’’پی ایس ایل کمپنی‘‘
میڈیا جو بڑے سے بڑے معاملے میں خاموش رہتا ہے مگر پی ایس ایل اور نجم سیٹھی کے بارے میں کچھ لکھوتو اچانک متحرک ہوجاتا ہے
پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں ایک بار پھر ان دنوں خاموشیوں کا راج ہے، گوکہ شہریارخان علاج کے بعد دوبارہ چیئرمین کا عہدہ سنبھال چکے مگر حیران کن طور پر اب تک ایک بار بھی میڈیا کے سامنے نہیں آئے،نجانے انھوں نے خود کو کیسے روکا ہوا ہو گا۔ وہ جب کبھی صحافیوں سے بات کریں کوئی نہ کوئی بریکنگ نیوز دے ہی دیتے ہیں، اس بار بھی میڈیا بہت سے سوالات دل میں لیے بیٹھا ہے لیکن نجانے کس نے چیئرمین کو کہا ہوا ہے کہ ''ابھی نہیں تھوڑا انتظار کریں''۔
اب گورننگ بورڈ کی آئندہ ہفتے میٹنگ ہونے والی ہے شاید تب ہی شہریار دل کی باتیں لبوں پر لائیں، کافی عرصے بعد ہونے والے اس اجلاس میں بھی کوئی بڑی پیش رفت ہونے کا تو کوئی امکان نہیں، مجھے آج تک نہیں یاد پڑتا کہ گورننگ بورڈ کے کسی رکن نے بورڈ حکام کا کوئی فیصلہ رد کیا ہو، سب خاموشی سے ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، بدلے میں انھیں مختلف فوائد حاصل ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر صرف گورننگ بورڈ مضبوط ہو جائے تو بورڈ کے اعلیٰ حکام کو من مانیاں کرنے سے قبل دس بار سوچنا پڑے گا، اس بار پی ایس ایل کو کمپنی بنانے کے معاملے پر بھی بات ہونی ہے۔
گذشتہ دنوں میں نے خبر دی کہ بورڈ چیف شہریارخان اس پیش رفت سے خوش نہیں ہیں، عارف حبیب کو لیگ کا چیئرمین بنایا جا رہا ہے اور نجم سیٹھی خود ڈائریکٹر بن جائیں گے، یہ پڑھ کر اعلیٰ حکام کو اچھا نہیں لگا، میڈیا ڈپارٹمنٹ جو بڑے سے بڑے معاملے میں خاموش رہتا ہے مگر پی ایس ایل اور نجم سیٹھی کے بارے میں کچھ لکھو تو اچانک متحرک ہو جاتا ہے، لہٰذا اس بات کی بھی وضاحت کی گئی، نجم سیٹھی بھی خاصے ناراض تھے،ان کا کہنا تھا کہ شہریارکی منظوری سے ہی سب کچھ ہوا۔
یہ بات میں نے ان سے بھی کہی اور یہاں بھی لکھ رہا ہوں کہ بورڈ کے کئی آفیشلز پی ایس ایل کو کمپنی بنانے پر متفق نہیں، نجم سیٹھی سے وہ مختلف وجوہات کی بنا پر ڈرتے ہیں اس لیے خاموش لیکن پس پردہ باتیں ہوتی رہتی ہیں،بعض لوگوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ فرائض سے غفلت برتنے پر پی سی بی سے برطرف شدہ ہارون رشید کو پی ایس ایل کمپنی میں کیوں لایا جا رہا ہے؟
بعض لوگ منصور مسعود خان اور واپڈا کے نمائندے کو ڈائریکٹر بنانے کی اطلاعات سے خوش نہیں، مجھ سے بہت سے لوگ میری خبر کی سورس پوچھتے رہے،اس سے صاف ظاہر ہے کہ باتیں غلط نہیں تھیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ نجم سیٹھی کے ارادے غلط ہیں، پی ایس ایل پاکستان سپر لیگ ہے ایس ایس ایل (سیٹھی سپر لیگ) نہیں، اس میں کامیابی سے ملک کا ہی فائدہ ہو گا، ہم لوگ کیوں چاہیں گے کہ لیگ ناکام ہو، البتہ جو سوال سامنے آ رہے ہیں ان کے جواب حکام کو ضرور دینے چاہئیں۔
سابق ٹیسٹ کرکٹرز ابھی تو آرام سے بیٹھے ہیں لیکن جب فیصلہ ہو جائے گا تو شور مچائیں گے،میرے جیسے عام صحافی کو چپ کرانا آسان ہے لیکن کل کو جب جاوید میانداد یا کوئی اور بڑا کرکٹر اٹھ کر پوچھے تو کیا کہا جائے گا؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئی پی ایل، بگ بیش یا کوئی اور لیگ اپنے بورڈ سے الگ نہیں تو پی ایس ایل میں ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی؟ الگ کمپنی میں جب بیشتر ڈائریکٹرز باہر کے ہوں گے تو پی سی بی کا کیا عمل و دخل ہو گا؟کیا کرکٹ سے واقفیت نہ رکھنے والے لوگ لیگ کے معاملات سنبھال سکیں گے؟ ایونٹ سے حاصل شدہ منافع کس کے پاس جائے گا؟ پہلے ایڈیشن کا اب تک آڈٹ کیوں نہیں ہوا؟
ایسی اور بھی کئی باتیں ہیں جس پر وضاحت سامنے آنی چاہیے، چیئرمین بیچارے اس لیے خاموش ہیں کہ حال ہی میں لندن میں جب ان کے دل کا آپریشن ہوا تو پی سی بی کے اکاؤنٹ سے پچاس ہزار پاؤنڈ خاموشی سے اسپتال منتقل کیے گئے، فضائی ٹکٹس و ڈیلی الاؤنس وغیرہ ملا کر ان پر ایک کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوئی، وہ زیادہ سوال اٹھائیں گے تو میڈیا میں ان باتوں پر بھی بحث شروع کرائی جا سکتی ہے۔
گذشتہ دنوں قائمہ کمیٹی کی میٹنگ میں پی ایس ایل کے حوالے سے تھوڑی بہت بات ہوئی بلکہ ایک موقع پر تو اقبال محمد علی اور نجم سیٹھی میں گرماگرم بحث چھڑ گئی، جس پر بورڈ آفیشل نے جیب سے پرس نکال کر کہا کہ ''پانچ لاکھ روپے میں لاتا ہوں اتنی ہی رقم اسمبلی ممبر رکھیں، اگر انھوں نے اپنی بات سچ ثابت کردی تو سارے پیسے لے جائیں'' خیر بات مزید آگے نہیں بڑھی تھی لیکن یہ معاملات اتنے آسان نہیں ہیں، بہت سے لوگ اس لیے خاموش تھے کہ دو نومبر کو عمران خان کا دھرنا حکومت ختم کر دے گا۔
وزیر اعظم کے ساتھ بورڈ حکام کو بھی گھر جانا پڑے گا، انتظار کر لیتے ہیں، مگر ایسا کچھ نہ ہوا اس لیے شاید مخالفین اب کوئی نیا منصوبہ بنائیں،پی ایس ایل گورننگ کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ الگ کمپنی اس لیے بنا رہے ہیں کہ پی سی بی کی سیاست سے اسے دور رکھا جائے،معاملات شفاف انداز سے چلیں، سیاسی مداخلت نہ ہو،یہ پی سی بی کی ہی ذیلی کمپنی ہو گی وغیرہ وغیرہ، اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ بورڈ کے دونوں بڑوں کو بھی تو وزیر اعظم نے نامزد کیا تھا کیا یہ سیاسی مداخلت نہ تھی؟
اس وقت پی سی بی کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کی کمزور سائیڈ کو ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ تینوں سیریز میں ہرا دیا،اس لیے لوگوں کی توجہ ان معاملات پر نہیں آئی، حکومت اپنی کرسی بچائے یا کرکٹ کے معاملات دیکھے، اس لیے جو جیسا چل رہا ہے چلتے رہے گا لیکن خدانخواستہ آگے ٹورز میں نتائج اچھے نہ رہے تو پھر ساری فائلز کھل جائیں گی، اس لیے احتیاط سے کام لینا ہی مناسب ہوگا۔
بورڈ کے ناراض آفیشلز کو بھی یہی مشورہ ہے کہ ادھر ادھر کھسر پسر کرنے کے بجائے اگر کسی بات پر تحفظات ہیں تو کھل کر بات کریں، میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سوں کی دکھتی رگوں پر کسی نے ہاتھ رکھا ہوا ہے لیکن پھر بھی ہمت کر کے دیکھ لیں ، ورنہ کل کو کچھ غلط ہوا تو اس کا ذمہ دار فرد واحد نہیں پورا کرکٹ بورڈ ہی ہوگا۔
اب گورننگ بورڈ کی آئندہ ہفتے میٹنگ ہونے والی ہے شاید تب ہی شہریار دل کی باتیں لبوں پر لائیں، کافی عرصے بعد ہونے والے اس اجلاس میں بھی کوئی بڑی پیش رفت ہونے کا تو کوئی امکان نہیں، مجھے آج تک نہیں یاد پڑتا کہ گورننگ بورڈ کے کسی رکن نے بورڈ حکام کا کوئی فیصلہ رد کیا ہو، سب خاموشی سے ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، بدلے میں انھیں مختلف فوائد حاصل ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر صرف گورننگ بورڈ مضبوط ہو جائے تو بورڈ کے اعلیٰ حکام کو من مانیاں کرنے سے قبل دس بار سوچنا پڑے گا، اس بار پی ایس ایل کو کمپنی بنانے کے معاملے پر بھی بات ہونی ہے۔
گذشتہ دنوں میں نے خبر دی کہ بورڈ چیف شہریارخان اس پیش رفت سے خوش نہیں ہیں، عارف حبیب کو لیگ کا چیئرمین بنایا جا رہا ہے اور نجم سیٹھی خود ڈائریکٹر بن جائیں گے، یہ پڑھ کر اعلیٰ حکام کو اچھا نہیں لگا، میڈیا ڈپارٹمنٹ جو بڑے سے بڑے معاملے میں خاموش رہتا ہے مگر پی ایس ایل اور نجم سیٹھی کے بارے میں کچھ لکھو تو اچانک متحرک ہو جاتا ہے، لہٰذا اس بات کی بھی وضاحت کی گئی، نجم سیٹھی بھی خاصے ناراض تھے،ان کا کہنا تھا کہ شہریارکی منظوری سے ہی سب کچھ ہوا۔
یہ بات میں نے ان سے بھی کہی اور یہاں بھی لکھ رہا ہوں کہ بورڈ کے کئی آفیشلز پی ایس ایل کو کمپنی بنانے پر متفق نہیں، نجم سیٹھی سے وہ مختلف وجوہات کی بنا پر ڈرتے ہیں اس لیے خاموش لیکن پس پردہ باتیں ہوتی رہتی ہیں،بعض لوگوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ فرائض سے غفلت برتنے پر پی سی بی سے برطرف شدہ ہارون رشید کو پی ایس ایل کمپنی میں کیوں لایا جا رہا ہے؟
بعض لوگ منصور مسعود خان اور واپڈا کے نمائندے کو ڈائریکٹر بنانے کی اطلاعات سے خوش نہیں، مجھ سے بہت سے لوگ میری خبر کی سورس پوچھتے رہے،اس سے صاف ظاہر ہے کہ باتیں غلط نہیں تھیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ نجم سیٹھی کے ارادے غلط ہیں، پی ایس ایل پاکستان سپر لیگ ہے ایس ایس ایل (سیٹھی سپر لیگ) نہیں، اس میں کامیابی سے ملک کا ہی فائدہ ہو گا، ہم لوگ کیوں چاہیں گے کہ لیگ ناکام ہو، البتہ جو سوال سامنے آ رہے ہیں ان کے جواب حکام کو ضرور دینے چاہئیں۔
سابق ٹیسٹ کرکٹرز ابھی تو آرام سے بیٹھے ہیں لیکن جب فیصلہ ہو جائے گا تو شور مچائیں گے،میرے جیسے عام صحافی کو چپ کرانا آسان ہے لیکن کل کو جب جاوید میانداد یا کوئی اور بڑا کرکٹر اٹھ کر پوچھے تو کیا کہا جائے گا؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئی پی ایل، بگ بیش یا کوئی اور لیگ اپنے بورڈ سے الگ نہیں تو پی ایس ایل میں ایسی کیا ضرورت پیش آ گئی؟ الگ کمپنی میں جب بیشتر ڈائریکٹرز باہر کے ہوں گے تو پی سی بی کا کیا عمل و دخل ہو گا؟کیا کرکٹ سے واقفیت نہ رکھنے والے لوگ لیگ کے معاملات سنبھال سکیں گے؟ ایونٹ سے حاصل شدہ منافع کس کے پاس جائے گا؟ پہلے ایڈیشن کا اب تک آڈٹ کیوں نہیں ہوا؟
ایسی اور بھی کئی باتیں ہیں جس پر وضاحت سامنے آنی چاہیے، چیئرمین بیچارے اس لیے خاموش ہیں کہ حال ہی میں لندن میں جب ان کے دل کا آپریشن ہوا تو پی سی بی کے اکاؤنٹ سے پچاس ہزار پاؤنڈ خاموشی سے اسپتال منتقل کیے گئے، فضائی ٹکٹس و ڈیلی الاؤنس وغیرہ ملا کر ان پر ایک کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوئی، وہ زیادہ سوال اٹھائیں گے تو میڈیا میں ان باتوں پر بھی بحث شروع کرائی جا سکتی ہے۔
گذشتہ دنوں قائمہ کمیٹی کی میٹنگ میں پی ایس ایل کے حوالے سے تھوڑی بہت بات ہوئی بلکہ ایک موقع پر تو اقبال محمد علی اور نجم سیٹھی میں گرماگرم بحث چھڑ گئی، جس پر بورڈ آفیشل نے جیب سے پرس نکال کر کہا کہ ''پانچ لاکھ روپے میں لاتا ہوں اتنی ہی رقم اسمبلی ممبر رکھیں، اگر انھوں نے اپنی بات سچ ثابت کردی تو سارے پیسے لے جائیں'' خیر بات مزید آگے نہیں بڑھی تھی لیکن یہ معاملات اتنے آسان نہیں ہیں، بہت سے لوگ اس لیے خاموش تھے کہ دو نومبر کو عمران خان کا دھرنا حکومت ختم کر دے گا۔
وزیر اعظم کے ساتھ بورڈ حکام کو بھی گھر جانا پڑے گا، انتظار کر لیتے ہیں، مگر ایسا کچھ نہ ہوا اس لیے شاید مخالفین اب کوئی نیا منصوبہ بنائیں،پی ایس ایل گورننگ کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ الگ کمپنی اس لیے بنا رہے ہیں کہ پی سی بی کی سیاست سے اسے دور رکھا جائے،معاملات شفاف انداز سے چلیں، سیاسی مداخلت نہ ہو،یہ پی سی بی کی ہی ذیلی کمپنی ہو گی وغیرہ وغیرہ، اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ بورڈ کے دونوں بڑوں کو بھی تو وزیر اعظم نے نامزد کیا تھا کیا یہ سیاسی مداخلت نہ تھی؟
اس وقت پی سی بی کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کی کمزور سائیڈ کو ون ڈے، ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ تینوں سیریز میں ہرا دیا،اس لیے لوگوں کی توجہ ان معاملات پر نہیں آئی، حکومت اپنی کرسی بچائے یا کرکٹ کے معاملات دیکھے، اس لیے جو جیسا چل رہا ہے چلتے رہے گا لیکن خدانخواستہ آگے ٹورز میں نتائج اچھے نہ رہے تو پھر ساری فائلز کھل جائیں گی، اس لیے احتیاط سے کام لینا ہی مناسب ہوگا۔
بورڈ کے ناراض آفیشلز کو بھی یہی مشورہ ہے کہ ادھر ادھر کھسر پسر کرنے کے بجائے اگر کسی بات پر تحفظات ہیں تو کھل کر بات کریں، میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سوں کی دکھتی رگوں پر کسی نے ہاتھ رکھا ہوا ہے لیکن پھر بھی ہمت کر کے دیکھ لیں ، ورنہ کل کو کچھ غلط ہوا تو اس کا ذمہ دار فرد واحد نہیں پورا کرکٹ بورڈ ہی ہوگا۔