خواتین میں بھی پسند کی جاتی ہیں۔ بلوچی کڑھائی والی چادروں کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی اسی طرح کی لمبی سوتی چادروں کا استعمال ہوتا ہے۔ خواتین ان چادروں کو روز مرہ کے استعمال میں بھی رکھتی ہیں۔ کشمیری شالیں بھی پہناوئوں میں اپنا جداگانہ مقام رکھتی ہیں، یہ شالیں اپنی ایک الگ منفرد حیثیت رکھتی ہیں اور خواتین کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ زیادہ تر کشمیری اونی چادروں کی نفیس کڑھائی کے ساتھ سفید، آف وائٹ، گرے، کریمی یا صوفیانہ سادہ رنگوں کا استعمال ہوتا ہے، تاہم اب سنہری روپہلی، فیروزی، سرخ، کامدانی کے کام میں بھی مقبول ہو رہی ہیں۔ لڑکیاں قدرے چھوٹی اور بزرگ یا درمیانی عمر کی خواتین لمبی چوڑی شالوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ شادی بیاہ میں شرکت کے لیے اور عام دنوں کے لیے یا اہم تقریبات کے موقع پر گوٹے کناری، تِلّے، ستارے، نگینوں اور ریشمی دھاگوں سے مزیّن خوب صورت گرم شالوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
شالوں اور چادروں کا استعمال ہماری قدیم روایت کا حصہ ہے جس کے جدید انداز آج رائج ہیں۔ یہ صرف موسم کی شدت سے ہی نجات نہیں دلاتیں بلکہ مشرقیت اور تحفظ کا احساس بھی ہوتا ہے۔
پاکستان کے اکثر علاقوں بالخصوص ساحلی پٹی میں چوں کہ موسم سرما اتنا شدید نہیں ہوتا جتنا کہ مغربی ممالک میں، لیکن جتنا عرصہ بھی رہتا ہے اپنے منفرد مزاج اور پہناوئوں کے باعث خوش گوار رہتا ہے۔ سرد موسم میں اکثر دن کے اوقات میں درجہ حرارت معتدل رہتا ہے، اس لیے دن میں چادریں سردی کے مقابلے کے لیے کافی ہوتی ہیں، البتہ راتوں میں خنکی بڑھ جانے کے باعث شالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
چادریں چوںکہ ہر موسم کا مقابلہ کرتی ہیں، اس لیے انہیں بنانے والے بھی انہیں موسموں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ہلکے، گہرے مختلف دھاگوں، رنگوں اور ڈیزائنوں سے تیار کرتے ہیں۔ موسم گرما میں ہلکی پھلکی اور سرما میں موٹی چادروں والے ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں جو لباس کا ایک جزو ہی معلوم ہوتی ہیں۔ ان چادروں پر مبنی ملبوسات کی خاص بات یہ ہے کہ اپنے رنگوں اور تیاری کی بدولت تقریباً ہر عمر اور ہر مزاج کی خواتین استعمال کرتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ سستے اور مہنگے دونوں طرح کے تیار کیے جاتے ہیں جنہیں ہر طبقے کی خواتین بہ آسانی استعمال کر سکتی ہیں۔ گرمیوں میں لان، جارجٹ جب کہ سردیوں میں کاٹن یا فلالین و دیگر مٹیریل کی چادریں خواتین کے لباس کا حصہ بن جاتی ہیں، گرم چادریں صبح و شام کی سردی سے بچاتی ہیں، موسم سرما شروع ہوتے ہی ہلکی پھلکی، موٹی دبیز رنگ برنگی کڑھائی والی چادریں اوڑھنیوں کی صورت میں استعمال کی جاتی ہیں۔
حجاب کے لیے بھی برقعے کے ساتھ چادر اوڑھنے کا رجحان بھی عام ہے جو انہیں سر سے پاؤں تک ڈھانپنے کے مقصد کو اچھی طرح پورا کرتی ہے۔ کچھ لڑکیاں گھر سے باہر جاتے ہوئے دوپٹے کی جگہ چادریں استعمال کرتی ہیں، جب کہ لباس سے ہم رنگ موزوں چادروں کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔
بدلتے ہوئے رواج میں شالوں اور چادروں کے استعمال کو بھی تغیر ہے۔ کبھی چھوٹی چھوٹی شالوں، اونی تکون اسکارف کا فیشن ہوتا ہے تو کبھی بڑی۔ آج کل بڑی کڑھائی اور سادی، پھول دار چادروں کا رواج زیادہ ہے۔
بعض شالیں اور چادریں اپنی خوب صورتی، دیدہ زیبی اور عمدہ کڑھائی و کشیدہ کاری کے نمونوں کے باعث جہیز اور شادی بیاہ کے موقع پر تحفے میں بھی دی جاتی ہیں۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو شادی پر خاص شالیں اور چادریں بنوا کر دیتی ہیں۔ دلہنوں کے تحفے میں زیادہ تر کشمیری، نرم مخملی سرخ، سبز، فیروزی، نیلی، تلّے، کامدانی، ستاروں، کلابتو سے مزیّن چادریں دی جاتی ہیں۔ سیر وسیاحت یا بیرون ملک سے آنے والے بھی عزیز واقارب کے لیے بھی مختلف چادروں اور شالوں کے تحائف لاتے ہیں۔
چادروں کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث تیار کنندگان اور دست کار ان کو ہمہ وقت منفرد اور جدید بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔ موسم چاہے کچھ بھی ہو لیکن خواتین کے لباس میں چادر کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے اور حجاب سے لے کر احساس تحفظ اور فیشن تک میں چادریں اپناایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔