قاتل تنہا رہ جائے گا
پاکستان میں پانچ برس پہلے تک چیونٹی خور پوٹھوہار کے جنگلات میں وافر پایا جاتا تھا
یورپ میں بلیاں نہیں پائی جاتی تھیں۔ رومنوں نے جب مصر فتح کیا تو وہاں سے بلیاں روم لائی گئیں اور پھر ملائم بالوں والی ریشمی بلیاں اشرافیہ کا اسٹیٹس سمبل بن گئیں۔ چند سو برس بعد روم عیسائی ہو گیا اور پاپائے روم کا سکہ ہر جانب چلنے لگا۔ جانے کیوں یہ عقیدہ بارہویں و تیرہویں صدی کے دوران عام لوگوں میں پھیلتا چلا گیا کہ بلیاں منحوس اور شیطان کی چیلی ہوتی ہیں۔ چنانچہ بلیوں کا صفایا ہونا شروع ہو گیا۔
چودھویں صدی میں یورپ کو طاعون نے آ لیا اور سات برس (تیرہ سو چھیالیس تا تریپن) میں اس کالی موت نے یورپ کی ایک تہائی آبادی صاف کر دی۔ اس دور کے طبیب یہ تو جانتے تھے کہ طاعون مکھیوں سے پھیلتا ہے لیکن مکھیاں طاعونی جراثیم کس جانور سے حاصل کرتی ہیں یہ نہیں معلوم تھا۔ چنانچہ جتنے کتے اور بلیاں باقی بچے تھے انھیں یہ سمجھ کے ہلاک کر دیا گیا کہ ہو نہ ہو ان پر بیٹھنے والی مکھیاں ہی طاعون پھیلا رہی ہیں۔ پھر کسی نے غور کیا کہ جن لوگوں نے دور دراز علاقوں میں چوری چھپے بلیاں پالی ہوئی ہیں ان میں سے بہت کم طاعون کی زد میں آئے۔
چنانچہ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ طاعون کا سبب وسطی ایشیا سے براستہ شاہراہِ ریشم تجارتی مال کے ساتھ جہازوں پر چڑھ آنے والے سیاہ چوہے ہیں جو اپنے ساتھ طاعون لائے ہیں۔ جیسے جیسے یہ خبر عام ہونے لگی بلیوں کی قدر اور مانگ میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اگلی تین صدیوں میں یورپ میں تواتر کے ساتھ جگہ جگہ طاعون پھیلا مگر چودھویں صدی میں جیسا براعظم گیر طاعون پھر کبھی نہ لوٹا۔
گدھ کو بھلے آپ کتنا ہی بدنام کریں مگر یہ قدرت کے سینٹری ورکرز ہیں۔ یہ آبادیوں اور جنگلوں میں مرنے والے جانوروں کی صفائی پر مامور ہیں۔ اگر جانوروں کے ڈھانچے یونہی پڑے رہیں تو وہ انسانی صحت کے لیے قاتل ہیں۔ نوے کے عشرے میں افریقہ اور جنوبی ایشیا میں گدھ اچانک مرنے شروع ہو گئے۔ صرف دس برس میں افریقہ میں گدھ کی دس نسلوں میں سے چھ ناپیدگی کی کگار پر پہنچ گئیں جب کہ پاکستان، بھارت اور نیپال میں ننانوے فیصد گدھ آبادی غائب ہو گئی۔
دو ہزار تین میں پتہ یہ چلا کہ مویشیوں میں سوزش کی بیماری کے علاج کے لیے ڈائکلوفینک نامی جو دوا استعمال کی جاتی ہے وہ گدھ کی موت کا سبب ہے۔ کوئی مویشی جسے ڈائکلو فینک استعمال کروائی گئی ہو مر جائے تو گدھ اس کا گوشت کھا کر اپنے گردے فیل کر بیٹھتا ہے اور مر جاتا ہے۔ چنانچہ دو ہزار چھ میں بھارت، پاکستان اور نیپال نے اس دوا کی تیاری پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد گدھ مرنا تو کم ہو گئے مگر انھیں اپنی سابق تعداد پر پہنچنے کے لیے اب کئی عشرے درکار ہیں۔ تاہم ڈائکلوفینک افریقہ میں دستیاب ہے اور یورپی یونین کے پانچ ممالک میں بھی قانونی خامیوں کے سبب استعمال ہو رہی ہے۔ ان ممالک میں اٹلی اور اسپین بھی شامل ہیں جہاں یورپ کی نوے فیصد گدھ آبادی پائی جاتی ہے۔
جب سے جنوب مشرقی ایشیا میں یہ تاثر عام ہوا ہے کہ چیونٹی خور (پینگولین) کا گوشت مردانہ قوت بڑھانے کے لیے مفید ہے اور روائیتی چینی ادویات کے لیے اس کی بہت مانگ ہے، اس کے جسم کو ڈھانپنے والے بڑے بڑے چھلکوں کا سفوف دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے فائدہ مند ہے اور بلٹ پروف جیکٹس میں بھی یہ چھلکے استعمال ہو سکتے ہیں تب سے بیچارے چیونٹی خور کی شامت آ گئی ہے۔
چین، لاؤس، ویتنام اور کمبوڈیا میں چیونٹی خور کا صفایا ہو چکا ہے۔ اپریل دو ہزار تیرہ میں فلپینز کے ساحل پر ایک جہاز چٹانوں سے ٹکرا گیا۔ اس میں افریقی چیونٹی خور (کیمرون، نائجیریا، گھانا) کا بارہ ہزار کلو گرام گوشت لدا ہوا تھا۔ جہاز کے عملے کے بارہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ انھیں بارہ برس کی قید اور تین لاکھ ڈالر فی کس کی سزا مل سکتی ہے کیونکہ چیونٹی خور کو بقائی خطرے سے دوچار جانوروں کی سرخ عالمی فہرست میں داخل کر دیا گیا ہے۔
اس سال کے نو ماہ کے دوران اٹھارہ ممالک میں چیونٹی خور کے اٹھارہ ہزار ٹن چھلکوں کی غیر قانونی کھیپ پکڑی گئی ہے۔ ایک کلو گرام چھلکے حاصل کرنے کے لیے تین سے چار چیونٹی خور مارنے پڑتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں غیر قانونی جانوروں کا جتنا گوشت فروخت ہو رہا ہے ان میں سے بیس فیصد صرف چیونٹی خور کا ہے۔ پچھلے دس برس کے دوران دنیا بھر میں ایک ملین سے زائد چیونٹی خوروں کا شکار کیا گیا۔
پاکستان میں پانچ برس پہلے تک چیونٹی خور پوٹھوہار کے جنگلات میں وافر پایا جاتا تھا مگر اب چوراسی فیصد غائب ہو چکا ہے۔ اس کا گوشت اور چھلکے چین اسمگل کیے جاتے ہیں۔ شکاری کو ایک مردہ چیونٹی خور دس سے تیس ہزار روپے میں پڑتا ہے اور پھر اسمگلر اسے ڈالروں میں بیچتا ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت چیونٹی خور کے شکار پر دو سے پانچ برس قید اور دس ہزار روپے جرمانہ ہے۔ تاہم عملی صورتِ حال یہ ہے کہ جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کرہِ ارض کا ہر جانور، چرند پرند حیاتیاتی دائرے کی اہم کڑی ہے۔ ایک بھی کڑی ٹوٹ جائے تو نظام گڑ بڑا جاتا ہے۔ یہ جانور زمین صاف کرتے ہیں ، انسان کے لیے مضر حشرات الارض کو قابو میں رکھتے ہیں۔ زمین کی زرخیزی کا سبب بنتے ہیں اور دل بہلاتے ہیں۔ مگر انسان دوست جنگلی حیات کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر اور زولوجیکل سوسائٹی لندن کی تازہ لونگ پلانیٹ انڈیکس کے مطابق انیس سو ستر سے دو ہزار بارہ کے درمیان بیالیس برس کے عرصے میں اٹھاون فیصد جنگلی حیات غائب ہو چکی ہے اور اس شرح سے دو ہزار بیس تک سڑسٹھ فیصد جانور و پرند اس گولے سے ناپید ہو جائیں گے۔ تاریخ میں انسان کے ہاتھوں جنگلی حیات کی اتنی بڑی تباہی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے محض انیس فیصد جنگلی حیات کو خطرہ ہے۔ باقی خطرہ انسانی لالچ سے درپیش ہے۔
صرف پندرہ فیصد کرہِ ارض ایسا ہے جہاں جنگلی حیات نسبتاً محفوظ ہے۔ پچاسی فیصد کرہِ ارض کے جانوروں کو لذیز گوشت کے متلاشیوں، شکاریوں، کھال کو فیشن کی صنعت میں استعمال کرنے والوں اور غیر سائنسی دوا سازوں بالخصوص مردانہ قوت بڑھوانے کے دعویداروں سے خطرہ ہے۔ جنگلی حیات بے گھر ہو کے مر رہی ہے۔
پانچ ہزار چار سو سات نسلوں کو زرعی زمین کے پھیلاؤ اور چار ہزار انچاس نسلوں کو جنگلات کی اندھا دھند کٹائی اور اس کے نتیجے میں محفوظ کچھار اور گھونسلوں کی تلاش نے موت کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں پر سب سے زیادہ قیامت ٹوٹی ہے۔ مسلسل انسانی مداخلت، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی آلودگی کے سبب پچھلے بیالیس برس میں اکیاسی فیصد آبی مخلوق ختم ہو چکی ہے۔ اور اب سمندر خالی کیے جا رہے ہیں۔
آخری نتیجہ یہ نکلنے والا ہے کہ انسان ہر متحرک شے ہضم کرنے یا تباہ کرنے کے بعد تنہا کھڑا ہو گا اور کوئی بچانے والا نہ ہو گا۔ ویسے بھی قاتل کے ساتھ کون کھڑا رہ سکتا ہے اور وہ بھی خالی الذہن قاتل۔
چودھویں صدی میں یورپ کو طاعون نے آ لیا اور سات برس (تیرہ سو چھیالیس تا تریپن) میں اس کالی موت نے یورپ کی ایک تہائی آبادی صاف کر دی۔ اس دور کے طبیب یہ تو جانتے تھے کہ طاعون مکھیوں سے پھیلتا ہے لیکن مکھیاں طاعونی جراثیم کس جانور سے حاصل کرتی ہیں یہ نہیں معلوم تھا۔ چنانچہ جتنے کتے اور بلیاں باقی بچے تھے انھیں یہ سمجھ کے ہلاک کر دیا گیا کہ ہو نہ ہو ان پر بیٹھنے والی مکھیاں ہی طاعون پھیلا رہی ہیں۔ پھر کسی نے غور کیا کہ جن لوگوں نے دور دراز علاقوں میں چوری چھپے بلیاں پالی ہوئی ہیں ان میں سے بہت کم طاعون کی زد میں آئے۔
چنانچہ یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ طاعون کا سبب وسطی ایشیا سے براستہ شاہراہِ ریشم تجارتی مال کے ساتھ جہازوں پر چڑھ آنے والے سیاہ چوہے ہیں جو اپنے ساتھ طاعون لائے ہیں۔ جیسے جیسے یہ خبر عام ہونے لگی بلیوں کی قدر اور مانگ میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اگلی تین صدیوں میں یورپ میں تواتر کے ساتھ جگہ جگہ طاعون پھیلا مگر چودھویں صدی میں جیسا براعظم گیر طاعون پھر کبھی نہ لوٹا۔
گدھ کو بھلے آپ کتنا ہی بدنام کریں مگر یہ قدرت کے سینٹری ورکرز ہیں۔ یہ آبادیوں اور جنگلوں میں مرنے والے جانوروں کی صفائی پر مامور ہیں۔ اگر جانوروں کے ڈھانچے یونہی پڑے رہیں تو وہ انسانی صحت کے لیے قاتل ہیں۔ نوے کے عشرے میں افریقہ اور جنوبی ایشیا میں گدھ اچانک مرنے شروع ہو گئے۔ صرف دس برس میں افریقہ میں گدھ کی دس نسلوں میں سے چھ ناپیدگی کی کگار پر پہنچ گئیں جب کہ پاکستان، بھارت اور نیپال میں ننانوے فیصد گدھ آبادی غائب ہو گئی۔
دو ہزار تین میں پتہ یہ چلا کہ مویشیوں میں سوزش کی بیماری کے علاج کے لیے ڈائکلوفینک نامی جو دوا استعمال کی جاتی ہے وہ گدھ کی موت کا سبب ہے۔ کوئی مویشی جسے ڈائکلو فینک استعمال کروائی گئی ہو مر جائے تو گدھ اس کا گوشت کھا کر اپنے گردے فیل کر بیٹھتا ہے اور مر جاتا ہے۔ چنانچہ دو ہزار چھ میں بھارت، پاکستان اور نیپال نے اس دوا کی تیاری پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد گدھ مرنا تو کم ہو گئے مگر انھیں اپنی سابق تعداد پر پہنچنے کے لیے اب کئی عشرے درکار ہیں۔ تاہم ڈائکلوفینک افریقہ میں دستیاب ہے اور یورپی یونین کے پانچ ممالک میں بھی قانونی خامیوں کے سبب استعمال ہو رہی ہے۔ ان ممالک میں اٹلی اور اسپین بھی شامل ہیں جہاں یورپ کی نوے فیصد گدھ آبادی پائی جاتی ہے۔
جب سے جنوب مشرقی ایشیا میں یہ تاثر عام ہوا ہے کہ چیونٹی خور (پینگولین) کا گوشت مردانہ قوت بڑھانے کے لیے مفید ہے اور روائیتی چینی ادویات کے لیے اس کی بہت مانگ ہے، اس کے جسم کو ڈھانپنے والے بڑے بڑے چھلکوں کا سفوف دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے فائدہ مند ہے اور بلٹ پروف جیکٹس میں بھی یہ چھلکے استعمال ہو سکتے ہیں تب سے بیچارے چیونٹی خور کی شامت آ گئی ہے۔
چین، لاؤس، ویتنام اور کمبوڈیا میں چیونٹی خور کا صفایا ہو چکا ہے۔ اپریل دو ہزار تیرہ میں فلپینز کے ساحل پر ایک جہاز چٹانوں سے ٹکرا گیا۔ اس میں افریقی چیونٹی خور (کیمرون، نائجیریا، گھانا) کا بارہ ہزار کلو گرام گوشت لدا ہوا تھا۔ جہاز کے عملے کے بارہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ انھیں بارہ برس کی قید اور تین لاکھ ڈالر فی کس کی سزا مل سکتی ہے کیونکہ چیونٹی خور کو بقائی خطرے سے دوچار جانوروں کی سرخ عالمی فہرست میں داخل کر دیا گیا ہے۔
اس سال کے نو ماہ کے دوران اٹھارہ ممالک میں چیونٹی خور کے اٹھارہ ہزار ٹن چھلکوں کی غیر قانونی کھیپ پکڑی گئی ہے۔ ایک کلو گرام چھلکے حاصل کرنے کے لیے تین سے چار چیونٹی خور مارنے پڑتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں غیر قانونی جانوروں کا جتنا گوشت فروخت ہو رہا ہے ان میں سے بیس فیصد صرف چیونٹی خور کا ہے۔ پچھلے دس برس کے دوران دنیا بھر میں ایک ملین سے زائد چیونٹی خوروں کا شکار کیا گیا۔
پاکستان میں پانچ برس پہلے تک چیونٹی خور پوٹھوہار کے جنگلات میں وافر پایا جاتا تھا مگر اب چوراسی فیصد غائب ہو چکا ہے۔ اس کا گوشت اور چھلکے چین اسمگل کیے جاتے ہیں۔ شکاری کو ایک مردہ چیونٹی خور دس سے تیس ہزار روپے میں پڑتا ہے اور پھر اسمگلر اسے ڈالروں میں بیچتا ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت چیونٹی خور کے شکار پر دو سے پانچ برس قید اور دس ہزار روپے جرمانہ ہے۔ تاہم عملی صورتِ حال یہ ہے کہ جرمانہ لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کرہِ ارض کا ہر جانور، چرند پرند حیاتیاتی دائرے کی اہم کڑی ہے۔ ایک بھی کڑی ٹوٹ جائے تو نظام گڑ بڑا جاتا ہے۔ یہ جانور زمین صاف کرتے ہیں ، انسان کے لیے مضر حشرات الارض کو قابو میں رکھتے ہیں۔ زمین کی زرخیزی کا سبب بنتے ہیں اور دل بہلاتے ہیں۔ مگر انسان دوست جنگلی حیات کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر اور زولوجیکل سوسائٹی لندن کی تازہ لونگ پلانیٹ انڈیکس کے مطابق انیس سو ستر سے دو ہزار بارہ کے درمیان بیالیس برس کے عرصے میں اٹھاون فیصد جنگلی حیات غائب ہو چکی ہے اور اس شرح سے دو ہزار بیس تک سڑسٹھ فیصد جانور و پرند اس گولے سے ناپید ہو جائیں گے۔ تاریخ میں انسان کے ہاتھوں جنگلی حیات کی اتنی بڑی تباہی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے محض انیس فیصد جنگلی حیات کو خطرہ ہے۔ باقی خطرہ انسانی لالچ سے درپیش ہے۔
صرف پندرہ فیصد کرہِ ارض ایسا ہے جہاں جنگلی حیات نسبتاً محفوظ ہے۔ پچاسی فیصد کرہِ ارض کے جانوروں کو لذیز گوشت کے متلاشیوں، شکاریوں، کھال کو فیشن کی صنعت میں استعمال کرنے والوں اور غیر سائنسی دوا سازوں بالخصوص مردانہ قوت بڑھوانے کے دعویداروں سے خطرہ ہے۔ جنگلی حیات بے گھر ہو کے مر رہی ہے۔
پانچ ہزار چار سو سات نسلوں کو زرعی زمین کے پھیلاؤ اور چار ہزار انچاس نسلوں کو جنگلات کی اندھا دھند کٹائی اور اس کے نتیجے میں محفوظ کچھار اور گھونسلوں کی تلاش نے موت کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں پر سب سے زیادہ قیامت ٹوٹی ہے۔ مسلسل انسانی مداخلت، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی آلودگی کے سبب پچھلے بیالیس برس میں اکیاسی فیصد آبی مخلوق ختم ہو چکی ہے۔ اور اب سمندر خالی کیے جا رہے ہیں۔
آخری نتیجہ یہ نکلنے والا ہے کہ انسان ہر متحرک شے ہضم کرنے یا تباہ کرنے کے بعد تنہا کھڑا ہو گا اور کوئی بچانے والا نہ ہو گا۔ ویسے بھی قاتل کے ساتھ کون کھڑا رہ سکتا ہے اور وہ بھی خالی الذہن قاتل۔