گمراہی اور بدنصیبی
گمراہی ایک ایسی بد نصیبی ہے جو جہنم کی آگ تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے
گمراہی ایک ایسی بد نصیبی ہے جو جہنم کی آگ تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے، اللہ پاک فرماتا ہے کہ مجھ سے ہدایت مانگو صرف میں ہی ہوں جو تمہیں ہدایت کے راستے پر چلا سکتا ہوں۔ مگر کیا کیجیے کہ ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جو حرم شریف میں کچھ ہوجاتے ہیں اور باقی جگہ کچھ اور، سجدوں میں کچھ اور ہوتے ہیں اور مخلوق کے ساتھ کچھ اور، اکڑ، پھنے خانی ہی کو ہم اپنا مزاج بنانے لگے ہیں۔
شاید اس لیے بھی کہ جو لوگ اصول کی بات کرتے ہیں، نظریے کی بات کرتے ہیں وہ لوگ ہم کو بے وقوف لگتے ہیں اور جو لوگ لوٹ مارکی بات کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کی بات کرتے ہیں وہ ہمیں ''اسمارٹ'' لگتے ہیں۔ اسمارٹ فون کی طرح، کئی آپشن ان میں بھی موجود ہوتے ہیں، بہرحال گمراہی اور بدنصیبی سے چھٹکارا ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟
ظاہر ہے کہ اللہ کی مدد کے سوا توکچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ بحیثیت مسلمان جن باتوں پر ہمارا یقین ہونا چاہیے جو اصول ہمیں اپنانے چاہئیں ان سب کو تو ہم نے اپنے آپ سے دور کردیا ہے، ایک بہترین رہنمائی کی کتاب قرآن پاک ہمارے پاس ہے، بجائے اس کتاب پاک سے ہم رہنمائی حاصل کرتے ہم نے اس کو اچھا سا کور چڑھا کر اپنے گھرکی اونچی جگہ پر رکھ دیا ہے تاکہ بے ادبی نہ ہو اور ہم اپنے آپ کو بہت زیادہ اسمارٹ بنانے اور دکھانے کے چکروں میں لگ گئے ہیں، یہی ہماری گمراہی اور بدنصیبی ہے۔
جس کو ہمیں اپنے آپ سے دورکرنا ہوگا، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ٹخنوں سے نیچے لباس کو رکھیں گے تو تب ہی مسلمان مرد کہلائیں گے یا عورتیں سر سے پیر تک کالے برقعوں میں ملبوس ہوں گی تو ہی مسلمان ہوں گی۔ بالکل اسی طرح جیسے آج کل ہمارے معاشرے میں جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس خاتون مغربی کہلانے لگتی ہے۔ ہماری خواتین اور بچیاں جب فیشن ایبل ہونے لگتی ہیں تو جینز اور ٹی شرٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرتی ہیں۔ چست جینز اور Fitted ٹی شرٹ میں ملبوس بچیاں والدین کو زیادہ اسمارٹ لگتی ہیں، والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ آج کل تو بس بچے یہی پہنتے ہیں۔
سگریٹ کی لت میں مبتلا خواتین جب اپنے جوان بچوں کے سامنے سگریٹ کا استعمال کریں گی تو وہ کس منہ سے اپنی بیٹی کو اچھے طور طریقے سکھا پائیں گی؟ جب جوان بچوں کو گھر پر تنہا چھوڑکر دن خاتون خانہ گھر سے باہر گزاریں گی توکیسے توقع کریں کہ وہ اپنی اولاد کو بہتر بنانے کی تربیت کررہی ہیں۔ مدرسے تو خوامخوا ہی بدنام ہیں حالانکہ گمراہی اور بدنصیبی میں اس طرح کے والدین کا بھی بہت اہم رول ہوتا ہے۔
بچوں کی نامناسب تربیت نے بھی ہماری سوسائٹی میں ایک خلا پیدا کردیا ہے۔ مائیں بننے کے باوجود ماں کا کردار اب وہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب مائیں اپنی بیٹیوں کو بننے سنورنے کے زیادہ گن سکھاتی ہیں۔ لڑکے کہاں جاتے ہیں کس سے ملتے ہیں، کتنی دیر میں آتے ہیں سب کچھ اسمارٹنس کی نذر ہوگیا۔
گاڑیوں کی ریس میں بچے مر جاتے ہیں زیادہ نشہ کرنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑتے ہیں گولیاں چل جاتی ہیں بچے مر جاتے ہیں۔ یہ سب گمراہی اور بدنصیبی ہی تو ہے۔ ایسی کتنی ہی ماؤں کو میں جانتی ہوں جو خود اپنی نوجوان اولاد کو ایسے ایسے گن سکھا رہی ہوتی ہیں کہ خوف آتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا؟
والد بس اچھی کمائی کرتے ہیں گویا یہی ان کا فرض ہے۔ جو والدین کسی بھی نشے کی عادت میں مبتلا ہیں بھلا وہ کیسے اپنے بچوں کو ان سے دور رکھ سکیں گے، ملا اور مدرسوں کو ہم نے اتنا اچھالا کہ نوجوان نسل ان سے متنفر ہوگئی، اور ملاؤں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ والدین نے بچے مدرسوں کے حوالے کیے اور پھر پلٹ کر پوچھا تک نہیں، اربن ایریاز کے لیے تو ہم یہ بات ہضم کرسکتے ہیں مگر کیسے ہضم کریں کہ والدین اس پر بھی توجہ نہیں دیتے جو بچے اپنے گھروں میں ملاؤں سے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
انڈین چینلز، انڈین ڈرامے، فلمز، وہ کلچر جس کا ہم سے تعلق ہی کوئی نہ تھا وہ ہمارے سروں پر مسلط کردیا گیا ہے''فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی'' ایک ناقابل فہم جملہ جس کو ہرکوئی بولنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
سرحدیں، حد، بنیادیں یہی سب تو ہمارا مذہب ہمیں سب سے پہلے سمجھاتا ہے۔ رسول پاکؐ کی بے ادبی پر ہم مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں مگر ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں، فوراً ماڈرن اور لبرل ہونے کا لبادہ پہن لیتے ہیں، والدین خود اپنے بچوں کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں، بجائے بچوں کو برائی سے، بے حیائی سے روکا جائے ان کو اسمارٹ بننے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
رشتے داروں کو منہ توڑ جواب دینا سکھایا جاتا ہے، دادا، دادی سے کیسے باتیں چھپائی جائیں یہ باقاعدگی سے سمجھایا جاتا ہے۔ بھانجیاں، بھتیجیاں، خالاؤں اور پھوپھیوں سے مقابلے بازی کرتی نظر آتی ہیں اور 20 سال میں تمام کام سر انجام دے رہی ہوتی ہیں جو شاید خالاؤں اور پھوپھیوں نے 50 سال میں کبھی نہیں کیے ہوں گے، ماں کی شاباشی الگ ملتی ہے، یہ ہے گمراہی اور بدنصیبی۔
نوجوان لڑکے پڑھائی لکھائی کو چھوڑ کر شدید ترین بے راہ روی کا شکار ہیں، مختلف نشے کے عادی ہیں، پھرکسی نہ کسی برے ہاتھ کی نذر ہوجاتے ہیں، باپ پیسے کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں اور مائیں اپنے دل کے ارمان پورا کرنا چاہتی ہیں، پھر ان کی تعلیم و تربیت کون کرے، نانا نانی، دادا دادی اور رشتے دار سب کے سب حسد کرنے والے، جلنے والے بن گئے ہیں، صبح سے لے کر رات گئے تک یہ بچے ادھر ادھر، دوستوں کے نام پر بھٹکتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی حادثے کا شکار بھی ہوجاتے ہیں کسی غلط رویوں کا شکار ہوجاتے ہیں، مگر شاباش ہے ان والدین پر جوکہ اب سبق حاصل نہ کریں۔ جو کھلا چھوڑدیں، زمانے کے رحم وکرم پر ڈال دیں یا انھیں اسمارٹ کی شکل بنادیں۔
نہ تیتر نہ بٹیر، جو بچے اپنے گھروں میں اس طرح کی زندگیاں گزارتے ہیں اپنے رول ماڈلز کو بدحال دیکھتے، کتنی شدید محنت کی ضرورت ہے ان کو اپنے آپ کو بنانے کے لیے، ایک بہتر انسان، ایک بہتر مسلمان بنانے کے لیے۔گمراہی اور بدنصیبی سے بچنے کے لیے کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
شاید اس لیے بھی کہ جو لوگ اصول کی بات کرتے ہیں، نظریے کی بات کرتے ہیں وہ لوگ ہم کو بے وقوف لگتے ہیں اور جو لوگ لوٹ مارکی بات کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کی بات کرتے ہیں وہ ہمیں ''اسمارٹ'' لگتے ہیں۔ اسمارٹ فون کی طرح، کئی آپشن ان میں بھی موجود ہوتے ہیں، بہرحال گمراہی اور بدنصیبی سے چھٹکارا ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟
ظاہر ہے کہ اللہ کی مدد کے سوا توکچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ بحیثیت مسلمان جن باتوں پر ہمارا یقین ہونا چاہیے جو اصول ہمیں اپنانے چاہئیں ان سب کو تو ہم نے اپنے آپ سے دور کردیا ہے، ایک بہترین رہنمائی کی کتاب قرآن پاک ہمارے پاس ہے، بجائے اس کتاب پاک سے ہم رہنمائی حاصل کرتے ہم نے اس کو اچھا سا کور چڑھا کر اپنے گھرکی اونچی جگہ پر رکھ دیا ہے تاکہ بے ادبی نہ ہو اور ہم اپنے آپ کو بہت زیادہ اسمارٹ بنانے اور دکھانے کے چکروں میں لگ گئے ہیں، یہی ہماری گمراہی اور بدنصیبی ہے۔
جس کو ہمیں اپنے آپ سے دورکرنا ہوگا، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ٹخنوں سے نیچے لباس کو رکھیں گے تو تب ہی مسلمان مرد کہلائیں گے یا عورتیں سر سے پیر تک کالے برقعوں میں ملبوس ہوں گی تو ہی مسلمان ہوں گی۔ بالکل اسی طرح جیسے آج کل ہمارے معاشرے میں جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس خاتون مغربی کہلانے لگتی ہے۔ ہماری خواتین اور بچیاں جب فیشن ایبل ہونے لگتی ہیں تو جینز اور ٹی شرٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرتی ہیں۔ چست جینز اور Fitted ٹی شرٹ میں ملبوس بچیاں والدین کو زیادہ اسمارٹ لگتی ہیں، والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ آج کل تو بس بچے یہی پہنتے ہیں۔
سگریٹ کی لت میں مبتلا خواتین جب اپنے جوان بچوں کے سامنے سگریٹ کا استعمال کریں گی تو وہ کس منہ سے اپنی بیٹی کو اچھے طور طریقے سکھا پائیں گی؟ جب جوان بچوں کو گھر پر تنہا چھوڑکر دن خاتون خانہ گھر سے باہر گزاریں گی توکیسے توقع کریں کہ وہ اپنی اولاد کو بہتر بنانے کی تربیت کررہی ہیں۔ مدرسے تو خوامخوا ہی بدنام ہیں حالانکہ گمراہی اور بدنصیبی میں اس طرح کے والدین کا بھی بہت اہم رول ہوتا ہے۔
بچوں کی نامناسب تربیت نے بھی ہماری سوسائٹی میں ایک خلا پیدا کردیا ہے۔ مائیں بننے کے باوجود ماں کا کردار اب وہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب مائیں اپنی بیٹیوں کو بننے سنورنے کے زیادہ گن سکھاتی ہیں۔ لڑکے کہاں جاتے ہیں کس سے ملتے ہیں، کتنی دیر میں آتے ہیں سب کچھ اسمارٹنس کی نذر ہوگیا۔
گاڑیوں کی ریس میں بچے مر جاتے ہیں زیادہ نشہ کرنے کی وجہ سے مرجاتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑتے ہیں گولیاں چل جاتی ہیں بچے مر جاتے ہیں۔ یہ سب گمراہی اور بدنصیبی ہی تو ہے۔ ایسی کتنی ہی ماؤں کو میں جانتی ہوں جو خود اپنی نوجوان اولاد کو ایسے ایسے گن سکھا رہی ہوتی ہیں کہ خوف آتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا؟
والد بس اچھی کمائی کرتے ہیں گویا یہی ان کا فرض ہے۔ جو والدین کسی بھی نشے کی عادت میں مبتلا ہیں بھلا وہ کیسے اپنے بچوں کو ان سے دور رکھ سکیں گے، ملا اور مدرسوں کو ہم نے اتنا اچھالا کہ نوجوان نسل ان سے متنفر ہوگئی، اور ملاؤں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ والدین نے بچے مدرسوں کے حوالے کیے اور پھر پلٹ کر پوچھا تک نہیں، اربن ایریاز کے لیے تو ہم یہ بات ہضم کرسکتے ہیں مگر کیسے ہضم کریں کہ والدین اس پر بھی توجہ نہیں دیتے جو بچے اپنے گھروں میں ملاؤں سے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
انڈین چینلز، انڈین ڈرامے، فلمز، وہ کلچر جس کا ہم سے تعلق ہی کوئی نہ تھا وہ ہمارے سروں پر مسلط کردیا گیا ہے''فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی'' ایک ناقابل فہم جملہ جس کو ہرکوئی بولنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
سرحدیں، حد، بنیادیں یہی سب تو ہمارا مذہب ہمیں سب سے پہلے سمجھاتا ہے۔ رسول پاکؐ کی بے ادبی پر ہم مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں مگر ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں، فوراً ماڈرن اور لبرل ہونے کا لبادہ پہن لیتے ہیں، والدین خود اپنے بچوں کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں، بجائے بچوں کو برائی سے، بے حیائی سے روکا جائے ان کو اسمارٹ بننے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔
رشتے داروں کو منہ توڑ جواب دینا سکھایا جاتا ہے، دادا، دادی سے کیسے باتیں چھپائی جائیں یہ باقاعدگی سے سمجھایا جاتا ہے۔ بھانجیاں، بھتیجیاں، خالاؤں اور پھوپھیوں سے مقابلے بازی کرتی نظر آتی ہیں اور 20 سال میں تمام کام سر انجام دے رہی ہوتی ہیں جو شاید خالاؤں اور پھوپھیوں نے 50 سال میں کبھی نہیں کیے ہوں گے، ماں کی شاباشی الگ ملتی ہے، یہ ہے گمراہی اور بدنصیبی۔
نوجوان لڑکے پڑھائی لکھائی کو چھوڑ کر شدید ترین بے راہ روی کا شکار ہیں، مختلف نشے کے عادی ہیں، پھرکسی نہ کسی برے ہاتھ کی نذر ہوجاتے ہیں، باپ پیسے کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں اور مائیں اپنے دل کے ارمان پورا کرنا چاہتی ہیں، پھر ان کی تعلیم و تربیت کون کرے، نانا نانی، دادا دادی اور رشتے دار سب کے سب حسد کرنے والے، جلنے والے بن گئے ہیں، صبح سے لے کر رات گئے تک یہ بچے ادھر ادھر، دوستوں کے نام پر بھٹکتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی حادثے کا شکار بھی ہوجاتے ہیں کسی غلط رویوں کا شکار ہوجاتے ہیں، مگر شاباش ہے ان والدین پر جوکہ اب سبق حاصل نہ کریں۔ جو کھلا چھوڑدیں، زمانے کے رحم وکرم پر ڈال دیں یا انھیں اسمارٹ کی شکل بنادیں۔
نہ تیتر نہ بٹیر، جو بچے اپنے گھروں میں اس طرح کی زندگیاں گزارتے ہیں اپنے رول ماڈلز کو بدحال دیکھتے، کتنی شدید محنت کی ضرورت ہے ان کو اپنے آپ کو بنانے کے لیے، ایک بہتر انسان، ایک بہتر مسلمان بنانے کے لیے۔گمراہی اور بدنصیبی سے بچنے کے لیے کہ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔