معاشی استحکام
ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو کم ازکم آیندہ تیس برسوں پر محیط ہو جس میں پوری قوم متحد ہو، راضی ہو۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے کہ ہم خدا کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے، مگر افسوس کہ ہم ان نعمتوں کا صحیح استعمال نہیں کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو سونے چاندی، تیل،کاپر، نمک اورکوئلے کی صورت میں جتنے معدنی وسائل عطا کیے ہیں، وہ بہت کم ملکوں کو نصیب ہوئے ہیں، کہیں سونا ہے تو چاندی نہیں،کہیں گیس ہے تو تیل نہیں، مگر پاکستان بے شمار معدنی وسائل سے مالا مال ہے، پاکستان میں ہر چیز بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے۔
اگر ہم ان چیزوں کا صحیح استعمال کریں تو پاکستان سب سے زیادہ ترقی یافتہ اورطاقت ور ملکوں میں شامل ہوجائے، ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں مگر افسوس کہ ہمارا ملک ترقی کی طرف جانے کے بجائے پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے آخر کیوں؟ 21 ویں صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر بدقسمتی سے پاکستانی عوام گیس، بجلی، پانی اور دوسری بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں۔پاکستان دنیا کے نقشے پر اپنے معدنی وسائل کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے اور وہاں کے عوام بنیادی چیزوں کے لیے ترس رہے ہیں، وہ بنیادی چیزیں جو ہر ملک اپنے شہریوں کو فراہم کرنے کا پابند ہے، اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ملک کی حکومت اپنے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے کسی ملک میں اتنے مسائل نظر نہیں آتے جتنے آج کل پاکستان کی سرزمین پر نظر آرہے ہیں۔
اتنے وسائل والے ملک میں اتنے مسائل...! حیرت ہے ، بدقسمتی ہے پاکستانی عوام کی کہ حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ملک ترقی کرنے کے بجائے پسماندگی کی طرف گامزن ہے۔ ہمارے اردگرد کے ملک تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں اور پاکستان آج کل مشکل دور سے گزر رہا ہے اگر ملک کے حالات بہتر نہ کیے گئے تو پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے پاکستان کو بنے 64 سال ہوگئے مگر آج تک کبھی اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا کہ آج کل کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکمرانوں کو پاکستان کے بارے میں خلوص نیت کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ کیسے ان مسائل سے نجات دلائی جائے اور شہریوں کو کیسے ان کے بنیادی حقوق آسانی کے ساتھ فراہم کیے جائیں؟ پاکستان کی معیشت نے اپنی ابتداء سے لے کر آج تک کبھی اس قدر آزمائشوں کا سامنا نہیں کیا جو آج کل اسے درپیش ہیں۔
ملک بدامنی، کرپشن، بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور پٹرول، سی این جی، بجلی، گیس کے نرخوں میں آئے روز ہونے والے اضافے اور لوڈشیڈنگ کے علاوہ شدید مہنگائی کی زد میں ہے۔ ان سارے بحرانوں نے مل کر عام آدمی کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مزید مشکل بنادیا ہے۔ شہری علاقوں میں 12 سے 15 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں بجلی 20 / 20 گھنٹے غائب ہے، بدقسمتی سے موجودہ حکومت اس سنگین مسئلے پر کوئی قابو نہیں پاسکی، اس وقت پاکستان کی بجلی بنانے کی صلاحیت تقریباً 19 ہزار 420 میگاواٹ تھی اور موجودہ حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار میں مزید 3 ہزار میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں فی الوقت انسٹالڈ کیپیسٹی تقریباً 23 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے، آج کل بجلی کے استعمال کو دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کی بجلی کی ضروریات تقریباً 16 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے۔
اگر ہم بجلی کے صارفین پر نظر ڈالیں تو ان کی تعداد 15.7 ملین یعنی ایک کروڑ 57 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان میں 9 کروڑ لوگوں کو بجلی کی سہولت میسر ہے، جب کہ 9 کروڑ لوگ بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ یہ بنیادی سہولت پورے پاکستان کے شہریوں کو فراہم کرے تاکہ عوام سکون اور سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صارفین سے بھاری بھرکم بل تو وصول کیے جاتے ہیں مگر بجلی کئی کئی گھنٹے بند رہتی ہے اور مہینے پر عوام کو بھاری بھرکم بل دیے جاتے ہیں۔
حکمران ان مشکلات کو حل کرنے کے بجائے سیاسی چپقلش میں الجھے ہوئے ہیں ملک و قوم کی کسی کو پرواہ نہیں، تمام سیاستدان سیاسی کھیل تماشے میں مگن ہیں بس بڑے بڑے دعوے کرتے ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں، عمل اب تک کسی نے نہیں کیا، غریب عوام خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور لوگوں کو بنیادی چیزیں روٹی، کپڑا، مکان، گیس، بجلی کچھ میسر نہیں ہے۔ عوام کے ذہن میں اب یہ سوالات پیدا ہورہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں کیا ہوگا؟ یہ بنیادی چیزیں میسر بھی آئیں گی یا نہیں۔معاشی مشکلات کم ہوں گی یا نہیں؟ انرجی بحران کیا صورت اختیار کرے گا، سونے، پٹرول کی قیمتوں کا کیا حال ہوگا اور آج کل سی این جی کا جو بحران چل رہا ہے وہ کب ختم ہوگا؟ ملک میں عوام ابھی بہت سی مشکلات کا سامنا تو کر رہے تے کہ اب سی این جی کے بحران کا سامنا بھی عوام کو کرنا پڑ رہا ہے۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے مطابق اس وقت ملک بھر میں تین ہزار سے زائد سی این جی اسٹیشن کم نرخوں کی وجہ سے بند ہیں، چند مفاد پرست عناصر اپنے مفاد کے لیے عوام کو شدید پریشان کر رہے ہیں عوام کو ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سی این جی اسٹیشن اب کئی کئی دن بند رہتے ہیں جب کھلنے کا اعلان ہوتا ہے تو سی این جی اسٹیشن کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اتنی لمبی لمبی قطاریں دور دور تک دیکھی جاسکتی ہیں، کئی گھنٹوں اس قطار میں لگنے کے بعد گاڑیوں کو سی این جی نصیب ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلح افراد نے سی این جی کے حصول کے لیے قطاروں میں لگے شہریوں سے موبائل فون اور نقدی لوٹ لی۔
شہری اب ہر طرح سے اذیت کا شکار ہیں اور ہماری حکومت بے بس نظر آرہی ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عوام کی مشکلات کو جلدازجلد حل کرنے کی کوششیں کرے تاکہ عوام کا ذہنی تناؤ کم ہو، جس ملک میں عوام سے بنیادی سہولت چھین لی جائے۔ وہ ملک ترقی کی طرف نہیں پسماندگی کی طرف بڑھتا ہے۔ اب صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا، اگر پاکستان کو بچانا ہے اور ترقی کی طرف گامزن کرنا ہے تو بہتر سے بہتر پالیسیاں تشکیل دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ معاشی استحکام میں ہی ہماری بقا ہے، وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے لیے ایک نئی گرینڈ نیشنل اسٹرٹیجی وضع کی جائے یعنی ایک نئی قومی حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ دنیا کا بغور جائزہ لے کر ایک ایسی پالیسی مرتب کرنے کا جس میں اپنے ملک کے مفادات کو فروغ اور نقصانات کے خلاف تحفظ کیا جاسکے۔
بدلتی دنیا میں ہمیں اپنی راہ واضح طور پر متعین کرنی ہوگی، پاکستان کی موجودہ اور ماضی کی حالت کو دیکھ کر تمام ماہرین خواہ وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی، اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل صرف اور صرف اقتصادی استحکام میں ہے۔ ہمیں معاشی طور پر ایک مضبوط ملک بننا ہوگا، یہی ہمارے مسائل کا حل اور ہمیں اقوام میں ایک محترم مقام دلانے کا باعث ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں سب کچھ چھوڑ کر صرف اقتصادی مضبوطی اور قوت کو اپنا محور بنا لینا چاہیے،یہی ہماری شارٹ ٹرم پالیسی اور لانگ ٹرم پالیسی ہوگی، یہی ہمارا راستہ اور یہی ہماری منزل، ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو کم ازکم آیندہ تیس برسوں پر محیط ہو جس میں پوری قوم متحد ہو، راضی ہو۔
لیکن یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں اس لیے ٹھوس پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی، ہم عموماً یہ بات کچھ یوں کرتے ہیں کہ ''پاکستان تمام وسائل سے مالا مال ہے، صرف عوام کے حق میں پالیسی کی ضرورت ہے۔'' اس کے بعد ہم ایک طاقتور ملک بن سکتے ہیں، ہماری حکومت کو عوام کی بہتری کے لیے اب بہتر سے بہتر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہمارا پاکستان تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہوسکے۔
اگر ہم ان چیزوں کا صحیح استعمال کریں تو پاکستان سب سے زیادہ ترقی یافتہ اورطاقت ور ملکوں میں شامل ہوجائے، ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں مگر افسوس کہ ہمارا ملک ترقی کی طرف جانے کے بجائے پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے آخر کیوں؟ 21 ویں صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر بدقسمتی سے پاکستانی عوام گیس، بجلی، پانی اور دوسری بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں۔پاکستان دنیا کے نقشے پر اپنے معدنی وسائل کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے اور وہاں کے عوام بنیادی چیزوں کے لیے ترس رہے ہیں، وہ بنیادی چیزیں جو ہر ملک اپنے شہریوں کو فراہم کرنے کا پابند ہے، اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ملک کی حکومت اپنے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے کسی ملک میں اتنے مسائل نظر نہیں آتے جتنے آج کل پاکستان کی سرزمین پر نظر آرہے ہیں۔
اتنے وسائل والے ملک میں اتنے مسائل...! حیرت ہے ، بدقسمتی ہے پاکستانی عوام کی کہ حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ملک ترقی کرنے کے بجائے پسماندگی کی طرف گامزن ہے۔ ہمارے اردگرد کے ملک تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں اور پاکستان آج کل مشکل دور سے گزر رہا ہے اگر ملک کے حالات بہتر نہ کیے گئے تو پاکستان مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے پاکستان کو بنے 64 سال ہوگئے مگر آج تک کبھی اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا کہ آج کل کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکمرانوں کو پاکستان کے بارے میں خلوص نیت کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ کیسے ان مسائل سے نجات دلائی جائے اور شہریوں کو کیسے ان کے بنیادی حقوق آسانی کے ساتھ فراہم کیے جائیں؟ پاکستان کی معیشت نے اپنی ابتداء سے لے کر آج تک کبھی اس قدر آزمائشوں کا سامنا نہیں کیا جو آج کل اسے درپیش ہیں۔
ملک بدامنی، کرپشن، بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور پٹرول، سی این جی، بجلی، گیس کے نرخوں میں آئے روز ہونے والے اضافے اور لوڈشیڈنگ کے علاوہ شدید مہنگائی کی زد میں ہے۔ ان سارے بحرانوں نے مل کر عام آدمی کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مزید مشکل بنادیا ہے۔ شہری علاقوں میں 12 سے 15 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں بجلی 20 / 20 گھنٹے غائب ہے، بدقسمتی سے موجودہ حکومت اس سنگین مسئلے پر کوئی قابو نہیں پاسکی، اس وقت پاکستان کی بجلی بنانے کی صلاحیت تقریباً 19 ہزار 420 میگاواٹ تھی اور موجودہ حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار میں مزید 3 ہزار میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں فی الوقت انسٹالڈ کیپیسٹی تقریباً 23 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے، آج کل بجلی کے استعمال کو دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کی بجلی کی ضروریات تقریباً 16 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے۔
اگر ہم بجلی کے صارفین پر نظر ڈالیں تو ان کی تعداد 15.7 ملین یعنی ایک کروڑ 57 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان میں 9 کروڑ لوگوں کو بجلی کی سہولت میسر ہے، جب کہ 9 کروڑ لوگ بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، موجودہ حکومت کو چاہیے کہ یہ بنیادی سہولت پورے پاکستان کے شہریوں کو فراہم کرے تاکہ عوام سکون اور سکھ کا سانس لے سکیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صارفین سے بھاری بھرکم بل تو وصول کیے جاتے ہیں مگر بجلی کئی کئی گھنٹے بند رہتی ہے اور مہینے پر عوام کو بھاری بھرکم بل دیے جاتے ہیں۔
حکمران ان مشکلات کو حل کرنے کے بجائے سیاسی چپقلش میں الجھے ہوئے ہیں ملک و قوم کی کسی کو پرواہ نہیں، تمام سیاستدان سیاسی کھیل تماشے میں مگن ہیں بس بڑے بڑے دعوے کرتے ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں، عمل اب تک کسی نے نہیں کیا، غریب عوام خودکشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور لوگوں کو بنیادی چیزیں روٹی، کپڑا، مکان، گیس، بجلی کچھ میسر نہیں ہے۔ عوام کے ذہن میں اب یہ سوالات پیدا ہورہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں کیا ہوگا؟ یہ بنیادی چیزیں میسر بھی آئیں گی یا نہیں۔معاشی مشکلات کم ہوں گی یا نہیں؟ انرجی بحران کیا صورت اختیار کرے گا، سونے، پٹرول کی قیمتوں کا کیا حال ہوگا اور آج کل سی این جی کا جو بحران چل رہا ہے وہ کب ختم ہوگا؟ ملک میں عوام ابھی بہت سی مشکلات کا سامنا تو کر رہے تے کہ اب سی این جی کے بحران کا سامنا بھی عوام کو کرنا پڑ رہا ہے۔
سی این جی ایسوسی ایشن کے مطابق اس وقت ملک بھر میں تین ہزار سے زائد سی این جی اسٹیشن کم نرخوں کی وجہ سے بند ہیں، چند مفاد پرست عناصر اپنے مفاد کے لیے عوام کو شدید پریشان کر رہے ہیں عوام کو ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سی این جی اسٹیشن اب کئی کئی دن بند رہتے ہیں جب کھلنے کا اعلان ہوتا ہے تو سی این جی اسٹیشن کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، اتنی لمبی لمبی قطاریں دور دور تک دیکھی جاسکتی ہیں، کئی گھنٹوں اس قطار میں لگنے کے بعد گاڑیوں کو سی این جی نصیب ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مسلح افراد نے سی این جی کے حصول کے لیے قطاروں میں لگے شہریوں سے موبائل فون اور نقدی لوٹ لی۔
شہری اب ہر طرح سے اذیت کا شکار ہیں اور ہماری حکومت بے بس نظر آرہی ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عوام کی مشکلات کو جلدازجلد حل کرنے کی کوششیں کرے تاکہ عوام کا ذہنی تناؤ کم ہو، جس ملک میں عوام سے بنیادی سہولت چھین لی جائے۔ وہ ملک ترقی کی طرف نہیں پسماندگی کی طرف بڑھتا ہے۔ اب صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا، اگر پاکستان کو بچانا ہے اور ترقی کی طرف گامزن کرنا ہے تو بہتر سے بہتر پالیسیاں تشکیل دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ معاشی استحکام میں ہی ہماری بقا ہے، وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے لیے ایک نئی گرینڈ نیشنل اسٹرٹیجی وضع کی جائے یعنی ایک نئی قومی حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ دنیا کا بغور جائزہ لے کر ایک ایسی پالیسی مرتب کرنے کا جس میں اپنے ملک کے مفادات کو فروغ اور نقصانات کے خلاف تحفظ کیا جاسکے۔
بدلتی دنیا میں ہمیں اپنی راہ واضح طور پر متعین کرنی ہوگی، پاکستان کی موجودہ اور ماضی کی حالت کو دیکھ کر تمام ماہرین خواہ وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی، اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل صرف اور صرف اقتصادی استحکام میں ہے۔ ہمیں معاشی طور پر ایک مضبوط ملک بننا ہوگا، یہی ہمارے مسائل کا حل اور ہمیں اقوام میں ایک محترم مقام دلانے کا باعث ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں سب کچھ چھوڑ کر صرف اقتصادی مضبوطی اور قوت کو اپنا محور بنا لینا چاہیے،یہی ہماری شارٹ ٹرم پالیسی اور لانگ ٹرم پالیسی ہوگی، یہی ہمارا راستہ اور یہی ہماری منزل، ایسی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو کم ازکم آیندہ تیس برسوں پر محیط ہو جس میں پوری قوم متحد ہو، راضی ہو۔
لیکن یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں اس لیے ٹھوس پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی، ہم عموماً یہ بات کچھ یوں کرتے ہیں کہ ''پاکستان تمام وسائل سے مالا مال ہے، صرف عوام کے حق میں پالیسی کی ضرورت ہے۔'' اس کے بعد ہم ایک طاقتور ملک بن سکتے ہیں، ہماری حکومت کو عوام کی بہتری کے لیے اب بہتر سے بہتر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ہمارا پاکستان تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہوسکے۔