مصر میں مرسی کے خلاف جوابی تحریک
جب بھی کہیں کلیسائی نظریات برسر اقتدار آئے تو انھوں نے سب سے پہلے ریاستی طاقت کو فاشسٹ طریقے سے ہتھیانےکی کوشش کی۔
مسلم ممالک جس فکری بحران سے گزر رہے ہیں اس کا مشاہدہ ہم مصر کی موجودہ صورت حال سے کرسکتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف جو توانا تحریکیں اٹھی تھیں چونکہ یہ تحریکیں خود رو تھیں اور ان کی فکری رہنمائی کرنے والی کوئی قیادت موجود نہ تھی لہٰذا ان تحریکوں کی کامیابی کے بعد جو خلاء پیدا ہوگیا اسے پورا نہ کیا جاسکا۔
چونکہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی سرگرمیوں کو کوئی حکومت برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی، اس لیے اس خطے میں ایک سیاسی خلاء کا پیدا ہونا عین منطقی تھا، بدقسمتی یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی خاندانی سیاست اور بادشاہی نظام پر امریکا کی بالواسطہ یا بلاواسطہ گرفت بہت مضبوط رہی ہے اور امریکا اس خطے میں ایسی طاقتوں کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا جو اس کی سامراجی سیاست اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ بن جائیں، اس لیے اس نے ایسی اینٹی سامراج، اینٹی سرمایہ دارانہ نظام کی حامل طاقتوں کو قدم جمانے ہی نہیں دیا۔
ایران میں شہنشاہ ایران کے ذریعے اور انڈونیشیا میں سوہارتو کے ذریعے اس نے لاکھوں سیاسی کارکنوں کو اس طرح قتل کرادیا کہ اس خطے میں عشروں تک سامراج دشمن طاقتوں کو اپنی بقاء کی جدوجہد ہی میں مصروف رہنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی تحریکوں کے نتیجے میں جو خلاء پیدا ہوا اسے پر کرنے کے لیے وہ پرو سامراج طاقتیں آگے آئیں جو منتظم بھی تھیں اور جن کے پاس وسائل اور کارکن بھی موجود تھے۔
لیبیا، تیونس اور مصر میں ان طاقتوں نے بڑی مہارت اور تیزی سے اپنی گرفت مضبوط کرلی اور انقلابی قیادت سے محروم مشرق وسطیٰ کے عوام کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہ تھا کہ وہ رجعت پسند طاقتوں کو قبول کرلیں۔ لیبیا، تیونس اورمصر کے انتخابات میں رجعتی طاقتوں کی کامیابی ان ملکوں کے عوام کی اسی مجبوری کا نتیجہ ہیں، لیکن ان طاقتوں کے پاس کھوکھلے نعروں کے علاوہ عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں' لہٰذا عوام کی مایوسی فطری تھی۔ اسی مایوسی کو مصر کی موجودہ التحریر مظاہروں اور مرسی کے محل کے گھیراؤ کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔
مصر کے موجودہ صدر محمد مرسی کی اس تیزی سے غیرمقبولیت کا عالم یہ ہے کہ چند ہی ہفتوں کے اندر اسے ایک طاقتور عوامی تحریک کا سامنا ہے اور اس کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار مصری عدلیہ کے معزز جج صاحبان احتجاجی ہڑتالیں کر رہے ہیں اور صحافی برادری مرسی حکومت کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ خود مرسی حکومت کے تین مشیر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں اور مرسی حکومت کے اکابرین اپوزیشن سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ان سے آئینی اختلافات پر مذاکرات کریں اور مرسی نے جو فاشسٹ آئین بنایا ہے اور سارے اختیارات خود حاصل کرلیے ہیں، موجودہ تحریک کا آغاز مرسی جی کے ان ہی ناقابل چیلنج اختیارات کے خلاف ہورہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرسی کو اتنی عجلت میں ایسا آئین بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ اب مرسی کے کسی اقدام کسی فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا؟
دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی جب کلیسائی نظریات برسر اقتدار آئے ہیں تو انھوں نے سب سے پہلے یہی کیا کہ ریاستی طاقت کو فاشسٹ طریقے سے اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔ اس کے پیچھے دو محرکات موجود رہے ایک یہ کہ انھیں اپنے نظریات عوام پر زبردستی مسلط کرنے کے لیے اختیارات کلی حاصل کرنا ضروری محسوس ہوا۔ دوسرا یہ خوف ان پر مسلط رہا کہ عوام ان کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ اس قسم کے اقدامات کا پس منظر یہ ہے کہ ان رجعت پسند طاقتوں کے پاس سوائے کھوکھلے نعروں کے عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ یہ محترم لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ عوامی غصے، عوامی تحریک کی پشت پر ہمیشہ معاشی عوامل معاشی نا انصافیاں بنیادی محرک رہی ہیں۔ آمریت خواہ وہ اشرافیائی ہو یا بادشاہوں کی شکل میں، وہ ہمیشہ اپنے ہاتھوں میں ارتکاز دولت کی طلب گار رہی ہے۔ عوام کی محرومیوں سے اسے دلچسپی اس حد تک رہی ہے کہ انھیں زندہ رہنے کے لیے جو بنیادی ضرورتیں درکار ہوتی ہیں فراہم کردی جائیں اور خود جنت کے مزے لوٹتے رہیں۔
اس حوالے سے ہم اگر 1977ء کی تحریک پر نظر ڈالیں تو مصر کی موجودہ تحریک کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ بھٹو کے خلاف پاکستان میں جو تحریک 1977ء میں اٹھی تھی اس کا مرکزی نقطہ انتخابات میں چند سیٹوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا تھا، لیکن چونکہ امریکا بھٹو کو سزا دینا چاہتا تھا لہٰذا اس نے بھٹو کے خلاف اس احتجاج کو ایک ایسی طوفانی تحریک میں بدل دیا کہ بھٹو کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 1977ء کی تحریک بنیادی طور پر الیکشن میں مبینہ طور پر دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک تھی، لیکن چونکہ اس تحریک کی قیادت نظریاتی اکابرین نے اچک لی تھی لہٰذا اس تحریک کی شکل ہی بدل دی گئی۔ یہی کچھ لیبیا، تیونس اور مصر میں کیا گیا اور اسی سیاسی بددیانتی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
1977ء میں امریکا نے جس طرح بھٹو کے خلاف تحریک میں ڈالروں کی بارش کے ذریعے بھٹو کا تختہ الٹنے کی کامیاب کوشش کی اسی طرح بلکہ اس سے آگے جاکر امریکا نے لیبیا میں عوامی تحریک کی مدد ہوائی حملوں کے ذریعے کی۔ شام میں وہ اس کے خلاف تحریک میں فقہی طاقتوں کو استعمال کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں آمرانہ حکومتوں کا متبادل بننے والی حکومتیں اگرچہ اپنے آپ کو امریکا دشمن ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی طرح یہ طاقتیں امریکا کی تابعدار ہیں اور اسی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عوام کی اجتماعی طاقت کا رخ معاشی نا انصافیوں کی طرف سے ہٹا کر فقہی اختلافات اور عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے کی طرف موڑ رہی ہیں، پاکستان کی موجودہ صورت حال اور فقہی قتل و غارت کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان ساری سازشوں کا مقصد مشرق وسطیٰ کی تیل کی دولت پر سامراجی قبضہ مستحکم کرنا اور اس خطے میں ایران کو تنہا کرکے اسے اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط اور مخالف طاقت کے طور پر مستحکم ہونے سے روکنا ہے۔
چونکہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی سرگرمیوں کو کوئی حکومت برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی، اس لیے اس خطے میں ایک سیاسی خلاء کا پیدا ہونا عین منطقی تھا، بدقسمتی یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی خاندانی سیاست اور بادشاہی نظام پر امریکا کی بالواسطہ یا بلاواسطہ گرفت بہت مضبوط رہی ہے اور امریکا اس خطے میں ایسی طاقتوں کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا جو اس کی سامراجی سیاست اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرہ بن جائیں، اس لیے اس نے ایسی اینٹی سامراج، اینٹی سرمایہ دارانہ نظام کی حامل طاقتوں کو قدم جمانے ہی نہیں دیا۔
ایران میں شہنشاہ ایران کے ذریعے اور انڈونیشیا میں سوہارتو کے ذریعے اس نے لاکھوں سیاسی کارکنوں کو اس طرح قتل کرادیا کہ اس خطے میں عشروں تک سامراج دشمن طاقتوں کو اپنی بقاء کی جدوجہد ہی میں مصروف رہنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی تحریکوں کے نتیجے میں جو خلاء پیدا ہوا اسے پر کرنے کے لیے وہ پرو سامراج طاقتیں آگے آئیں جو منتظم بھی تھیں اور جن کے پاس وسائل اور کارکن بھی موجود تھے۔
لیبیا، تیونس اور مصر میں ان طاقتوں نے بڑی مہارت اور تیزی سے اپنی گرفت مضبوط کرلی اور انقلابی قیادت سے محروم مشرق وسطیٰ کے عوام کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہ تھا کہ وہ رجعت پسند طاقتوں کو قبول کرلیں۔ لیبیا، تیونس اورمصر کے انتخابات میں رجعتی طاقتوں کی کامیابی ان ملکوں کے عوام کی اسی مجبوری کا نتیجہ ہیں، لیکن ان طاقتوں کے پاس کھوکھلے نعروں کے علاوہ عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں' لہٰذا عوام کی مایوسی فطری تھی۔ اسی مایوسی کو مصر کی موجودہ التحریر مظاہروں اور مرسی کے محل کے گھیراؤ کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔
مصر کے موجودہ صدر محمد مرسی کی اس تیزی سے غیرمقبولیت کا عالم یہ ہے کہ چند ہی ہفتوں کے اندر اسے ایک طاقتور عوامی تحریک کا سامنا ہے اور اس کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار مصری عدلیہ کے معزز جج صاحبان احتجاجی ہڑتالیں کر رہے ہیں اور صحافی برادری مرسی حکومت کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ خود مرسی حکومت کے تین مشیر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں اور مرسی حکومت کے اکابرین اپوزیشن سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ان سے آئینی اختلافات پر مذاکرات کریں اور مرسی نے جو فاشسٹ آئین بنایا ہے اور سارے اختیارات خود حاصل کرلیے ہیں، موجودہ تحریک کا آغاز مرسی جی کے ان ہی ناقابل چیلنج اختیارات کے خلاف ہورہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرسی کو اتنی عجلت میں ایسا آئین بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ اب مرسی کے کسی اقدام کسی فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا؟
دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی جب کلیسائی نظریات برسر اقتدار آئے ہیں تو انھوں نے سب سے پہلے یہی کیا کہ ریاستی طاقت کو فاشسٹ طریقے سے اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔ اس کے پیچھے دو محرکات موجود رہے ایک یہ کہ انھیں اپنے نظریات عوام پر زبردستی مسلط کرنے کے لیے اختیارات کلی حاصل کرنا ضروری محسوس ہوا۔ دوسرا یہ خوف ان پر مسلط رہا کہ عوام ان کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ اس قسم کے اقدامات کا پس منظر یہ ہے کہ ان رجعت پسند طاقتوں کے پاس سوائے کھوکھلے نعروں کے عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ یہ محترم لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ عوامی غصے، عوامی تحریک کی پشت پر ہمیشہ معاشی عوامل معاشی نا انصافیاں بنیادی محرک رہی ہیں۔ آمریت خواہ وہ اشرافیائی ہو یا بادشاہوں کی شکل میں، وہ ہمیشہ اپنے ہاتھوں میں ارتکاز دولت کی طلب گار رہی ہے۔ عوام کی محرومیوں سے اسے دلچسپی اس حد تک رہی ہے کہ انھیں زندہ رہنے کے لیے جو بنیادی ضرورتیں درکار ہوتی ہیں فراہم کردی جائیں اور خود جنت کے مزے لوٹتے رہیں۔
اس حوالے سے ہم اگر 1977ء کی تحریک پر نظر ڈالیں تو مصر کی موجودہ تحریک کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ بھٹو کے خلاف پاکستان میں جو تحریک 1977ء میں اٹھی تھی اس کا مرکزی نقطہ انتخابات میں چند سیٹوں پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا تھا، لیکن چونکہ امریکا بھٹو کو سزا دینا چاہتا تھا لہٰذا اس نے بھٹو کے خلاف اس احتجاج کو ایک ایسی طوفانی تحریک میں بدل دیا کہ بھٹو کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 1977ء کی تحریک بنیادی طور پر الیکشن میں مبینہ طور پر دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک تھی، لیکن چونکہ اس تحریک کی قیادت نظریاتی اکابرین نے اچک لی تھی لہٰذا اس تحریک کی شکل ہی بدل دی گئی۔ یہی کچھ لیبیا، تیونس اور مصر میں کیا گیا اور اسی سیاسی بددیانتی کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
1977ء میں امریکا نے جس طرح بھٹو کے خلاف تحریک میں ڈالروں کی بارش کے ذریعے بھٹو کا تختہ الٹنے کی کامیاب کوشش کی اسی طرح بلکہ اس سے آگے جاکر امریکا نے لیبیا میں عوامی تحریک کی مدد ہوائی حملوں کے ذریعے کی۔ شام میں وہ اس کے خلاف تحریک میں فقہی طاقتوں کو استعمال کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں آمرانہ حکومتوں کا متبادل بننے والی حکومتیں اگرچہ اپنے آپ کو امریکا دشمن ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی طرح یہ طاقتیں امریکا کی تابعدار ہیں اور اسی کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عوام کی اجتماعی طاقت کا رخ معاشی نا انصافیوں کی طرف سے ہٹا کر فقہی اختلافات اور عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے کی طرف موڑ رہی ہیں، پاکستان کی موجودہ صورت حال اور فقہی قتل و غارت کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان ساری سازشوں کا مقصد مشرق وسطیٰ کی تیل کی دولت پر سامراجی قبضہ مستحکم کرنا اور اس خطے میں ایران کو تنہا کرکے اسے اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط اور مخالف طاقت کے طور پر مستحکم ہونے سے روکنا ہے۔