پاک بھارت تعلقات کی راہ میں حائل رکاوٹیں

بھارت پر بھی لازم ہے کہ وہ پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے کوئی ناروا مطالبہ نہ کرے۔

رحمن ملک نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو صدر زرداری کی جانب سے خیرسگالی کا پیغام پہنچایا۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان اور بھارت دوستی کے سفر میں ایک دوسرے کے لیے نئے راستے تو وا کر رہے ہیں مگر اس سفر میں ماضی کی تلخیاں اور کانٹے بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود دونوں جانب سے یہ عزم دہرایا جارہا ہے کہ دوستی کا سفر جاری رہے گا کیونکہ اگر اس راہ میں وہ یونہی کانٹے بچھاتے رہے تو ان کے زخمی پاؤں سے رسنے والے خون کی جو لکیر بنے گی وہ انتہا پسندوں کو متحرک رکھنے کا جواز فراہم کرتی رہے گی۔ دوستی کے اس سفر کو پھولوں کی مہک سے آراستہ کرنے کے لیے ماضی کی تلخیوں کو بھلانا شرط اولین ہے۔

پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک نے نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے موقعے پر انھیں صدر آصف علی زرداری کی جانب سے خیرسگالی کا پیغام پہنچایا اور انھیں دورہ پاکستان کی دعوت دی جسے بھارتی وزیراعظم نے قبول کرلیا۔ بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رحمن ملک نے کہا کہ ممبئی حملہ کیس میں پاکستان کو بھارتی گواہوں پر جرح کی اجازت مل گئی ہے اس مقصد کے لیے پاکستان کا عدالتی کمیشن جلد بھارت کا دورہ کرے گا۔ ممبئی حملے کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی آگئی' بھارتی جارحانہ رویہ کے برعکس پاکستان نے تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے معاملے کو زیرکی سے سلجھانے اور خطے کو کسی نئے تصادم سے بچانے کی کوشش کی۔


یہ پاکستانی کوششوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ممبئی حملہ کیس میں بھارت نے پاکستانی جوڈیشل کمیشن کو 40 بھارتی گواہوں پر جرح کی اجازت دے دی ہے۔ بھارت ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان سے حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے مگر پاکستان کا یہی موقف رہا ہے کہ بھارت ثبوت دے دے تو پاکستان کارروائی کرے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھارتی ٹی وی کو انٹرویو میں اسی پاکستانی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت ثبوت فراہم کرے تو حافظ سعید کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ پاکستانی حکام نے بیرونی دنیا کے دبائو پر حافظ سعید کو تین بار گرفتار کیا مگر ٹھوس ثبوت کی عدم فراہمی پر انھیں رہا کر دیا گیا۔ پاکستان بھارتی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔

اب جب پاکستانی عدلیہ حافظ سعید کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر چکی ہے تو بھارت پر بھی لازم ہے کہ وہ پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے کوئی ناروا مطالبہ نہ کرے۔ انصاف کا عین تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی بھی ملزم کو بنا ثبوت مجرم نہیں گردانا جا سکتا ہے۔ یوں بھارت کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسا مطالبہ نہ کرے جس کا کوئی مصدقہ ثبوت نہ ہو۔ جس طرح بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے الزام پر بھارتی وزیر خارجہ سوشیل کمارشنڈے نے موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان ثبوت فراہم کرے وہ کارروائی کریں گے۔

بعینہ بھارت کو بھی بنا ثبوت حافظ سعید کی حوالگی کے مطالبہ سے گریز کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک کی قیادت کو خطے میں امن و استحکام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کاوشیں کرنی اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر الزام تراشیوں کے سلسلے کو قطع کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے دونوں ملک اپنے تنازعات حل کر کے ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں۔
Load Next Story