امریکی انتخابات 2016ء ۔۔۔۔ الیکشن ڈائری دوسرا حصہ
امریکا میں الیکشن والےدن چھٹی کا تصورنہیں۔ تمام دفاتر، اسکول اورکالج کھلے ہوتے ہیں اور لوگ سہولت کےمطابق ووٹ ڈالتے ہیں
FAISALABAD:
امریکہ کی 50 میں سے 39 ریاستوں میں اس وقت 2016ء کے الیکشن کے حوالے سے کافی واضح ہے کہ وہاں سے کس امیدوار کی کامیابی یقینی ہے لیکن کچھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں مقابلہ سخت ہے اور ماضی کے ریکارڈ کے حوالے سے وہاں دونوں امیدواروں کی کامیابی کا امکان آدھا آدھا ہے۔
آج تک کے شماریاتی جائزوں میں 11 میں سے 8 میں ہیلری کلنٹن معمولی فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے نظر آرہی ہیں لیکن ریپبلکن پارٹی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم آئندہ 2 ہفتوں میں ان ریاستوں میں زیادہ موثر اشتہاروں اور انتخابی جلسوں کے ذریعے ہیلری کلنٹن کی اس سبقت کو ختم کرسکتی ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ شمالی کیرولینا ان 11 ریاستوں میں شامل ہے جنہیں Battle ground ریاستیں کہا جاتا ہے اور یہاں کے الیکٹورل ووٹ کی تعداد 15 ہے جو کہ آئندہ امریکی صدر کے انتخاب میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔
امریکی انتخابات 2016ء ۔۔۔۔ الیکشن ڈائری (پہلا حصہ)
شمالی کیرولینا کا شمار امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے اس گروپ میں ہوتا ہے جن میں فلوریڈا، جارجیا، جنوبی کیرولینا، ورجینیا، البامہ اور چند اور ریاستیں شامل ہیں۔ ماضی میں شمالی کیرولینا کا واضح جھکاؤ ریپبلکن پارٹی کی طرف تھا لیکن 2008ء میں یہاں سے براک اوبامہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ اس کی ایک وجہ شاید ان کا پہلا سیاہ فام صدارتی اُمیدوار ہونا تھا۔ اس کے علاوہ نارتھ کیرولینا کے بڑے شہروں میں 1990ء کے بعد مختلف ممالک سے آئے ہوئے ان تارکین وطن کی بھی ہے جو عام طور سے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔
2012ء میں نارتھ کیرولینا سے ریپبلکشن پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سال یہاں کانٹے کا مقابلہ ہے اور جو بھی اُمیدوار یہاں سے کامیاب ہوگا اسکی کامیابی بہت زیادہ مارجن سے نہ ہوگی۔ گوکہ قومی سطح پر صدر کا انتخاب تمام ذرائع ابلاغ کا ایک اہم موضوع ہوتا ہے لیکن ریاستی اور مقامی سطح پر عوام گورنر سے لیکر مقامی اسکول بورڈ کے ممبران کے انتخاب کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جن افراد کو وہ منتخب کرکے مختلف اداروں میں پہنچائیں گے آئندہ 4 سال تک یہی لوگ ان اداروں کی پالیسیاں بنائیں گے۔ الیکشن والے دن یہاں چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے تمام دفاتر، اسکول اور کالج بدستور کھلے ہوتے ہیں اور لوگ یا تو صبح صبح یا شام میں فارغ ہو کر ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔
پاکستان کے برعکس یہاں اسمبلیوں کے ممبران کے ساتھ ساتھ شہروں کے میئر، مقامی عدالتوں کے جج اور اسکول بورڈ کے ممبران بھی بذریعہ الیکشن منتخب ہوتے ہیں۔ عام طور سے مقامی اُمیدوار گھر گھر جاکر یا کمیونٹی سینٹرز میں ووٹرز سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح عام آدمی کے مسائل حل کریں گے۔
ممبران کے انتخاب کے علاوہ وہ اہم مسائل اور فیصلے جو مقامی آبادی کو متاثر کرتے ہیں ان کا فیصلہ بھی بعض دفعہ بیلٹ پیپر کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً مقامی کاؤنٹی چاہتی ہے کہ موجودہ سیلز ٹیکس جو کہ 7 فیصد ہے بڑھا کر ساڑھے 7 فیصد کردیا جائے اور جو آمدنی اس بڑھے ہوئے ٹیکس سے ہو اسے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو بہتر کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس کے لئے بیلٹ پیپر کے آخر میں یہ آپشن ہے کہ اگر آپ اس ٹیکس بڑھانے کے حق میں ہیں تو ہاں میں ووٹ دیجئے اور مخالف ہیں تو نہ میں۔
شمالی کیرولینا کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی 50 سے 60 ہزار ہوگی لیکن یہ آبادی ریاست کے مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ چونکہ یہاں ایک، ایک ووٹ کی قدر و قیمت ہوتی ہے، اس لئے اتنی قلیل آبادی ہونے کے باوجود انتخابی اُمیدوار مسلمان ووٹروں سے بھی رابطہ میں رہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پورے امریکہ میں مسلمان آبادیاں بھی انتخابی سیاست کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے مسجدوں کے علاوہ ایسے ادارے بھی بنا رہے ہیں جو عام مسلمانوں کی سیاست میں رہنمائی کرسکیں۔
شمالی کیرولینا میں اس قسم کا ایک فعال ادارہ مسلم پولیٹیکل ایکشن کمیٹی یا MPAC ہے۔ اس سال MPAC نے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن کے تمام اُمیدواروں کو علاقہ کی مختلف مساجد میں بلایا تاکہ مسلمان ووٹر ان کے نظریات سے آگاہی حاصل کریں اور مقامی سطح پر ان مسائل کے بارے میں بات کرسکیں جو مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ ان میٹنگز میں صوبائی اسمبلی کے ممبران سے لیکر میئر اور دوسرے اُمیدوار آئے اور سنجیدگی کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا۔
امریکی انتخابی نظام کی ایک اور خاص بات Early Voting کا انتظام ہے جہاں پر ہر شہر میں ایک یا دو پولنگ اسٹیشن الیکشن سے دو ہفتہ پہلے کھل جاتے ہیں اور ووٹر اپنی سہولت کے حساب سے وہاں جا کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس بارے میں زیادہ تفصیل سے آئندہ قسط میں بیان کیا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Battleground States
امریکہ کی 50 میں سے 39 ریاستوں میں اس وقت 2016ء کے الیکشن کے حوالے سے کافی واضح ہے کہ وہاں سے کس امیدوار کی کامیابی یقینی ہے لیکن کچھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں مقابلہ سخت ہے اور ماضی کے ریکارڈ کے حوالے سے وہاں دونوں امیدواروں کی کامیابی کا امکان آدھا آدھا ہے۔
آج تک کے شماریاتی جائزوں میں 11 میں سے 8 میں ہیلری کلنٹن معمولی فرق سے ڈونلڈ ٹرمپ سے آگے نظر آرہی ہیں لیکن ریپبلکن پارٹی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم آئندہ 2 ہفتوں میں ان ریاستوں میں زیادہ موثر اشتہاروں اور انتخابی جلسوں کے ذریعے ہیلری کلنٹن کی اس سبقت کو ختم کرسکتی ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ شمالی کیرولینا ان 11 ریاستوں میں شامل ہے جنہیں Battle ground ریاستیں کہا جاتا ہے اور یہاں کے الیکٹورل ووٹ کی تعداد 15 ہے جو کہ آئندہ امریکی صدر کے انتخاب میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔
امریکی انتخابات 2016ء ۔۔۔۔ الیکشن ڈائری (پہلا حصہ)
شمالی کیرولینا کا شمار امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے اس گروپ میں ہوتا ہے جن میں فلوریڈا، جارجیا، جنوبی کیرولینا، ورجینیا، البامہ اور چند اور ریاستیں شامل ہیں۔ ماضی میں شمالی کیرولینا کا واضح جھکاؤ ریپبلکن پارٹی کی طرف تھا لیکن 2008ء میں یہاں سے براک اوبامہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ اس کی ایک وجہ شاید ان کا پہلا سیاہ فام صدارتی اُمیدوار ہونا تھا۔ اس کے علاوہ نارتھ کیرولینا کے بڑے شہروں میں 1990ء کے بعد مختلف ممالک سے آئے ہوئے ان تارکین وطن کی بھی ہے جو عام طور سے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔
2012ء میں نارتھ کیرولینا سے ریپبلکشن پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سال یہاں کانٹے کا مقابلہ ہے اور جو بھی اُمیدوار یہاں سے کامیاب ہوگا اسکی کامیابی بہت زیادہ مارجن سے نہ ہوگی۔ گوکہ قومی سطح پر صدر کا انتخاب تمام ذرائع ابلاغ کا ایک اہم موضوع ہوتا ہے لیکن ریاستی اور مقامی سطح پر عوام گورنر سے لیکر مقامی اسکول بورڈ کے ممبران کے انتخاب کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ جن افراد کو وہ منتخب کرکے مختلف اداروں میں پہنچائیں گے آئندہ 4 سال تک یہی لوگ ان اداروں کی پالیسیاں بنائیں گے۔ الیکشن والے دن یہاں چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے تمام دفاتر، اسکول اور کالج بدستور کھلے ہوتے ہیں اور لوگ یا تو صبح صبح یا شام میں فارغ ہو کر ووٹ ڈالنے جاتے ہیں۔
پاکستان کے برعکس یہاں اسمبلیوں کے ممبران کے ساتھ ساتھ شہروں کے میئر، مقامی عدالتوں کے جج اور اسکول بورڈ کے ممبران بھی بذریعہ الیکشن منتخب ہوتے ہیں۔ عام طور سے مقامی اُمیدوار گھر گھر جاکر یا کمیونٹی سینٹرز میں ووٹرز سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح عام آدمی کے مسائل حل کریں گے۔
ممبران کے انتخاب کے علاوہ وہ اہم مسائل اور فیصلے جو مقامی آبادی کو متاثر کرتے ہیں ان کا فیصلہ بھی بعض دفعہ بیلٹ پیپر کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً مقامی کاؤنٹی چاہتی ہے کہ موجودہ سیلز ٹیکس جو کہ 7 فیصد ہے بڑھا کر ساڑھے 7 فیصد کردیا جائے اور جو آمدنی اس بڑھے ہوئے ٹیکس سے ہو اسے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو بہتر کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس کے لئے بیلٹ پیپر کے آخر میں یہ آپشن ہے کہ اگر آپ اس ٹیکس بڑھانے کے حق میں ہیں تو ہاں میں ووٹ دیجئے اور مخالف ہیں تو نہ میں۔
شمالی کیرولینا کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی 50 سے 60 ہزار ہوگی لیکن یہ آبادی ریاست کے مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ چونکہ یہاں ایک، ایک ووٹ کی قدر و قیمت ہوتی ہے، اس لئے اتنی قلیل آبادی ہونے کے باوجود انتخابی اُمیدوار مسلمان ووٹروں سے بھی رابطہ میں رہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پورے امریکہ میں مسلمان آبادیاں بھی انتخابی سیاست کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے مسجدوں کے علاوہ ایسے ادارے بھی بنا رہے ہیں جو عام مسلمانوں کی سیاست میں رہنمائی کرسکیں۔
شمالی کیرولینا میں اس قسم کا ایک فعال ادارہ مسلم پولیٹیکل ایکشن کمیٹی یا MPAC ہے۔ اس سال MPAC نے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن کے تمام اُمیدواروں کو علاقہ کی مختلف مساجد میں بلایا تاکہ مسلمان ووٹر ان کے نظریات سے آگاہی حاصل کریں اور مقامی سطح پر ان مسائل کے بارے میں بات کرسکیں جو مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ ان میٹنگز میں صوبائی اسمبلی کے ممبران سے لیکر میئر اور دوسرے اُمیدوار آئے اور سنجیدگی کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کیا۔
امریکی انتخابی نظام کی ایک اور خاص بات Early Voting کا انتظام ہے جہاں پر ہر شہر میں ایک یا دو پولنگ اسٹیشن الیکشن سے دو ہفتہ پہلے کھل جاتے ہیں اور ووٹر اپنی سہولت کے حساب سے وہاں جا کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس بارے میں زیادہ تفصیل سے آئندہ قسط میں بیان کیا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔