پانی میں آگ

قدرت نے مہربانی فرمائی اور جس طرح سے افتاد پڑی تھی اچانک ویسے ہی غائب بھی ہو گئی۔

Abdulqhasan@hotmail.com

وہ آئی تو بس دن رات کے لیے ہی لیکن لاتعداد آنکھوں کو رلا کر چلی گئی پیچھے مڑ کر دیکھا کہ کتنی آنکھیں وقتی طور پر ہی سہی بے نور ہو گئیں۔ پریشانی اور غم میں سرخ ہو گئیں۔ ایک خوف تھا جو ہر آنکھ میں دیکھا جا سکتا تھا کہ اس چانک افتاد سے نہ جانے کیا ہو گا۔

قدرت نے مہربانی فرمائی اور جس طرح سے افتاد پڑی تھی اچانک ویسے ہی غائب بھی ہو گئی۔ آنکھیں بحال ہو گئیں۔ زندگی بحال ہو گئی اور خدا کی مخلوق جی اٹھی۔ میں آنکھوں کا مریض ہوں اور میری زندگی ان آنکھوں کی بیمار روشنی کی محتاج رہتی ہے۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ وہ مجھے روشن رکھتا ہے اور میں چند حرف باقاعدگی کے ساتھ لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہتا ہوں۔ آنکھوں کی اس رفاقت پر ہماری عمر گزر گئی ہے اور دونوں میں جو کمزوریاں ہیں ہم ان کے عادی ہو چکے ہیں۔

میری آنکھیں اور میں ہم دونوں ایک بیماری اور خطرے کے دوست اور شریک ہیں اور یہ شرکت پاکستانی ہونے کے باوجود بحمد اللہ کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے اور اب تو لگتا ہے کہ یہ چلتی ہی رہے گی۔ میری آنکھیں قلم دوات اور کاغذات تینوں کا باہمی ساتھ اٹوٹ بن چکا ہے یا ایک مستقل عادت بن گئی ہے میں قلم اور کاغذ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور سفید چمکدار کاغذ کو اپنے حسن کی تابناکی کے لیے میرا قلم درکار ہوتا ہے۔ بس اسی طرح چل رہی ہے صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے اور اسی طرح عمر تمام ہوتی ہے۔ وہ عمر جو کسی پسند کے شغل میں گزرے اس سے زیادہ دلچسپ بات کیا ہو سکتی ہے۔

عمر نے گزرنا تو ہے ہی گرمی سردی غمی خوشی اور دکھ سکھ میں یہ گزر جاتی ہے بس اپنے پیچھے چند یادیں چھوڑ جاتی ہے یعنی اچھی خوش کن یا پریشانی پیدا کرنے والی یادیں اور انسانی زندگی انھی یادوں کی زندگی ہے۔ ان یادوں کو خواہ وہ کیسی بھی ہیں اگر آپ زندگی سے نکال دیں تو اسے خود کشی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان یادوں کے نہ ہونے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے اس میں زندگی نہیں ہوتی۔ اور کچھ ہو یا نہ ہو اسے انسانی زندگی نہیں کہہ سکتے جب کہ زندہ انسان تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

یہ یادیں ہی انسانی زندگی ہیں۔ ایک غریب درویش سے لے کر بادشاہ تک سبھی ان یادوں سے پیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر وہ کچھ نہیں اور اب تو کچھ ایسے حیران کن واقعات ہو رہے ہیں کہ پانی میں آگ لگ گئی ہے اور اب تین روز سے وہ بجھ نہیں رہی بھڑکتی ہی جا رہی ہے۔ یہ آگ سمندر میں موجود ایک جہاز میں لگی ہے اس پر دن اور راتیں گزر رہی ہیں مگر آگ کے سب سے بڑے دشمن پانی میں لگی آگ کو بجھائے کون۔ بجھانے والا خود اسی میں جل رہا ہے اور بڑے بڑے سیانوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ آگ اور پانی کا یہ ملاپ کیسے ختم کریں۔

آگ بجھانے کے تمام ہنر اور حربے جاننے کے باوجود انسان سب کچھ دیکھ رہا ہے مگر بے بس ہے۔ سمندر میں ایک جہاز میں آگ لگ گئی ہے اور وہ نہ دن دیکھتی ہے نہ رات بس بھڑکتی جا رہی ہے شعلہ فشاں ہے پانی میں لگی یہ آگ انسانوں کا مذاق اڑا رہی ہے جو اپنی تمامتر ہنر مندی کے باوجود پانی میں لگی اس آگ پر قابو نہ پا سکے۔


تعجب ہے کہ آگ کے سب سے بڑے دشمن پانی میں یہ بھڑک رہی ہے اسے نہ تو اس دشمن کا ڈر ہے جو اس کے آس پاس اچھل کود رہا ہے اور نہ ہی وہ انسانوں سے خوفزدہ ہے جو آگ بجھانے کے ہنر کو خوب جانتے ہیں مگر عجب تماشا ہے کہ ان تمام مخالفوں اور دشمنوں کے باوجود وہ پانی کی آغوش میں زندگی کر رہی ہے اور اسے کسی کی پروا نہیں۔ قدرت کے عجیب تماشے ہیں کہ پانی میں آگ زندہ ہے اور اس کے شعلے دور دور سے دکھائی دیتے ہیں۔

حضرت انساں جو ہر ہنر سے لیس ہے اس آگ پر قابو نہیں پا سکا جب کہ یہ آگ اپنے دشمن یعنی پانی کے بیچ میں بھڑک رہی ہے۔ اول تو اس بات کا پتہ چلانا چاہیے کہ آگ تو کسی وجہ سے لگ ہی گئی مگر اس کو بجھانے کی فکر نہیں کی جا رہی یعنی دشمن آپ کے سامنے شعلہ فشاں ہے للکار رہا ہے اور آپ اس سے بے پروا ہو کر اپنی زندگی میں مصروف ہیں اور پروا نہیں کہ آگ کا کوئی شعلہ آپ تک بھی پہنچ سکتا ہے جس سے بچنا شاید مشکل ہو۔

ہم ایک بے فکر اور لاپروا قوم بن گئے ہیں اور ہر قسم کی فکر سے آزاد۔ لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے ہماری یہ آزادی صرف اس وقت تک ہے جب تک ہم خود اس سے متاثر نہیں ہوتے۔ یہ آزادی دوسروں کے لیے ہمیں بہت اچھی لگتی ہے بشرطیکہ وہ ہماری زندگی کو متاثر نہ کرے۔ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق آزاد رہنے دے۔

حالات نے یا یوں کہیں کہ دنیا کی ضرورتوں نے ہمیں اس قدر خود غرض بنا دیا ہے کہ ہم پڑوس میں لگی آگ تماشا کرتے ہیں لیکن اس وقت تک جب تک کہ ہم خود اس سے محفوظ ہوں اور مجھے یہ دیکھ کر بہت ہی دکھ ہوتا ہے کہ ہماری دیہی زندگی بھی شہری خود غرضیوں سے متاثر ہو رہی ہے اور اس میں اڑوس پڑوس کی محبت کی خوبصورتی مدھم پڑ رہی ہے۔ میں نے بارہا دیکھا کہ اگر گاؤں کے کسی گھر میں آگ لگ گئی تو گاؤں کی لڑکیاں گھروں کو پیاسا چھوڑ کر پانی کے گھڑے لے کر آگ بجھانے چل پڑیں اور جب تک آگ بجھ نہ گئی ان کا یہ جہاد جاری رہا۔

گاؤں کی لڑکیوں نے آگ بجھانے والے مردوں کو پانی کی قلت نہ ہونے دی اور کسی تالاب سے لے کر آگ والے گھر تک پانی کا ایک سلسلہ بہتا رہا۔ ادھر آگ بجھا دی گئی تو یہ پانی پیاسے گھروں کو جانے لگا جہاں اس کا بے تابی کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا۔ اسی پانی سے گھر کی زندگی تھی اور گھر کا ہر جاندار اسی پانی کا انتظار کر رہا تھا۔

میں نے پانی سے محروم گھروں میں پانی کی آمد پر اسے دیکھ کر مویشیوں کو ہنستے دیکھا۔ استادوں نے انسان اور حیوان میں تفریق ظاہر کرنے کے لیے یہ بھی بتایا تھا کہ انسان ہنس سکتا ہے جب کہ جانور ہنسنے سے محروم رہتا ہے لیکن میں نے کسی پیاسے گھر میں پانی کی آمد پر وہاں کے مویشیوں کو بھی ہنستے دیکھا ہے اس کی تفصیل پھر کبھی۔

فی الحال اتنی عرض ہے کہ پانی میں آگ بدستور لگی ہوئی ہے اور اس کے ارد گرد کا پانی اسے دیکھ کر شرمندہ ہو رہا ہے۔
Load Next Story