خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں

خوش فہمی بعض ماہر نفسیات کی نظر میں ایک تعمیری جذبہ ہے

najmalam.jafri@gmail.com

LONDON:
گزشتہ ہفتے جب ہم اپنا اظہاریہ روانہ کر چکے اور اطمینان سے اخبار کا مطالعہ کرنے بیٹھے تو ایک خبر پر کھٹک کر رہ گئے، خبر کچھ یوں تھی کہ ''جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کی حکومت میں عوام کو مفت تعلیم فراہم کی جائے گی، لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم بھی لازمی ہو گی، ہم یکساں نصاب اور نظام تعلیم بنائیںگے اور تعلیم قومی زبان میں دی جائے گی''۔ باتیں تو بہت حقیقت پسندانہ اور فوراً قابل عمل ہیں مگر افسوس کہ ہمیں ان تمام مثبت اقدامات کے لیے ملک میں جماعت اسلامی کی حکومت قائم ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔

خوش فہمی بعض ماہر نفسیات کی نظر میں ایک تعمیری جذبہ ہے جب کہ بعض خوش فہمی کو منفی طرز فکر بھی قرار دیتے ہیں۔ سراج الحق صاحب کے ان نیک خیالات کو ہم خوش فہمی اس لیے قرار دے رہے ہیں کہ آج تک تو عوام نے ان کی جماعت کو اتنی پذیرائی دی نہیں کہ حکومت بنانے کے لیے جتنی نشستیں درکار ہوتی ہیں، وہ انھیں حاصل ہوں (اب تک تو ایسا ہوا نہیں) آیندہ بھی ایسے امکانات نظر نہیں آ رہے کیوںکہ بطور مذہبی جماعت تو ان کے اثرات نظر آتے ہیں مگر بطور سیاسی جماعت صورت حال کچھ مختلف ہے۔

بالفرض اگر کسی بھی کوشش سے وہ ایوان میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو کیا انھیں ملک (پاکستان) کے ناجائز وارث حکومت چلانے دیں گے؟ اور اگر ایسا بھی ہو گیا تو حسب عادت یہ اپنے ارادوں اور منشور سے روگردانی کر کے بڑے بڑے نجی اسکولوں کے مالکان کے فراخدلانہ عطیات کے زیر اثر ان ہی کا مرتب کردہ نظام تعلیم ان ہی کی شرائط پر جاری رکھنے پر مجبور نہ ہوں گے؟

عوام کو بہت جلد تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی محض نوید نہیں سناتے رہیں گے (جیساکہ موجودہ حکومت عوام کو مسلسل دلاسے دے رہی ہے) نتیجتاً ہمارا دیرینہ مطالبہ (جاگیردارانہ نظام ختم کرنے کا) ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔

ہمارا یہ مطالبہ کسی سیاسی جماعت کے منشور میں شامل نہیں ہے، کیوںکہ ہر جماعت کے بڑے اور اہم عہدوں پر جاگیردار اور وڈیرے ہی براجمان ہیں، سوائے ایم کیو ایم کے، کیوںکہ یہ جماعت متوسط اور نچلے طبقے کے افراد پر مشتمل تھی مگر جاگیرداروں اور دہشتگردوں کو للکارتی رہتی تھی، جس کی پاداش میں موجودہ صورت حال تک پہنچی اور ملک کے ناجائز وارثوں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سیاسی گدھوں کے سامنے ڈال دیے تا کہ آیندہ متوسط طبقے کا کوئی سرپھرا ان کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہ کرے۔

قائداعظم کے پاکستان میں غریب و متوسط طبقے کو آگے بڑھنے، ان کی صلاحیت کو ملک و قوم کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا عندیہ ملتا تھا، اس لیے پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان ہی نہ رہنے دیا گیا، لہٰذا اب کوئی بھی اس طبقے کو طبقہ اعلیٰ (جاگیردار، وڈیرہ، سردار، چوہدریوں) کے مقابلے میں کھڑا کرنے کا سوچے گا بھی تو اس کا یہی حشر ہوگا۔ ملک کے اصل خیر خواہوں کا حشر بھی معراج محمد خان مرحوم جیسا کیا جائے گا۔


انگریزوں نے برسوں اتنے بڑے علاقے (برصغیر) کے علاوہ، یہاں کی دیگر قدرتی دولت سے مالا مال ممالک اور خطوں پر بلا وجہ پنجے نہیں گاڑے تھے۔ بظاہر وہ چلے گئے مگر معاشی، سیاسی اور اقتصادی بلکہ اخلاقی طور پر بھی یہ تمام علاقے آج ان ہی کے زیر اثر ہیں۔ اوروں کو چھوڑیے ہمارے ملک کا جاگیردارانہ نظام اور نظام تعلیم (باقی دوسرے سب شعبوں کو چھوڑ دیں) آج بھی اپنے پرانے آقاؤں کا رہین منت ہے۔

نظامِ تعلیم وہ نظام ہے جو محبِ وطن، اپنی زبان و ثقافت، دینی و اخلاقی اقرار کے حامی و قدرداں پیدا کرتا ہے مگر جب یہی نظام آقاؤں کے پروردہ ملک غاصبوں کی مرضی اور خواہش پر اس طرح رائج کیا جائے کہ اس کے تحت پڑھنے والے بظاہر تعلیم یافتہ ہوں مگر طرز زندگی وڈیرانہ بلکہ شاہانہ انداز فکر، متعصبانہ اور عملی قبائلی رسم و رواج پر مبنی۔ عورت چاہے وہ ماں ہی کیوں نہ ہو کے بارے میں ذہنی پسماندگی کے باعث جو چاہیں سلوک کریں۔ ان ہی تعلیمی اداروں میں اپنی زبان مذہبی و ثقافتی اقدار کو حقیر سمجھنے اور پردیسی طرز زندگی اپنانے کو فخر محسوس کریں مگر اپنی ذات تک۔

بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے اپنی خود ساختہ قبائلی روایات، خود اختیاری اسلامی اصول انھیں از بر رہتے ہیں۔ تو میں سراج الحق صاحب سے مودبانہ گزارش کروںگی کہ اتنے سنہرے خواب دیکھنا چھوڑ دیں، وطنِ عزیز کے ناجائز وارثوں کے علاوہ آپ کو خود اپنی جماعت میں بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وہ جنھوں نے اﷲ کے تعلیم کردہ اسلام و سنت نبویؐ کو اپنی مرضی و اختیار کا رنگ دے دیا ہے، کیا آپ اتنے لبرل خیالات کی حمایت کریں گے؟ مگر حصولِ اقتدار کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے لہٰذا اگر آپ بھی ووٹ لینے کے لیے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جماعتی افکار کے خلاف لبرل انداز اختیار کر رہے ہیں تو کوئی حرج نہیں کسی کے خواب دیکھنے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ خواب دیکھنا تو زندگی کی علامت ہے، بقول پیرزادہ قاسم رضا صدیقی:

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں، خواب دیکھتا بھی نہیں

لہٰذا آپ نے جو سوچا بہت خوب سوچا اور جو خواب دیکھا اﷲ اس کو تعبیر سے ہمکنار کرے۔ ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
Load Next Story