شعبہ صحت کی مایوس کن کارکردگی31 پولیو کیسز سامنے آگئے

2012 میں ڈنگی سے پنجاب میں درجنوں اموات، ادویات کی قیمتیں غریب کی پہنچ سے دور.

کوئی بڑا منصوبہ شروع نہ ہوا، ینگ ڈاکٹرز اور لیڈی ہیلتھ ورکرزکی ہڑتال سے مریض خوار. فوٹو : ایکسپریس

سال 2012 کے دوران شعبہ صحت کی کارکردگی مایوس کن رہی۔

18ویں ترمیم کے تحت وفاق کی سطح پر وزارت صحت کا خاتمہ کر دیا گیا تاہم عوام کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہ کیاجاسکا ، پاکستان کوپولیو فری ملک بنانے کاخواب بھی پورا نہ ہو سکا، رواںسال پولیو کے31 کیس رپورٹ ہوئے، ڈینگی وائرس سے صرف پنجاب میںدرجنوں اموات ہوئیں، ہیپاٹائٹس کی ویکسین سرکاری اسپتالوں میں فراہم کرنے کا وعدہ بھی محض ایک سیاسی نعرہ ثابت ہوا۔


ویکسین کی عدم فراہمی کے باعث ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد1کروڑ سے تجاوز کر گئی،ینگ ڈاکٹروںکے لیے نئے سروس رولز نہ بننے کی وجہ سے سرکاری اسپتالوںکی ایمرجنسی سمیت دیگرشعبوںمیںڈاکٹروں کی ہڑتال بھی مریضوں کے لیے شدید پریشانی کاباعث رہی، ملک میں ایفی ڈرین پر پابندی کیوجہ سے کھانسی کے سیرپ نہ بن سکے جس کی وجہ سے سیرپ کی قیمتیں دگنی ہوگئیں،ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے باوجودادویات کی قیمتوں میں کمی واقع نہ ہوئی۔



بیرونی امداد سے چلنے والے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی، وفاق سمیت ملک بھر میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد1لاکھ سے تجاوز کر گئی،نیوٹریشن پروگرام کے باوجود ملک میں حاملہ خواتین کی بڑی تعداد خون کی کمی کا شکار رہی، بینادی مراکز صحت کو اپ گریڈ نہ کیاجاسکا، لیڈی ہیلتھ ورکرز بھی ساراسال تنخو اہوںمیںکمی کے باعث سڑکوںپراحتجاج کرتی رہیں،قومی ادارہ صحت(این آئی ایچ)میںویکسین کی پیداوارمیںاضافہ ہوسکانہ ہی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری اورادویات کامعیارچیک کرنیوالے ڈرگ انسپکٹروںکی تعداد پوری کی گئی ، ناقص اور زائدالمیعاد ادویات کے استعمال سے300 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔
Load Next Story